’’جب بھی بھٹی جلتی ہے، میں خود کو زخمی کر لیتی ہوں۔‘‘
سلمیٰ لوہار کی انگلیوں کے جوڑوں پر زخموں کے نشانات ہیں اور ان کے بائیں ہاتھ کی دو انگلیاں پھٹی ہوئی ہیں۔ وہ بھٹی سے مٹھی بھر راکھ اٹھاتی ہیں اور جلد شفا یابی کے لیے اسے زخموں پر رگڑتی ہیں۔
اس ۴۱ سالہ لوہار کا کنبہ ان چھ لوہار کنبوں میں سے ایک ہے جو سونی پت کے بہل گڑھ بازار میں موجود جھگیوں کے سلسلے کو اپنا گھر کہتے ہیں۔ ایک طرف بازار کی مصروف سڑک ہے اور دوسری طرف بلدیہ کے کچرے کا ڈھیر ہے۔ قریب ہی ایک سرکاری بیت الخلاء اور پانی کا ٹینکر ہے۔ سلمیٰ اور ان کے اہل خانہ انہیں سہولیات پر مکمل طور پر انحصار کرتے ہیں۔
جھگیوں میں بجلی کی فراہمی نہیں ہے اور اگر ۴ سے ۶ گھنٹے تک بارش ہو جائے، تو پوری آبادی زیر آب آجاتی ہے، جیسا کہ گزشتہ اکتوبر (۲۰۲۳) میں ہوا تھا۔ ایسی صورت میں پانی اترنے کے انتظار میں انہیں اپنی چارپائیوں پر ٹانگیں اوپر کر کے بیٹھنا پڑتا ہے۔ یہاں سے پانی اترنے میں دو سے تین دن لگتے ہیں۔ سلمیٰ کے بیٹے دلشاد یاد کرتے ہیں، ’’اُن دنوں میں بہت بدبو آتی ہے۔‘‘
’’لیکن ہم اور کہاں جائیں گے؟‘‘ سلمیٰ پوچھتی ہیں۔ ’’مجھے معلوم ہے کہ یہاں کوڑے دان کے قریب رہائش کی وجہ سے ہم بیمار پڑتے ہیں۔ وہاں بیٹھی مکھیاں آکر ہمارے کھانے پر بھی بیٹھ جاتی ہیں۔ لیکن ہم اور کہاں جائیں گے؟‘‘
گاڑیا، گڈیا یا گاڈولیہ لوہاروں کو راجستھان میں خانہ بدوش قبیلہ (این ٹی) کے ساتھ ساتھ پسماندہ طبقہ کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ اس برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ دہلی اور ہریانہ میں بھی رہتے ہیں، لیکن دہلی میں جہاں وہ خانہ بدوش قبیلے کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، وہیں ہریانہ میں انہیں پسماندہ طبقہ کا درجہ ملا ہوا ہے۔
جس بازار میں وہ رہتے ہیں، وہ ریاستی شاہراہ ۱۱ کے قریب واقع ہے اور یہ بازار تازہ پیداوار، مٹھائیاں، باورچی خانہ کے مصالحہ جات، برقی آلات بیچنے والوں کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر ریڑھی والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ بہت سے لوگ وہاں اپنے اسٹال لگاتے ہیں اور بازار بند ہونے کے بعد گھر چلے جاتے ہیں۔
لیکن سلمیٰ جیسوں کے لیے بازار گھر بھی ہے اور کام کرنے کی جگہ بھی۔
’’میرا دن جلد شروع ہوتا ہے، صبح ۶ بجے کے قریب۔ جب سورج طلوع ہوتا ہے تو مجھے بھٹی سلگانی پڑتی ہے، اپنے گھر والوں کے لیے کھانا پکانا پڑتا ہے، اور پھر کام پر جانا پڑتا ہے،‘‘ ۴۱ سالہ خاتون بتاتی ہیں۔ اپنے شوہر وجے کے ساتھ وہ دن میں دو بار بھٹی پر لمبے وقت تک کام کرتی ہیں اور لوہے کے ٹکڑوں کو بھٹی میں گرم کر کے اوزاروں کی شکل دینے کے لیے ہتھوڑے چلاتی ہیں۔ ایک دن میں وہ چار یا پانچ چیزیں بنا لیتے ہیں۔
سلمیٰ کو دو پہر میں کام سے وقفہ لینے کا موقع ملتا ہے، جب وہ اپنے دو بچوں (اکلوتی بیٹی ۱۶ سالہ تنو اور سب سے چھوٹے بیٹے ۱۴ سالہ دلشاد) کے ساتھ چارپائی پر بیٹھ کر ایک کپ گرم چائے پیتی ہیں۔ اس دوران ان کی بھانجیاں شیوانی، کاجل اور چڑیا بھی ان کے آس پاس ہی ہوتی ہیں۔ ان میں سے صرف نو سالہ چڑیا ہی اسکول جاتی ہے۔
’’کیا آپ اسے واٹس ایپ پر ڈالیں گی؟‘‘ سلمیٰ پوچھتی ہیں۔ ’’پہلے میرے کام کا نام لکھ کر!‘‘
ان کے اوزار اور تیار شدہ سامان – چھلنی، ہتھوڑے، کدال، کلہاڑی، چھینی، کڑھائی، چھرے اور بہت سی دوسری مصنوعات - دوپہر کی دھوپ میں چمک رہے ہیں۔
’’ہمارے اوزار اس جھگی میں سب سے قیمتی چیزیں ہیں،‘‘ وہ ایک بڑے دھاتی برتن کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہتی ہیں۔ وقفہ کے بعد چائے کے کپ کی جگہ ہاتھ میں ہتھوڑا اور چھینی آجاتے ہیں۔ وہ بڑی آسانی سے ہر دو ضربوں کے بعد چھینی کا زاویہ تبدیل کرتے ہوئے برتن کے نچلے حصے میں سوراخ کرتی ہیں۔ یہ ہنر مشق سے آتا ہے۔ ’’یہ چھلنی بارورچی خانے کے لیے نہیں ہے۔ کسان اسے اناج چھانٹنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘
اندر وجے بھٹی کے سامنے بیٹھے ہیں، جسے وہ صبح اور شام دن میں دو بار روشن کرتے ہیں۔ وہ جس لوہے کی سلاخ کو شکل دے رہے ہیں وہ سرخ ہو رہا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ گرمی سے پریشان نہیں ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ بھٹی کو تیار کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے، تو وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہمیں اس وقت معلوم ہوتا ہے جب اندر کا حصہ چمکنے لگتا ہے۔ اگر ہوا نم ہو تو زیادہ وقت لگتا ہے۔ جو کوئلہ ہم استعمال کرتے ہیں اس پر منحصر ہوتا ہے۔ اسے سلگنے میں عام طور پر ایک یا دو گھنٹے لگتے ہیں۔‘‘
کوئلے کی قیمت معیار کی بنیاد پر ۱۵ سے ۷۰ روپے فی کلو ہوتی ہے۔ بڑی مقدار میں کوئلہ خریدنے کے لیے سلمیٰ اور وجے اترپردیش میں اینٹوں کے بھٹوں پر جاتے ہیں۔
وجے لوہے کی سلاخ کی چمکتی ہوئی نوک پر ہتھوڑے کا ضرب لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ چھوٹی بھٹی اتنی کمزور ہے کہ لوہے کو ضروری حد تک گرم نہیں کر سکتی اس لیے انہیں طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
لوہار ۱۶ویں صدی کے راجستھان میں ہتھیار بنانے والی برادری سے اپنے حسب نسب کا دعویٰ کرتے ہیں، جو چتور گڑھ پر مغلوں کے قبضے کے بعد شمالی ہندوستان کے مختلف حصوں میں پھیل گئے تھے۔ ’’وہ ہمارے آباء و اجداد تھے۔ اب ہم بہت ہی مختلف زندگی گزار رہے ہیں،‘‘ وجے مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’لیکن ہم اب بھی اس ہنر کو جاری رکھے ہوئے ہیں، جو انہوں نے ہمیں سکھائے تھے۔ اور ہم ان کی طرح یہ کڑے [موٹی چوڑیاں] پہنتے ہیں۔
اب وہ اپنے بچوں کو یہ ہنر سکھا رہے ہیں۔ ’’دلشاد اس کام میں سب سے اچھا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ سلمیٰ اور وجے کے سب سے چھوٹے بیٹے دلشاد اوزاروں کی نشاندہی کرتے ہیں: ’’یہ ہتھوڑے ہیں۔ بڑے کو گھن کہتے ہیں۔ باپو [والد] گرم دھات کو چمٹے کے ساتھ پکڑتے ہیں اور اسے منحنی شکل دینے کے لیے قینچی کا استعمال کرتے ہیں۔‘‘
چڑیا ہاتھ سے چلنے والے پنکھے کے ہینڈل کو گھمانا شروع کر دیتی ہے جو بھٹی کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب راکھ چاروں طرف اڑتی ہے تو وہ ہنستی ہے۔
ایک عورت چاقو خریدنے کے لیے آتی ہے۔ سلمیٰ اسے بتاتی ہیں کہ اس کی قیمت ۱۰۰ روپے ہے۔ عورت جواب دیتی ہے، ’’میں اس کے لیے ۱۰۰ روپے نہیں دینا چاہتی۔ میں پلاسٹک کا چاقو کافی سستے میں خرید سکتی ہوں۔‘‘ مول تول کے بعد ۵۰ روپے میں سودا طے پاتا ہے۔
واپس جاتی عورت کو دیکھ کر سلمیٰ آہ بھرتی ہیں۔ اپنی کفالت کے لیے فیملی وافر مقدار میں لوہا نہیں بیچ سکتی۔ پلاسٹک ایک سخت حریف بن گیا ہے۔ وہ نہ تو تیز رفتار مینوفیکچرنگ کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی قیمتوں کا۔
’’ہم نے اب پلاسٹک بیچنا شروع کر دیا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میرے بہنوئی نے اپنی جھگی کے سامنے پلاسٹک کی دکان کھول لی ہے اور میرا بھائی دہلی کے قریب ٹیکری بارڈر پر پلاسٹک کا سامان فروخت کرتا ہے۔‘‘ وہ مارکیٹ کے دوسرے دکانداروں سے پلاسٹک خرید کر کہیں اور بیچتے ہیں لیکن ابھی تک یہ کاروبار منافع بخش نہیں ثابت ہوا ہے۔
تنو کہتی ہیں کہ ان کے چچا دہلی میں زیادہ کماتے ہیں۔ ’’شہر کے لوگ اس طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خرچ کرنے کو تیار ہیں۔ ان کے لیے ۱۰ روپے اتنے زیادہ نہیں ہیں، لیکن کسی گاؤں والے کے لیے یہ بہت بڑی رقم ہے اور وہ اسے ہم پر خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے میرے سبھی چچا زیادہ امیر ہیں۔‘‘
*****
سلمیٰ کہتی ہیں، ’’میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے تعلیم حاصل کریں۔‘‘ میں پہلی بار ان سے ۲۰۲۳ میں ملی تھی۔ اس وقت میں قریبی یونیورسٹی میں انڈر گریجویٹ طالبہ تھی۔ ’’میں چاہتی ہوں کہ یہ اپنی زندگی میں کچھ کریں۔‘‘ انہوں نے اس بات کو اس وقت شدت سے محسوس کیا جب ان کے بڑے بیٹے کو ضروری دستاویزات کی کمی کی وجہ سے سیکنڈری اسکول چھوڑنا پڑا۔ وہ اب ۲۰ سال کے ہیں۔
’’آدھار، راشن کارڈ، ذات کے کاغذات – انہوں جو کچھ طلب کیا اسے لے کر میں سرپنچ سے لے کر ضلع ہیڈ کوارٹر تک ہر جگہ گئی۔ میں نے لاتعداد کاغذات پر اپنے انگوٹھے کے نشان لگائے۔ لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘
دلشاد نے بھی گزشتہ سال چھٹی جماعت کے بعد پڑھائی چھوڑ دی تھی۔ وہ کہتے ہیں، ’’سرکاری اسکول میں ایسا کچھ نہیں پڑھایا جاتا جسے سیکھا جائے۔ لیکن میری بہن تنو بہت کچھ جانتی ہے۔ وہ پڑھی لکھی ہے۔‘‘ تنو نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے، لیکن انہوں نے آگے پڑھنا نہیں چاہا۔ آس پاس کے اسکول میں دسویں جماعت کی پڑھائی نہیں ہوتی تھی اور انہیں تین کلومیٹر سے زیادہ دور کھیوڑا میں اسکول جانے کے لیے تقریباً ایک گھنٹہ پیدل چلنا پڑتا تھا۔
’’لوگ مجھے گھورتے ہیں،‘‘ تنو کہتی ہیں۔ ’’وہ بہت گندی باتیں کہتے ہیں۔ میں انہیں دہرانا نہیں چاہتی۔‘‘ لہٰذا اب تنو گھر میں رہتی ہیں اور کام میں اپنے والدین کے مدد کرتی ہیں۔
اس کنبے کو عوامی ٹینکرز کے قریب کھلے میں غسل کرنا پڑتا ہے۔ تنو آہستہ سے کہتی ہیں، ’’جب ہم کھلے میں نہاتے ہیں تو کوئی بھی ہمیں دیکھ سکتا ہے۔‘‘ عوامی بیت الخلاء کا ایک بار استعمال کرنے پر ۱۰ روپے دینے پڑتے ہیں، جس کا بوجھ پوری فیملی پر پڑتا ہے۔ ان کی کمائی اتنی نہیں ہے کہ بیت الخلاء کے ساتھ ایک مناسب گھر کرایے پر لے سکیں، اور اسی لیے انہیں فٹ پاتھ پر رہنا پڑتا ہے۔
کنبے میں سے کسی کو بھی کووڈ-۱۹ کا ٹیکہ نہیں لگا ہے۔ بیمار پڑنے پر وہ بَڈھ خالصہ پرائمری ہیلتھ سنٹر (پی ایچ سی) یا سیولی کے سنٹر میں جاتے ہیں۔ پرائیویٹ کلینک کا نمبر آخرمیں آتا ہے، کیونکہ وہ مہنگے ہوتے ہیں۔
سلمیٰ اپنے پیسے خرچ کرنے کے معاملے میں محتاط رہتی ہیں۔ ’’جب پیسے کم ہوجاتے ہیں، تو ہم ردی والوں کے پاس جاتے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’وہاں ہمیں تقریباً ۲۰۰ روپے میں کپڑے مل جاتے ہیں۔‘‘
بعض اوقات یہ کنبہ سونی پت کے دوسرے بازاروں میں بھی جاتا ہے۔ تنو کہتی ہیں، ’’ہم رام لیلا میں جاتے ہیں جو قریب ہی نوراتری کے موقع پر منعقد ہوتا ہے۔ اگر پیسہ ہوتا ہے تو ہم اسٹریٹ فوڈ کا بھی لطف اٹھاتے ہیں۔‘‘
سلمیٰ کہتی ہیں، ’’اگرچہ میرا نام مسلمانوں جیسا ہے، لیکن میں ہندو ہوں۔ ہم ہنومان، شیو، گنیش سب کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘
’’اور اپنے کام کے ذریعے ہم اپنے آباء و اجداد کی عبادت کرتے ہیں!‘‘ دلشاد جلدی سے اپنی بات جوڑتے ہیں اور ان کی ماں ہنسنے لگتی ہیں۔
*****
جب بازار میں کاروبار سست پڑ جاتا ہے، تو سلمیٰ اور وجے قریبی گاؤوں میں اپنی مصنوعات بیچنے جاتے ہیں۔ ایسا مہینے میں ایک یا دو بار ہوتا ہے۔ گاؤوں میں شاذ و نادر ہی کچھ فروخت ہوتا ہے، لیکن جب وہ وہاں جاتے ہیں، تو ہر دورے میں زیادہ سے زیادہ ۴۰۰ سے ۵۰۰ روپے کماتے ہیں۔ سلمیٰ کہتی ہیں، ’’بعض اوقات ہم اتنا چلتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ہماری ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں۔‘‘
بعض اوقات گاؤں والے دودھ دینے والی گائے سے الگ کرنے کے لیے انہیں چھوٹے بچھڑے دے دیتے ہیں۔ اس کنبے کی اتنی آمدنی نہیں ہوتی کہ وہ ایک مناسب مکان کرایہ پر لے سکے، اس لیے فٹ پاتھ پر گزارہ کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا۔
نوعمر تنو ان شرابیوں پر ہنستی ہیں جنہیں انہوں نے رات میں بھگایا تھا۔ دلشاد مزید کہتے ہیں، ’’ہمیں انہیں مارنا پڑتا ہے اور شور مچانا پڑتا ہے۔ ہماری مائیں اور بہنیں یہاں سوتی ہیں۔‘‘
حال ہی میں نگر نگم (سونی پت میونسپل کارپوریشن) سے تعلق کا دعویٰ کرنے والے لوگوں نے انہیں یہاں سے چلے جانے کو کہا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ جھگیوں کے پیچھے کچرہ ڈمپنگ گراؤنڈ کا گیٹ بنایا جانا ہے، جس کے لیے انہیں اس سرکاری زمین کو خالی کرانا ہے جس پر وہ قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔
کنبے کے آدھار، راشن اور فیملی کارڈ کے ڈیٹا کا ریکاڑد لینے آنے والے افسران اپنے دورے کی کوئی دستاویز نہیں چھوڑتے۔ لہذا، یہاں کسی کو بھی اس بات کا علم نہیں ہے کہ وہ کون ہیں۔ یہ دورے ہر دو مہینے میں ایک بار ہوتے ہیں۔
تنو کہتی ہیں، ’’وہ ہم سے کہتے ہیں کہ ہمیں ایک پلاٹ ملے گا۔ کس طرح کا پلاٹ ہے؟ کہاں ہے؟ کیا یہ بازار سے دور ہے؟ وہ ہمیں اس کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔‘‘
فیملی کے انکم سرٹیفکیٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ مہینے میں تقریباً ۵۰ ہزار روپے کمائے تھے۔ اب ان کی آمدنی صرف ۱۰ ہزار روپے کے آس پاس رہ گئی ہے۔ جب انہیں پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، تو وہ رشتہ داروں سے قرض لیتے ہیں۔ رشتہ جتنا قریب کا ہوتا ہے، سود کی شرح اتنی ہی کم ہوتی ہے۔ جب وہ اپنی چیزیں ایک خاص مقدار میں فروخت کر لیتے ہیں، تو قرض کی رقم واپس کر دیتے ہیں، لیکن وبائی بیماری کے بعد سے فروخت کی رفتار سست ہے۔
تنو کہتی ہیں، ’’کووڈ ہمارے لیے اچھا وقت تھا۔ بازار میں خاموشی تھی۔ ہمیں کھانے کا راشن سرکاری ٹرکوں سے ملتا تھا۔ یہاں تک کہ لوگ آ کر ماسک تقسیم کر جاتے تھے۔‘‘
سلمیٰ زیادہ وضاحت سے کہتی ہیں، ’’وبائی مرض کے بعد لوگ ہم پر زیادہ شک کرتے ہیں۔ ان کی نظروں میں نفرت ہے۔‘‘ جب بھی وہ باہر جاتے ہیں، کچھ مقامی لوگ زبانی طور پر ذات پات کی بنیاد پر گالی گلوچ کرتے ہیں۔
’’وہ ہمیں اپنے گاؤں میں نہیں رہنے دیتے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ ہماری ذات کو اتنی گالیاں کیوں دیتے ہیں۔‘‘ سلمیٰ چاہتی ہیں کہ دنیا انہیں برابر سمجھے۔ ’’روٹی تو روٹی ہے، چاہے ہمارے لیے ہو یا ان کے لیے – ہم تمام لوگ ایک ہی کھانا کھاتے ہیں۔ پھر ہم میں اور امیر لوگوں میں کیا فرق ہے؟‘‘
مترجم: شفیق عالم