کڈلور بندرگاہ پر جب انہوں نے مچھلیوں کا اپنا کاروبار شروع کیا تھا، تب ان کی عمر صرف ۱۷ سال تھی۔ سرمایہ کی شکل میں ان کی جیب میں صرف ۱۸۰۰ روپے تھے، جو ان کی ماں نے کاروبار شروع کرنے کے لیے دیے تھے۔ ۶۲ سالہ وینی، آج بندرگاہ کی ایک کامیاب نیلامی لگانے والی اور مچھلی فروش ہیں۔ جتنی مشکلیں برداشت کرتے ہوئے انہوں نے اپنا گھر بنایا تھا، اتنی ہی جدوجہد کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کاروبارکو بھی دھیرے دھیرے کھڑا کیا۔

اپنے شرابی شوہر کے چھوڑنے کے بعد، وینی نے تن تنہا اپنے چاروں بچوں کی پرورش کی۔ ان کی یومیہ آمدنی کم تھی، اس لیے بڑی مشکلوں سے ان کا گزارہ چل پاتا تھا۔ مچھلی پکڑنے کے لیے جیسے ہی رنگ سین جالیوں کا استعمال شروع ہوا، وینی نے لاکھوں روپے کا قرض لے کر اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور کشتیوں پر اپنا سرمایہ لگایا۔ اسی سرمایہ کاری کی بدولت انہیں جو آمدنی حاصل ہوئی، اس سے انہوں نے اپنے بچوں کو پڑھایا اور اپنا گھر بنایا۔

رنگ سین تکنیک سے مچھلی پکڑنے کا سلسلہ کڈلور بندرگاہ پر ۱۹۹۰ کی دہائی کے آخر میں مقبولیت حاصل کرنے لگا تھا، لیکن سال ۲۰۰۴ میں سونامی آنے کے بعد اس کے استعمال میں اچانک تیزی آئی۔ رنگ سین تکنیک میں سارڈن، بانگڑہ اور اینکو ویز جیسی سمندری مچھلیوں کو گھیر کر پکڑنے والی جال کا استعمال کیا جاتا ہے۔

ویڈیو دیکھیں: ’آج میں جس مقام پر ہوں، اپنی محنت کی وجہ سے ہوں‘

زیادہ پونجی لگانے اور کام کرنے والے مزدوروں کی ضرورت کے سبب، چھوٹے ماہی گیروں نے شیئر ہولڈرز کا ایک گروپ بنایا، جو لاگت اور آمدنی دونوں کو آپس میں یکساں طور پر تقسیم کرتے ہیں۔ اس طرح وینی ایک سرمایہ کار بن گئیں اور انہوں نے اپنے کاروبار کو آگے بڑھایا۔ رنگ سین کشتیوں کے آنے کے بعد، مچھلیوں کی نیلامی لگانے والے، انہیں فروخت کرنے والے، اور مچھلیاں سُکھانے والے کارکنوں کے طور پر عورتوں کے لیے کام کے نئے راستے کھل گئے۔ وینی کہتی ہیں، ’’رنگ سین کی بدولت سماج میں میری حیثیت بڑھی ہے۔ میں ایک ہمت ور خاتون بن گئی، اور اس لیے کامیاب ہو پائی۔‘‘

حالانکہ، کشتیوں میں مچھلی پکڑنے تو مرد ہی جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی یہ کشتیاں بندرگاہ پر پہنچتی ہیں، عورتیں تیزی سے کام پر لگ جاتی ہیں۔ مچھلیوں کی نیلامی سے لے کر، مچھلی کو کاٹنے اور سُکھانے اور کچرا صاف کرنے تک، اور یہاں تک کہ چائے بنانے سے لے کر کھانا پکانے تک کا سارا کام عورتیں کرتی ہیں۔ حالانکہ، ماہی گیر خواتین کو عموماً مچھلی فروش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں، جو مچھلی کے اس کاروبار کو سنبھالتی ہیں اور اکثر ماہی فروشوں کے ساتھ شراکت دار کے طور پر کام کرتی ہیں۔ لیکن اتنا کام کرنے کے بعد بھی مچھلیوں کے اس کاروبار میں، عورتوں کے تعاون اور ان کے کام کی کثرت اور اہمیت دونوں کو کم کرکے دیکھا جاتا ہے۔

ویڈیو دیکھیں: کڈلور میں مچھلیاں سنبھالنا

وینی جیسی عورتوں کے لیے، اور یہاں تک کہ بھانو جیسی نوجوان خواتین کے لیے بھی ان کی آمدنی ان کی فیملی کا بنیادی سہارا ہے۔ لیکن انہیں لگتا ہے کہ ان کے کام کو سماجی سطح پر عزت نہیں ملتی اور انہیں کم اہمیت دی جاتی ہے۔ بالواسطہ اور بلا واسطہ، ان کا دونوں طرح کا تعاون بالکل صفر مانا جاتا ہے۔

سال ۲۰۱۸ میں، تمل ناڈو حکومت نے رنگ سین تکنیک اور جال پر پابندی لگا دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے چھوٹی مچھلیوں سمیت، ضرورت سے زیادہ مقدار میں مچھلیاں پکڑی جا رہی ہیں، اور سمندر کے اندر کی ماحولیات پر اس کا اثر پڑ رہا ہے۔ اس پابندی نے وینی اور ان کے جیسی دیگر خواتین کے معاش کو ختم کر دیا۔ پہلے جہاں وہ دن بھر میں ایک لاکھ تک کی کمائی کر لیتی تھیں، اب ان کی آمدنی گھٹ کر ۸۰۰ سے ۱۲۰۰ روپے یومیہ ہو گئی ہے۔ وینی کہتی ہیں، ’’رنگ سین پر پابندی کے سبب میرا تقریباً ایک کروڑ روپے کا نقصان ہو گیا۔ اس سے صرف میں ہی نہیں، بلکہ لاکھوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔‘‘

اتنے اتار چڑھاؤ کے باوجود، یہ عورتیں کام میں لگی رہتی ہیں، مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتی ہیں، یکجہتی بنائے رکھنے کے لیے وقت نکالتی ہیں، اور شکست نہیں مانتیں۔

وینی کی کہانی کو منظر عام پر لانے والی فلم کو تارا لارینس اور نکولس باٹس کے تعاون سے لکھا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مچھلیوں کی باقیات پر گزارہ کرنے والی ’پُلی‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Nitya Rao

नित्या राव नॉरविक, इंग्लंड येथील युनिवर्सिटी ऑफ ईस्ट आंग्लिया येथे लिंगभाव व विकास विषयाच्या प्राध्यापक आहेत. स्त्रियांचे हक्क, रोजगार आणि शिक्षण क्षेत्रात गेली तीस वर्षे त्या संशोधन, शिक्षण आणि समर्थनाचे कार्य करत आहेत.

यांचे इतर लिखाण Nitya Rao
Alessandra Silver

अलेसांड्रा सिल्वर ऑरोविलस्थित चित्रपटकर्ती आहेत. इटलीत जन्मलेल्या अलेसांड्रा यांचे आफ्रिकेतील चित्रपट आणि छायाचित्रण यासाठी त्यांना अनेक पुरस्कार मिळाले आहेत.

यांचे इतर लिखाण Alessandra Silver
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पारीचे ऊर्दू अनुवादक आहेत. ते दिल्ली स्थित पत्रकार आहेत.

यांचे इतर लिखाण Qamar Siddique