’کھیلا ہوبے‘ (کھیل ہوگا) اور ’اب کی بار ۴۰۰ پار‘ (اس بار ۴۰۰ سے زیادہ سیٹیں حاصل کریں گے) کے درمیان معلق ہماری آبائی ریاست ایک چھوٹا ہندوستان ہے، جو سرکاری اسکیموں، سنڈیکیٹ مافیاؤں، حکومتی امداد اور متضاد مظاہروں کا ایک دلچسپ مرکب ہے۔

یہاں ہمارے سامنے بے گھر تارکین وطن ہیں جو ملازمتوں میں گھرے ہوئے ہیں، بے روزگار نوجوان ہیں جو ایک مایوس کن ریاست میں پھنسے ہوئے ہیں، مرکز اور ریاست کی لڑائی میں عوام پس رہے ہیں، موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں کی کمر توڑ دی ہے، اور بنیاد پرست بیان بازیوں سے اقلیتیں نبرد آزما ہیں۔ ہمت جواب دے رہی ہے، جسم کمزور پڑ رہے ہیں۔ ذات، طبقہ، جنس، زبان، نسل، مذہب، جن چوراہوں پر ٹکراتے ہیں وہاں ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے۔

جب ہم اس پاگل پن کے درمیان سے گزرتے ہیں تو ہمیں ایسی آوازیں سنائی دیتی ہیں، جو غیر واضح، بے بس، ہذیانی کیفیت والی ہیں۔ ساتھ ہی وہ آوازیں بھی ہیں جنہیں اب اہل اقتدار کے ذریعہ بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ سندیش کھلی سے لے کر ہمالیہ کے چائے کے باغات تک، کولکاتا سے لے کر رار کے فراموش شدہ علاقوں تک، ہم بطور رپورٹر اور مغنی سفر کرتے ہیں۔ ہم سنتے ہیں، ہم جمع کرتے ہیں، ہم تصویریں اتارتے ہیں، ہم بات کرتے ہیں۔

جوشوا بودھی نیتر کی آواز میں یہ نظم سنیں

ہم نے اپنے سفر کا آغاز سندیش کھلی سے کیا، جو مغربی بنگال کے سندربن کے ڈیلٹائی علاقے کا ایک گمنام جزیرہ ہے، جو اکثر زمین اور خواتین کے جسموں کی اجارہ داری پر سیاسی ریشہ دوانیوں میں الجھ جاتا ہے۔

شطرنج

وہ آیاد، دیکھا اور جیت لیا
یہاں ای ڈی کی آمد۔
وہاں ایک گاؤں سندیش کھلی
جہاں رات نے ابھی ابھی انگڑائی لی،
عورتیں بچھائی گئیں بساط پر
ٹی وی اینکروں کے کراہنے کی صدا، ’’رام رام، علی علی!‘‘

PHOTO • Smita Khator

مرشد آباد میں ترنمول کانگریس کی ایک جداری تحریر، جس میں لکھا ہے، ’کھیلا ہوبے ‘ (کھیل ہوگا)

PHOTO • Smita Khator

مرشد آباد میں ایک سیاسی جداری تحریر: ’تم نے کوئلہ اڑا لیا، تم نے ساری گائیں چرا لیں، ہم سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن تم نے دریا کے کناروں پر نہ ریت چھوڑے، اور نہ ہماری بیویوں اور بیٹیوں کو گزند پہنچانے سے باز آئے – کہتا ہے سندیش کھلی‘

PHOTO • Smita Khator
PHOTO • Smita Khator

بائیں: شمالی کولکاتا میں پوجا کے اس پنڈال میں خواتین کے خلاف تشدد پر آواز اٹھائی گئی ہے: پَھندی کُورے بندی کارو (تم نے مجھے دھوکہ دے کر غلام بنایا)۔ دائیں: سندربن کے جزیرہ بالی میں پرائمری اسکول کی طلبہ کا ایک نمائشی پوسٹر خواتین کے خلاف تشدد کے ایشو کو اجاگر کر رہا ہے۔ آمرا ناری، آمرا ناری – نرجاتان باندھو کورتے پاری (ہم عورتیں ہیں – ہم خواتین کے خلاف تشدد کو ختم کر سکتی ہیں)

*****

جنگل محل کے نام سے مشہور علاقہ کے اضلاع بانکورہ، پرولیا، مغربی مدناپور اور جھارگرام سے گزرتے ہوئے، ہم نے خواتین کسانوں اور مہاجر زرعی مزدوروں سے ملاقات کی۔

جھومور

مہاجر مزدور
رہیں ریت میں دفن،
یہی ہے اپنی پکی رنگین مٹی کی کہانی کا فن۔
اہانت آمیز ہے لفظ ’پانی‘
کہنا ہی پڑے گا آپ کو ’جل‘!
ایسی ہے تشنگی جنگل محل۔

PHOTO • Smita Khator
PHOTO • Smita Khator

پرولیا میں خواتین کسان پانی کی شدید قلت، زراعت کے انحطاط، اور ذریعہ معاش کے مسائل کے درمیان اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں

*****

دارجلنگ دنیا کے لیے ’پہاڑوں کی ملکہ‘ ہو سکتا ہے، لیکن یہاں کے بظاہر خوبصورت باغات کی محنت کش آدیواسی خواتین کے لیے نہیں۔ ان خواتین کو رفع حاجت کے لیے بیت الخلاء تک میسر نہیں ہیں۔ علاقے میں عدم مساوات اور بقا کی جدوجہد کا مطلب یہ ہے کہ یہاں خواتین کا مستقبل  نوشتہ دیوار ہے!

خونی مریم

آپ ایک کپ لیں گے؟
سفید عودُ الصّلیب یا چینی چائے؟
بھنی، سینکی، اشراف کے ظرف میں۔
کیا آپ لیں گے ایک کپ خون؟
یا کوئی آدیواسی خاتون؟
ابلتی، کھدکتی، ’’ہاں! ضرور بالضرور!‘‘

PHOTO • Smita Khator

آپ دارجلنگ میں اس جداری تصویر سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ یہ ضلع کی خواتین کی زندگی کے تلخ حقائق کو اجاگر کرتی ہے

*****

مرشد آباد نہ صرف بنگال کے قلب میں واقع ہے، بلکہ ایک الگ نوع کے تنازع کے طوفان میں گھرا ہوا ہے، یہ طوفان نقدی کے عوض اسکول کی نوکری کی وجہ سے آیا ہے۔ ریاست کے اسکول سروس کمیشن (ایس ایس سی) کے ذریعہ سرکاری اور سرکاری امداد یافتہ اسکولوں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی بڑی تعداد میں فرضی تقرریوں کو کالعدم قرار دینے والے ہائی کورٹ کے حکم نے نوجوان ذہنوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے۔ بیڑی بنانے والے یونٹوں میں کام کرنے والے نوجوان لڑکے، جن کی عمر ۱۸ سال بھی نہیں ہے، تعلیم اور بہتر مستقبل حاصل کرنے کی اپنی صلاحیت پر بہت کم اعتماد رکھتے ہیں۔ وہ افرادی قوت میں جلد شمولیت اختیار کریں گے اور بہتر مواقع کے لیے ہجرت کریں گے۔

اہل امیدوار

بیٹھ گئے ہیں دھرنے پر،
’نہیں چلے گی تانا شاہی!‘
پولیس کے فوجی بوٹوں کے نیچے
آ گیا سرکاری منصب،
لعنت ہے آزادی پر!
سزا اور انعام، ساتھ کھڑے ہیں چوراہے پر۔

PHOTO • Smita Khator

اسکول چھوڑنے والے میں سے بہت سے نوعمر لڑکے مرشد آباد کی ایک بیڑی یونٹ میں کام کرتے ہیں۔ ’بڑی بڑی ڈگری والے لوگ بیکار بیٹھے ہیں۔ کامیاب ہونے والے امیدواروں کی بھی تقرری نہیں ہوتی اور اب سڑکوں پر بیٹھ کر ان ملازمتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں جو انہیں ایس ایس سی کے تحت ملنی تھیں۔ تو، ہم تعلیم حاصل کر کے کیا کریں گے؟‘

*****

اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ سال کا کون سا وقت ہے، ہمیں کولکاتا کی پرہجوم گلیوں سے دھکہ مکی کرتے ہوئے آگے بڑھنا پڑتا ہے، جہاں احتجاج کرنے والی خواتین بڑی تعداد میں نظر آتی ہیں۔ غیرمنصفانہ قوانین اور اقدار کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے کے لیے ریاست کے کونے کونے سے لوگ آ رہے ہیں۔

شہریت

کاغذ والا، کاغذ لینے آیا ہے،
بھاگ سکو تو بھاگ لو،
بنگلہ دیشی! بنگلہ دیشی! دستار سمیٹو، راہ لو!
تمہارا سی اے اے مردہ باد؛
ہار نہیں ہم مانیں ایک،
بنگلہ دیشی! بنگلہ دیشی! بریڈ کے اوپر ڈالو کیک؟

PHOTO • Smita Khator

سال ۲۰۱۹ میں کولکاتا کی مختلف خواتین تنظیموں کے ذریعہ منعقد کیے گئے مارچ کے لیے بنائے گئے کٹ آؤٹ

PHOTO • Smita Khator

خواتین کا ۲۰۱۹  کا کولکاتا مارچ: مختلف سماجی پس منظر سے تعلق رکھنے والی خواتین مذہب، ذات پات اور جنس کی بنیاد پر نفرت اور امتیاز کو شکست دینے کے نعرے کے ساتھ سڑکوں پر آئیں

PHOTO • Smita Khator

سی اے اے - این آر سی کے خلاف ملک گیر احتجاج کے دوران کولکاتا کے پارک سرکس میدان میں مسلم خواتین کا دھرنا اور مظاہرہ

*****

ہم بیربھوم میں زراعت پر منحصر گاؤوں میں بے زمین آدیواسی خواتین سے ان کے کام کے دوران روبرو ہوئے۔ جن چند خواتین کے پاس خاندانی زمینیں تھی انہوں نے بھی اپنی باتیں رکھیں۔

شودرانی

اے بابو، یہ رہا میرا خاکستری پرانا پٹّہ -
لال، مڑا تڑا، پرانا جیسے سرخ دوپٹّہ۔
مجھے اک نوالہ دے دو، زندگی بخش دو،
کسان کی بیوی نہیں ہوں، مجھے کسان رہنے دو۔
خشک سالی کی بھینٹ چڑھ گیا
میرا کھیت بابو…
میں ابھی کسان ہوں یا سرکاری واہمہ بابو؟

PHOTO • Smita Khator
PHOTO • Smita Khator

’ہماری اپنی کوئی زمین نہیں۔ ہم کھیتوں میں کام کرتے ہیں، لیکن مٹھی بھر اناج کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں،‘ مغربی بنگال کے بیر بھوم میں دھان کی کٹائی کرنے والی ایک سنتالی زرعی مزدور کہتی ہیں

*****

یہاں کے عام لوگ اہل اقتدار کا احتساب کرنے کے لیے الیکشن کا انتظار نہیں کرتے۔ مرشد آباد، ہگلی، ندیا سے خواتین اور کسان ملک گیر تحریکوں کی حمایت کے لیے بار بار اپنے گھروں سے باہر نکلے ہیں۔

ہتھوڑے

پیارے پیارے آنسو گیس
خیال خبط وہم پہ چھوڑے جاتے ہیں -
کارخانوں پہ پڑ گئے تالے، شارک زمیں پر پھیل گئے ہیں۔
کالی سیاہ ناکہ بندی -
منریگا کی معمولی اجرت
بھگوا غصے کی بھینٹ چڑھی ہے۔

PHOTO • Smita Khator
PHOTO • Smita Khator

بائیں: ۱۸ جنوری ۲۰۲۱ کو آل انڈیا کسان سنگھرش کوآرڈینیشن کمیٹی (اے آئی کے ایس سی سی) مہیلا کسان دیوس ریلی۔ دائیں: ’وہ ہمارے پاس نہیں آتے ہیں۔ لہذا، ہم یہاں انہیں بتانے آئے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں!‘ یہ کہنا ہے ۱۹ ستمبر، ۲۰۲۳ کو آل انڈیا کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کی ریلی میں احتجاج کرنے والے کسانوں کا

مترجم: شفیق عالم

Joshua Bodhinetra

Joshua Bodhinetra is the Content Manager of PARIBhasha, the Indian languages programme at People's Archive of Rural India (PARI). He has an MPhil in Comparative Literature from Jadavpur University, Kolkata and is a multilingual poet, translator, art critic and social activist.

Other stories by Joshua Bodhinetra
Smita Khator

Smita Khator is the Chief Translations Editor, PARIBhasha, the Indian languages programme of People's Archive of Rural India, (PARI). Translation, language and archives have been her areas of work. She writes on women's issues and labour.

Other stories by Smita Khator
Illustration : Labani Jangi

Labani Jangi is a 2020 PARI Fellow, and a self-taught painter based in West Bengal's Nadia district. She is working towards a PhD on labour migrations at the Centre for Studies in Social Sciences, Kolkata.

Other stories by Labani Jangi
Editor : Pratishtha Pandya

Pratishtha Pandya is a Senior Editor at PARI where she leads PARI's creative writing section. She is also a member of the PARIBhasha team and translates and edits stories in Gujarati. Pratishtha is a published poet working in Gujarati and English.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam