ظلم و ستم، جنگ و جدال اور خون خرابے کے اِس دور میں، ہم اکثر عالمی امن کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ لیکن مقابلہ آرائی، لالچ، دشمنی، نفرت، اور تشدد کو اپنا شعار بنا چکی تہذیبوں کو یہ بات کیسے سمجھ میں آئے گی؟ میں جس جگہ سے تعلق رکھتا ہوں وہاں پر کم از کم ایسا کلچر کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ ہم آدیواسی بھی تہذیب کا مطلب سمجھتے ہیں، لیکن ہماری سمجھ دوسروں سے بالکل الگ ہے۔ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی پڑھا لکھا انسان رات میں خاموشی سے گندگی پھیلا دے اور اگلے دن صبح کو کوئی اَن پڑھ آدمی اس گندگی کو صاف کرے۔ ہم اسے کوئی شائستگی یا تہذیب نہیں کہتے اور ایسی تہذیب سے خود کو دور رکھتے ہیں۔ ہم ندیوں کے کنارے رفع حاجت نہیں کرتے۔ ہم درختوں سے کچے پھل نہیں توڑتے۔ ہولی کا تہوار جب قریب آتا ہے، تو ہم کھیتوں میں ہل چلانا بند کر دیتے ہیں۔ ہم اپنی زمین کا بیجا استعمال نہیں کرتے، اور نہ ہی سال بھر اس سے لگاتار اناج پیدا کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ ہم اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ زمین کو بھی سانس لینے کا کچھ وقت ملے، وہ بھی تازہ دم ہو سکے۔ ہم قدرت کی بھی اتنی ہی عزت کرتے ہیں جتنی انسانی زندگیوں کی۔

جتیندر وساوا کی آواز میں یہ نظم دیہولی بھیلی میں سنیں

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں یہ نظم انگریزی میں سنیں

اس لیے جنگل سے واپس نہیں آئے ہم

ہمارے اجداد کو تم نے

لاکشاگرہ میں جلا دیے

کتنوں کا انگوٹھا کاٹ لیا

کہیں تو بھائی بھائی کو لڑوایا مروایا

کہیں اپنے ہاتھوں اپنے گھر پھونکوائے

تمہاری خونی تہذیب کی خطرناک شکل

صاحب،

اس لیے جنگل سے واپس نہیں آئے ہم

درخت کا پکا ہوا پتہ، جس طرح آسانی سے گر جائے مٹی میں

یہی موت کا تصور ہے ہمارا

ہم دیوتاؤں کو آسمان میں نہیں دیکھتے

محسوس کرتے ہیں قدرت کے ہر رنگ میں

غیر جاندار کا تصور نہیں ہے ہماری زندگی میں

بلکہ قدرت ہی ہماری زندگی کی جنت ہے

قدرت کی خلاف ورزی زندگی کا جہنم ہے

آزادی ہماری زندگی کا مذہب ہے

تم نے غلامی کی جال کو مذہب کہہ دیا

تمہاری خونی تہذیب کی خطرناک شکل

صاحب،

اس لیے جنگل سے واپس نہیں آئے ہم

ہم زمینی فوج ہیں صاحب

اپنے وجود کے لیے

خود کو نہیں بچاتے ہم

پانی، جنگل، زمین، انسان، جانور

ہماری زندگی کی بنیاد ہیں یہ سارے

تم نے ہمارے اجداد کو

توپ کے منہ سے باندھ دیا

درختوں پر لٹکا کر نیچے آگ لگائی

پلٹن بنا کر ہماری ہمیں ہی مروایا

قدرتی طاقت کو ختم کرنے کے لیے

چور، لٹیرے، سور،  بنڈ خور

کیا کیا نہیں کہا ہم کو

کاغذ سے بھی تم ہم سب کو مار سکتے ہو

تمہاری خونی تہذیب کی خطرناک شکل

صاحب،

اس لیے جنگل سے واپس نہیں آئے ہم

تم نے اپنی زندگی کو بازار بنا دیا

پڑھے لکھوں کے پاس اپنی آنکھ نہیں رہی

صاحب تمہاری تعلیم

ہمارے وجود کو ہی بیچ دے گی

بازار میں کھڑا کرے گی ہم سب کو

ثقافتی تہذیب کے نام پر تم نے

ناشائستگی کے بڑے بڑے پہاڑ بنا لیے

ہم آدمی ایک دوسرے سے نفرت کریں

یہی تمہارے نئے دور کی تعمیر ہے؟

بندوق، بارود سے تم

عالمی امن قائم کرنا چاہتے ہو

تمہاری خونی تہذیب کی خطرناک شکل

صاحب،

اس لیے جنگل سے واپس نہیں آئے ہم

مترجم: محمد قمر تبریز

Poem and Text : Jitendra Vasava

Jitendra Vasava is a poet from Mahupada village in Narmada district of Gujarat, who writes in Dehwali Bhili language. He is the founder president of Adivasi Sahitya Academy (2014), and an editor of Lakhara, a poetry magazine dedicated to tribal voices. He has also published four books on Adivasi oral literature. His doctoral research focused on the cultural and mythological aspects of oral folk tales of the Bhils of Narmada district. The poems by him published on PARI are from his upcoming and first collection of poetry.

Other stories by Jitendra Vasava
Painting : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique