عبدالطیف بجران، کشمیر کے اونچے پہاڑوں میں چراگاہوں کی تلاش میں اپنے ۱۵۰ مویشیوں – بھیڑ، بکریوں، گھوڑے اور کتے – کے ساتھ مئی کے شروع میں راجوری ضلع کے پری گاؤں سے روانہ ہوئے۔ ان کا بیٹا طارق اور کچھ دوسرے لوگ بھی اس سفر میں ان کے ساتھ تھے۔ ’’میں نے اپنی فیملی [بیوی اور بہو] کو کمزور جانوروں، کھانے پینے، رہنے اور دیگر ضروری سامانوں کے ساتھ ایک چھوٹے ٹرک سے آگے بھیج دیا تھا،‘‘ جموں کے ۶۵ سالہ عبدالطیف بتاتے ہیں۔

لیکن دو ہفتے بعد، ’’میں انہیں [وائل میں] دیکھ کر حیران رہ گیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ عبدالطیف تو یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کی فیملی کے لوگ (ہند-پاکستان سرحد پر واقع) منی مرگ پہنچ کر اپنا خیمہ نصب کر چکے ہوں گے۔

وہاں پہنچنے کی بجائے، یہ لوگ اپنی منزل سے ۱۵ دن کے فاصلے پر رکے ہوئے تھے۔ عبدالطیف بتاتے ہیں کہ ایسا انہوں نے سرد موسم کی وجہ سے کیا تھا۔ وہ زوجیلا درّے کی برف کے پگھلنے کا انتظار کر رہے تھے، جسے پار کرکے ہی منی مرگ پہنچا جا سکتا ہے۔

جموں میں ہر سال جب گرمی کا موسم شروع ہوتا ہے اور گھاس کم ہونے لگتی ہے، تو بکروال جیسی خانہ بدوش چرواہا برادریوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بہتر چراگاہوں کی تلاش میں وادیٔ کشمیر چلے جاتے ہیں اور اکتوبر میں، جب وہاں کا موسم ٹھنڈا ہونے لگتا ہے تو واپس اپنے گھر آ جاتے ہیں۔

لیکن جب اونچے پہاڑی علاقوں میں گھاس کے میدان برف سے ڈھکے ہوں، تو عبدالطیف جیسے چرواہے بیچ میں ہی پھنس جاتے ہیں۔ وہ نہ تو اپنے گاؤں واپس لوٹ سکتے ہیں جہاں گھاس ختم ہو چکی ہے، اور نہ ہی اونچے چراگاہوں کی طرف جا سکتے ہیں۔

Abdul Latief Bajran (left) migrated out of his village, Peri in Rajouri district, in early May with his 150 animals – sheep, goats, horses and a dog – in search of grazing grounds high up in the mountains of Kashmir. Seated with Mohammad Qasim (right) inside a tent in Wayil near Ganderbal district, waiting to continue his journey
PHOTO • Muzamil Bhat

عبدالطیف بجران (بائیں)، کشمیر کے اونچے پہاڑوں میں چراگاہوں کی تلاش میں اپنے ۱۵۰ مویشیوں – بھیڑ، بکریوں، گھوڑے اور کتے – کے ساتھ مئی کے شروع میں راجوری ضلع کے پری گاؤں سے روانہ ہوئے تھے۔ یہاں وہ گاندربل ضلع کے قریب وائل میں محمد قاسم (دائیں) کے ساتھ ایک خیمہ کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں اور آگے جانے کا انتظار کر رہے ہیں

Left: Women from the Bakarwal community sewing tents out of polythene sheets to use in Minimarg.
PHOTO • Muzamil Bhat
Right: Zabaida Begum, Abdul Latief's wife is resting in the tent.
PHOTO • Muzamil Bhat

بائیں: بکروال کمیونٹی کی عورتیں پولی تھین کے ٹینٹ کی سلائی کر رہی ہیں جسے وہ منی مرگ میں استعمال کریں گی۔ دائیں: عبدالطیف کی بیوی زبیدہ بیگم ٹینٹ میں آرام کر رہی ہیں

محمد قاسم کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اونچے علاقوں کی طرف ابھی اپنا سفر شروع بھی نہیں کیا تھا کہ بے موسم پڑنے والی شدید گرمی کی وجہ سے ان کے کئی مویشیوں کی موت ہو گئی۔ ’’گرمی کی وجہ سے عام طور پر ہماری بھیڑ بکریوں کو بخار اور ڈائریا (دست یا اسہال) ہو جاتا ہے جس سے وہ کافی کمزور ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کی جان بھی جا سکتی ہے،‘‘ ۶۵ سالہ قاسم کہتے ہیں۔

وہ جموں کے راجوری ضلع میں واقع انند گاؤں کے ایک بکروال ہیں، جنہوں نے تاخیر سے اپنا سفر شروع کیا تھا کیوں کہ گرمی کے ابتدائی دنوں میں غیر متوقع طور پر درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے ان کے کئی جانور بیمار ہو گئے تھے اور ۵۰ بھیڑ بکریوں کی موت ہو گئی تھی۔

اب وہ بیچ راستے میں رک کر آگے کے سفر کا انتظار کر رہے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کا ایک ساتھی لیاقت، جو پہلے ہی وادی کشمیر پہنچ چکا تھا، اسے فون کرکے وہ موسم کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ ’’اُدھر سے ہمیشہ یہی جواب ملتا تھا کہ موسم ابھی خراب ہے۔‘‘ موبائل نیٹ ورک ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے لیاقت سے رابطہ کرنا ایک مشکل کام تھا۔

قاسم نے جب یہ سنا کہ وادی میں برف اب بھی موجود ہے، تو وہ اپنے گاؤں سے نکلنا نہیں چاہتے تھے، خاص کر اس وجہ سے کہ گرمی نے ان کے جانوروں کو کافی کمزور کر دیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ بکریاں زیادہ ٹھنڈ برداشت نہیں کر سکتیں اور اس سے ان کی موت ہو سکتی ہے، جب کہ بھیڑیں اپنے اون کی وجہ سے کچھ حد تک سردی کو برداشت کر لیتی ہیں۔

لیکن کئی دنوں تک انتظار کرنے کے بعد جب انہیں کوئی اچھی خبر نہیں ملی، تو مجبوراً انہوں نے اپنے جانوروں کو ایک ٹرک میں لادا اور وائل میں ڈیرہ ڈالے دیگر بکروال خاندانوں کے پاس پہنچ گئے۔ جموں میں گرمی بڑھتی جا رہی تھی، اس لیے وہ سوچنے لگے کہ ’’اگر میں نے انہیں یہاں سے فوراً نہیں نکالا، تو میں ان سبھی سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔

روانگی میں پہلے ہی دو ہفتے کی تاخیر کر چکے قاسم اب کوئی کوتاہی نہیں برتنا چاہتے تھے۔ ’’میں نے ۳۵ ہزار روپے ادا کرکے اپنے مویشیوں کو کالاکوٹ سے گاندربل [۲۲۹ کلومیٹر] لے جانے کا انتظام کیا۔‘‘

A herd of sheep and goat climbing up towards Lidwas peak in Srinagar for grazing.
PHOTO • Muzamil Bhat
Imran (right) is one of the youngest herders who will travel with his family to Lidwas.
PHOTO • Muzamil Bhat

چرنے کے لیے سرینگر کی لدواس چوٹی کی طرف بڑھتی ہوئی بھیڑ بکریاں۔ عمران (دائیں) چھوٹی عمر کے چرواہوں میں سے ایک ہیں جو اپنی فیملی کے ساتھ لدواس جا رہے ہیں

عبدالطیف کو بھی اپنے جانوروں کی حفاظت کے مدنظر منی مرگ پہنچنے میں ایک مہینہ کی تاخیر ہوئی۔ ’’اس سال کیوں کہ کشمیر کے اونچے علاقوں میں برف ابھی بھی جمی ہوئی ہے۔‘‘ ان کی فیملی اور مویشیوں کا جھنڈ آخرکار ۱۲ جون کو وہاں پہنچ پایا۔

عبدالطیف کے مویشیوں کو نہ صرف برف، بلکہ بیچ راستے میں بھاری بارش کی وجہ سے بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ بتاتے ہیں، ’’جنوبی کشمیر کے شوپیاں میں اچانک آئے سیلاب کی وجہ سے میں نے اپنی ۳۰ بھیڑیں کھو دیں۔‘‘ یہ واقعہ اس سال منی مرگ جاتے وقت بیچ راستے میں پیش آیا۔ ’’ہم لوگ شوپیاں ضلع میں مغل روڈ سے آ رہے تھے اور اچانک بارش ہونے لگی، جو پانچ دنوں تک جاری رہی۔‘‘

عبدالطیف بتاتے ہیں کہ وہ بچپن سے ہی گرمیوں کے موسم میں ہر سال جموں سے کشمیر جاتے رہے ہیں، لیکن مئی کے آخر اور جون کی ابتدا میں ایسا خطرناک موسم انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ اس بات سے خوش ہیں کہ ان کی فیملی نے کچھ دنوں تک وائل میں رکنے کا فیصلہ کیا اور پہاڑوں پر جانے میں کوئی جلد بازی نہیں دکھائی۔ ’’میں [منی مرگ کے راستے میں] زوجیلا کو پار کرتے وقت مزید بھیڑیں نہیں کھونا چاہتا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

خانہ بدوش چرواہا برادریوں کے لوگ روایتی طور پر شوپیاں سے گزرنے والے پرانے مغل روڈ والے راستے کو اپناتے رہے ہیں۔

جب انہیں چراگاہوں کی بجائے برف ملتی ہے، تو ’’ہم کوئی ٹھکانہ یا ٹینٹ گاڑنے کی جگہ ڈھونڈتے ہیں۔ ہم آس پاس کوئی بڑا درخت یا ڈوکا [مٹی کا گھر] تلاش کرتے ہیں،‘‘ عبدالطیف کہتے ہیں۔ ’’اگر آپ خوش قسمت ہوئے تو کچھ نہ کچھ ضرور مل جائے گا، ورنہ آپ کو کھلے میں ٹینٹ گاڑنا ہوگا اور بارش میں بھیگنا پڑے گا۔‘‘ ان کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ جانوروں کی جان بچائی جائے۔ ’’سب کو اپنی زندگی پیاری ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

خانہ بدوش چرواہے اپنے ساتھ کھانے کا اتنا سامان ضرور لے کر چلتے ہیں جس سے کچھ ہفتوں تک ان کا گزارہ چل جائے، لیکن خراب موسم کی وجہ سے پینے کا پانی حاصل کرنا ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ طارق احمد کہتے ہیں، ’’خراب موسم کی وجہ سے اگر ہم کہیں پھنس گئے، تو پینے کا پانی حاصل کرنا ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن جاتا ہے۔ برفباری کے وقت جب ہمیں پانی نہیں ملتا تو ہم صاف یا گندا، جیسا بھی پانی مل جائے اسے ابال کر پیتے ہیں۔‘‘

Shakeel Ahmad (left) enjoying lunch on a sunny afternoon in Wayil, Ganderbal with his wife Tazeeb Bano, and daughters Nazia and Rutba. The wait is finally over and the family are packing up to move into the higher Himalayas
PHOTO • Muzamil Bhat
Shakeel Ahmad (left) enjoying lunch on a sunny afternoon in Wayil, Ganderbal with his wife Tazeeb Bano, and daughters Nazia and Rutba. The wait is finally over and the family are packing up to move into the higher Himalayas.
PHOTO • Muzamil Bhat

شکیل احمد (بائیں) گاندربل کے وائل میں اپنی بیوی تہذیب بانو، اور دو بیٹیوں نازیہ اور رتبہ کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔ انتظار کی گھڑی آخرکار ختم ہوئی اور اب یہ فیملی ہمالیہ کے اونچے علاقوں کی طرف کوچ کرنے کے لیے اپنے سامان باندھ رہی ہے

The family of Shakeel are taking along their household items to set up a new home in Baltal before the final destination at Zero point, Zojilla.
PHOTO • Muzamil Bhat
Right: A Bakerwal hut ( dok ) in Lidwas is still under snow even in late summer. Lidwas is a grazing ground and also base camp for climbing to Mahadev peak –Srinagar’s highest mountain at 3,966 metres
PHOTO • Muzamil Bhat

شکیل کی فیملی اپنے تمام گھریلو سامان ساتھ لے کر جا رہی ہے، جسے وہ اپنی آخری منزل، یعنی زوجیلا کے زیرو پوائنٹ سے پہلے بال تل کے نئے گھر میں استعمال کریں گے۔ دائیں: گرمیوں کے آخری دن چل رہے ہیں لیکن لدواس میں بکروالوں کی یہ جھونپڑی (ڈوکا) اب بھی برف سے ڈھکی ہوئی ہے۔ لدواس ایک چراگاہ ہے اور ۳۹۶۶ میٹر کی بلندی پر واقع سرینگر کے سب سے اونچے پہاڑ، مہادیو کی چوٹی پر چڑھائی کرنے والوں کے لیے بیس کیمپ بھی ہے

دوسرے بکروالوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس سال وہ وادی کی طرف تاخیر سے روانہ ہوئے۔ ’’ہم نے اس سال [۲۰۲۳] یکم مئی کو راجوری سے اپنا سفر شروع کیا تھا اور ۲۰ دنوں تک پہلگام میں پھنسے رہے، جہاں ہمیں برف کے پگھلنے کا انتظار کرنا پڑا،‘‘ عبدالوحید بتاتے ہیں، جو ۳۵ سال کے ایک بکروال ہیں اور اپنی کمیونٹی کے چرواہوں کے ایک گروپ کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ لوگ لدر وادی سے ہوتے ہوئے کولاہوئی گلیشیئر کی طرف جا رہے تھے۔

اس راستے کو پورا کرنے میں انہیں عام طور پر ۲۰ سے ۳۰ دن لگتے ہیں، لیکن موسم خراب ہونے پر اس میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے۔ ’’میں اپنے ساتھ ۴۰ بھیڑیں لے کر آیا تھا، جن میں سے آٹھ کو پہلے ہی کھو چکا ہوں،‘‘ ۲۸ سال کے شکیل احمد برگڑ بتاتے ہیں۔ وہ سونمرگ میں واقع بال تل جا رہے تھے، لیکن وہاں کی برف ابھی پگھلی نہیں تھی اس لیے ۷ مئی کو انہیں وائل میں ہی اپنا خیمہ نصب کرنا پڑا۔ بال تل سے وہ زوجیلا کے زیرو پوائنٹ تک جائیں گے، جہاں وہ کچھ دیگر بکروال خاندانوں کے ساتھ اگلے تین مہینے گزاریں گے اور اپنے مویشیوں کو چرائیں گے۔ شکیل کو ڈر ہے کہ ان کے کئی اور جانوروں کی موت ہو سکتی ہے کیوں کہ ’’ہم جس علاقے کی طرف جا رہے ہیں وہاں اکثر برف کے تودے کھسکتے رہتے ہیں۔‘‘

شکیل بتاتے ہیں کہ پچھلے سال اچانک آئے سیلاب میں ان کے ایک دوست، فاروق کی پوری فیملی اور ان کے تمام مویشیوں کی جان چلی گئی تھی۔

بے موسم کی بارش اور برف کا سامنا کرنا بکروالوں کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ طارق ۲۰۱۸ کا ایک واقعہ یاد کرتے ہیں جب منی مرگ میں اچانک برف پڑنے لگی تھی۔ ’’صبح کو جب ہم سو کر اٹھے تو اپنے ارد گرد تقریباً ۲ فٹ برف کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ اس کی وجہ سے ٹینٹ کے سبھی دروازے بند ہو گئے تھے،‘‘ ۳۷ سال کے طارق بتاتے ہیں۔ برف ہٹانے کے لیے ان کے پاس کوئی سامان نہیں تھا، لہٰذا ’’ہمارے پاس جو بھی برتن تھا ہمیں اسی کی مدد سے برف ہٹانی پڑی،‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں۔

اور جب وہ اپنے مویشیوں کے پاس پہنچے، تو دیکھا کہ ان میں سے کئی کی موت ہو چکی ہے۔ ’’ہم نے بھیڑ، بکریاں، گھوڑے اور یہاں تک کہ کتے بھی کھو دیے کیوں کہ وہ [ٹینٹ کے] باہر تھے اور بھاری برفباری کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے،‘‘ طارق یاد کرتے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Muzamil Bhat

Muzamil Bhat is a Srinagar-based freelance photojournalist and filmmaker, and was a PARI Fellow in 2022.

Other stories by Muzamil Bhat
Editor : Sanviti Iyer

Sanviti Iyer is Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also works with students to help them document and report issues on rural India.

Other stories by Sanviti Iyer
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique