اوم پرکاش چوہان (۵۲) کہتے ہیں، ’’اس قدامت پرست معاشرے میں، خواتین اداکاروں کا کردار نبھانے والے ایک [مرد] اداکار کی زندگی بہت مشکل ہوتی ہے۔‘‘ اوم پرکاش نے ۸۰۰۰ سے زیادہ دشاوتار ناٹکوں میں ۳۵ سے زیادہ برسوں تک خواتین کے رول کیے ہیں۔
دشاوتار، جنوبی مہاراشٹر اور شمالی گوا کی مذہبی ڈرامے کی ایک شکل ہے، جو کم از کم ۵۰۰ سال پرانی ہے۔ یہ فن بھگوان وشنو کے ۱۰ اوتاروں – متسیہ (مچھلی)، کورم (کچھوا)، وراہ (خنزیر)، نرسنگھ (شیر-مرد)، وامن (بونا)، پرشورام، رام، کرشن (یا بلرام)، بدھ اور کلکی کے بارے میں کہی گئی مذہبی کہانیوں پر مبنی ہے۔ ناٹک تقریباً پوری طرح سے غیر تحریر شدہ ہوتے ہیں اور بغیر تیاری کے کئی گھنٹے تک پیش کیے جاتے ہیں۔ عام طور پر موسمی کسانوں اور مزدوروں کے ذریعے اس کے سارے کردار نبھائے جاتے ہیں۔ روایتی طور پر، ان کی پیشکش مندروں کے اندر ہوتی ہے – اور صرف مردوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔
ہر سال اکتوبر میں، دھان کی فصل کٹنے کے فوراً بعد، دشاوتار تھیٹر کمپنیاں مہاراشٹر کے سندھو دُرگ ضلع اور شمالی گوا کے کچھ حصوں کا دورہ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ مندر انہیں گاؤں کے دیوتا کے لیے نکالی جانے والی سالانہ جاترا (میلہ) میں اسٹیج شو کرنے کے لیے کانٹریکٹ دیتے ہیں، جہاں آنے والے ناظرین عام طور سے مقامی باشندے اور ممبئی میں کام کرنے والے مہاجر مزدور ہوتے ہیں۔ کمپنیوں میں تقریباً ۱۵ ممبر ہوتے ہیں – ۸ سے ۱۰ اداکار، تین موسیقی کار، اور دو باورچی – اور وہ ہر ایک سیزن (اکتوبر سے مئی تک) میں تقریباً ۲۰۰ ناٹک کرتے ہیں۔
کبھی کبھی کمپنیوں کو لوگوں کے گھروں میں شو کرنے کے لیے بھی مدعو کیا جاتا ہے، جہاں کردار مذہبی ہوتے ہیں، لیکن کہانیاں خیالی ہوتی ہیں۔ مندروں میں ہونے والی پیشکش سنسکرت زدہ مراٹھی میں ہوتی ہے، جب کہ لوگوں کے گھروں میں پرفارم کیے جانے والے ناٹک مقامی مال وَنی بولی میں ہوتے ہیں۔
سال ۲۰۱۴ سے، میں نے یکشنی دشاوتار کمپنی اور پارسیکر کمپنی کی تصویریں ان کے تمام گاؤوں کے دورے کے دوران کھینچی ہیں۔ ان کے پروگرام نصف شب سے شروع ہو کر طلوع آفتاب تک چلتے تھے۔ لوگ فیملی سمیت ناٹک دیکھنے آتے، اور یہاں تک کہ چھوٹے بچے بھی ناٹک دیکھنے کے لیے جگے رہتے۔ ناظرین کے درمیان اداکاری کرتے اداکاروں، ان کی دلکش پرفارمنس، اور مقبول ’کہانی کے اخَلاقی سبق‘ کی جانب لوگ بے حد متوجہ رہتے۔
مترجم: محمد قمر تبریز