’’آپ کو اسے ۳،۰۰۰ بار پیٹنا پڑے گا،‘‘ میناکشی کہتی ہیں۔ اور وہی کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ یہ مٹی کا کچا برتن ہے، جو کھانا پکانے میں استعمال ہونے والے کسی بھی دوسرے برتنوں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ حالانکہ، وہ اس کی شکل کو مٹی کا برتن بنانے والے آلہ سے  درست کریں گی۔ اپنی گود میں اسے رکھ کر وہ اس کے کناروں کو لکڑی کے ایک بڑے کُفچہ سے پیٹنا شروع کرتی ہیں۔ پوری طرح مکمل ہو جانے پر، یہ برتن ایک گھٹم بن جائے گا، جو کہ موسیقی کا ایک اعلیٰ کوالٹی والا آلہ ہوتا ہے، جسے عام طور پر جنوبی ہندوستان کے کارنیٹک کنسرٹس میں استعمال کیا جاتا ہے۔ میناکشی کیشوَن گھٹم بنانے کی ماہر ہیں۔ وہ ۶۳ سال کی ہیں اور ان کی فیملی ایسی واحد فیملی ہے، جو اس آلہ کی انوکھی قسم، یعنی مانا مدورئی کو بنا سکتی ہے، جس میں کہ وہ خود ماہر ہیں۔

تمل ناڈو کے مدورئی سے ایک گھنٹے کی دوری پر واقع میناکشی کا آبائی شہر مانا مدورئی گھٹم کے لیے مشہور ہے۔ ۱۵ سال کی عمر میں ’’میری شادی ایک ایسی فیملی میں ہوئی، جہاں کم از کم چار نسلوں سے اس آلہ کو بنایا جاتا رہا ہے۔‘‘ انھوں نے یہ ہنر اپنے شوہر اور سسر سے سیکھا۔ ’’اسے پوری طرح سیکھنے میں چھ سال لگتے ہیں،‘‘ ان کے بیٹے رمیش نے بتایا۔ اور وہ بھی بہت تیزی کے ساتھ۔ ’’اگر آپ روایتی برتن ساز نہیں ہیں، تو اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔‘‘

’’اس کا خاص پہلو ہے ٹون کو بہتر بنانے کے لیے گھٹم کو تاؤ دینا، یعنی گرم کرنا،‘‘ میناکشی تفصیل بتاتے ہوئے کہتی ہیں، ساتھ ہی وہ اپنے دائیں ہاتھ سے اس کے کونے کو پیٹ بھی رہی ہیں۔ اپنے بائیں ہاتھ سے وہ برتن کے اندر رکھے گول پتھر کو گھماتی جاتی ہیں۔ ’’یہ اس چیز کو دیکھنے کے لیے ہے کہ اس کی دیوار کہیں سے ٹوٹ تو نہیں رہی ہے اور اسے ہموار بنانے کے لیے،‘‘ وہ بتاتی ہیں، اور کچھ وقفہ کے لیے رک جاتی ہیں، تاکہ آرام کر سکیں۔ چار دہائیوں سے مٹی گوندھنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ میں اکثر چوٹ لگی رہتی ہے۔ وہ تفصیل سے بتاتی ہیں کہ کیسے درد ان کے تھکے ہوئے کندھے سے شروع ہوتا ہے اور پھر وہاں سے ہوتا ہوا ہاتھوں کی انگلیوں کے پوروں تک پہنچتا ہے۔ لیکن ایک منٹ کے بعد، وہ لکڑی اور پتھر اٹھاتی ہیں اور اپنی گود میں رکھ کر برتن کو درست کرنے لگتی ہیں۔ پیٹنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔


02-IMG_4366-&-4396-AK-When Meenakshi Beats a Pot 3000 Times(STORY).jpg

میناکشی ایک گھٹم کو پیٹ رہی ہیں (بائیں)؛ وہ اس گول پتھر کو پکڑے ہوئی ہیں، جسے برتن کے اندر رکھ کر اس کی دیوار کو ہموار کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے (دائیں)۔


ہم لوگ مانا مدورئی میں ’ایوارڈ جیتنے والی برتن ساز‘ سے ملنے گئے تھے، انھیں وہاں اسی نام سے لوگ جانتے ہیں۔ یہ انعام انھیں سنگیت ناٹک اکیڈمی کی طرف سے ملا ہے۔ ایک بڑی فریم کی ہوئی تصویر میں میناکشی صدرِ جمہوریہ ہند سے یہ ایوارڈ حاصل کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ یہ کمرے میں دیوار کے اوپر ٹنگی ہوئی ہے اور ساتھ ہی ان کے آنجہانی شوہر کی مالا چڑھی ہوئی تصویر بھی دیوار پر لگی ہے۔ رمیش اپنی فیملی کے دہلی کے یادگار سفر کو یاد کرتے ہیں۔ ’’یہ میری ماں کی ہوائی جہاز کی پہلی پرواز تھی۔ وہ پرجوش بھی تھیں اور ڈری ہوئی بھی۔‘‘ ۱۱ اپریل، ۲۰۱۴ کو، ’’ہمیں ایک ایئرکنڈیشنڈ بس میں راشٹرپتی بھون لے جایا گیا۔ اس شام، وہ انعام حاصل کرنے والی ملک کی شاید پہلی ساز بنانے والی خاتون بنیں۔‘‘


03-IMG_4317-&-4323-AK-When Meenakshi Beats a Pot 3000 Times(STORY).jpg

اکیڈمی ایوارڈ کے ساتھ میناکشی (دائیں) اور صدرِ جمہوریہ سے انعام حاصل کرتی ہوئی فریم والی  ان کی تصویر (بائیں)


رمیش خود بھی ایک ہنرمند دستکار ہیں، جنھیں اپنی ماں کے کام پر فخر ہے۔ وہ اکیڈمی کا وہ کتابچہ ہمیں دکھاتے ہیں، جس میں میناکشی کی تعریف ’’گھٹم بنانے والی شاید واحد خاتون، جنھیں یہ معلوم ہے کہ بہترین گھٹم کیسے بنایا جاتا ہے‘‘ کے طور پر کی گئی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ان کے ذریعے بنائے گئے سینکڑوں گھٹم پرفارمرس (فنکار) اپنے ساتھ لے کر پوری دنیا میں گھومتے ہیں۔‘‘

ہر ساز کی مٹی بھی کچھ دوری طے کرتی ہے۔ ’’ہم اسے پانچ یا چھ تالابوں سے اکٹھا کرتے ہیں،‘‘ رمیش بتاتے ہیں۔ اسے دن بھر سُکھایا جاتا ہے، اس کے بعد وائیگائے ندی کی ریت اس میں ملائی جاتی ہے۔ ’’ٹون کو بہتر بنانے کے لیے ہم اس میں گریفائٹ اور پارہ ملاتے ہیں، اسے چھ گھنٹے تک پیٹتے ہیں اور پھر اسے دو دنوں تک کسی کونے میں رکھ دیتے ہیں۔ جب گندھی ہوئی مٹی ٹھوس ہو جاتی ہے، تو ہم اس سے ساز یا برتن بناتے ہیں۔‘‘

رمیش اسے بڑی آسانی سے بناتے ہیں۔ وہ بجلی سے چلنے والے پہیے کے سامنے بیٹھتے ہیں، گندھی ہوئی مٹی کے ایک پیڑے کو چوڑا کرکے اس کے بیچ میں رکھتے ہیں۔ جیسے ہی پہیہ گھومنے لگتا ہے، وہ مٹی کو ہاتھ لگا کر اس کی شکل برتن جیسی بنانے لگتے ہیں۔ تیار ہونے پر، برتن کے کناروں پر پٹائی کی جاتی ہے، جس سے وہ پوری طرح بن کر تیار ہو جاتا ہے۔ (اس وقت، میناکشی کچی مٹی کا جو برتن یا ساز بناتی ہیں، ان میں سے ہر ایک کا وزن ۱۶ کلوگرام ہوتا ہے)۔ اگلے کچھ ہفتوں تک گھٹم کو سایے میں خشک کیا جاتا ہے، اس کے بعد کڑی دھوپ میں چار گھنٹوں تک گرم کیا جاتا ہے۔ اخیر میں، یہ لوگ ان سازوں پر پیلے اور لال رنگ کی پالش لگاتے ہیں اور کمیونٹی کی بھٹّی میں ۱۲ گھنٹے تک اُسے پکاتے ہیں۔ پک جانے کے بعد برتان کا وزن آدھا کم ہو جاتا ہے۔ نتیجہ میں آٹھ کلو مٹی بہترین موسیقی پیدا کرتی ہے۔


04-IMG_4441-&-4474-AK-When Meenakshi Beats a Pot 3000 Times(STORY).jpg

رمیش بجلی سے چلنے والے پہیے کو گھما رہے ہیں (بائیں)؛ گندھی ہوئی مٹّی کو برتن کی شکل دیتے ہوئے (دائیں)


گزشتہ برسوں کے دوران گھٹم بنانے کے طریقہ میں کئی قسم کی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ اب یہ برتن یا ساز اسے بجانے والوں کی سہولت اور پسند کے مطابق بنائے جاتے ہیں، ہلکے، چھوٹے، زیادہ نفیس۔ ’’انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی سے لے جایا جا سکتا ہے،‘‘ رمیش بتاتے ہیں۔ مانامدورئی کے گھٹم اب بھی سب سے بھاری ہوتے ہیں۔ وہ کھانا پکانے والے برتن سے تین گنا زیادہ وزنی ہوتے ہیں، اور دو گنا موٹے۔ چنّئی اور بنگلورو کے گھٹم ہلکے اور پتلے ہوتے ہیں۔

تکنیک کو اگر چھوڑ دیا جائے، تو مانا مدورئی علاقے کی مٹی کو زیادہ اچھا کہا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اب بہترین قسم کی یہ مٹی اینٹیں بنانے کے کام میں استعمال ہونے لگی ہے، جس کی وجہ سے برتن سازوں کے ذریعۂ معاش پر اس کا اثر پڑ رہا ہے۔ پھر بھی، رمیش گھٹم بنانے کا ہنر اپنی بیٹیوں، بھتیجہ اور بھیتجی کو سکھا کر خوش ہیں، جو کہ فیملی کی پانچویں نسل ہے۔ اس کا تعلق پیسے سے نہیں ہے۔ گھٹم سے انھیں ’’ایک عدد کے معمولی چھ سو روپے ملتے ہیں۔‘‘ اگر اس کا موازنہ چینی مٹی سے بنے ایک چھوٹے، لکژری برانڈ پیالے سے کیا جائے، تو اُس کی قیمت چند ہزار روپے ہوتی ہے۔


05-IMG_4559-AK-When Meenakshi Beats a Pot 3000 Times(STORY).jpg

رمیش مٹی سے بنے کچے برتن کو پہیے سے اٹھا کر اندر لے جا رہے ہیں


اس کے باوجود، یہ فیملی اپنی ۱۶۰ سال پرانی وراثت کو بچائے رکھنا چاہتی ہے۔ ’’میں جب ۱۰ سال کا تھا، تو ایک امریکی صحافی ہمارے گھر آئی،‘‘ رمیش بتاتے ہیں۔ ہماری اتنی کم آمدنی پر اسے کافی حیرانی ہوئی اور اس نے مجھے اور میری بہنوں کو اوٹی کے ایک کانوینٹ اسکول بھیجنے کی پیشکش کی۔ لیکن میرے والد نے منع کر دیا۔ وہ ہمیں برتن بنانا سکھانا چاہتے تھے۔‘‘ رمیش کو یہ ہنر ان کے ۹۰ سالہ بوڑھے دادا نے سکھایا جو ’’اپنی موت سے چند دنوں پہلے تک اس کام کو جاری رکھے ہوئے تھے۔‘‘ میناکشی بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے سسر اتنے لمبے دنوں تک اس لیے زندہ رہے، کیوں کہ انھوں نے کسی کو بھی اپنی تصویر کھینچنے کی اجازت نہیں دی۔ میں نے پشیمانی میں اپنے کیمرے کو اندر رکھ لیا۔

وہ اسے کم پیسوں میں اس لیے بیچتی ہیں، کیوں کہ انھیں لگتا ہے کہ وہ اس طرح میوزک کی خدمت کر رہی ہیں۔ یہ ساز لمبے عرصے سے دیگر سازوں کا ساتھی رہا ہے، اور اب سولو گھٹم بجانا کوئی انجانی چیز نہیں ہے۔ وہ ایسے کئی پروگراموں میں شریک ہوئی ہوئی ہیں، جہاں ان کے بنائے ہوئے گھٹم بجائے گئے۔ رمیش مجھے تفصیلات بتاتے ہیں۔ ان کی ماں زیادہ باتونی نہیں ہیں۔ اکیڈمی ایوارڈ کے بعد ان کے انٹرویوز سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔ ’’انھوں نے اپنا پہلا لمبا انٹرویو پچھلے سال آل انڈیا ریڈیو کو دیا تھا۔ انھوں نے اس کوژھامبو (شوربے) کے بارے میں بھی بتایا، جو میرے والد کو بہت پسند تھا،‘‘ رمیش ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔

اپنے کاروبار کے بارے میں وہ مجھے تھوڑا بہت بتاتی ہیں۔ گھٹم بنانا ان کا بنیادی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ بلکہ، ان کی مسلسل آمدنی کا ذریعہ مٹی کے برتنوں کا وسیع انتخاب ہے، جس میں وہ برتن بھی شامل ہیں جن میں سدھ میڈیسن تیار کی جاتی ہے۔ میناکشی، رمیش، رمیش کی بیوی موہنا، اور ان کی بہن کے پرمیشوری، چند دیگر معاوننین کے ساتھ پورے ایک سال میں تقریباً ۴۰۰ گھٹم بنا لیتے ہیں۔ ان میں سے صرف آدھے فروخت کیے جا سکتے ہیں، بقیہ ٹون ٹیسٹ میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ تبھی ہو سکتا ہے، جب انھیں آگ میں پکا لیا جائے۔ بعض دفعہ، سب سے اچھے دکھائی دینے والے برتن میوزک کے لائق نہیں ہوتے۔

’’اس بزنس سے ہماری کوئی مالی مدد نہیں ہوتی۔ سرکاریں بھی اس دستکاری کو فروغ نہیں دے رہی ہیں۔ اور انھیں بجانے والوں کے برعکس، ہمیں انعامات سے بھی نہیں نوازا جاتا،‘‘ رمیش افسردگی کے ساتھ کہتے ہیں۔ لیکن انھیں اس بات پر فخر ہے کہ تمام مشکلوں کے باوجود، ان کی فیملی بہت سے لوگوں کو ذریعۂ معاش مہیا کراتی ہے۔ جس دن ہم وہاں گئے، کام کرنے والے سبھی افراد بونداباندی کی وجہ سے آدھے سوکھے ہوئے برتنوں کو کمرے کے اندر رکھنے میں مصروف تھے۔ کمرے میں مٹی کے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے برتنوں (ٹیراکوٹا) کا انبار لگا ہوا تھا۔ آسمان پوری طرح بادلوں سے بھرا ہوا تھا اور یہ اشارہ دے رہا تھا کہ دوپہر بعد تیز بارش ہونے والی ہے۔ مانسون ان کے لیے آفت لے کر آتا ہے۔ کام میں رخنہ پڑ جاتا ہے، لہٰذا رمیش موڈ میں آکر گھٹم بجاتے ہیں۔ ان کے پاؤں اور ہاتھ صندل کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، انھوں نے ابھی ابھی مٹی گوندھی ہے۔ وہ برتن کے منھ کے قریب اپنی انگلی بجاتے ہیں، جس سے ایک تیز، دھات جیسی آواز نکلتی ہے۔ ’’میں نے اس کی باقاعدہ ٹریننگ نہیں لی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں، لیکن سرتال کا انھیں پورا علم ہے۔

ساز کے طور پر استعمال ہونے والے بیشتر آلات میں جانوروں کے چمڑے کا استعمال ہوتا ہے۔ ’’صرف گھٹم پانچ عناصر سے تیار ہوتا ہے۔‘‘ زمین سے مٹی حاصل کی جاتی ہے، اور سورج کی دھوپ اور ہوا سے اسے خشک کیا جاتا ہے۔ پانی اسے ترتیب دیتا ہے، آگ اسے پکاتی ہے۔ رمیش انسانی مزدوری کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔ انھیں ایسا کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ برآمدے کے اندر سے ہمیں صرف میناکشی کے ذریعہ گھٹم کو پیٹنے کی آواز اس وقت تک سنائی دیتی ہے، جب تک کہ اس کے کنارے ہموار اور ان کی پیج بالکل درست نہ ہو جائے۔


06-IMG_4398-AK-When Meenakshi Beats a Pot 3000 Times(STORY).jpg

گھر مٹی کے برتنوں سے بھرا ہوا ہے؛ صرف گھٹم کو پلاسٹک کی کرسی پر رکھا گیا ہے


دیکھیے جب میناکشی ایک برتن کو ۳۰۰۰ بار پیٹتی ہیں سلائڈ شو

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)
Aparna Karthikeyan

Aparna Karthikeyan is an independent journalist, author and Senior Fellow, PARI. Her non-fiction book 'Nine Rupees an Hour' documents the disappearing livelihoods of Tamil Nadu. She has written five books for children. Aparna lives in Chennai with her family and dogs.

Other stories by Aparna Karthikeyan
Translator : Qamar Siddique

Qamar Siddique is the Translations Editor, Urdu, at the People’s Archive of Rural India. He is a Delhi-based journalist.

Other stories by Qamar Siddique