’کالے قانون واپس لو، واپس لو، واپس لو!‘ یوم جمہوریہ سے قبل والی شام کو جنوبی ممبئی کے آزاد میدان میں یہ نعرے گونج رہے ہیں۔
میدان میں سمیُکت شیتکاری کامگار مورچہ کے زیر اہتمام دھرنے میں مہاراشٹر کے ۲۱ اضلاع سے آئے دسیوں ہزار مظاہرین موجود ہیں۔ یہ دہلی کی سرحدوں پر احتجاج کر رہے کسانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ناسک سے دو دن میں تقریباً ۱۸۰ کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے بعد یہاں آئے ہیں۔
دو ماہ سے زیادہ عرصے سے لاکھوں کسان (جن میں زیادہ تعداد پنجاب اور ہریانہ سے آئے ہوئے کسانوں کی ہے) دہلی کی دہلیز سے ملحق مختلف مقامات پر تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ ان قوانین کو مرکزی حکومت نے پہلے ۵ جون ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کے طور پر جاری کیا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں بل کے طور پر پیش کیا اور اسی مہینے کی ۲۰ تاریخ تک جلد بازی میں ایکٹ کے طور پر پاس کر دیا تھا۔
جن قوانین کے خلاف کسان احتجاج کر رہے ہیں ان کے نام ہیں: زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔
یہ ۲۴ اور ۲۵ جنوری کو آزاد میدان میں ہونے والے اس دو روزہ احتجاجی اجلاس کی تصاویر ہیں:
مترجم: شفیق عالم