کوریلا وینکٹ چاری کے تین کمروں پر مشتمل مکان کا فرش کھلونوں سے بھرا پڑا ہے۔ رنگ کے ڈبے ایک کونے میں، اور غیر استعمال شدہ لکڑی کے ٹکڑے دوسرے کونے میں پڑے ہیں۔ وہ فخر سے کہتے ہیں، ’’میں گزشتہ ۲۸ سالوں سے کھلونے تراشنے کا کام کر رہا ہوں۔‘‘

وینکٹ چاری، آندھرا پردیش کے کرشنا ضلع میں واقع کونڈا پلّی (یعنی ’پہاڑیوں والا گاؤں‘) میں کھلونا بنانے والے ۲۲۹ کاریگروں میں سے ایک ہیں۔ اس گاؤں کے ایک طرف سرسبز مشرقی گھاٹ ہیں اور دوسری طرف نرلا ٹاٹا راؤ تھرمل پاور اسٹیشن۔

وہ اور یہاں کے دوسرے کاریگر کئی نسلوں سے کونڈا پلی کے مخصوص کھلونے تراشنے کا کام کرتے آئے ہیں۔ ان کے گھر کے تمام افراد یہی کام کرتے ہیں۔ وہ خود لکڑی تراشتے ہیں، ان کی اہلیہ جیوتی ان کھلونوں میں رنگ بھرنے کا کام کرتی ہیں۔ ان کی ۱۸ سالہ بیٹی مونیکا نے دسویں جماعت کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی اور اب کھلونے بنانے میں اپنے والدین کی مدد کرتی ہیں۔

PHOTO • Rahul Maganti

بائیں: کونڈا پلّی میں کھلونوں کی ایک دکان کے سامنے لکڑی کی بنی بیل گاڑی اور ہاتھی۔ دائیں: کاریگروں کے ذریعے استعمال کیا جانے والا کارخانہ

ریڈی بادشاہوں کے قلعہ کی طرف جانے والی گاؤں کی سڑک ان مکانوں اور دکانوں سے بھری ہوئی ہے، جہاں کھلونے بنانے اور بیچنے کا کام کیا جاتا ہے۔ زیادہ تر کاریگر اپنے گھروں میں ہی کھلونے بناتے ہیں اور ان کے  گھر کے  باقی افراد بھی کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ کونڈا پلّی کے کچھ بڑے کارخانوں میں کاریگروں کو یومیہ اجرت کی ملازمت پر بھی رکھا جاتا ہے، جہاں وہ ہاتھ سے کھلونے بنانے کے علاوہ انہیں تراشنے اور ان میں رنگ بھرنے کا کام کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کھلونوں کو حیدرآباد کے شلپا رمم جیسے ثقافتی پلیٹ فارموں سے ملنے والے آرڈر پر تھوک میں فروخت کیا جاتا ہے۔

وی وینکیّا (۸۰)، جو گزشتہ ۵۷ سالوں سے کھلونے بنانے كا کام کرتے آئے ہیں، کہتے ہیں، ’’ہم کاریگر فقط وہی چیزیں بناتے ہیں جو ہمیں دکھائی دے، جن سے ہماری روز مرہ کی زندگی کا تعلق ہو۔ ان کھلونوں میں سب سے نمایاں بیل گاڑی یا گائے، مور اور دوسرے جانور ہوتے ہیں۔ ہم افسانوی یا خیالی کرداروں پر مبنی کھلونے بھی بناتے ہیں۔ لیکن میں خود ان چیزوں کی عکاسی کو ترجیح دیتا ہوں جن سے میری روز مرہ کی زندگی کا تعلق ہو۔‘‘

PHOTO • Rahul Maganti

کھلونا بنانے کا کاروبار شروع کرنے سے پہلے ناگیشور راؤ ایک بڑھئی تھے

کونڈا پلی کے کھلونوں کی روایت چند سو سال پرانی ہے۔ کھلونا بنانے والے ۳۷ سالہ کاریگر ناگیشور راؤ بتاتے ہیں کہ ۱۶ویں صدی میں انویما ریڈی نے راجستھان سے ۱۲-۱۰ کنبوں کو اپنے دربار میں مدعو کیا تھا، جو لکڑی کی دستکاری میں ماہر تھے۔ ’’نکرشالو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے یہ تمام کنبے کونڈا پلّی آ گئے۔‘‘ ریڈی بادشاہوں نے ان کے ہنر سے متاثر ہو کر انہیں اپنی سرپرستی فراہم کی اور ان دستکاروں کو ہمیشہ کے لیے یہیں رہنے کو کہا۔ وہ مزید بتاتے ہیں، ’’انہیں کھلونے بنانے کے لیے خام مواد کے طور پر مشرقی گھاٹوں سے ملائم پونیکی لکڑی فراہم کی گئی۔ ہم آج بھی یہ لکڑیاں انہی گھاٹوں سے لاتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Rahul Maganti

کاریگروں کے ذریعے شروع کی گئی کوآپریٹو سوسائٹی کا دفتر اور (دائیں) گاؤں کے کھلونا بنانے والوں سے متعلق اعداد و شمار

کئی صدیوں بعد، اس فن کو نکرشالو  برادری سے باہر کے لوگوں نے بھی اپنانا شروع کر دیا اور اب یہ کسی مخصوص ذات کا پیشہ نہیں رہ گیا ہے۔ اب پدمشالی، کمسالی، وشو براہمن سمیت الگ الگ برادریوں اور ذات کے لوگ بھی کونڈا پلی کے کھلونوں کے کارخانوں  میں کام کرتے ہیں۔ کاریگروں کے ذریعے ۲۰۰۲ میں قائم کردہ باہمی تعاون یافتہ کوآپریٹو سوسائٹی (ایم اے سی ایس) کے ریکارڈز کے مطابق، فروری ۲۰۱۷ میں گاؤں کے کل ۲۲۹ کھلونا بنانے والوں میں سے ۱۰۷ مرد اور ۱۲۲ خواتیں ہیں۔ ان میں سے ۵۳ دلت، ۱۲۸ او بی سی (دیگر پسماندہ طبقات)، ۲۶ مسلمان اور ۲۲ دیگر ذات سے ہیں۔

کھلونوں میں گزشتہ ۱۸ سالوں سے رنگ بھرنے کا کام کرتی آ رہیں ۳۳ سالہ راجیہ لکشمی کہتی ہیں، ’’ذات نہیں بلکہ دلچسپی [یا حالات]، انہیں یہ ہنر سیکھنے پر آمادہ کرتی ہے۔ جب میں ۱۰ویں جماعت میں تھی تو میرے والدین [دونوں کھلونا کاریگر] کی کمائی سے گھر کے اخراجات بڑی مشکل سے پورے ہوتے تھے۔ مجھے گھر کی بڑی بیٹی ہونے کے ناطے اپنی پڑھائی چھوڑ کر یہ ہنر سیکھنا پڑا کیوں کہ کوئی اور روزگار کے مواقع موجود نہیں تھے۔ یہاں کا دستور یہی ہے کہ اگر بچے پڑھائی میں اچھا نہیں کر رہے ہیں، یا اگر گھر کی معاشی حالت ابتر ہے تو انہیں کھلونے کے کارخانوں میں ملازم رکھ لیا جاتا ہے۔ لڑکوں کو نقاشی کا کام  سکھایا جاتا ہے اور لڑکیوں کو رنگ بھرنے کا۔‘‘

PHOTO • Rahul Maganti

تیار شدہ کھلونوں کی فروخت اکثر شہر کی دکانوں میں ہوتی ہے۔ دائیں: راجیہ لکشمی لکڑی سے بنی گنیش کی مورتيوں میں رنگ بھر رہی ہیں

راجیہ لکشمی کی طرح  ہی بہت سے لوگوں نے پڑھائی چھوڑ کر کھلونے بنانا سیکھ لیا۔ پی ستیہ بھاما (۳۳) ساتویں کلاس تک پڑھائی مکمل کرنے کے بعد، ۱۳ سال کی عمر سے ہی کھلونوں میں رنگ بھرنے کا کام کر رہی ہیں۔ وہ ایم اے سی ایس کے سکریٹری، اُدے گیری شیش راؤ کے کارخانہ میں یومیہ اجرت پر کام کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’بیس سال پہلے جب میں یہ کام سیکھ رہی تھی، تو مجھے روزانہ ۵ روپے مزدوری ملتی تھی۔ اب میں صبح ۱۰ بجے سے شام کے ۶ بجے تک رنگ بھرنے کا کام کرکے ایک دن میں ۱۰۰ روپے کما لیتی ہوں۔ یہاں سے جا کر گھر پہ ایک یا دو جیکٹ کی سلائی کرتی ہوں، جس سے تقریباً ۵۰ روپے آ جاتے ہیں، لڑکیوں اور اپنے شوہر کی دیکھ بھال کرتی ہوں، کھانا پکاتی ہوں اور گھر کے باقی کام کرتی ہوں۔ آدھی رات کو جا کر مجھے سونے کا موقع ملتا ہے۔ پھر اگلے دن کی شروعات کرنے کے لیے صبح ساڑھے پانچ بجے ہی اٹھنا پڑتا ہے۔‘‘

ستیہ بھاما کے ساتھ کام کرنے والی وی دُرگا کہتی ہیں، ’’ہمیں سال کے ۳۶۵ دن کام کرنا پڑتا ہے کیوں کہ کام نہیں کرنے کا مطلب ہے اس دن کھانا نہ ملنا۔ صرف کسی ایمرجنسی یا بیمار پڑنے کی صورت میں ہی ہم چھٹی لیتے ہیں۔‘‘

PHOTO • Rahul Maganti

وشنو کے ۱۰ اوتاروں کی عکاسی کرتے لکڑی کے بت۔ وی وینکّیا کہتے ہیں، ’ہم افسانوی یا خیالی کرداروں پر مبنی کھلونے بھی بناتے ہیں۔ لیکن میں ان چیزوں کی عکاسی کو ترجیح دیتا ہوں جن سے میری روز مرہ کی زندگی کا تعلق ہو‘

یہ المیہ صرف دُرگا کا ہی نہیں، بلکہ ہندوستان بھر کے لاکھوں  کاریگروں اور ہنر مند دستکاروں کا ہے۔ ان کی دنیا میں کسی قسم کا استحکام نہیں ہے۔ آتی جاتی حکومتوں نے اس قسم کے مخصوص ہنر کو زندہ رکھنے میں کوئی سنجیدہ دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ اب تو مشین اور الگ الگ خودکار تکنیکوں کی بدولت بازار میں پلاسٹک کے کھلونوں کی بھرمار ہے۔ بازاروں اور آمدنی پر اس کا تباہ کن اثر پڑا ہے۔ اور اب تو وہ زمانہ بھی نہیں رہا، جب انہیں مقامی حکمرانوں کی مکمل حمایت و سرپرستی حاصل ہوا کرتی تھی۔ قرض میں دبے ہونے کی وجہ سے ان کے لیے اپنے چھوٹے کاروبار میں مزید پیسہ لگانا ممکن نہیں ہے، نتیجتاً انہیں اپنے کھلونے کمیشن ایجنٹوں یا چھوٹی ’کھلونا فیکٹریوں‘ کو فروخت کرنے پڑتے ہیں، جو بازار میں اسے اپنا پروڈکٹ بتا کر بیچتے ہیں۔

اور اس طرح کونڈا پلّی میں کھلونا بنانے کی یہ روایت دھیرے دھیرے اپنا دم توڑ رہی ہے۔ ایم اے سی ایس کے یو شیش راؤ کہتے ہیں، ’’ریاستی حکومت نے ہماری کبھی مدد نہیں کی۔ یہ عمارت بھی لینکو [لگادپتی امرپّا نائیڈو اینڈ کمپنی، ایک کاروباری جماعت] کی ہے۔ وہ کافی عرصے سے ہماری مدد کر رہے ہیں۔‘‘

PHOTO • Rahul Maganti

بائیں: کھلونے میں رنگ بھرنے کے کام کو حتمی شکل دیتیں ستیہ بھاما۔ دائیں: اپنے فروش کے انتظار میں سبزیوں کی صورت والے کھلونے

وی وینکیا بتاتے ہیں کہ پہلی کوآپریٹو سوسائٹی ۱۹۳۸-۱۹۳۷ میں قائم کی گئی تھی۔ ’’لیکن ۱۹۹۰ کی دہائی میں، جب مشینوں اور نئی ٹیکنالوجی کا دور شروع ہوا، تو اس فن نے اپنی چمک اور مانگ کھونی شروع کر دی۔ اگر حکومت کاریگروں کے مسائل کو نظر انداز کرنا جاری رکھتی ہے، تو یہ فن زیادہ سے زیادہ ۱۰ سال تک ہی زندہ رہے گا۔‘‘ ان مسائل میں کاریگروں کے لیے مکان، پنشن اور ان کے شناختی کارڈ شامل ہیں۔

ناگیشور راؤ کا یہ بھی ماننا ہے کہ کونڈا پلّی کا یہ روایتی فن شاید اس دہائی کے بعد دم توڑ دے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ٹالی ووڈ فلموں کے کئی مناظر میں راجندر پرساد اور چرنجیوی جیسے مشہور اداکاروں نے اپنی ساتھی اداکارہ کو کونڈا پلّی ’بومّا‘ (’کھلونا‘) کہہ کر پکارا ہے۔ لیکن اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مشہور کلچر میں خوبصورت عورتوں کو ہمارے کھلونوں سے تشبیہ دینے کی  یہ روایت صرف وہیں تک محدود ہے۔ ہمارے فن، تہزیب، اور ہماری زندگی کا حوالہ کہیں نہیں دیا جاتا۔‘‘

مترجم: عمیر حسن

Rahul Maganti

Rahul Maganti is an independent journalist and 2017 PARI Fellow based in Vijayawada, Andhra Pradesh.

Other stories by Rahul Maganti
Editor : Sharmila Joshi

Sharmila Joshi is former Executive Editor, People's Archive of Rural India, and a writer and occasional teacher.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Umair Hassan

Umair Hassan is a PARI volunteer from Baramulla, Jammu and Kashmir. Currently, he is doing MA (Philosophy) from School of Inter-disciplinary & Trans-disciplinary Studies (SOITS), IGNOU.

Other stories by Umair Hassan