ارون جادھو جس باڑے میں اپنے مویشیوں کو باندھتے ہیں، وہ صرف ایک گائے اور ایک بھینس کے لیے ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس سے کہیں زیادہ بڑی جگہ ہے۔ ارون کہتے ہیں، ’’اس کے پیچھے ایک اور باڑا ہے۔ میرے پاس جتنے مویشی ہیں، اتنے ہی باڑے بھی ہیں۔ جلد ہی میرے پاس مویشیوں سے کہیں زیادہ ان کے باڑے ہوں گے۔‘‘

مہاراشٹر کے سانگلی ضلع میں گنّا کی کھیتی کرنے والے ۳۹ سالہ کسان، ارون کسی زمانے میں اپنے گاؤں السُند میں سات گائیں اور چار بھینسیں پالا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے انہیں گزشتہ ۱۵ سالوں میں ایک ایک کرکے بیچ دیا۔ میرے پاس گنّے کے ۱۰ ایکڑ کھیت ہیں۔ دودھ کی پیداوار ایک آرامدہ سائڈ بزنس ہوا کرتا تھا، لیکن اب یہ میرے گلے کا پھندا بن چکا ہے۔‘‘

مغربی مہاراشٹر کا سانگلی، ڈیئری (دودھ کے کاروبار سے متعلق) صنعت کا مرکز ہے۔ پوری ریاست میں دودھ کی پیداوارکا ۴۲ فیصد سے زیادہ حصہ اسی ضلع سے آتا ہے۔ یہاں کا تقریباً ہر کسان گائے اور بھینس پالتا ہے۔ ارون جیسے کسانوں کے لیے دودھ آمدنی کا ایک اضافی ذریعہ ہے۔ بقیہ لوگوں کے لیے یہ ان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ لیکن دودھ کا کاروبار کرنے والے کسانوں کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے – کیوںکہ ان کے مطابق یہ کاروبار ان کے لیے خسارے کا سودا بن گیا ہے۔

گزشتہ تقریباً ایک دہائی سے، دودھ کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے خلاف مہاراشٹر میں دودھ کا کاروبار کرنے والے کسانوں کی طرف سے بار بار مظاہرے دیکھنے کو ملے ہیں۔ اپنا احتجاج درج کرانے کے لیے یہ کسان کبھی اپنا دودھ سڑکوں پر بہا دیتے ہیں، کبھی ضائع کر دیتے ہیں تو کبھی اسے پھینک دیتے ہیں۔ ان میں سے کئی احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرنے والے، اکھل بھارتیہ کسان سبھا کے جنرل سکریٹری، اجیت نولے کہتے ہیں کہ جن دنوں کوآپریٹوز اور ریاست کی طرف سے بڑی تعداد میں دودھ کی خریداری کی جاتی تھی، اُس وقت اس کی قیمت نسبتاً مستحکم ہوا کرتی تھی۔ وہ کہتے ہیں: ’’جب سے بازار میں پرائیویٹ کاروباری داخل ہوئے ہیں، تبھی سے حکومت کا رول کافی محدود ہو گیا ہے۔ وہ جب چاہتے ہیں قیمتیں بڑھا دیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اسے گھٹا دیتے ہیں۔‘‘

نولے مزید کہتے ہیں، ’’پرائیویٹ تاجروں نے قیمتوں پر کنٹرول کے ذریعے کافی منافع کمایا ہے۔ یہی ہم زرعی قوانین کے بارے میں بھی کہتے رہے ہیں۔‘‘ ان کا اشارہ اُن تین زرعی قوانین کی طرف تھا جسے ستمبر ۲۰۲۰ میں مرکزی حکومت نے پاس کیا تھا۔ پچھلے ایک سال میں کسانوں کے احتجاج (اس سلسلے میں پاری کی تمام رپورٹس یہاں پڑھیں ) کے سبب ۲۹ نومبر، ۲۰۲۱ کو پارلیمنٹ نے ان قوانین کو ردّ کر دیا۔

Arun Jadhav outside his cowshed in Alsund
PHOTO • Parth M.N.
Buffaloes in a shed in the village. Farmers say they are riskier to rear
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: ارون جادھو، السُند میں اپنے باڑے کے باہر کھڑے ہیں۔ دائیں: گاؤں میں ایک باڑے میں بندھی بھینسیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ انہیں پالنا اب خسارے کا سودا بن گیا ہے

نولے، احمد نگر ضلع کے رہنے والے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ڈیئری صنعت کو نجی سرمایہ کاری کا فائدہ ملنا چاہیے تھا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’مہاراشٹر کی ڈیئری صنعت میں ۳۰۰ سے زیادہ برانڈ کام کر رہے ہیں۔ اس حساب سے دیکھیں تو اتنی سخت مقابلہ آرائی کے دوران کسانوں کو دودھ کی زیادہ قیمت ملنی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔‘‘ بلکہ، ڈیئری کسانوں کو دودھ کی قیمتوں میں بھاری اتار چڑھاؤ سے گزرنا پڑا، جہاں انہیں فی لیٹر دودھ کے ۱۷ سے ۳۲ روپے ملے۔

مارکیٹ ریسرچ ایجنسی ’کریسل‘ کے ستمبر ۲۰۲۱ میں کیے گئے ایک مطالعہ کے مطابق، مہاراشٹر میں نجی ڈیئریاں روزانہ ۱۲۳-۱۲۷ لاکھ لیٹر دودھ خریدتی ہیں، جب کہ کوآپریٹو ڈیئریوں کے لیے یہ اعداد و شمار صرف ۳۶-۳۸ لاکھ لیٹر ہی ہے۔ سال ۱۹۹۱ میں لبرلائزیشن کی شروعات کے بعد سے ڈیئری صنعت کو لائسنس سے آزاد کر دیا گیا تھا۔ دودھ اور دودھ کی پیداوار کا آرڈر (ایم ایم پی او) ۱۹۹۲، دودھ اور دودھ کی پیداوار، ڈبہ بندی، اور تقسیم کو باضابطہ کرنے کے لیے پاس کیا گیا تھا۔ لیکن ۲۰۰۲ میں دودھ کی ڈبہ بندی کی صلاحیت پر پابندی ہٹانے کے لیے اس میں ترمیم کی گئی، جس سے قیمتیں غیر مستحکم ہو گئیں۔

پونہ ضلع کے شِرور میں واقع ایک نجی ڈیئری پیداوار کمپنی، اورجا مِلک، کے جنرل مینیجر پرکاش کُٹوال اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ آخر مہاراشٹر کے ڈیئری کسانوں کو نجی سرمایہ کاری کا کوئی فائدہ کیوں نہیں ہوا۔ ’’پہلے ڈیئری کاروبار سے وابستہ لوگوں کی توجہ پیکیجنگ پر تھی۔ دودھ کی قیمتیں کم از کم چھ مہینے تک مستحکم رہیں، جس سے کسانوں اور صارفین دونوں کو فائدہ ہوا۔‘‘ پابندیوں کو ہٹائے جانے کے بعد، عالمی بازار میں اسکِمڈ ملک (دودھ) پاؤڈر کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے سبب یہاں کے بازاروں پر اثر پڑا۔

اقتصادی لبرلائزیشن کے تحت ڈیئری صنعت کو آزاد کیے جانے کے بعد سے ہندوستانی بازار میں دودھ کے پاؤڈر کی صنعتوں کا تیزی سے فروغ ہوا ہے، جو دودھ کی پیداوار کی سپلائی کرتے ہیں۔ کُٹوال کہتے ہیں، ’’ملک پاؤڈر اور مکھن کے کاروبار سے جڑی کمپنیوں کے ریٹ میں ہر ہفتے اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے دودھ کی قیمتیں بھی ہر دس دن میں بدل جاتی ہیں، جس نے اسے جوئے کے کھیل میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ بڑی کمپنیاں دودھ کی قیمتوں کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ان کے پاس سیاسی طاقت بھی ہے۔ لیکن کسی کو اس سے مطلب نہیں ہے کہ کسانو کو ان کی لاگت کے پیسے مل رہے ہیں یا نہیں۔‘‘

Milk production used to be a convenient side business for sugarcane farmers like Arun Jadhav.
PHOTO • Parth M.N.
Arun's mother, Mangal , outside their hut
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: ارون جادھو جیسے گنّا کے کسانوں کے لیے دودھ کا کاروبار اضافی آمدنی کا ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ دائیں: اپنی جھونپڑی کے باہر کھڑی ارون کی ماں، منگل

ارون کی ۶۵ سالہ ماں، منگلا کہتی ہیں، ’’دودھ دینے والی گائے تقریباً ہر روز ۱۱ سے ۱۲ لیٹر دودھ دیتی ہے۔ کچھ وقت کے بعد، یہ گھٹ کر ۸ لیٹر رہ جاتا ہے۔ دودھ ۲۴ سے ۲۵ روپے فی لیٹر کے حساب سے فروخت ہوتا ہے۔ ہمیں گائے کے لیے روزانہ چار کلو چارہ خریدنا پڑتا ہے، جس کا خرچ ۲۲ سے ۲۸ روپے فی کلو ہے۔‘‘

دن بھر میں اوسطاً دس لیٹر دودھ فروخت کرنے پر ارون ۲۵۰ روپے تک کما لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر میں سب سے سستا چارہ بھی خریدوں، تو بھی روزانہ ۸۸ روپے کا خرچ ہے، جس کی وجہ سے منافع گھٹ کر صرف ۱۶۰ روپے رہ جاتا ہے۔ اور میں تو ابھی گائے کی دیکھ بھال میں ان کی دواؤں کے خرچ کو نہیں جوڑ رہا۔ اگر میں کسی اور کے کھیت میں دہاڑی مزدوری کرتا، تو مجھے ایک دن میں ۳۰۰ روپے ملتے۔‘‘

السُند کے رہنے والے ۲۸ سالہ گنّا کسان بھرت جادھو کہتے ہیں، ’’بھینسوں کو پالنا اور بھی زیادہ جوکھم بھرا ہے۔‘‘ یہ جانور تقریباً ۴-۵ مہینے تک کوئی دودھ نہیں دیتے۔‘‘ وہ آگے کہتے ہیں، ’’ہمیں پھر بھی ان کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے۔ بھینس کا دودھ ۳۵ روپے فی لیٹر کے حساب سے فروخت ہوتا ہے۔ لیکن بھینسیں ایک دن میں ۶ لیٹر سے زیادہ دودھ نہیں دیتیں۔‘‘ دودھ کی غیر مستحکم قیمتوں کے سبب بھرت کافی پریشان رہنے لگے تھے، اس لیے اب انہوں نے دودھ فروخت کرنا بند کر دیا ہے۔ ’’میرے پاس چار بھینسیں تھیں۔ میں نے دو سال پہلے انہیں بہت ہی کم قیمتوں پر بیچ دیا۔‘‘

سال ۲۰۰۱-۰۲ سے لے کر ۲۰۱۸-۱۹ تک مہاراشٹر میں دودھ کی پیداوار میں ۹۱ فیصد کا اضافہ ہوا۔ سال ۲۰۰۱-۰۲ میں ۶۰۹۴۰۰۰ ٹن دودھ کی پیداوار ہوئی، تو وہیں ۲۰۱۸-۱۹ میں یہ بڑھ کر ۱۱۶۵۵۰۰۰ ٹن ہو گئی۔  تقابلی طور پر، گجرات میں، جہاں دودھ کا کاروبار کرنے والے کسانوں کی حالت قدرے بہتر ہے، ۲۰۰۱-۰۲ اور ۲۰۱۸-۱۹ کے درمیان دودھ کی پیداوار میں ۱۴۷ فیصد کا اضافہ ہوا۔ مہاراشٹر کے برعکس، جہاں ۳۰۰ سے زیادہ کمپنیاں دودھ کا کاروبار کر رہی ہیں، گجرات میں صرف ایک کمپنی، امول، زیادہ تر دودھ خریدتی ہے۔

ڈیئری صنعت کے مالک، مہاراشٹر میں اس شعبے کی بدنظمی کے لیے باہمی تال میل کی کمی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ایک بہتر نظام کے ان کے مطالبات کا جواب دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ اودھو ٹھاکرے نے فروری ۲۰۲۰ میں ایک صلاح کار پینل کی تشکیل کی، جس میں پرائیویٹ اور کوآپریٹو ڈیئریوں کے نمائندے بھی شامل ہیں، تاکہ یہ کمپٹی حکومت کو مشورے دے سکے۔

The empty shed at Bharat Jadhav's home.
PHOTO • Parth M.N.
Bharat sold all his buffaloes two years ago
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: بھرت جادھو کے گھر پر خالی پڑا باڑا۔ دائیں: بھرت، اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھے ہیں۔ دو سال پہلے انہوں نے اپنی ساری بھینسیں فروخت کر دی تیں

کُٹوال اس پینل کے ایک رکن ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’آج، دودھ کے کاروبار میں تین شعبے سرگرم ہیں: کوآپریٹو، ریاست اور پرائیویٹ۔ ستر (۷۰) فیصد سے زیادہ دودھ کی خرید پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ بقیہ کی خریداری کوآپریٹو کمیٹیوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ سرکار کی موجودگی صرف نام کے لیے ہے۔ جب بھی دودھ کی قیمت گر کر ۲۰ روپے سے کم ہو جاتی ہے، تب سرکار عارضی طور پر مداخلت کرتی ہے اور کسانوں کے لیے سبسڈی کا اعلان کرتی ہے، تاکہ وہ ان کے خلاف ووٹ نہ کریں۔‘‘ کُٹوال کا کہنا ہے کہ مِلک پاؤڈر بنانے والی پرائیویٹ کمپنیاں دودھ کی قیمتوں کو کنٹرول کرتی ہیں۔ کُٹوال ’ملک پروڈیوسرز اینڈ پراسیسرز ویلفیئر فیڈریشن‘ کے سکریٹری بھی ہیں، جس میں پرائیویٹ اور کوآپریٹو دودھ کاروباری شامل ہیں۔

پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ اپنے تجربات کے سبب مغربی مہاراشٹر کے ڈیئری کسانوں نے زرعی قوانین کے خلاف (نومبر ۲۰۲۰ سے شروع ہوئی) کسان تحریک کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ یہ قوانین زرعی شعبہ کے لبرلائزیشن کے لیے لائے گئے تھے۔

۲۹ سالہ راہل گلانڈے ایک ڈیئری کسان ہونے کے ساتھ ساتھ اسلُند سے ۱۵ کلومیٹر دور ویٹا (کھاناپور تحصیل) نام کے قصبہ میں ایک چھوٹے سے کیفے ’ٹک ٹاک‘ کے مالک ہیں؛ انہوں نے میرے ہاتھ میں ایک قلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا، ’’یہ آپ نے کتنے روپے میں خریدا؟‘‘

میں نے کہا، ’’۵۰۰ روپے میں۔‘‘

انہوں نے آگے پوچھا، ’’اس قلم کی قیمت کس نے طے کی؟‘‘

میں نے کہا، ’’اُس کمپنی نے جسے اسے بنایا۔‘‘

گلانڈے پوچھتے ہیں، ’’اگر ایک کمپنی یہ طے کر سکتی ہے کہ وہ اپنے ایک قلم کو کتنے روپے میں بیچے گی، تو ہم اپنے دودھ کی قیمت کیوں نہیں طے کر سکتے، جس کے لیے ہم اتنی سخت محنت کرتے ہیں؟ کیوں ایک پرائیویٹ کمپنی میری پیداوار کی قیمت طے کر رہی ہے؟ یہاں دودھ کی فروخت ۲۵ روپے میں ہو رہی ہے۔ کچھ وقت پہلے [۲۰۲۰ میں کورونا وبائی مرض کے سبب لگائے گئے لاک ڈاؤن کے وقت] یہ قیمت گر کر ۱۷ روپے ہو گئی تھی۔ ایک بوتل بند پانی بھی ۲۰ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ ہم کیسے گزارہ کریں گے؟‘‘

Rahul Galande says farmers should get to decide the prices of the milk they produce.
PHOTO • Parth M.N.
Cans of milk at Arun Jadhav's shop. More than 70 per cent of the milk produced in Sangli is procured by private companies
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: راہل گلانڈے کا کہنا ہے کہ دودھ کی قیمتیں طے کرنے کا اختیار کسانوں کے پاس ہونا چاہیے۔ دائیں: ارون جادھو کی دکان میں دودھ کے ڈبے۔ سانگلی میں پیدا ہونے والا ۷۰ فیصد سے زیادہ دودھ پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے خریدا جاتا ہے

ارون کہتے ہیں کہ جہاں ڈیئری کسان اپنا پیٹ بھرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہیں زرعی کاروبار پھل پھول رہا ہے۔ ’’مویشی کے چارے کی قیمت لگاتار بڑھتی جا رہی ہے۔ کھاد اور حشرہ کش بھی مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن وہی ضابطہ دودھ پر نافذ نہیں ہو رہا۔‘‘

گلانڈے کہتے ہیں، دودھ کی ایک مستحکم قیمت نہ ہونے کی وجہ سے ڈیئری کسان مصیبت کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں، ’’کسان گنّے کی کھیتی کیوں کرتے ہیں؟‘‘ اور اس کا جواب بھی وہ خود دیتے ہیں، ’’کیوں کہ اس کا ایک مستحکم بازار ہے اور اس کی ایک متعینہ قیمت ہے۔ ہمیں دودھ کے لیے بھی اسی طرح کا تحفظ چاہیے، جہاں سرکار ایک کم از کم قیمت طے کرے۔ دہلی میں کسان جدوجہد کر رہے ہیں، کیوںکہ زرعی قوانین اس تحفظ کو چھین لینا چاہتے تھے۔ ایک بار جب آپ پرائیویٹ کمپنیوں کو کھلی چھوٹ دے دیں گے، تو ملک بھر کے کسانوں کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جسے مہاراشٹر کے ڈیئری کسان جھیل رہے ہیں۔‘‘

نولے کہتے ہیں کہ سرکار چاہے تو مداخلت کرتے ہوئے کوآپریٹو شعبوں کے لیے دودھ کی قیمت مستحکم کر سکتی ہے۔ ’’لیکن پرائیویٹ شعبوں کے معاملے میں وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ چونکہ دودھ کی پیداوار کے زیادہ تر حصے کی خرید پرائیویٹ کمپنیوں کے ذریعے کی جاتی ہے، اس لیے سرکار کسانوں کی کچھ خاص مدد نہیں کر سکتی۔ کمپنیاں اپنی طاقت کا استعمال کرتی ہیں، تاکہ دودھ کی قیمت نہ بڑھے۔ وہ بازار کو اپنے قابو میں رکھتی ہیں اور بڑا منافع کماتی ہیں۔‘‘

نولے بتاتے ہیں کہ مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن سے ٹھیک پہلے، کسان گائے کا دودھ ۲۹ روپے فی لیٹر کے حساب سے فروخت کر رہے تھے۔ ’’آپ نے اسے ممبئی میں ۶۰ روپے میں خریدا۔ لاک ڈاؤن کے بعد قیمتیں گھٹ گئیں، جس کی وجہ سے کسانوں کو ۱۷ روپے فی لیٹر کے حساب سے دودھ بیچنا پڑا۔ لیکن آپ ممبئی میں اب بھی ۶۰ روپے میں دودھ خرید رہے تھے۔ اب بتائیے، اس نظام سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے؟ کسانوں کو تو بالکل نہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

Parth M.N. is a 2017 PARI Fellow and an independent journalist reporting for various news websites. He loves cricket and travelling.

Other stories by Parth M.N.
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique