جب میں سبر پاڑہ پہنچا تو رات ہو چکی تھی۔ باندوآن تعلقہ میں کونچیا گاؤں کے کنارے، سڑکوں سے دور گیارہ گھر بنے ہوئے ہیں۔ مٹی کے بنے یہ چھوٹے گھر سَوَر (جنہیں سَبَر بھی کہا جاتا ہے) برادری کے لوگوں کے ہیں۔

آدھے اندھیرے میں گھرے رہنے والے ان کے گھر جنگل شروع ہونے کا اشارہ دیتے ہیں، جو دھیرے دھیرے گھنا ہوتا چلا جاتا ہے اور دور جا کر دوارسینی کی پہاڑیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ سال، ساگوان، پیال اور پلاش کے درختوں کا یہ جنگل ان کے لیے کھانے – پھل، پھول اور سبزیوں کا ذریعہ ہے، اور گزر بسر کا ذریعہ بھی۔

سَور برادری کو مغربی بنگال میں ڈی نوٹیفائیڈ قبیلہ (ڈی این ٹی) اور درج فہرست قبیلہ دونوں کے طور پر درج کیا گیا ہے۔ وہ ان تمام قبائل میں سے ایک تھے جنہیں نوآبادیاتی برطانوی حکومت کے کرمنل ٹرائبس ایکٹ (سی ٹی اے) کے تحت ’مجرم‘ قرار دیا گیا تھا۔ سال ۱۹۵۲ میں، ہندوستانی حکومت نے اس قانون کو ردّ کر دیا، اور اب ان قبائل کو ڈی نوٹیفائیڈ قبائل (ڈی این ٹی) یا خانہ بدوش قبائل (این ٹی) کہا جاتا ہے۔

آج بھی سبر پاڑہ کے لوگ اپنے معاش کے لیے جنگل پر منحصر ہیں۔ تقریباً ۲۶ سال کی نیپالی سبر بھی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ پرولیہ ضلع میں اپنے مٹی کے گھر میں شوہر گھلٹو، دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بیٹی، جو نو سال کی ہے، ابھی بھی پہلی جماعت میں پڑھ رہی ہے۔ ان کا بیٹا ابھی بہت چھوٹا ہے اور چلنا سیکھ رہا ہے، اور چھوٹی بیٹی ابھی بھی ماں کا دودھ پیتی ہے۔ اس فیملی کی روزی روٹی سال (شوریا روبسٹا) کے پتوں پر منحصر ہے۔

PHOTO • Umesh Solanki

نیپالی سبر (دائیں) اپنی سب سے چھوٹی بیٹی ہیما مالنی اور بیٹے سور دیو کے ساتھ گھر کے باہر بیٹھی ہیں۔ پاس میں بچے کھیل رہے ہیں، اور وہ سال کے پتوں کو بانس کی پتلی سیخ سے جوڑ کر پتّل تیار کر رہی ہیں۔ ان پتّوں کے ساتھ ان کی زندگی کی کہانیاں بھی جڑی ہیں

گاؤں کے ۱۱ خاندانوں میں سے سات خاندان سال کے پتوں سے پتّل بنا کر بیچتے ہیں۔ یہ پتّے دوارسینی کے جنگل سے آتے ہیں، ایک ایسا جنگل جو پہاڑیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ وہی پہاڑیاں جو گاؤں کی سرحد سے لگی ہوئی ہیں۔ نیپالی بتاتی ہیں، ’’نو بجے یہاں سے نکلتے ہیں، دوارسینی پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے۔‘‘

جنگل کے لیے نکلنے سے پہلے، گھر میں کھانا بنانا ہوتا ہے، اور نیپالی اپنے آنگن میں مصروف رہتی ہیں۔ بچوں اور شوہر کو کھلانا ہے، بڑی بیٹی کو اسکول بھیجنا ہے، اور سب سے چھوٹے کو دوسری بیٹی کی دیکھ بھال میں چھوڑنا ہے۔ اگر کوئی پڑوسی آس پاس ہوتا ہے تو وہ بچوں پر نظر رکھ لیتا ہے۔

جیسے ہی نیپالی اور گھلٹو دوارسینی کے جنگل پہنچتے ہیں، ان کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ تقریباً ۳۳ سال کے گھلٹو درخت پر چڑھ کر چھوٹی اور بڑی پتیوں کو ایک چھوٹی چھری سے کاٹتے ہیں، جب کہ نیپالی پاس کے درختوں سے جتنی پتیاں ہاتھ آ سکیں، انہیں توڑتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’بارہ بجے تک پتّے توڑتے ہیں۔ دو تین گھنٹے لگ جاتے ہیں۔‘‘ دوپہر تک وہ گھر لوٹ آتے ہیں۔

’’گھر پہنچنے کے بعد ہم کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ گھلٹو کو اس کے بعد آرام کرنا ہوتا ہے۔ دوپہر کی جھپکی ان کے لیے ضروری ہے، لیکن نیپالی شاید ہی کبھی آرام کر پاتی ہیں۔ وہ پتّوں سے پتّل بنانا شروع کر دیتی ہیں۔ ایک پتّل بنانے میں سال کے آٹھ سے دس پتّے لگتے ہیں، جنہیں بانس کی پتلی سیخوں سے جوڑا جاتا ہے۔ گھلٹو بتاتے ہیں، ’’میں بازار سے بانس خریدنے جاتا ہوں۔ ایک بانس ۶۰ روپے کا آتا ہے اور تین چار مہینے تک چلتا ہے۔ بانس کو چیر کر سیخیں بنانے کا کام نیپالی کرتی ہیں۔‘‘

نیپالی کو ایک پتّل بنانے میں ایک یا دو منٹ کا وقت لگتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم ایک دن میں ۳۰۰-۲۰۰ خالی پتّے بنا سکتے ہیں۔‘‘ خالی پتّا یا تھالا وہ لفظ ہے جو سَور لوگ پتّل کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ کام تبھی پورا ہو سکتا ہے جب نیپالی دن میں آٹھ گھنٹے اس کام میں لگی رہیں۔

PHOTO • Umesh Solanki

نیپالی کے شوہر گھلٹو سَور بتاتے ہیں، ’جب میں بازار میں بانس خریدنے جاتا ہوں، تو ایک بانس کے لیے میں ساٹھ روپے ادا کرتا ہوں، جو ہمارے لیے تین چار مہینے تک چلتا ہے۔ بانس کو چیرنے کا کام نیپالی کرتی ہیں‘

نیپالی پتّل بناتی ہیں اور گھلٹو انہیں فروخت کرنے کا کام سنبھالتے ہیں۔

گھلٹو بتاتے ہیں، ’’ہم زیادہ نہیں کماتے۔ ہر ۱۰۰ پتّل کے بس ساٹھ روپے؟ ایک دن کے کام کے لیے ہمیں تقریباً ۱۵۰ سے ۲۰۰ روپے ملتے ہیں۔ ایک آدمی ہمارے دروازے پر آتا ہے اور ہم سے خریدتا ہے۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ ایک پتّل کے ۶۰ سے ۸۰ پیسے بنتے ہیں۔ اور دونوں مل کر ۲۵۰ روپے ایک دن میں کماتے ہیں، تو یہ ریاست میں منریگا کے تحت غیر ہنرمند کاریگروں کو ملنے والی یومیہ مزدوری کی بیحد خراب اجرتوں سے بھی بہت کم ہے۔

نیپالی کو اتنی سخت محنت کرتے دیکھ میں حیران ہوں، یہ دیکھ کر وہ تقریباً دفاع کی حالت میں کہتی ہیں، ’’وہ مدد کرتا ہے۔ وہ ایک سبزی والے کے لیے کام کرتا ہے۔ ہر دن نہیں، لیکن جب بھی اسے بلاتے ہیں، اُس دن ۲۰۰ روپے ملتے ہیں۔ شاید ہفتہ میں دو تین بار،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔

’’یہ گھر میرے نام پر ہے،‘‘ نیپالی جلدی سے کہتی ہیں۔ ایک وقفہ کی خاموشی کے بعد ان کی بات پر ہنسنے کی آواز گونج اٹھتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں چمک آ جاتی ہے، گویا ان میں مٹی کے اس چھوٹے سے گھر کا عکس اتر آیا ہو۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Umesh Solanki

Umesh Solanki is an Ahmedabad-based photographer, reporter, documentary filmmaker, novelist and poet. He has three published collections of poetry, one novel-in-verse, a novel and a collection of creative non-fiction to his credit.

Other stories by Umesh Solanki
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique