چھوی ساہا گزشتہ ۲۵ برسوں سے کاغذ کے پیکٹ بنا رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’سب سے پہلے میں ایک کاغذ کو چاقو سے تین حصوں میں کاٹتی ہوں۔ اس سے چھ ٹکڑے بن جاتے ہیں۔ پھر میں گولائی میں گوند لگاتی ہوں۔ اس کے بعد میں کاغذ کو مستطیل سائز میں موڑتی ہوں اور اس کے دوسری طرف گوند لگاتی ہوں۔ اس طرح میرا پیکٹ بن کر تیار ہو جاتا ہے۔‘‘
مٹی سے بنے اپنے دو منزلہ گھر کے برآمدے اور آنگن میں بکھرے پرانے اخباروں کے درمیان بیٹھی چھوی کام کرتے ہوئے ہم سے باتیں کر رہی ہیں۔
سال ۱۹۹۸ میں جب انہوں نے یہ کام شروع کیا تھا، تب ان کے شوہر آنند گوپال ساہا زندہ تھے۔ وہ گاؤں میں لوگوں کی گائے بکریوں کی دیکھ بھال کرکے ۵۰-۴۰ روپے روز کما لیتے تھے۔ سونڈی برادری سے تعلق رکھنے والی چھوی ساہا کہتی ہیں، ’’ہم غریب تھے۔ میں نے یہ کام اس لیے شروع کیا، تاکہ میں تھوڑا بہت کما کر اپنا پیٹ بھر سکوں۔‘‘
شروع میں وہ پڑوسیوں کے ذریعہ پھینکے گئے اخبار اکٹھا کرتی تھیں۔ مقامی پنساری کی دکانوں سے ملے کاغذوں کے بنے پیکٹ دیکھ کر انہوں نے خود اسے بنانا سیکھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں نے اس کام کا انتخاب اس لیے کیا، کیوں کہ اس کا سامان آسانی سے مل جاتا تھا اور میں گھر بیٹھے اسے کر سکتی تھی۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’شروع میں، میں آہستہ آہستہ کام کرتی تھی۔ مجھے ایک پیکٹ بنانے میں ۳۰-۲۵ منٹ تک لگ جاتے تھے۔‘‘
وہ بتاتی ہیں، ’’میں ایک دن میں تقریباً ایک کلو [لفافے] ہی بنا پاتی تھی۔‘‘
وہ یہ پیکٹ بولپور میں چاپ اور گھوگھنی بنانے والی ۹-۸ پنساری کی دکانوں اور کھانے کے چھوٹے ہوٹلوں میں پہنچاتی تھیں۔ اس کے لیے وہ ہر پندرہ روز پر بیر بھوم ضلع کے بولپور-شری نکیتن بلاک میں موجود اپنے گاؤں سے بس سے جاتی تھیں۔ وہ مزید بتاتی ہیں، پیروں میں درد کی وجہ سے ’’اب میں بولپور نہیں جا پاتی۔‘‘ اس کی بجائے وہ گاؤں میں ہی کچھ دکانوں کو اپنے پیکٹ پہنچاتی ہیں۔
دو دہائی قبل اپنے ابتدائی دنوں میں انہیں اخبار مفت مل جاتے تھے۔ چونکہ اخبار بہت مہنگے نہیں ہوتے تھے، اس لیے ان سے بنائے گئے پیکٹوں سے انہیں پیسے بھی کم ملتے تھے۔ چھوی کہتی ہیں، ’’میں [اب] ۳۵ روپے کلو کے حساب سے اخبار خریدتی ہوں۔‘‘
سال ۲۰۰۴ میں شوہر کی وفات کے وقت وہ ۵۶ سال کی تھیں۔ ان کے تینوں بیٹے شادی شدہ ہیں اور ان کے اپنے چھوٹے چھوٹے کاروبار ہیں۔ گھر کے ایک حصہ میں وہ رہتی ہیں اور دوسرے میں ان کا سب سے چھوٹا بیٹا سُکمار ساہا اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے۔ ان کے دو بڑے بیٹے وہاں سے چھ کلومیٹر دور بولپور قصبے میں رہتے ہیں۔
چھوی ساہا نے شروعات ردّی اخبار اکٹھا کرنے سے کی تھی۔ مقامی پنساری کی دکانوں سے ملے لفافے دیکھ کر انہوں نے کاغذ کے لفافے بنانا سیکھا
ان کا دن صبح ۶ بجے شروع ہو جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں جاگ کر اپنے کام کرتی ہوں۔ اس کے بعد، میں ۹ بجے کے آس پاس کاغذ کاٹنے بیٹھتی ہوں۔‘‘ دوپہر کا کھانا بنانے اور کھانے کے بعد وہ تھوڑی دیر آرام کرتی ہیں۔
شام کو وہ گاؤں کی دوسری عورتوں سے ملنے جاتی ہیں۔ لوٹنے کے بعد وہ پھر سے پیکٹ بنانے بیٹھتی ہیں، کاغذوں میں گوند لگاتی ہیں۔ پیکٹ بنانے کے لیے ان کے دن کا کوئی وقت مقرر نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب بھی مجھے وقت ملتا ہے، تب یہ کام کرتی ہوں۔‘‘ اکثر اپنے گھریلو کام کاج کے درمیان وہ اس کام کا ایک دور پورا کر لیتی ہیں۔
مثال کے طور پر کھانا پکاتے وقت وہ باہر جاتی ہیں اور گوند لگے کاغذ کو سُکھانے کے لیے برآمدے اور احاطے میں ڈال آتی ہیں۔ ’’ایک بار جب گوند کا کام ختم ہو جاتا ہے، تو میں انہیں دھوپ میں پھیلا دیتی ہوں۔ سوکھ جانے کے بعد میں ان کی تہہ بناتی ہوں، ان کا وزن کرتی ہوں، باندھتی ہوں اور پھر دکانوں پر لے جاتی ہوں۔‘‘
چھوی، راشن کی دکان سے ملے آٹے کو پکا کر اپنا گوند خود بناتی ہیں۔
وہ ہمیں بتاتی ہیں، ’’ہفتے میں دو بار جا کر مجھے ایک کلو وزن کے پیکٹ دکانوں پر دینے ہوتے ہیں۔‘‘ یہ سبھی دکانیں ان کے گھر سے ۶۰۰ میٹر کے دائرے میں موجود ہیں، اس لیے وہ وہاں تک پیدل ہی چلی جاتی ہیں۔ ’’میں ایک کلو میں ۲۲۰ پیکٹ بناتی ہوں۔‘‘ انہیں ایک کلو پیکٹ کے عوض ۶۰ روپے ملتے ہیں، اور ایک مہینہ میں تقریباً ۱۰۰۰-۹۰۰ روپے تک کی کمائی ہو جاتی ہے۔
مگر چھوی کے کاغذ کے پیکٹ بنانے کے دن اب کچھ ہی بچے ہیں: ’’لوگ اب اخبار نہیں پڑھتے۔ وہ ٹی وی اور موبائل پر خبریں دیکھ لیتے ہیں۔ اس لیے [پیکٹ بنانے کے لیے] اخباروں کی کمی ہو گئی ہے۔‘‘
رپورٹر کی طرف سے ویڈیو میں تعاون کے لیے تشیا گھوش کا شکریہ۔
مترجم: محمد قمر تبریز