تمل ناڈو میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے اراکین جنہوں نے دل کھول کر میرے ساتھ وقت گزارا ہے، انہوں نے خود کو ’اراونی‘ قرار دیا۔ بہت بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ ان کی کمیونٹی میں بہت سے دوسرے افراد اس اصطلاح کو مسترد کرتے ہیں اور خود کو تیرونںگئی قرار دیتے ہیں۔ تاہم، پورے احترام کے ساتھ، میں نے اس اصطلاح کو برقرار رکھا ہے کیونکہ جن لوگوں سے میں نے بات کی تھی وہ اسے اپنی شناخت کے لیے استعمال کرتے تھے۔

’’یہ ہمارا تہوار ہے۔ ۱۰ دنوں تک، ہم ایک مختلف زندگی گزارتے ہیں۔ میں گزشتہ کچھ دنوں سے ایک الگ سی کیفیت سے دوچار ہوں، اور میں اس سے باہر نہیں آنا چاہتی،‘‘ جے مالا کہتی ہیں، ایک ۲۶ سالہ اراونی جن سے میں نے ۲۰۱۴ میں ویلوپورم ضلع کے کوواگم گاؤں میں ملاقات کی تھی۔ جے مالا یہاں اس سالانہ تہوار میں شرکت کے لیے آئی ہیں جو تمل کیلنڈر میں چترئی کے مہینے میں (تقریباً وسط اپریل سے مئی کے وسط تک) ہوتا ہے اور ۱۸ دنوں تک چلتا ہے۔

ملک بھر سے بہت سے ٹرانس جینڈر مقابلہ حسن، موسیقی اور رقص کے مقابلوں نیز دیگر تقریبات میں شرکت کے لیے کوواگم آتے ہیں۔ بہت سے خواجہ سرا بھگوان اراون سے ’شادی‘ کرنے آتے ہیں۔ یہ ’شادی‘ ایک مندر میں ہوتی ہے جو کوتھاندوَر کے لیے وقف ہے (جیسا کہ اراون کو مقامی طور پر کہا جاتا ہے)، اور یہ مہابھارت کی ایک کہانی کا حصہ ہے۔

کہانی کچھ اس طرح ہے: ارجن اور ناگا شہزادی اُلوپی کا بیٹا اراون، دیوی کالی کو قربانی پیش کرنے کے لیے راضی ہو جاتا ہے، تاکہ پانڈو، کورووں کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کر سکیں۔ اس کی آخری خواہش یہ ہے کہ وہ شادی شدہ ہوکر مرنا چاہتا ہے۔ تاہم، کوئی بھی اس سے شادی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ اگلی صبح اسے قربان کردیا جائے گا۔ چنانچہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے کرشن نے موہنی کی شکل اختیار کرلی اور اراون سے شادی کرلی – اور اگلی صبح وہ بیوہ ہوگئی۔

کوواگم تہوار میں، اراونی کی شادی، قربانی اور بیوہ ہونے کی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو شادی کی تقریبات شروع ہوچکی تھیں۔ اندر، مندر کے پجاری یکے بعد دیگرے اراونی کی شادی کی رسومات ادا کر رہے تھے۔ باہر اراونی ناچ-گانا کر رہی تھیں اور ہار، تھالی، چوڑیاں خرید رہی تھیں۔

میں نے بنگلورو کی اراونیوں کے ایک گروپ سے ملاقات کی۔ گروپ کی خاتون لیڈر پرجولا نے مجھے بتایا، ’’میں یہاں ۱۲ سال سے آ رہی ہوں۔ ہمارے لیے اس معاشرے میں رہنا مشکل ہے۔ لیکن یہ جگہ مجھ میں امید جگاتی ہے کہ کسی دن یہ معاشرہ ہمیں قبول کر لے گا۔ دیوتا کی بیوی بننا ہمارے لیے محض ایک رسم نہیں بلکہ شناخت ہے۔‘‘

اگرچہ یہ تہوار خوشی منانے کی ایک تقریب ہی ہے، تاہم اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔ اراونی ہجوم میں مردوں کی طرف سے جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور پولیس اہلکاروں کی جانب سے زبانی طور پر بدسلوکی کی بات کرتی ہیں۔ لیکن ۳۷ سالہ آئیوی نام کی اراونی کہتی ہیں، ’’پھر بھی، میں یہاں آتی ہوں اور آئندہ بھی آتی رہوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بھیڑ میں غائب ہو جاتی ہیں۔ میں ان سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کون سی چیز انہیں ہر سال یہاں واپس لے آتی ہے۔ لیکن جواب واضح ہے: یہ ان کا تہوار ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ان کا استقبال اس طور پر ہوتا ہے کہ وہ کون ہیں یعنی کہ ان کی شناخت کیا ہے۔

The temple dedicated to Lord Aravan (known locally as Koothandavar) is in Koovagam village, about 30-40 kilometres from Viluppuram town in Tamil Nadu. A man whipping himself in front of a temple.
PHOTO • Ritayan Mukherjee

بھگوان اراون کے لیے وقف مندر (مقامی طور پر انہیں کوتاندوَر کے نام سے جانا جاتا ہے) کوواگم گاؤں میں واقع ہے، جو تمل ناڈو کے ویلوپورم شہر سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور ہے

Aravanis enact a story from the Mahabharata in which they get married to Lord Aravan. Here, they are seen getting ready for the wedding. A transgender woman decorating another transgender's hair with flowers
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اراونی مہابھارت کی ایک کہانی کا کردار ادا کرتی ہیں جس میں ان کی شادی بھگوان اراون سے ہوتی ہے۔ یہاں، وہ شادی کی تیاریاں کر رہی ہیں

One of the priests at the Koothandavar temple begins the wedding rituals. He ties a yellow thread called thali around the neck of each aravani to consecrate her union with Aravan.
PHOTO • Ritayan Mukherjee

کوتاندوَر مندر کے پجاریوں میں سے ایک شادی کی رسومات کا آغاز کرتا ہے۔ وہ ہر ایک اراونی کے گلے میں پیلے رنگ کا دھاگہ باندھتا ہے جسے تھالی کہتے ہیں تاکہ وہ اراون کے ساتھ مقدس رشتے میں بندھ سکیں

Married to her lord, an older aravani leaves the temple feeling content.
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اپنے بھگوان سے شادی کر کے، ایک معمر اراونی طمانیت کے ساتھ مندر سے باہر آ رہی ہیں

Despite the social ostracism that transgender women face, people also regard them as ‘lucky’. They gather outside the Koothandavar temple to receive blessings from aravanis.
PHOTO • Ritayan Mukherjee

خواجہ سراؤں کو سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنے کے باوجود لوگ انہیں ’خوش قسمت‘ بھی سمجھتے ہیں۔ وہ اراونیوں سے آشیرواد حاصل کرنے کے لیے کوتاندوَر مندر کے باہر جمع ہیں

Pinky (centre), the leader of a group of newly-wed aravanis from the outskirts of Chennai, is thrilled to be married. A portrait of three transgender women
PHOTO • Ritayan Mukherjee

چنئی کے مضافات سے تعلق رکھنے والی نوبیاہتا اراونیوں کے ایک گروپ کی رہنما پنکی (درمیان میں) شادی کے تئیں بہت پرجوش ہیں

Once they’ve tied the knot, the aravanis rejoice. Pinky (right), in a gleeful moment, kisses her best friend and sister bride Mala. A transgender woman kisses another transgender woman on the cheek.
PHOTO • Ritayan Mukherjee

ایک بار جب وہ شادی کے بندھن میں بندھ جاتی ہیں، تو اراونی خوشیاں مناتی ہیں۔ پنکی (دائیں) خوشگوار موڈ میں، اپنی سب سے اچھی دوست اور بہن دلہن مالا کو چومتی ہیں

The wedding ritual is complete, and it’s now time for some revelry. The aravani brides break into song and. dressed in bridal attire, continue the celebrations all night.
PHOTO • Ritayan Mukherjee

شادی کی رسم اب پوری ہوچکی ہے، اور اب تفریح اور موج مستی کرنے کا وقت ہے۔ اراونی دلہنیں گیت گاتی ہیں اور دلہن کے لباس میں ملبوس، رات بھر جشن مناتی ہیں

The next morning, the last day of the festival, it’s time for the ritual of Aravan’s sacrifice.
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اگلی صبح، تہوار کے آخری دن، اراون کی قربانی کی رسم ادا کرنے کا وقت ہے۔ اور اراونی ماتم کرنے لگتی ہیں – وہ ایک ساتھ جمع ہوکر حلقے بناتی ہیں اور زور زور سے روتی ہیں

A priest breaks an aravani’s bangles – one of the rituals of widowhood. Visibly distraught, she begins to sob.  Many visitors stand around watching the rituals
PHOTO • Ritayan Mukherjee

ایک پجاری اراونی کی چوڑیاں توڑتا ہے – بیوہ ہونے کی رسومات میں سے ایک۔ وہ پریشان اور مضطرب ہوکر آہ و بکا کرنے لگتی ہیں۔ مظاہرین ان کے چاروں طرف کھڑے ہوکر اس نظارے کو دیکھ رہے ہیں

People from nearby villages, who have come for the festival, gather around
PHOTO • Ritayan Mukherjee

پجاری اراونی کی تھالیوں کو کاٹ کر مندر کے باہر آگ میں پھینک دیتا ہے۔ میلہ سے لطف اندوز ہونے کے لیے ارد گرد آباد لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں

The aravanis must now shed their bridal attire and wear a widow’s whites.
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اراونی کو اب دلہن والا لباس اتار کر بیوہ کا سفید لباس پہننا ہوگا۔ یہاں، پجاری کے سفید ساڑی دینے کے فوراً بعد ایک اراونی رو رہی ہے

Aravanis beat their chests and hit their heads, expressing pain over Aravan’s sacrifice.
PHOTO • Ritayan Mukherjee

اراونیوں نے اراون کی قربانی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے سینہ کوبی کی اور اپنے سروں کو ٹکرا کر ماتم کیا

Near the temple are the remnants of what used to be signs of marriage – scattered garlands, broken bangles and cut up thalis
PHOTO • Ritayan Mukherjee

مندر کے قریب ان چیزوں کی باقیات پڑی ہیں جو شادی کی نشانیاں ہوا کرتی تھیں – بکھرے ہوئے ہار، ٹوٹی ہوئی چوڑیاں اور کٹی ہوئی تھالیاں

An aravani, dressed in white, walks away from the temple; she usually continues to mourn the death of Aravan for up to a month
PHOTO • Ritayan Mukherjee

سفید کپڑے میں ملبوس ایک اراونی، مندر سے دور چلی جاتی ہے۔ کچھ لوگ ایک ماہ تک اراون کی موت کا سوگ مناتے رہتے ہیں

اس تصویری مضمون کا ابتدائی و رژن فوٹوگرافر کی وی بسائٹ پر شائع کیا گیا تھا۔

مترجم: سبطین کوثر

Ritayan Mukherjee

رِتائن مکھرجی کولکاتا میں مقیم ایک فوٹوگرافر اور پاری کے سینئر فیلو ہیں۔ وہ ایک لمبے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جو ہندوستان کے گلہ بانوں اور خانہ بدوش برادریوں کی زندگی کا احاطہ کرنے پر مبنی ہے۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Ritayan Mukherjee
Translator : Sibtain Kauser

سبطین کوثر، دہلی کے ایک صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ وہ کئی مرکزی نیوز ایجنسیوں اور معروف ٹی وی اور نیوز نیٹ ورکس، ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارموں کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Sibtain Kauser