’’آم کے بَور (پھول) سوکھ رہے ہیں۔‘‘

مارچ ۲۰۲۳ کی گرم صبح ہے اور پومولا بھیماورم گاؤں میں مروڈو پُڈی ناگ راجو تین ایکڑ میں پھیلے اپنے آم (میگنی فیرا انڈیکا) کے باغ کا معائنہ کر رہے ہیں۔

ان کا گاؤں آندھرا پردیش کے اناکاپلّی ضلع میں ہے، جہاں ان کے باغ میں بڑے سائز کے بنگن پلّی ، رس دار چیروکو رسالو ، پوری طرح پکنے سے تھوڑا پہلے کھائے جانے والے طوطا پوری اور مشہور پنڈوری مامیڈی جیسے آموں کی مقامی قسموں کے ۱۵۰ درخت ہیں۔

یہ تمام درخت بھورے زرد رنگ کے بَور سے بھرے ہوئے تھے۔ لیکن ۶۲ سالہ کسان ناگ راجو اس بات سے خوش نہیں ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس بار آم کے پھول تاخیر سے کھلے ہیں۔ ناگ راجو کے مطابق، ’’بَور کو سنکرانتی [جنوری کے وسط میں منائے جانے والے تہوار] تک نکل جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اس بار وہ فروری میں نکلے۔‘‘

اور مارچ تک، کم از کم لیموں کے سائز کی کیری (چھوٹا کچا آم جسے امبی یا امبیا بھی کہتے ہیں) پھل جانی چاہیے تھی۔ ’’اگر پھول نہیں ہوں گے، تو آم نہیں ہوں گے اور اس سال پھر سے میں کچھ کمائی نہیں کر پاؤں گا۔‘‘

Marudupudi Nagaraju (left) is a mango farmer in Pomula Bheemavaram village of Anakapalli district . He says that the unripe fruits are dropping (right) due to lack of proper irrigation
PHOTO • Amrutha Kosuru
Marudupudi Nagaraju (left) is a mango farmer in Pomula Bheemavaram village of Anakapalli district . He says that the unripe fruits are dropping (right) due to lack of proper irrigation
PHOTO • Amrutha Kosuru

مُروڈو پُڈی ناگ راجو (بائیں) کے پاس اناکاپلّی ضلع کے بھیماورم گاؤں میں آم کے باغ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹھیک سے سینچائی نہ ہونے کی وجہ سے کچے آم (دائیں) گرنے لگے ہیں

ناگ راجو کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے۔ وہ ایک دہاڑی مزدور ہیں۔ انہوں نے بڑی محنت سے آم کا یہ باغ لگایا تھا، جو اب خطرے میں ہے۔ ان کا تعلق مڈیگا برادری سے ہے (جسے آندھرا پردیش میں درج فہرست ذات کا درجہ حاصل ہے)، اور انہیں یہ زمین تقریباً ۲۵ سال پہلے ریاستی حکومت نے دی تھی۔ دراصل، ریاستی حکومت نے اس زمانے میں آندھرا پردیش اصلاح اراضی (زرعی اراضی کی سیلنگ) قانون، ۱۹۷۳ کے تحت ان لوگوں کے درمیان زمینیں تقسیم کرنی شروع کیں، جن کے پاس پہلے سے کوئی زمین نہیں تھی۔ ناگ راجو بھی ان میں سے ایک تھے۔

بہرحال، جون میں آم کا سیزن ختم ہونے کے بعد، ناگ راجو آس پاس کے گاؤوں میں گنّے کے کھیتوں پر دہاڑی کا کام کرتے ہیں۔ کام ملنے پر وہ ایک دن میں ۳۵۰ روپے کما سکتے ہیں۔ وہ ہر سال ۷۵-۷۰ دنوں تک منریگا کا بھی کام کرتے ہیں، جس میں تالاب کو کھود کر گہرا کرنا، کھاد تیار کرنا اور اس قسم کے دیگر کام شامل ہیں۔ اس کے لیے انہیں یومیہ ۲۳۰ سے ۲۵۰ روپے مزدوری ملتی ہے۔

جب ناگ راجو کو سرکار سے زمین ملی تھی، تو سب سے پہلے انہوں نے ہلدی کی کھیتی شروع کی تھی۔ لیکن تقریباً پانچ سال بعد، زیادہ منافع کی امید میں انہوں نے آم کے درخت لگائے۔ بھرپور پیداوار کے ان خوشگوار دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’جب میں نے [۲۰ سال پہلے] یہ کام شروع کیا، تو اس وقت ہر درخت پر ۷۵-۵۰ کلو آم ہوتے تھے۔ مجھے خود بھی آم بہت پسند ہیں، خاص کر طوطا پوری۔‘‘

آم کی پیداوار کے معاملے میں آندھرا پردیش، ملک میں دوسرے مقام پر آتا ہے۔ ریاست کے محکمہ باغبانی کا کہنا ہے کہ یہاں تقریباً ۷۸ء۳ لاکھ ہیکٹیئر اراضی میں آم کی کھیتی ہوتی ہے۔ سال ۲۱-۲۰۲۰ میں آم کی سالانہ پیداوار ۲۶ء۴۹ لاکھ میٹرک ٹن تھی۔

پومولا بھیماورم گاؤں، کرشنا اور گوداوری ندیوں کے درمیان والے زرعی علاقے میں پڑتا ہے، اور دونوں ندیاں خلیج بنگال میں جا کر گرتی ہیں، وہ جگہ بھی یہاں سے دور نہیں ہے۔ آم کے بَور (پھول) کو اکتوبر- نومبر میں ٹھنڈک اور نمی کی ضرورت ہوتی ہے، اور عام طور پر دسمبر- جنوری میں نکلنے لگتے ہیں۔

بنگلورو میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹی کلچرل ریسرچ (آئی آئی ایچ آر) کے پرنسپل سائنسداں ڈاکٹر ایم شنکرن بتاتے ہیں، ’’گزشتہ پانچ برسوں سے اکتوبر اور نومبر کے دوران بے موسم بارش بڑھ گئی ہے۔‘‘

The mango flowers in Nagaraju's farm (right) bloomed late this year. Many shrivelled up (left) because of lack of water and unseasonal heat
PHOTO • Amrutha Kosuru
The mango flowers in Nagaraju's farm (right) bloomed late this year. Many shrivelled up (left) because of lack of water and unseasonal heat
PHOTO • Amrutha Kosuru

ناگ راجو کے باغ (دائیں) میں اس سال آم کے بَور تاخیر سے نکلے ہیں۔ پانی کی کمی اور بے موسم گرمی کے سبب زیادہ تر پھول (بائیں) سوکھ رہے ہیں

آم کی کھیتی کرنے والے اس کاشتکار کا کہنا ہے کہ بے موسم گرمی میں بَور سوکھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے اس بار آم کی پیداوار کم ہوگی۔ وہ کہتے ہیں، ’’کبھی کبھی تو کسی درخت پر ایک باکس آم [۱۵۰-۱۲۰ آم] بھی نہیں ہوتا۔ گرمیوں کے دوران تیز آندھی بھی [تقریباً تیار] پھولوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔‘‘

کھاد، حشرہ کش اور مزدوری کی لاگت کو پورا کرنے کے لیے، ناگ راجو گزشتہ چند برسوں سے ہر سیزن میں ایک لاکھ روپے کا قرض لیتے رہے ہیں۔ یہ قرض وہ ایک نجی ساہوکار سے ۳۲ فیصد سالانہ شرح سود پر لیتے ہیں۔ ان کی سالانہ کمائی تقریباً ۸۰-۷۰ ہزار روپے ہے۔ جون میں وہ ان پیسوں سے اپنا کچھ قرض چُکاتے ہیں۔ لیکن پیداوار میں کمی کی وجہ سے وہ فکرمند ہیں کہ شاید آگے وہ ایسا نہیں کر پائیں گے؛ لیکن پھر بھی وہ آم کی کھیتی کو جلد بازی میں چھوڑنا نہیں چاہتے۔

*****

ان کے پڑوسی، کانٹم ریڈی شری رام مورتی ہلکے زرد رنگ کے بَور کو ہلاتے ہیں۔ بَور تقریباً سوکھ چکا تھا، اس لیے ہلاتے ہی جھڑ گیا۔

اسی گاؤں میں ان کے ڈیڑھ ایکڑ کے آم کے باغ میں بنگن پلّی ، چیروکو رسالو اور سوورن ریکھا جیسے الگ الگ قسم کے آموں کے ۷۵ درخت ہیں۔ ناگ راجو کی طرح ان کا بھی ماننا ہے کہ اب آم کے بَور کم ہو رہے ہیں۔ کانٹم ریڈی بتاتے ہیں، ’’اس کی سب سے بڑی وجہ، اکتوبر اور نومبر کے دوران لگاتار ہونے والی بے موسم بارش ہے۔ اور گزشتہ پانچ برسوں میں تو بے موسم بارش اور بھی زیادہ ہونے لگی ہے۔‘‘ کانٹم ریڈی، تروپو کاپو برادری (آندھرا پردیش میں دیگر پسماندہ طبقہ کے طور پر درج) سے ہیں اور ہر سال جولائی سے ستمبر کے درمیان ایک رشتہ دار کے گنّے کے کھیت میں کام کرتے ہیں۔ اس سے وہ ۱۰ ہزار روپے ماہانہ کی کمائی کر لیتے ہیں۔

اس سال مارچ (۲۰۲۳) میں شری رام مورتی کے آم کے بَور اور کیری کو آندھی نے گرا دیا۔ بارش کے ساتھ آئی تیز ہواؤں اور اس کے سبب پھلوں کو پہنچے نقصان کا ذکر کرتے ہوئے شری رام مورتی کہتے ہیں، ’’گرمیوں کی بارش آم کے درختوں کے لیے اچھی ہوتی ہے۔ لیکن اس سال بہت زیادہ بارش ہوئی۔‘‘

Kantamareddy Sriramamurthy (left) started mango farming in 2014. The mango flowers in his farm (right) are also drying up
PHOTO • Amrutha Kosuru
Kantamareddy Sriramamurthy (left) started mango farming in 2014. The mango flowers in his farm (right) are also drying up
PHOTO • Amrutha Kosuru

کانٹم ریڈی شری رام مورتی (بائیں) نے ۲۰۱۴ میں آم کی کھیتی شروع کی تھی۔ ان کے باغ میں بھی آم کے بَور (دائیں) سوکھ گئے ہیں

باغبانی کے ماہر سائنسداں شنکرن کا کہنا ہے کہ آم کے بَور ۲۵-۲۰ ڈگری سیلسیس درجہ حرارت میں کھلتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’فروری ۲۰۲۳ میں، دن اور رات کے درجہ حرارت میں بہت زیادہ فرق تھا۔ درخت اس لگاتار بدلتے درجہ حرارت کو برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

آم کی کھیتی کے لیے، لگاتار بگڑتے موسم کو دیکھ کر شری رام مورتی کو ۲۰۱۴ میں لیے گئے اپنے فیصلہ پر افسوس ہونے لگا ہے۔ اُس سال، انہوں نے اناکاپلی شہر کے پاس واقع ۹ء۰ ایکڑ زمین بیچ دی تھی اور اس سے ملے چھ لاکھ روپے کو آم کے باغ کے لیے پومولا بھیماورم میں پوٹّو بَڈی (سرمایہ کاری) کے طور پر خرچ کر دیا۔

اس فیصلہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ’’ہر کسی کو آم پسند ہے اور بازار میں اس کی مانگ بھی ہے۔ مجھے امید تھی کہ آم کی کھیتی سے [آخرکار] میں اچھی کمائی کر پاؤں گا۔‘‘

حالانکہ، ان کا کہنا ہے کہ تب سے انہیں کوئی منافع نہیں ہوا ہے۔ شری رام مورتی کہتے ہیں، ’’سال ۲۰۱۴ اور ۲۰۲۲ کے درمیان، آم کی کھیتی سے میں [ان آٹھ برسوں میں] کل چھ لاکھ روپے سے زیادہ کی کمائی کر پایا۔‘‘ زمین بیچنے کے اپنے فیصلہ پر افسوس کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’میں نے جو زمین بیچی تھی، اس کی قیمت اب بہت زیادہ ہے۔ مجھے شاید آم کی کھیتی شروع ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘

ہاں، اس بربادی کے لیے صرف موسم کی بے یقینی ذمہ دار نہیں ہے۔ آم کے درخت ساگو نیرو (سینچائی) پر منحصر ہیں، اور نہ تو ناگ راجو اور نہ ہی شری رام مورتی کے پاس کوئی بورویل ہے۔ سال ۲۰۱۸ میں، شری رام مورتی نے بورویل لگانے پر ڈھائی لاکھ روپے خرچ کیے، لیکن اس سے پانی کی ایک بوند بھی نہیں نکلی۔ ناگ راجو اور شری رام مورتی کے باغ جس بوچیہ پیٹا بلاک میں ہیں، وہاں آفیشل طور پر صرف ۳۵ بورویل اور ۳۰ کنویں ہیں۔

شری رام مورتی بتاتے ہیں کہ اگر درختوں کو لگاتار پانی ملے، تو بَور کے سوکھنے کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے، وہ ہفتے میں دو ٹینک پانی بھی خریدتے ہیں اور اس پر انہیں ہر مہینے ۱۰ ہزار روپے کا خرچ آتا ہے۔ شری رام مورتی کہتے ہیں، ’’ہر ایک درخت کو روزانہ کم از کم ایک لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن، میں انہیں ہفتہ میں صرف دو بار ہی پانی دے پاتا ہوں۔ میں اس سے زیادہ خرچ نہیں اٹھا پاؤں گا۔‘‘

آم کے درختوں کی سینچائی کے لیے، ناگ راجو ہفتہ میں پانی کے دو ٹینکر بلاتے ہیں اور ہر ایک ٹینک کے لیے وہ ۸ ہزار روپے ادا کرتے ہیں۔

Left: Mango trees from Vallivireddy Raju's farm, planted only in 2021, are only slightly taller than him. Right: A lemon-sized mango that fell down due to delayed flowering
PHOTO • Amrutha Kosuru
Left: Mango trees from Vallivireddy Raju's farm, planted only in 2021, are only slightly taller than him. Right: A lemon-sized mango that fell down due to delayed flowering
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: سال ۲۰۲۱ میں، ولیوی ریڈی راجو نے اپنے باغ میں جو آم کے درخت لگائے تھے، ابھی وہ لمبائی میں ان سے تھوڑے ہی بڑے ہیں۔ دائیں: لیموں کے سائز کی ایک کیری، جو تاخیر سے بَور آنے کے سبب نیچے گر گئی

Left: With no borewells on his farm, Nagaraju gets water from tanks which he stores in blue drums across his farms. Right: Raju's farm doesn't have a borewell either. He spends Rs. 20000 in a year for irrigation to care for his young trees
PHOTO • Amrutha Kosuru
Raju's farm doesn't have a borewell either. He spends Rs. 20000 in a year for irrigation to care for his young trees
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: ناگ راجو کے کھیت میں کوئی بورویل نہیں ہے، اس لیے وہ ٹینکر سے پانی خریدتے ہیں، جسے وہ اپنے باغوں میں نیلے ڈبوں میں جمع کرتے ہیں۔ دائیں: راجو کے باغ میں بھی بورویل نہیں ہے۔ وہ ہر سال بڑے ہوتے درختوں کی سینچائی پر سالانہ ۲۰ ہزار روپے خرچ کرتے ہیں

ولیوی ریڈی راجو اپنے درختوں کی ہر سال نومبر میں ہفتہ میں ایک بار سینچائی کرنا شروع کرتے ہیں۔ اور پھر فروری سے ہفتہ میں دو بار سینچائی کرنے لگتے ہیں۔ پورے گاؤں میں حال ہی میں آم کی کھیتی شروع کرنے والے وہ نئے کسان ہیں۔ ولیوی ریڈی راجو (۴۵ سالہ) نے ۲۰۲۱ میں اپنی ۷ء۰ ایکڑ زمین پر آم کے درخت لگائے تھے۔ دو سال بعد بھی یہ درخت راجو سے بس تھوڑے ہی لمبے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’چھوٹے آم کے درختوں کو زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہیں روزانہ تقریباً دو لیٹر پانی چاہیے، خاص کر گرمیوں میں۔‘‘

ان کے کھیت میں کوئی بورویل نہیں ہے، اس لیے وہ سینچائی پر ہر سال تقریباً ۲۰ ہزار روپے خرچ کرتے ہیں۔ اس میں سے آدھے پیسے وہ ٹینکروں سے کھیت میں پانی لانے پر خرچ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے درختوں کی روزانہ سینچائی نہیں کر سکتے۔ ’’اگر میں روزانہ آم کے سبھی درختوں کو پانی دوں گا، تو مجھے اپنا سب کچھ بیچنا پڑ جائے گا۔‘‘

انہیں امید ہے کہ تین سال پہلے انہوں نے جو سرمایہ کاری کی تھی، وہ ضرور رنگ لائے گی۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے معلوم ہے کہ منافع نہیں ہوگا، لیکن امید کر رہا ہوں کہ نقصان بھی نہ ہو۔‘‘

*****

پچھلے مہینہ (اپریل ۲۰۲۳)، ناگ راجو کو اپنے باغ سے تقریباً ۳۵۰۰ کلوگرام یا موٹے طور پر ۱۴۰-۱۳۰ باکس آم کی پیداوار حاصل ہوئی تھی۔ وشاکھاپٹنم کے تاجروں نے ان سے ۱۵ روپے فی کلو کے حساب سے آم خریدے، جس سے انہیں تقریباً ۵۲۵۰۰ روپے کی کمائی ہوئی۔

انہوں نے بتایا، ’’دو دہائی قبل جب انہوں نے آم کی کھیتی شروع کی تھی، تب بھی آم کی قیمت [فروخت کے لیے] ۱۵ روپے فی کلو ہی تھی، اور اب بھی اتنی ہی ہے۔‘‘ بازار کے ایسٹیٹ آفیسر پی جگدیشور راؤ کہتے ہیں، ’’اس وقت، وشاکھاپٹنم کے مدھرواڑ ریتو بازار میں ایک کلو بنگن پلّی آم کی قیمت ۶۰ روپے کلو ہے۔ گرمی کے پورے سیزن میں آم کی قیمت ۵۰ سے ۱۰۰ روپے فی کلو کے درمیان رہتی ہے۔‘‘

These mango flowers in Nagaraju's farm aren’t dry and in a better condition
PHOTO • Amrutha Kosuru
The green and round Panduri mamidi is among his favourite
PHOTO • Amrutha Kosuru

بائیں: ناگ راجو کے باغ میں آم کے یہ بَور سوکھے نہیں ہیں، اور صحت مند ہیں۔ دائیں: سبز اور گول پنڈوری مامیڈی آم ان کے پسندیدہ آموں میں سے ایک ہے

شری رام مورتی کو اس سال کی پہلی کھیپ میں ۱۴۰۰ کلو آم حاصل ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں کے لیے دو تین کلو الگ کرکے رکھا ہے۔ باقی آم وہ وشاکھاپٹنم کے تاجروں کو ۱۱ روپے فی کلو کے حساب سے بیچ رہے ہیں۔ خوردہ فروخت نہیں کر پانے کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’سب سے قریبی بازار ہمارے گھر سے ۴۰ کلومیٹر دور ہے۔‘‘

آم کی کھیتی کرنے والے پومولا بھیماورم گاؤں کے کسان اپنی سالانہ آمدنی کا اندازہ جون میں دوسری کھیپ کی پیداوار ملنے کے بعد ہی لگا پائیں گے۔ لیکن ناگ راجو کو اس بار بہت زیادہ امید نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’منافع تو ہونا نہیں ہے، صرف نقصان ہی ہوگا۔‘‘

بَور لگے ایک درخت کی طرف دیکھتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’اب تک اس درخت میں اس سائز [ہتھیلی کے سائز] کے پھل لگ جانے چاہیے تھے۔‘‘ یہ ان کا پسندیدہ آم پنڈوری مامیڈی ہے، جو دیکھنے میں سبز رنگ کا اور سائز میں بالکل گول ہوتا ہے۔

درخت پر لگے کچھ آموں میں سے ایک کو توڑتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’اس کے جیسی مٹھاس کسی دوسرے آم میں نہیں ہوتی ہے۔ جب یہ سبز ہوتا ہے، تب بھی میٹھا ہی ہوتا ہے۔ یہی اس کی خصوصیت ہے۔‘‘

اس اسٹوری کو رنگ دے کی طرف سے مالی تعاون حاصل ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Amrutha Kosuru

Amrutha Kosuru is a 2022 PARI Fellow. She is a graduate of the Asian College of Journalism and lives in Visakhapatnam.

Other stories by Amrutha Kosuru
Editor : Sanviti Iyer

Sanviti Iyer is Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with students to help them document and report issues on rural India.

Other stories by Sanviti Iyer
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique