اپنے باورچی خانہ کے درمیانی حصہ میں بنے مٹی کے ایک موٹے چبوترہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مونجیت رائیسونگ کہتے ہیں، ’’یہاں ہمارے اسلاف کی روحیں قیام کرتی ہیں۔‘‘ ان کے باورچی خانہ کی چھت، دیواریں اور فرش سبھی بانس کی لکڑی سے بنے ہیں۔
خاکستری رنگ کا یہ چبوترہ ایک فٹ لمبا ہے، اور اس کے اوپر جلانے والی لکڑی رکھی ہوئی ہے؛ اس کے نیچے کھانا پکایا جاتا ہے۔ مونجیت مزید بتاتے ہیں، ’’اسے ’ماروم‘ کہتے ہیں اور یہ ہمارے لیے مقدس ہے۔ میسنگ برادری کے لیے یہ بہت معنی رکھتا ہے۔‘‘
آج رات کی دعوت کی میزبانی مونجیت اور ان کی بیوی نین مونی رائیسونگ مل کر کر رہے ہیں۔ دعوت میں میسنگ برادری کے روایتی پکوان والی خاص تھالی شامل ہے۔ میاں بیوی کا تعلق میسنگ برادری سے ہے (جو آسام میں درج فہرست قبائل میں شامل ہے)۔ وہ آسام کے ماجولی جزیرہ کے ایک شہر گرمور میں واقع اپنے گھر سے رائیسونگ کا باورچی خانہ چلاتے ہیں۔
ماجولی، برہم پتر ندی کے کنارے آباد ہے اور آس پاس کے تقریباً ۳۵۲ مربع کلومیٹر میں پھیلا ہندوستان کا سب سے بڑا ندی پر بنا جزیرہ ہے۔ جزیرہ پر دور دور تک سبز دھان کے کھیت، چھوٹی چھوٹی جھیلیں، جنگلی بانس اور دلدلی نباتات موجود ہیں۔ گھروں کو بھاری بارش اور سیلاب کا سامنا کر پانے کے لیے بانس کے لٹھوں پر اونچا کرکے بنایا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ سارس، کنگ فشر اور بینگنی مورہین جیسے مہاجر پرندوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ قدرتی خوبصورتی سے مالامال اس ضلع میں ہر سال دنیا بھر کے سیاح بڑی تعداد میں آتے ہیں۔
مونجیت (۴۳ سالہ) اور نین مونی (۳۵ سالہ) کا معاش پوری طرح سے سیاحوں پر منحصر ہے۔ اس علاقہ میں وہ رائزنگ ، لا میسن دے آنندا اور انچینٹیڈ ماجولی نام کے تین ہوم اسٹے (میزبان کے گھر میں ہی سیاحوں کے رکنے کا انتظام) چلانے میں مدد کرتے ہیں۔ ’رائیسونگ کا باورچی خانہ‘ کی ایک دیوار پر دنیا بھر کی کرنسی فریم کرکے لگائی گئی ہے۔
یہاں کھانا کھانا اپنے آپ میں ایک انوکھا تجربہ ہے۔ یہاں باورچی خانہ اور ڈائنگ ٹیبل کے درمیان کے فاصلہ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اکثر ماروم کے ارد گرد بات چیت چلتی رہتی ہے، جہاں تقریباً سارا کھانا پکایا جاتا ہے۔ چولہے سے نکلنے والے دھوئیں کے باوجود، اس اچھے ہوادار باورچی خانہ میں کبھی گھٹن محسوس نہیں ہوتی۔
نین مونی رات کے کھانے کے لیے مچھلی، مرغ، تازہ ایل مچھلی، ساگ، بینگن، آلو اور چاول اکٹھا کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میسنگ برادری کے لوگ کھانا پکانے میں ادرک، پیاز اور لہسن جیسے بہت سارے کچے مسالوں کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ہم زیادہ مسالہ نہیں کھاتے ہیں۔ ہم اپنے کھانے کو ابال کر اور بھاپ میں ہی پکاتے ہیں۔‘‘
کچھ ہی دیر بعد، وہ کچھ مسالوں کو مِکسی میں ڈال کر پیستی ہیں اور بچے ہوئے مسالے چولہے پر چڑھی کڑھائی میں ڈال کر بھوننے لگتی ہیں۔ وہ مسالوں کو بہت احتیاط سے بھون رہی ہیں۔ آہستہ آہستہ باورچی خانہ میں جڑی بوٹیوں اور مسالوں کی خوشبو پھیلنے لگتی ہے۔
کھانا بنانے کے دوران، ’اپونگ‘ نام کا مشروب پتیل کے گلاس میں پیش کیا جاتا ہے۔ ’اپونگ‘ ایک قسم کا روایتی ’میسنگ‘ مشروب ہے، جس کا ذائقہ ہلکا مسالہ دار اور میٹھا ہوتا ہے۔ یہ اپونگ مونجیت کی بھابھی جونالی رائیسونگ نے بھیجا ہے، جو بغل والے گھر میں رہتی ہیں۔ آپ اس مشروب کے بارے میں اور اسے بنانے کے طریقے کے بارے میں یہاں پڑھ سکتے ہیں: ماجولی میں بننے والی میسنگ کمیونٹی کی بیئر
سبزیوں اور مچھلیوں کو چھیلنے، کاٹنے اور مسالوں کو بھوننے کے ساتھ ساتھ، بیچ بیچ میں نین مونی لکڑی کی آگ پر بھی نظر رکھتی ہیں۔ کھانا بناتے وقت آنچ کم نہ رہے، اس لیے اسے برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ چکن (مرغ) پکانے کی تیاری اب مکمل ہو چکی ہے اور اب اسے بس بھاپ پر پکایا جانا ہے۔ ماروم کے اوپر ایک مچان بنا ہوا ہے، جسے ’پراپ‘ کہتے ہیں۔ اس کا استعمال سوکھی لکڑیوں، اور مچھلیوں کی افزائش کے دنوں میں مچھلیوں کو سُکھا کر رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ مونجیت کہتے ہیں، ’’اپریل، مئی اور جون میں ہم مچھلی نہیں پکڑ سکتے۔ تب مچھلیوں کی افزائش کا وقت ہوتا ہے اور ہم ضرورت سے زیادہ مچھلی نہیں کھاتے۔‘‘
کچن-ڈنر روم، اس روایتی ’میسنگ‘ کاٹیج (جھونپڑی) کا حصہ ہے۔ اس کاٹیج کا نام ’چانگ گھر‘ ہے۔ یہ کنکریٹ اور بانس کے لٹھوں پر بنا ہے اور زمین سے دو فٹ اوپر اٹھا ہوا ہے۔ سیلاب کے پانی کو دور رکھنے کے لیے، ماجولی کے زیادہ تر گھروں میں حفاظتی نقطہ نظر سے گھر کو زمین سے کچھ فٹ اوپر رکھا جاتا ہے۔
سیلاب کے دوران کھانا بدل جاتا ہے۔ مونجیت کہتے ہیں، ’’سیلاب کے دوران، سبزیاں کم ہوتی ہیں۔ سردی، سبزیوں کا موسم ہے۔ ان دنوں ہم بہت ساری سبزیاں کھاتے ہیں۔‘‘
لکڑی کی آگ دھیمی ہو رہی ہے۔ مونجیت اپنی بیوی کی مدد کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں اپنے سر پر بوجھ اٹھا کر پہاڑ چڑھ سکتا ہوں، لیکن کھانا نہیں پکا سکتا!‘‘ وجہ پوچھنے پر وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’مجھے اس میں مزہ نہیں آتا۔ میسنگ برادری میں، ۹۹ فیصد کھانا عورتیں ہی پکاتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر جواہر جیوتی کُلی کے ذریعے لکھی گئی کتاب فوک لٹریچر آف دی میسنگ کمیونٹی کے مطابق، اس برادری میں عام طور پر خواتین ہی کھانا پکاتی ہیں۔ اس کتاب میں برادری کے رسم و رواج کا ذکر ملتا ہے، جسے اس کمیونٹی کی زبانی اور تحریری روایت کی مدد سے لکھا گیا ہے۔ دیگر کاموں کے علاوہ، میسنگ خواتین کھانا پکانے اور بُنائی کرنے میں ماہر ہوتی ہیں۔ برادری کے مرد اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ تب تک کھانا نہیں بناتے، جب تک کہ بہت ضروری نہ ہو۔
لیکن مونجیت اور نین مونی نے مل کر کام کو اس طرح بانٹا ہے، جو دونوں کے لیے بالکل صحیح بیٹھتا ہے۔ رائیسونگ کچن میں، مونجیت اپنی بیوی نین مونی کو ’دی باس‘ کہتے ہیں۔ جہاں نین مونی کھانا پکاتی ہیں، وہیں مونجیت ’ہوم اسٹے‘ میں مہمانوں کا خیال رکھتے ہیں۔ جیسے جیسے شام ڈھلتی ہے، مونجیت اپنے ہوم اسٹے میں آئے مہمانوں کا خیال رکھنے کے لیے اندر باہر آتے جاتے رہتے ہیں۔
*****
میسنگ برادری کی روایتی تھالی تیار کرنا تھوڑا مشکل کام ہے۔ نین مونی ڈھائی گھنٹے سے زیادہ وقت سے چولہے، لکڑی کی آگ اور سِنک کا چکر لگا رہی ہیں۔ ماروم پر کھانا دھیمی آنچ پر پکتا ہے، لیکن دھواں اٹھنے کے دوران مہمان کھانا بنانے کے پورے عمل کو دیکھ پاتے ہیں کہ کیسے آگ میں کھانا پک رہا ہے۔
آپ یہ تھالی مہینہ میں کتنی بار تیار کرتی ہیں؟ وہ کہتی ہیں، ’’کسی کسی مہینے ایک بار، تو کبھی کبھی ایک بار بھی نہیں۔‘‘ حالانکہ، کووڈ سے پہلے، وہ اکثر اس روایتی تھالی کو تیار کرتی تھیں۔ سال ۲۰۰۷ میں ان کی شادی ہوئی تھی، اور تب سے وہ یہ کام کر رہی ہیں۔
مونجیت لکڑی کی آگ کی طرف دیکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’مجھے پہلی نظر میں ہی پیار ہو گیا تھا۔‘‘
پھر وہ قہقہہ لگاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’شاید مجھے پیار ہونے میں ۳۰ منٹ لگ گئے تھے۔‘‘
بغل میں مچھلی کاٹ رہی نین مونی ہنستی ہیں اور ان کی پیٹھ پر تھپکی مارتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہاں، بس ۳۰ منٹ لگا تھا نا!‘‘
مونجیت اپنی بیوی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’صحیح کہہ رہی ہے۔ بس دو دن میں ہمیں پیار ہو گیا۔ اس کے بعد ہم ندی کے پاس چھپ چھپ کر ملتے اور ساتھ میں وقت گزارتے۔ کیا زمانہ تھا وہ!‘‘ دونوں کی پہلی ملاقات ۲۰ سال پہلے ہوئی تھی۔ ان کے دو بچے ہیں – نوخیز عمر کی بیٹی ببلی، اور ایک چھوٹی بچی باربی۔
نین مونی آخری پکوان، ایل مچھلی پکا رہی ہیں۔ ایل کو ملک کے اس حصہ میں بڑے مزے سے کھایا جاتا ہے۔ ’’عام طور پر، ہم ایل کو کچے بانس میں پکاتے ہیں، کیوں کہ اس سے ذائقہ بڑھ جاتا ہے۔ آج ہمارے پاس کچا بانس نہیں تھا، تو ہم نے ایل کو کیلے کے پتّے میں بھاپ دے کر پکایا ہے۔‘‘
آپ نے یہ بنانا کیسے سیکھا؟ وہ کہتی ہیں، ’’مونجیت کی ماں دیپتی نے مجھے سکھایا تھا۔‘‘ دیپتی رائیسونگ ابھی وہاں نہیں ہیں۔ وہ اپنی بیٹی سے ملنے پاس کے ایک گاؤں گئی ہیں۔
آخر میں، وہ وقت آ گیا جس کا سب کو انتظار تھا۔ سبھی بانس سے بنی اپنی اپنی پیڑھی (چھوٹا اسٹول) اٹھاتے ہیں اور رسوئی کے ایک کونے میں رکھی بانس کی لمبی میز پر بیٹھ جاتے ہیں۔
آج کے کھانے میں مچھلی اور آلو کے ساتھ بنی میٹھی اور کھٹی کری، کیلے کے پتّوں میں ابلی ہوئی ایل، تلی ہوئی سبزیاں، بھاپ میں پکا چکن (کُکُر کھوریکا)، بینگن یا ’بینگن بھاجا‘ اور کیلے کے پتّوں میں رکھے ابلے ہوئے چاول ہیں، جنہیں ’پورنگ اپِن‘ کہا جاتا ہے۔ چٹپٹے ذائقہ والی کری، بھاپ میں پکا ہوا مرغ اور لذیذ چاول اس کھانے کو بہترین بنا دیتے ہیں۔
ہر تھالی کی قیمت ۵۰۰ روپے ہے۔
نین مونی آج پوری طرح تھک گئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس قسم کی تھالی تیار کرنا بہت محنت کا کام ہے۔ کچھ دنوں بعد، ۳۵ لوگ دوپہر کے کھانے کے لیے آ رہے ہیں اور مجھے ان کے لیے کھانا پکانا ہے۔‘‘
دن بھر کی کڑی محنت کے بعد، اب وہ جورہاٹ جانے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ جورہاٹ، ندی کے اُس پار ایک بڑا شہر ہے، جہاں روزانہ فیری (کشتی) سے پہنچا جا سکتا ہے۔ وبائی مرض کے سبب، وہ تین سال سے وہاں نہیں گئی ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’جورہاٹ جا کر میں تھوڑی خریداری کروں گی اور کسی ریستوراں میں کھانا کھاؤں گی، جہاں کوئی اور کھانا پکا کر کھلائے گا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز