کبھی کبھی دیوتا اپنے بھکتوں (عقیدت مندوں) کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ کم از کم ماں انگار موتی تو ایسا ہی کرتی ہیں۔

تقریباً ۴۵ سال قبل، آدیواسیوں کی یہ دیوی دھائے چانور گاؤں میں رہا کرتی تھیں۔ گونڈ آدیواسی ایشور نیتام (۵۰) اس دیوی کے بڑے پجاری یا بیگا ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ماں انگار موتی دو ندیوں، مہاندی اور سوکھا ندی کے درمیان [والی جگہ پر] رہتی تھیں۔‘‘

ماں انگار موتی کے بے گھر ہونے کے باوجود ان کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔ گاؤں اور دوسری جگہوں سے ۵۰۰ سے ۱۰۰۰ بھکت اب بھی روزانہ ان کے مندر میں پہنچتے ہیں۔ میلہ کا نام دیوی کے نام پر ہے، مگر اسے گنگریل مڑئی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جس میں گاؤں اور پاس کے باندھ کا حوالہ موجود ہے۔ دیوی کی آس پڑوس کے دیوتاؤں سے دوستی بھی برقرار ہے۔ ہر سال دیوالی کے بعد پہلے جمعہ کو ماں انگار موتی سالانہ تہوار کے لیے پڑوسی گاؤوں کے دیوتاؤں کو مدعو کرتی ہیں۔

گونڈ آدیواسی لیڈر اور گنگریل گاؤں میں ہر سال اس وقت میلہ کا انتظام کرنے والی ٹیم کے رکن وشنو نیتام کہتے ہیں، ’’ہم اپنے آباء و اجداد کے زمانے سے تقریباً ہر آدیواسی گاؤں میں یہ مڑئی [میلہ] منعقد کرتے آ رہے ہیں۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں، ’’ مڑئی ہماری روایتی آدیواسی ثقافت کا حصہ ہے۔‘‘ مقامی لوگوں کے علاوہ گاؤں کے باہر سے بھی لوگ میلہ میں آتے ہیں، جو اچھی فصل کے لیے دیوتاؤں کو پھول چڑھاتے ہیں اور اگلے سال کے لیے دعا مانگتے ہیں۔ یہ مڑئی اُن تقریباً ۵۰ میلوں میں سے ایک ہے جو ہر سال ضلع میں لگائے جاتے ہیں۔ یہ وسطی ہندوستان کے اس ضلع میں ہونے والی مڑئی سیریز کا پہلا میلہ ہے۔

مقامی لوگوں کے علاوہ گاؤں کے باہر سے بھی لوگ میلے میں جمع ہوتے ہیں، جو اچھی فصل کے لیے دیوتاؤں کو پھول چڑھاتے ہیں اور اگلے سال کے لیے دعائیں مانگتے ہیں

ویڈیو دیکھیں: گنگریل میں دیوتاؤں کا ملن

سال ۱۹۷۸ میں بھیلائی اسٹیل پلانٹ کو پانی کی فراہمی اور سینچائی کے مقصد سے مہاندی پر ایک باندھ (بند) بنایا گیا۔ دستاویزی طور پر پنڈت روی شنکر باندھ کے نام سے مشہور اس باندھ نے دیوی اور اس کے عقیدت مندوں کے لیے مصیبت کھڑی کر دی۔

باندھ بنانے کے دوران اور اس کے بعد آئے سیلاب نے چانور گاؤں کے لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کو مجبور کر دیا۔ ایشور بتاتے ہیں، ’’تقریباً ۵۴-۵۲ گاؤوں سیلاب میں ڈوب گئے تھے اور لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے۔‘‘

اس لیے وہ اپنی دیوی کو بھی ساتھ لے گئے اور باندھ سے ۱۶ کلومیٹر دور دھمتری کے گنگریل علاقے میں جا کر آباد ہو گئے۔

تقریباً آدھی صدی بعد یہ باندھ آج ایک مشہور سیاحتی مقام بن چکا ہے، مگر بے گھر ہوئے کئی لوگ آج بھی حکومت سے معاوضہ ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

Left: The road leading to the madai.
PHOTO • Prajjwal Thakur
Right: Ishwar Netam (third from left) with his fellow baigas joining the festivities
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: مڑئی کی طرف جانے والی سڑک۔ دائیں: ایشور نیتام (بائیں سے تیسرے) اپنے ساتھی بیگاؤں کے ساتھ تہوار میں شامل ہو رہے ہیں

Left: Wooden palanquins representing Angadeos are brought from neighbouring villages.
PHOTO • Prajjwal Thakur
Right: Items used in the deva naach
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: انگ دیووں کی نمائندگی کرنے والی لکڑی کی پالکیاں پڑوسی گاؤوں سے لائی گئی ہیں۔ دائیں: دیو ناچ میں استعمال کیے جانے والے سامان

مڑئی میں دن بھر چلنے والا جشن دوپہر میں شروع ہوتا ہے اور شام تک چلتا ہے۔ دیوی کو باندھ کے قریب رکھا جاتا ہے اور صبح سے ہی وہاں بھکت جمع ہونے لگتے ہیں۔ ان میں سے کچھ فوٹو شوٹ یا جلد از جلد باندھ پر جا کر سیلفی لینے کے لیے چکر لگا آتے ہیں۔

مڑئی تک جانے والی سڑک پر مٹھائی اور نمکین بیچنے والوں کی دکانیں سجی ہیں۔ ان میں سے کچھ پرانی ہیں، تو کچھ صرف تہوار کے لیے ہی کھولی گئی ہیں۔

مڑئی کی باقاعدہ شروعات سے اب تک یہاں تقریباً ۶-۵ ہزار لوگ آ چکے ہیں۔ دھمتری کے رہنے والے نلیش رائے چورہ نے ریاست کے کئی مڑئی کا دورہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے کانکیر، نرہرپور، نگری سیہاوا، چراما، پکھانجور اور کئی دوسری جگہوں کے مڑئی دیکھے ہیں، مگر گنگریل مڑئی کی بات ہی کچھ الگ ہے۔‘‘

یہاں مڑئی میں پوجا کرنے والوں میں وہ عورتیں بھی ہوتی ہیں، جن کا حمل نہیں ٹھہرتا ہے۔ آدیواسی لیڈر اور کارکن ایشور منڈاوی بتاتے ہیں، ’’بے اولاد عورتیں ماں انگار موتی سے آشیرواد لینے آتی ہیں۔ ان میں سے کئی کی منتیں پوری ہوئی ہیں۔‘‘

The road leading up to the site of the madai is lined with shops selling sweets and snacks
PHOTO • Prajjwal Thakur
The road leading up to the site of the madai is lined with shops selling sweets and snacks
PHOTO • Prajjwal Thakur

مڑئی تک جانے والی سڑک پر مٹھائی اور نمکین بیچنے والوں کی دکانیں سجی ہیں

Left: Women visit the madai to seek the blessings of Ma Angarmoti. 'Many of them have had their wishes come true,' says Ishwar Mandavi, a tribal leader and activist.
PHOTO • Prajjwal Thakur
Right: Worshippers come to the madai with daangs or bamboo poles with flags symbolising deities
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: عورتیں ماں انگار موتی کا آشیرواد پانے کے لیے مڑئی آتی ہیں۔ آدیواسی لیڈر اور کارکن ایشور منڈاوی کہتے ہیں، ’ان میں سے کئی لوگوں کی منتیں پوری ہوئی ہیں۔‘ دائیں: بھکت دیوتاؤں کے علامتی جھنڈوں والے ڈانگوں یا بانس کے ڈنڈوں کے ساتھ مڑئی میں آتے ہیں

ہماری ملاقات اُن عورتوں سے ہوئی جو رائے پور (۸۵ کلومیٹر)، جانجگیر (۲۶۵ کلومیٹر) اور بیمیترا (۱۳۰ کلومیٹر) جیسے دور دراز کے علاقوں سے آئی ہیں۔ وہ قطار میں کھڑی ہیں اور آشیرواد پانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔

ان میں سے ایک نے بتایا، ’’میری شادی کو پانچ سال ہو گئے ہیں، مگر کوئی بچہ نہیں ہوا ہے۔ اس لیے میں آشیرواد لینے آئی ہوں۔‘‘ یہ عورت اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں۔ وہ میلہ میں آئیں ان ۴۰۰-۳۰۰ عورتوں میں سے ایک ہیں، جو صبح سے اُپواس پر (بھوکی) ہیں۔

دوسرے گاؤوں سے عقیدت مند اپنے ڈانگ (دیوتاؤں کے علامتی جھنڈے والے بانس کے ڈنڈے) اور انگا (دیوتاؤں) کے ساتھ دیو ناچ میں شریک ہونے آئے ہیں۔ وہ ان ڈنڈوں اور لکڑی کی پالکیوں کو پورے علاقے میں لے جائیں گے اور بھکت اپنے دیوتاؤں سے آشیرواد لیں گے۔

نلیش کہتے ہیں، ’’میں ان مڑئیوں میں آدیواسی ثقافت اور زندگی کو قریب سے دیکھ پاتا ہوں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Purusottam Thakur

Purusottam Thakur is a 2015 PARI Fellow. He is a journalist and documentary filmmaker and is working with the Azim Premji Foundation, writing stories for social change.

Other stories by Purusottam Thakur
Photographs : Prajjwal Thakur

Prajjwal Thakur is an undergraduate student at Azim Premji University.

Other stories by Prajjwal Thakur
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

Sarbajaya Bhattacharya is a Senior Assistant Editor at PARI. She is an experienced Bangla translator. Based in Kolkata, she is interested in the history of the city and travel literature.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Video Editor : Shreya Katyayini

Shreya Katyayini is a filmmaker and Senior Video Editor at the People's Archive of Rural India. She also illustrates for PARI.

Other stories by Shreya Katyayini
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique