اس کا ملک ایک خواب تھا۔ اس خواب کو کروڑوں نے دیکھا تھا اور اس کے لیے اپنی جان دی تھی۔ وہ بھی کچھ برسوں سے ایک خواب دیکھنے لگا تھا۔ وہ دیکھتا کہ کہیں سے ایک بھیڑ آتی اور ایک انسان کو زندہ جلا دیتی تھی، اور وہ انہیں روک نہیں پاتا تھا۔ اس بار اسے ویران سا ایک گھر نظر آیا، جس کے برآمدے میں بھیڑ لگی تھی۔ کچھ عورتیں رو رہی تھیں، کچھ آدمی بدحواس کھڑے تھے۔ سفید کپڑوں میں لپٹی دو لاشیں رکھی تھیں، اور بغل میں ایک عورت بیہوش پڑی تھی۔ ایک بچی کی آنکھیں اسے لگاتار دیکھ رہی تھیں۔ اسے لگا کہ اسے فوراً اس خواب سے باہر آ جانا چاہیے۔ خواب سے باہر آ کر اس نے دیکھا کہ جس ملک میں وہ رہتا ہے، مقتل میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ اب مشکل یہ تھی کہ اس خواب سے باہر آنا ممکن نہ تھا۔

دیویش کی آواز میں، ہندی میں یہ نظم سنیں

پرتشٹھا پانڈیہ کی آواز میں، انگریزی میں یہ نظم سنیں

۴۔
اگر گھروں کو روندتے پھرنا
یہاں کا رواج ہے
پیٹ کر مار ڈالنا
یہاں کا نظام ہے
اور، کسی کو زندہ جلا دینا
اب دستور ہے

تو یہ ملک نہیں
قبرستان ہے

۵۔
رات کی صبح نہ آئے تو ہمیں بولنا تھا
ظلم کا زور بڑھا جائے ہمیں بولنا تھا

قاتل
جب کپڑوں سے پہچان رہا تھا
کسی کا کھانا سونگھ رہا تھا
چادر کھینچ رہا تھا
گھر ناپ رہا تھا
ہمیں بولنا تھا

اس بچی کی آنکھیں، جو پتھر ہو گئی ہیں
کل جب قاتل
انہیں کشمیر کا پتھر بتائے گا
اور
پھوڑ دے گا
تب بھی
کوئی لکھے گا
ہمیں بولنا تھا

تو یہ ملک نہیں…

۱۔
ایک ہاتھ اٹھا
ایک نعرہ لگا
ایک بھیڑ چلی
ایک آدمی جلا

ایک قوم نے صرف برداشت کیا
ایک ملک نے صرف دیکھا
ایک شاعر نے صرف کہا
نظم نے موت کی خواہش کی

۲۔
کسی نے کہا،
مرے ہوئے انسان کی آنکھیں
اُلٹی ہو جاتی ہیں
کہ نہ دیکھ سکو اس کا حال
دیکھو ماضی
کسی نے پوچھا،
انسان ملک ہوتا ہے کیا؟

۳۔
دن کا سورج ایک گلی کے مہانے پر ڈوب گیا تھا
گلی میں گھومتا پھر رہا تھا رات کا سایہ
ایک گھر تھا، جس کے دروازوں پر گاد جمی تھی
ناک بند کر کے بھی نہیں جاتی تھی
جلتے بالوں، ناخنوں اور چمڑی کی بو

بچی کو اس کے پڑوسیوں نے بتایا تھا
اس کا ابا مر گیا
اس کی ماں بیہوش پڑی تھی
ایک گائے بچائی گئی تھی
دو لوگ جلائے گئے تھے

مترجم: محمد قمر تبریز

Poem and Text : Devesh

دیویش ایک شاعر صحافی، فلم ساز اور ترجمہ نگار ہیں۔ وہ پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے لیے ہندی کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Devesh
Editor : Pratishtha Pandya

پرتشٹھا پانڈیہ، پاری میں بطور سینئر ایڈیٹر کام کرتی ہیں، اور پاری کے تخلیقی تحریر والے شعبہ کی سربراہ ہیں۔ وہ پاری بھاشا ٹیم کی رکن ہیں اور گجراتی میں اسٹوریز کا ترجمہ اور ایڈیٹنگ کرتی ہیں۔ پرتشٹھا گجراتی اور انگریزی زبان کی شاعرہ بھی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Pratishtha Pandya
Painting : Labani Jangi

لابنی جنگی مغربی بنگال کے ندیا ضلع سے ہیں اور سال ۲۰۲۰ سے پاری کی فیلو ہیں۔ وہ ایک ماہر پینٹر بھی ہیں، اور انہوں نے اس کی کوئی باقاعدہ تربیت نہیں حاصل کی ہے۔ وہ ’سنٹر فار اسٹڈیز اِن سوشل سائنسز‘، کولکاتا سے مزدوروں کی ہجرت کے ایشو پر پی ایچ ڈی لکھ رہی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Labani Jangi
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique