رام لنگ چوان کے پاس انوکھا ہنر ہے جس سے ان کی بہت کم آمدنی ہوتی ہے۔ وہ زرعی مزدوروں کے ذریعے کھیتوں میں استعمال کی جانے والی درانتی بناتے ہیں۔ وہ اس کی مرمت بھی کرتے ہیں جو اتنے دنوں تک چلتی ہے جس کا ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے – وہ خود بھی پانچ عشرے سے اس کام کو کر رہے ہیں، ۱۰ سال کی عمر سے ہی، جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ ’’میں ایک دن میں ۵۰ یا ۱۰۰ روپے سے زیادہ نہیں کما پاتا،‘‘ رام لنگ بتاتے ہیں۔

ان کا تعلق مہاراشٹر کے عثمان آباد ضلع اور بلاک کے کرج کھیڑا گاؤں سے ہے۔ لیکن میں نے ان کی یہ تصویر کولہاپور ضلع کے یالگوڈ گاؤں میں کھینچی۔ انھوں نے کولہاپور- ہؑپری روڈ کے کنارے تقریباً چھ سال قبل ایک ٹینٹ لگایا تھا۔ ۶۷ سال کی عمر میں، وہ اور ان کی برادری کے متعدد لوگ، اپنے اوزار بنانے اور انھیں بیچنے کے لیے اب بھی ہر موسم میں کم از کم ۳۰۰ کلومیٹر دور ہجرت کرتے ہیں۔ یہ سفر عام طور سے ربیع یا خریف فصلوں کے موسم میں ہوتا ہے۔ بعض دفعہ، یہ سال کے دیگر مہینوں میں بھی ہوتا ہے۔

رام لنگ کا تعلق گھِساڑی برادری سے ہے، جو کہ ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے۔ یہ لوگ عرصہ قبل کاشت کاری میں استعمال ہونے والے اوزار – بیلچہ، کلہاڑی، درانتی، پھاوڑہ وغیرہ – مشینوں سے نہیں، ہاتھ سے بنا چکے ہیں۔ لیکن ان کے کام کو مشین سے بنے سامانوں، اور زراعت کی تیزی سے اختیار کرتی مشینی شکل کے ذریعہ لگاتار حاشیہ پر دھکیلا جاتا رہا ہے۔

اس تصویر اور خاکہ میں آپ کو رام لنگ کا ہاتھ نظر آ رہا ہے، جس سے وہ اپنی چھوٹی سی عارضی ’بھٹی‘ کی آگ میں درانتی کو گھما رہے ہیں۔ ’’ہمارے پاس ٹھہرنے کے لیے جگہ نہیں ہے اور اس کام سے اتنی بھی کمائی نہیں ہوتی کہ ہم روزانہ دو وقت کا کھانا کھا سکیں۔ اور ہر کوئی ہماری برادری کو نیچی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ میری حالت اتنی خستہ ہے کہ میں اب جینا بھی نہیں چاہتا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

تصویر اور خاکہ: سنکیت جین

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Sanket Jain

سنکیت جین، مہاراشٹر کے کولہاپور میں مقیم صحافی ہیں۔ وہ پاری کے سال ۲۰۲۲ کے سینئر فیلو ہیں، اور اس سے پہلے ۲۰۱۹ میں پاری کے فیلو رہ چکے ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Sanket Jain
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique