جے پال کے اینٹ سے بنے دو کمرے کے گھر کی چھت ٹِن کی ہے۔ ان کے اس گھر میں اور بھی بہت سے بڑے بڑے گھر ہیں۔ ان گھروں میں کئی منزلیں ہیں، اونچے ستون ہیں، بالکنی ہے اور بُرج بھی ہیں۔
اور یہ گھر کاغذ کو گوند سے چپکاکر بنائے گئے ہیں۔
جے پال چوہان مدھیہ پردیش کے کھنڈوا ضلع کے کرولی گاؤں میں رہتے ہیں۔ گزشتہ ۴-۵ سالوں میں انہوں نے کبھی کبھی صبح اور دوپہر کا وقت اپنے گھر میں احتیاط سے کاغذ کے رول بنانے اور انہیں ایک دوسرے کے اوپر اینٹ کی طرح رکھتے ہوئے دیوار بنانے، اور پھر انہیں گوند کی مدد سے جوڑتے ہوئے محل جیسا ڈھانچہ تیار کرنے میں گزارا ہے۔
وہ بتاتے ہیں، ’’میری دلچسپی شروع سے ہی عمارتوں اور ان کی تعمیر کے عمل کو جاننے میں رہی ہے۔‘‘
جے پال نے اپنے اس سفر کا آغاز ۱۳ سال کی عمر میں مندروں کے کارڈ بورڈ بنانے کے ساتھ کیا۔ وہ پڑوسی گاؤں میں شادی میں گئے ہوئے تھے، جہاں انہوں نے کسی کے گھر میں شیشے سے بنا ہوا ایک چھوٹا سا مندر دیکھا۔ اسے دیکھ کر ان کے ذہن میں کارڈ بورڈ کی مدد سے اپنے ہاتھوں سے کچھ ویسا ہی بنانے کا شوق پیدا ہوا۔ انہوں نے کچھ ماڈل بنائے اور اپنے رشتہ داروں کو بطور تحفہ دیے، اور بعد میں اپنے ذریعے بنائے گئے ماڈل کے لیے انہیں ۲۰۱۷ میں اسکول کی نمائش میں انعام بھی ملا۔
ان کو اسکول میں کارڈ بورڈ کے بنے موٹر بائک کے ماڈل کے لیے بھی انعام ملا تھا۔ ان کے ذریعے بنائے گئے اس قسم کے ماڈل کے مجموعہ میں ٹیبل فین، ریسنگ کار، اور کرین کا ماڈل بھی ہے جس میں کسی پرانے کھلونے کے پہیے لگے ہوئے ہیں۔
جے پال بتاتے ہیں، ’’لیکن کچھ دنوں بعد نمی کی وجہ سے کارڈ بورڈ مڑنے لگا۔ پھر ایک دن میں نے سوچا کہ کیوں نہ ردّی میں بیچنے کے لیے گھر میں رکھی ہوئی اسکول کی پرانی کتابوں کا استعمال کیا جائے۔ یہ خیال ذہن میں اچانک آیا تھا۔ پھر میں نے کتاب کے صفحات کو رول کرکے ٹیوب کی شکل دی اور انہیں کی مدد سے بڑے بڑے [گھروں کے] ماڈل بنانا شروع کیا۔‘‘
پُناسا تحصیل میں واقع ان کے گاؤں، کرولی میں زیر تعمیر نئے نئے سیمنٹ کے مکانوں سے ان کے ذہن میں خیالات آنے شروع ہوئے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جن لوگوں کے نئے گھر بن رہے ہیں، وہ گاؤں میں ہی ہیں اور ہم [ان کی فیملی] اور وہ لوگ جو دوسروں کے کھیتوں پر کام کرتے ہیں، ابھی بھی گاؤں کے باہر کچے مکانوں میں رہتے ہیں۔ لیکن مجھے سیمنٹ کے ان گھروں میں سے کسی کا بھی ڈیزائن پوری طرح ٹھیک نہیں لگتا۔ اس لیے، مجھے اس میں دو تین الگ الگ آئیڈیا کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اگر ڈیزائن آسان ہوتا ہے، تو یہ بالکل عام سا لگتا ہے، لیکن اگر ڈیزائن خاص یا لیک سے تھوڑا ہٹ کر ہے، تو میں اس کا پیپر ماڈل بنانا پسند کرتا ہوں۔‘‘
وہ ایسے گھروں کی تلاش میں رہتے ہیں، جس میں صرف روایتی دروازے اور کھڑکیاں نہ ہوں، بلکہ ان پر خاص طرح کا ڈیزائن بناکر انہیں سنوارا بھی گیا ہو۔ اپنے ذریعے بنائے گئے ایک ماڈل کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’میں نے اوپری منزل کو گاؤں کے ہی ایک گھر کی طرح بنایا، لیکن گراؤنڈ فلور اس سے مختلف ہے۔‘‘ اس ماڈل کو ایک مقامی ٹیچر کے گھر کے ڈیزائن سے متاثر ہوکر تیار کیا گیا ہے۔ اُس ٹیچر نے انہیں اپنے اسکول میں بیکار پڑی کاپیاں (نوٹ بُکس) دی تھیں۔ لیکن اُن میں بہت سی تصویریں اور کارٹون بنے ہوئے تھے، جو کہ جے پال کے مطابق پیپر ماڈل پر عجیب سا لگتا۔ اس لیے، انہوں نے قریب کے ہی دوسرے سرکاری اسکول سے پرانی کتاب کاپیاں حاصل کیں۔
جے پال کہتے ہیں، ’’میں [فن تعمیر سے متعلق] کوئی پلان یا ڈیزائن نہیں بناتا، بلکہ براہ راست ماڈل بنانا شروع کر دیتا ہوں۔‘‘ ابتدائی دنوں میں بنائے گئے ماڈل رشتہ داروں کو تحفے میں دے دیے گئے تھے، لیکن جب لوگ ان کے ذریعے بنائے گئے ہاؤس ماڈل کو دیکھنے کے لیے ان کے گھر پر آنے لگے، تو انہوں نے اسے تحفے میں دینا بند کر دیا۔ انہوں نے اب تک کوئی بھی ماڈل فروخت نہیں کیا ہے اور ان میں سے کچھ تو اب ان کے گھر میں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔
ماڈل کو بنانے میں کتنا وقت لگے گا، یہ ماڈل کی پیچیدگی اور ان کے پاس اسے بنانے کے لیے دستیاب وقت پر منحصر ہے۔ عام طور پر جے پال کو کاغذ سے گھر بنانے میں ۴ سے ۲۰ دن تک کا وقت لگتا ہے۔ ہر ایک ماڈل سائز میں تقریباً ۲ بائی ۲ فٹ اونچا اور گہرا اور ڈھائی فٹ چوڑا ہوتا ہے۔
جے پال ماڈل بنانے کے کام سے ملی فرصت کے دوران پڑھائی کرتے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں پڑوس کے گاؤں کے اسکول سے ۱۲ویں کلاس کا امتحان (وبائی مرض کے سبب آن لائن) پاس کیا ہے۔ وہ اپنے ۴۵ سالہ والد، دلاور سنگھ چوہان کی مدد کرتے ہیں، جو کہ بڑھئی کا کام کرتے ہیں۔ ان کے والد کرولی اور ارد گرد کے گاؤوں اور قصبوں میں میز، کرسی، بچوں کے لیے جھولے، اور دیگر فرنیچر کے ساتھ چوکھٹ بھی بناتے ہیں۔
جے پال کہتے ہیں کہ لکڑی کے کام میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن وہ دروازوں اور کھڑکیوں کو ڈیزائن کرنے اور اوزاروں کو سنبھالنے اور اوبڑ کھابڑ چھتوں کو برابر کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے کرولی میں دو، اور پاس کے ایک گاؤں میں تین دروازوں کو ڈیزائن کیا ہے۔ میں انٹرنیٹ سے اور آن لائن رسالوں کی مدد سے انوکھے انداز میں ڈیزائن کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں کبھی کبھی یہ کام کاغذ پر کرتا ہوں، لیکن اکثر سیدھے لکڑی پر ہی تیار کرتا ہوں اور پھر میرے والد اسے بناتے ہیں۔‘‘
دوسرے موقعوں پر جے پال اپنے بہنوئی کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں، جو کہ ۶۰ کلومیٹر دور واقع گاؤں میں درزی کا کام کرتے ہیں۔ وہ کبھی کبھی وہاں جاتے ہیں اور کپڑا کاٹنے یا پائجامہ کی سلائی کرنے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔
جے پال کی ۴۱ سالہ ماں، راجو چوہان خاتون خانہ ہیں۔ ماضی میں انہوں نے بھی فیملی کے فرنیچر کے پیشہ میں ہاتھ بٹایا ہے۔ جے پال بتاتے ہیں، ’’اگر چارپائی بنانے کا کام ہوتا تھا، تو وہ پایے بناتی تھیں، جب کہ میرے والد باقی سب پر کام کرتے تھے۔‘‘ لیکن جب سے فیملی کی مالی حالت تھوڑی بہتر ہوئی ہے، انہوں نے یہ کام کرنا بند کر دیا ہے۔
جے پال کے ماموں منوہر سنگھ تنور، جو کہ کسان ہیں، نے ان کے ماڈل بنانے کے اس کام کی سب سے زیادہ حمایت کی۔ وہ ان کے ٹھیک بغل میں رہتے تھے اور اپنے ہر مہمان کو اپنے بھانجے کا ہنر دکھانے لے آتے تھے۔ پچھلے سال شاید ڈینگو کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔
دلاور اور راجو، دونوں ہی ماڈل بنانے کو لیکر اپنے بیٹے کے جنون میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دلاور کہتے ہیں، ’’میں اُتنا پڑھا لکھا نہیں ہوں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ صحیح سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ اس کا کام دیکھنے آتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ جہاں تک چاہے پڑھائے کرے اور اس کے لیے میں جو بھی کر پاؤں گے، کروں گا۔ میں اس سے کہتا رہتا ہوں کہ اگر اس کی پڑھائی کے لیے مجھے اپنی زمین اور اپنا گھر بھی بیچنا پڑے، تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ کیوں کہ زمین ہم دوبارہ لے سکتے ہیں، لیکن اس کی پڑھائی کا وقت دوبارہ نہیں آئے گا۔‘‘ راجو انتہائی سادگی سے مجھ سے کہتی ہیںَ: ’’براہ کرم اس کا خیال رکھئے۔ ہمارے پاس اسے دینے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے، ہمارے بچوں میں صرف وہی بچا ہے ہمارے پاس، اس کی [دونوں] بہنوں کی شادی ہو چکی ہے۔‘‘
جب کہ جے پال کے ذریعے بنائے گئے ماڈل ان کے گھر کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہے ہیں، ان کی فیملی کا سفر نقل مکانی کے دور سے گزر رہا ہے۔ سال ۲۰۰۸ میں انہیں کرولی سے تین کلومیٹر دور واقع اپنا گاؤں، ٹوکی، چھوڑنا پڑا تھا کیوں کہ یہ اومکاریشور باندھ کے سیلاب میں ڈوبنے والا تھا۔
فیملی کو تقریباً دس کلومیٹر دور واقع کسی گاؤں میں بسنے کو کہا گیا تھا، لیکن دلاور نے وہاں بسنے سے منع کر دیا کیوں کہ وہ گاؤں کافی دور تھا اور وہاں کی زمین بنجر تھی۔ جے پال بتاتے ہیں، ’’نہ تو وہاں دکانیں تھیں اور نہ ہی کوئی کام ملنے والا تھا۔‘‘ پھر ان کے والد نے کرولی گاؤں میں حکومت کی جانب سے دیے گئے معاوضہ کی مدد سے زمین کا ایک چھوٹا ٹکڑا خریدا۔ ان کی فیملی اب اسی زمین پر بنے گھر میں رہتی ہے۔ دلاور کے نام پر کرولی سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر دور ۲ ایکڑ کی پشتینی زمین بھی ہے، جہاں ان کی فیملی عام طور پر سویابین، گیہوں اور پیاز کی کھیتی کرتی ہے۔
جے پال کے ذہن میں ٹوکی گاؤں میں واقع مٹی اور ٹن سے بنے اپنے اس معمولی سے گھر کی دھندلی سی یاد بسی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’مجھے زیادہ کچھ تو نہیں یاد ہے۔ لیکن اب جب کہ میں خود مکانوں کے ماڈل بنا رہا ہوں، میں واپس اسے دیکھنے نہیں جا سکتا، کیوں کہ وہ ڈوب چکا ہے۔ لیکن میں اپنے ابھی کے چھوٹے سے گھر کا ایک ماڈل بنانے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘‘
حالانکہ، فیملی کو اس گھر سے بھی بے دخل ہونا پڑ سکتا ہے، کیوں کہ گھر کی زمین اس سڑک کے پاس واقع ہے جسے حکومت مبینہ طور پر چھ لین کا بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ جے پال کہتے ہیں، ’’پھر ہمیں ایک بار اور کسی دوسری جگہ جاکر بسنا ہوگا۔‘‘
وہ آگے کی پڑھائی کی پلاننگ کر رہے ہیں اور عمارتوں اور ان کے بننے کے عمل میں اپنی دلچسپی کے سبب وہ سول انجینئر بننا چاہتے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہے، کیوں کہ انہیں امید ہے کہ یہ تعلیمی لیاقت حاصل ہونے پر انہیں سرکاری نوکری مل جائے گا۔
حالیہ دنوں انہوں نے تاج محل کا ماڈل بنانا شروع کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’جو کوئی بھی ہمارے گھر آتا اور ماڈلوں کو دیکھتا وہ یہی پوچھتا تھا کہ میں نے تاج محل کا ماڈل بنایا ہے کیا۔‘‘ اس میں کاغذ زیادہ لگے گا، لیکن یہ وسیع یادگار ماڈل کے طور پر اپنی شکل اختیار کر رہی ہے۔ اور آنے والے دنوں میں دیگر عمارتوں کے ماڈل بھی دیکھنے کو مل سکتے ہیں، جنہیں وہ اپنے صبرو تحمل اور ہنر کے ساتھ گوند اور ردّی کاغذ سے بنائیں گے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز