طارق احمد (۳۷) نے بطور ٹیچر پرائمری اسکول کے بچوں کو ۱۰ سال تک پڑھایا ہے۔ وہ ۲۰۰۹ سے ۲۰۱۹ تک مرکزی حکومت کی طرف سے چلائی جا رہی سمگر شکشا اسکیم کے ساتھ ایک تعلیمی رضاکار کے طور پر جڑے ہوئے تھے۔ انہیں دراس کے بالائی علاقوں میں اُن بکروال خاندانوں کے بچوں کو پڑھانے کے لیے مامور کیا گیا تھا، جو اپنی بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے لداخ لے جاتے ہیں۔
لیکن ۲۰۱۹ میں، ریاست کو جموں و کشمیر اور لداخ کے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیے جانے کی وجہ سے وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کا گھر راجوری ضلع کے کالاکوٹ میں ہے، اور جموں و کشمیر کا باشندہ ہونے کی وجہ سے وہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر کے باہر کے بچوں کو پڑھانے کے اہل نہیں ہیں۔
’’جب سے دو الگ الگ یو ٹی (مرکز کے زیر انتظام علاقے) بنائے گئے ہیں، ہمارے بچوں کے لیے تعلیمی نظام تباہ ہو چکا ہے،‘‘ طارق کہتے ہیں، جو خانہ بدوش چرواہوں کے بچوں کو فراموش کر دینے کا ذمہ دار حکام کو ٹھہراتے ہیں۔
کالاکوٹ کے بتھیرا گاؤں کے سرپنچ شمیم احمد بجران کہتے ہیں، ’’کرگل ضلع میں زیرو پوائنٹ سے لے کر دراس تک کے اس علاقے میں ہمارے لیے نہ تو کوئی موبائل اسکول ہے اور نہ ہی سیزنل ٹیچر۔ ہمارے بچے دن بھر گھومتے رہتے ہیں یا پھر کھانے کے لیے مقامی لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔‘‘
بکروال کمیونٹی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کے اندر مہاجرین کے لیے ہزاروں عارضی اسکول ہیں، لیکن مئی سے اکتوبر تک جب وہ چھ مہینے کے لیے لداخ کی طرف چلے جاتے ہیں، تو اُس دوران اُن کے بچے اسکول نہیں جا پاتے۔ ان چھ مہینوں میں اسکول سے دور رہنے کی وجہ سے یہ بچے اپنے ہم جماعتوں سے پڑھائی میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ درج فہرست قبائل کے بارے میں سال ۲۰۱۳ کی ایک رپورٹ کے مطابق، بکروال کمیونٹی کے درمیان شرح خواندگی ۳۲ فیصد ہے، جو کہ ریاست کے تمام قبائل میں سب سے کم ہے۔
’’اگر ہمارے بچے پڑھنا چاہیں تو بھی ہم ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ مہاجرت کے دوران اُن کی تعلیم کا سلسلہ رک جاتا ہے کیوں کہ قریبی اسکول یہاں سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر دور ہے،‘‘ پانچ سالہ حذیف اور تین سالہ شعیب کے والد امجد علی بجران کہتے ہیں۔ اُن کی فیملی مینا مرگ سے دراس تک ۱۶ بکروال خاندانوں کی بستی کا ایک حصہ ہے۔
’’راجوری سے ہجرت کرتے وقت ہمیں اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جانا پڑتا ہے کیوں کہ ہمارے لیے ۶-۵ مہینے تک اپنی فیملی کے بغیر رہنا ممکن نہیں ہے،‘‘ ۳۰ سالہ چرواہے امجد علی کہتے ہیں۔
ریاست کا کہنا ہے کہ وہ ان اسکولوں کا انتظام تبھی کر سکتے ہیں جب علاقے کے تعلیمی افسران اپنی رپورٹ درج کرائیں۔ لیکن، ’’چونکہ خانہ بدوش گروپ ہماری حدود سے آگے [کشمیر سے لداخ کے کرگل میں] نکل چکے ہوتے ہیں، اس لیے لداخ میں کرگل کے چیف ایجوکیشن آفیسرز (سی ای او) کا جموں و کشمیر کے شہریوں کے معاملے میں کوئی انتظامی کنٹرول نہیں ہوتا،‘‘ ڈاکٹر دیپ راج کنیٹھیا کہتے ہیں۔ وہ سمگر شکشا، محکمہ اسکولی تعلیم کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ ’’ریاست کو دو الگ الگ مرکز کے زیر انتظام علاقوں ( یو ٹی) میں تبدیل کر دیے جانے کے بعد سے کرگل میں تعلیم سے متعلق ہمارا کوئی انتظامی کنٹرول نہیں رہ گیا ہے۔‘‘
تعلیم کی سالانہ صورتحال سے متعلق رپورٹ (دیہی ۲۰۲۲) کے مطابق، سال ۲۰۲۲ میں جموں و کشمیر کے سرکاری اسکولوں میں ۵ء۵۵ فیصد بچوں کا اندراج تھا، جو کہ ۲۰۱۸ کے ۳ء۵۸ فیصد اندراج سے کم ہے۔
سرپنچ شمیم کا کہنا ہے کہ لداخ کے کرگل خطہ میں مہاجرت کرنے والے خانہ بدوش بچوں کو پڑھانے کے لیے جموں و کشمیر حکومت نے چھ موسمی اساتذہ (سیزنل ٹیچرز) کی تقرری کی ہے، لیکن زمینی سطح پر کوئی بھی ٹیچر دستیاب نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’یہ ٹیچر مہاجرت کا موسم ختم ہونے کے وقت آتے ہیں اور جس کام کو انہوں نے کبھی نہیں کیا، اس کی تنخواہ حاصل کرنے کے لیے ڈیوٹی روسٹر پر متعلقہ سی ای او سے دستخط کروا کر لے جاتے ہیں۔‘‘
امجد کہتے ہیں، ’’ہم لاچار ہیں، اسی لیے ہمارے بچے بھی آخر میں یا تو مویشی چراتے ہیں یا پھر مزدوری کا کوئی دوسرا کام کرتے ہیں۔ کون نہیں چاہتا کہ اس کے بچے تعلیم حاصل کریں اور اپنا مستقبل بنائیں؟‘‘
خوش قسمتی سے امجد اور ان کے جیسے دیگر خانہ بدوش چرواہوں کے بچوں کے درمیان طارق جیسے تربیت یافتہ استاد موجود ہیں۔ حالانکہ، طارق اب سمگر شکشا اسکیم کے تحت ملازم نہیں ہیں، پھر بھی انہوں نے مینا مرگ میں بکروالوں کے بچوں کو پڑھانا بند نہیں کیا ہے، جو انگریزی، ریاضی، سائنس اور اردو سیکھ رہے ہیں۔ وہ خود ایک بکروال ہیں اور کہتے ہیں، ’’اپنی کمیونٹی کے ان بچوں کو پڑھانا میرا فرض ہے۔ اس سے مجھے خوشی اور سکون بھی ملتا ہے۔‘‘
چونکہ وہ اب تنخواہ دار ٹیچر نہیں ہیں، اس لیے مویشی بھی چراتے ہیں۔ وہ صبح میں ۱۰ بجے گھر سے نکلتے ہیں اور شام کو ۴ بجے لوٹتے ہیں۔ طارق کی فیملی کے پاس ۶۰ مویشی ہیں، جن میں بھیڑ بکریاں دونوں شامل ہیں – اور یہاں وہ اپنی بیوی اور بیٹی رفیق بانو کے ساتھ آئے ہوئے ہیں۔
اس نوجوان ٹیچر کا تعلیمی سفر بھی چیلنجز سے خالی نہیں تھا۔ اپنے اسکول کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ’’میں سرینگر آ کر اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہنے لگا تھا، تاکہ بغیر کسی بڑے وقفے کے اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکوں۔‘‘ اس کے بعد طارق نے سال ۲۰۰۳ میں سرینگر کے صورہ میں واقع گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری اسکول سے ۱۲ویں جماعت تک کی تعلیم مکمل کی۔
بکروال کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے طارق کو لگتا ہے کہ یہ کمیونٹی کو واپس لوٹانے کا وقت ہے۔ ’’ابا یہاں پر ہمیں تمام سبجیکٹ پڑھاتے ہیں، لیکن اسکول میں ہر سبجیکٹ کے لیے ہمارے الگ الگ ٹیچر ہیں،‘‘ رفیق بانو کہتی ہے، جو ۱۰ سال کی ہے اور راجوری ضلع کی کالاکوٹ تحصیل میں واقع پنیہار گاؤں کے جے اینڈ کے گورنمنٹ گرلز مڈل اسکول میں ۶ویں جماعت میں پڑھتی ہے۔
وہ مزید کہتی ہے، ’’میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک ٹیچر بننا چاہتی ہوں، تاکہ ابا کی طرح میں بھی ان بچوں کو پڑھا سکوں۔ یہاں کوئی ٹیچر نہیں ہے اس لیے میں ٹیچر بنوں گی اور انہیں پڑھاؤں گی۔‘‘
اس لیے جو بچے بصورت دیگر کھیلوں میں اپنے دن گزار رہے ہوتے یا پھر پہاڑوں پر ادھر ادھر گھوم رہے ہوتے، اب طارق کے ساتھ کچھ گھنٹے بیٹھ کر پڑھائی کرتے ہیں۔ جب اس رپورٹر نے جولائی میں ان سے ملاقات کی تھی، تب یہ بچے کتابوں کے مطالعہ میں مصروف تھے۔ اُس وقت طارق، درختوں کی قطار سے اوپر اس بالائی علاقہ مینا مرگ میں اپنے گھروں کے قریب ایک سایہ دار جگہ پر بیٹھ کر پڑھائی کر رہے ۳ سے ۱۰ سال کی عمر کے ۲۵ بچوں کے گروپ پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے۔
’’میں یہاں موجود ہوں تاکہ یہ بچے پڑھائی کر سکیں، لیکن اونچے علاقوں میں دوسرے بچے بھی ہیں، ان کا کیا ہوگا؟ انہیں کون پڑھائے گا؟‘‘ طارق پوچھتے ہیں، جو بچوں کو پڑھانے کے لیے کوئی فیس نہیں لیتے۔
کرگل، حال ہی میں (۲۰۱۹) اعلان کردہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ میں واقع ہے۔ پہلے یہ علاقہ ریاست جموں و کشمیر کا حصہ تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز