سنتوشی کوری ان دنوں اپنا مالک خود ہونے کی منفرد خوشی کا لطف اٹھا رہی ہیں۔ ’’ہم خواتین نے ہی کسانوں کی کوآپریٹو کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب تو ہمارے گاؤں کے مرد بھی یہ ماننے لگے ہیں کہ یہ اچھا فیصلہ ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

بھیرہا پنچایت کے گُچرا ٹولہ کی اس دلت کسان نے رونجھ خواتین فارمرز پروڈیوسرز آرگنائزیشن (ایم ایف پی او) کی رکن بننے کی فیس کے طور پر ۱۰۰۰ روپے ادا کیے تھے۔ جنوری ۲۰۲۴ میں ایسا کرنے والی سنتوشی، پنّا ضلع کی ۳۰۰ آدیواسی، دلت اور او بی سی (دیگر پس ماندہ طبقہ) خواتین میں سے ایک ہیں۔ وہ رونجھ کے پانچ رکنی بورڈ میں بھی شامل ہیں اور انہیں جلسوں میں بولنے اور اپنے خیالات کی تشہیر کرنے کے لیے بھی بلایا جاتا ہے۔

’’پہلے بچولیے [کاروباری] آتے تھے اور کم قیمت پر ہماری ارہر دال لے جاتے تھے، کیوں کہ مل میں اس کا چھلکا اتارا گیا نہیں ہوتا تھا۔ اور، پھر وہ کبھی صحیح وقت پر نہیں آتے تھے، اور ہمیں ہمارے پیسے بھی وقت پر نہیں ملتے تھے،‘‘ انہوں نے پاری کو بتایا۔ سنتوشی (۴۵)، جن کے تین بچے ہیں، اپنی فیملی کی مانسون پر منحصر دو ایکڑ زمین میں ارہر دال اگاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، انہوں نے ایک ایکڑ کھیت بٹائی پر بھی لیا ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق، ملک میں صرف ۱۱ فیصد خواتین کے پاس اپنے نام سے زمینیں ہیں، اور مدھیہ پردیش بھی اس معاملے میں کوئی استثنا نہیں ہے۔

رونجھ ایم ایف پی او، اجے گڑھ اور پنّا بلاک کے ۲۸ گاؤوں کی خواتین کسانوں کی ایک جماعت ہے۔ اس کوآپریٹو کا نام رونجھ ندی پر رکھا گیا ہے، جو باگھن ندی کی معاون ندی ہے اور یمنا میں جا کر ملتی ہے۔ ابھی اس کی شروعات کے صرف چھ مہینے ہی ہوئے ہیں، اور اس کا ٹرن اوور ۴۰ لاکھ ہو چکا ہے۔ اگلے سال اس کا ہدف اسے بڑھا کر دوگنا کرنے کا ہے۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: پنّا ضلع کی بھیرہا پنچایت میں اپنے کھیت میں کھڑیں سنتوشی۔ دائیں: رونجھ ندی (جس پر کوآپریٹو کا نام رکھا گیا ہے) کے کناروں پر کسان ارہر کی کھیتی کرتے ہیں

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: پنّا ضلع کے اجے گڑھ میں لگی دال کی چھنٹائی کرنے والی مشین۔ پھلیوں کی چھنٹائی کرنے والی مشین پر بھوپین کوندر (لال شرٹ میں) اور کلو آدیواسی (نیلی شرٹ میں)۔ دائیں: اناج کی چھنٹائی کرتے امر شنکر کوندر

’’میرے گاؤں کے تقریباً سبھی کنبوں کے پاس کم از کم دو چار ایکڑ زمین ضرور ہے۔ ہم نے سوچا کہ ہم نامیاتی [آرگینک] فصلیں اُگا رہے ہیں…ہم سبھی…تو کیوں نہ ارہر دال پر توجہ کی جائے اور اس کی چھنٹائی کرنے کے لیے مشین کی مدد لی جائے،‘‘ کوآپریٹو کے قیام کے پیچھے کی وجہ بتاتے ہوئے سنتوشی کہتی ہیں۔

اجے گڑھ اور ارد گرد کے علاقوں میں اگائی گئی ارہر دال دور دور تک مشہور ہے۔ ’’رونجھ ندی سے ملحق دھرم پور کے کھیتوں میں پیدا ہوئی دال اپنے ذائقہ اور خوشبو کی وجہ سے بہت مشہور ہے،‘‘ ’پردان‘ کے گرجن سنگھ بتاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس ندی – جو وندھیاچل کی پہاڑیوں سے نکلتی ہے – کے آس پاس کی زمین کھیتی کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے۔ ’پردان‘ یہاں کے کسانوں کے ساتھ کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، جو خواتین کسانوں کی جماعت کی تشکیل میں بنیادی رول ادا کرتی ہے۔

سنتوشی جیسی کسان اپنے لیے مناسب قیمت حاصل کرنے کی خاطر پر عزم تھیں۔ ’’اب ہم اپنی پیداوار کو اپنے ہی ایف پی او کو دے دیتے ہیں اور وقت پر ہمارے پیسے مل جاتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ارہر دال فی کوئنٹل ۱۰ ہزار روپے کے حساب سے فروخت ہوتی ہے، اور مئی ۲۰۲۴ میں یہ قیمت گھٹ کر ۹۴۰۰ روپے فی کوئنٹل ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود، رونجھ ایف پی او کی ارکان نے محسوس کیا کہ کوآپریٹو کے ذریعہ براہ راست ان سے خریدے جانے کی وجہ سے اپنی پیداوار کا بہتر سودا حاصل کیا۔

راکیش راجپوت رونجھ کے سی ای او اور واحد اہلکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسان روایتی بیجوں کا استعمال کرتے ہیں؛ یہاں ہائبرڈ بیج استعمال میں بالکل نہیں لائی جاتی ہے۔ وہ ۱۲ ذخیرہ کرنے والے مراکز کی نگرانی کرتے ہیں، جن کے پاس تولنے کی مشینیں، بوریاں اور ہر بوری کے سامانوں کی جانچ کرنے والے پارکھی ہوتے ہیں۔

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: مشین میں دال کے ٹکڑے الگ ہونے کے بعد۔ دائیں: ایم ایف پی او کے سی ای او راکیش راجپوت پیک کی گئی دال دکھا رہے ہیں

PHOTO • Priti David
PHOTO • Priti David

بائیں: گُچرا میں واقع اپنے گھر میں سنتوشی کوری۔ دائیں: اپنے گھر کے پیچھے اہل خانہ کے کھانے کے لیے وہ سبزیاں بھی اگاتی ہیں

رونجھ ایف پی او کا مقصد آنے والے سالوں میں اپنے ارکان کی تعداد بڑھا کر پانچ گنا تک کرنا ہے، اور ساتھ ہی اپنی پیداواروں میں بھی اضافہ کرنا ہے۔ ’پردان‘ کے ساتھ کام کرنے والی سگندھا شرما بتاتی ہیں کہ وہ ارہر دال کے ساتھ ساتھ مٹر، مویشیوں کا کاروبار (بندیل کھنڈی نسل کی بکریاں) اور نامیاتی کھاد اور بیجوں کو بھی اپنے کام میں شامل کرنا چاہتی ہیں۔ ’’ہم اپنے کسانوں کو گھر گھر تک لے جانا چاہتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

گھر کے پیچھے کی زمین کے ایک ٹکڑے پر سنتوشی لوکی اور دیگر سبزیاں اگاتی ہیں، جنہیں وہ ہمیں دکھاتی ہیں؛ ان کے شوہر فیملی کی دونوں بھینسوں کو چرانے لے گئے ہیں اور تھوڑی دیر میں وہ واپس لوٹیں گے۔

’’میں نے کبھی کوئی دوسری دال نہیں کھائی۔ میرے کھیت کی اُگی دال اتنی ہی تیزی سے پکتی ہے جیسے چاول پکتا ہے، اور اس کا ذائقہ بھی سوندھا ہوتا ہے،‘‘ وہ فخر سے بتاتی ہیں۔

ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز

Priti David

Priti David is the Executive Editor of PARI. She writes on forests, Adivasis and livelihoods. Priti also leads the Education section of PARI and works with schools and colleges to bring rural issues into the classroom and curriculum.

Other stories by Priti David
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique