منور خان (۶۵) جب پولیس اسٹیشن پہنچے، تو انہیں اندر سے اپنے بیٹے کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ تقریباً ۱۵ منٹ بعد چیخیں بند ہو گئیں۔ اسرائیل خان کے والد کو لگا کہ شاید پولیس نے ان کے بیٹے کو پیٹنا بند کر دیا ہے۔
اسی دن اسرائیل ایک مذہبی جلوس میں حصہ لے کر بھوپال سے نکلا تھا۔ وہ تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر دور گُنا میں واقع اپنے گھر جا رہا تھا، جہاں وہ تعمیر کے مقامات پر دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتا تھا۔
اُس شام (۲۱ نومبر، ۲۰۲۲ کو) وہ گُنا آ بھی گیا، لیکن گھر نہیں پہنچا۔ رات تقریباً ۸ بجے گوکل سنگھ کا چک، بستی میں اس کے گھر سے کچھ کلومیٹر دور چار پولیس والوں نے اس کا آٹو رکشہ روکا، جس میں وہ آ رہا تھا اور اسے اپنے ساتھ لے گئے۔
دراصل، اسرائیل کو جب حراست میں لیا گیا، تو وہ اپنی ساس سے بات کر رہا تھا۔ اس کی بڑی بہن بانو (۳۲) بتاتی ہیں، ’’اس طرح ہمیں پتہ چلا کہ وہ پولیس حراست میں ہے۔‘‘
اسے پاس کے کُشمیدا پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ یہیں اس کے والد منور نے اسے درد سے کراہتے ہوئے سنا تھا، کیوں کہ پولیس والے اسے بے رحمی سے پیٹ رہے تھے۔
تقریباً ۴۵ منٹ بعد منور کو پتہ چلا کہ اس کے بیٹے کی چیخیں اس لیے بند نہیں ہوئی تھیں کہ پولیس نے اس پر حملہ روک دیا تھا، بلکہ اس لیے کہ اسے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا تھا۔ پوسٹ مارٹم سے پتہ چلا کہ اس کی موت ’کارڈیو ریسپائریٹری فیلیور‘ (حرکت قلب اور سانس رکنے) اور سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
بعد میں میڈیا کی خبروں میں مدھیہ پردیش پولیس کے حوالے سے کہا گیا کہ ۳۰ سال کے اس مسلم مزدور کو اس لیے حراست میں لیا گیا تھا، کیوں کہ وہ کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر ایک جواری کو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے پولیس سے الجھ گیا تھا۔
مگر اس کے اہل خانہ کو اس بات پر یقین نہیں ہے۔ اسرائیل کی ماں مُنّی بائی کہتی ہیں، ’’اسے اس لیے اٹھایا گیا، کیوں کہ وہ مسلمان تھا۔‘‘
اس بات کو لے کر کوئی تنازع نہیں ہے کہ اسرائیل کی موت پولیس حراست میں ہوئی تھی، لیکن اس پر ضرور ہے کہ اس کی موت کیسے ہوئی۔
گُنا کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) راکیش ساگر کے مطابق، گُنا سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور اشوک نگر میں ریل کی پٹری پر گرنے کے بعد اسرائیل زخمی ہو کر پولیس اسٹیشن پہنچا تھا اور پولیس حراست میں اس کی موت ہو گئی۔ وہ کہتے ہیں، ’’چار متعلقہ کانسٹیبل فی الحال برخاست ہیں۔ ان کے خلاف تادیبی کارروائی چل رہی ہے۔ مگر یہ سامنے آیا ہے کہ انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ ہمارا محکمہ استغاثہ آگے کا قدم طے کرے گا۔‘‘
اس منحوس رات کُشمیدا پولیس نے منور کو بتایا تھا کہ اسرائیل کو کینٹ پولیس اسٹیشن لے جایا گیا ہے۔ وہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کی طبیعت خراب ہو گئی ہے اور اسے ضلع اسپتال لے جا رہے ہیں۔ بانو کہتی ہیں، ’’ہمیں احساس ہو گیا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ جب ہمارے والد اسپتال پہنچے، تو اسرائیل مر چکا تھا۔ اس کے پورے جسم پر چوٹ کے نشان تھے۔ اسے بے رحمی سے پیٹ کر مارا گیا تھا۔‘‘
اسرائیل کی ماں مُنی بائی بستی میں اپنے معمولی سے ایک کمرے والے گھر کے سامنے بیٹھیں بات چیت سن رہی ہیں اور آنسو چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کا گھر تین سے چار چھوٹے کنکریٹ کے کمروں میں سے ایک ہے، جس میں ایک گیٹ والے احاطہ کے اندر دو عام بیت الخلاء بنے ہوئے ہیں۔
مُنی بائی کافی کوشش کے بعد گفتگو کر پاتی ہیں۔ جب بھی وہ بولنے کی کوشش کرتی ہیں، رو پڑتی ہیں۔ مگر وہ اپنی بات رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’آج کل مسلمانوں کو نشانہ بنانا آسان ہو گیا ہے۔ ماحول ایسا ہے کہ ہم دوئم درجے کے شہری بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمیں مارا جا سکتا ہے اور کوئی بھی بولنے کی زحمت نہیں اٹھائے گا۔‘‘
جولائی ۲۰۲۲ میں مرکزی وزارت داخلہ نے لوک سبھا کو بتایا تھا کہ اپریل ۲۰۲۰ سے مارچ ۲۰۲۲ کے درمیان ہندوستان میں ۴۴۸۴ لوگوں کی حراست میں موت ہوئی، یعنی دو سال میں روزانہ چھ سے زیادہ موتیں ہوئیں۔
ان میں سے ۳۶۴ حراست میں اموات مدھیہ پردیش میں ہوئیں۔ صرف اتر پردیش، بہار اور مغربی بنگال اس معاملے میں مدھیہ پردیش سے آگے ہیں۔
گُنا کے سماجی کارکن وشنو شرما کہتے ہیں، ’’پولیس حراست میں مرنے والے زیادہ تر لوگ حاشیہ پر رہنے والی برداریوں سے یا اقلیتی طبقہ سے ہوتے ہیں۔ وہ معاشی طور پر کمزور ہوتے ہیں اور ان کی سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یہ سراسر ظلم ہے کہ ہم ان کے ساتھ کتنی بے رحمی سے پیش آتے ہیں۔‘‘
یومیہ مزدوری سے اسرائیل گھر میں ۳۵۰ روپے تک کما کر دے دیتا تھا۔ اور کبھی مہینہ اچھا گزرا تو وہ چار سے پانچ ہزار رپوے تک کما لیتا تھا۔ اسی آمدنی سے فیملی کا گزارہ چلتا تھا۔ اس کی فیملی میں اس کی بیوی رینا (۳۰) اور ۱۲، ۷ اور ۶ سال کی تین بیٹیاں اور ایک سال کا بیٹا ہے۔ بانو کہتی ہیں، ’’پولیس کو اپنے کام کے نتیجے سمجھنے چاہیے۔ انہوں نے بے وجہ ایک پوری فیملی کو برباد کر دیا۔‘‘
جب میں ستمبر ۲۰۲۳ کے آخری ہفتہ میں فیملی سے ملنے گیا تھا، تو رینا اور بچے گُنا کے مضافاتی علاقے میں واقع اپنے والدین کے گھر پر تھے۔ بانو کہتی ہیں، ’’وہ دونوں گھروں کے درمیان آتی جاتی رہتی ہے۔ اس نے کافی تکلیف برداشت کی ہے۔ ہم اس کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق آ جا سکتی ہے۔ یہ بھی اس کا گھر ہے۔ وہ بھی اس کا گھر ہے۔‘‘
رینا کی فیملی کے پاس زیادہ کچھ نہیں ہے اور وہ اس کی اور اس کے بچوں کی پرورش و پرداخت نہیں کر سکتی۔ والد کی موت کے بعد سے بیٹیاں اسکول سے باہر ہیں۔ ان کی چچی بانو کہتی ہیں، ’’اب ہم اسکول ڈریس، بیگ اور نوٹ بک کے لیے پیسے نہیں دے سکتے۔ بچے تناؤ کا شکار ہیں، خاص کر ۱۲ سال کی مہک۔ وہ پہلے بہت باتونی ہوا کرتی تھی، لیکن اب مشکل سے ہی کچھ بولتی ہے۔‘‘
ہندوستان سال ۱۹۹۷ میں ہی ٹارچر (ظلم و جبر) کے خلاف اقوام متحدہ کی قرارداد پر دستخط کر چکا ہے۔ مگر ملک اس کے خلاف قانون بنانے میں ناکام رہا ہے۔ اپریل ۲۰۱۰ میں کانگریس کی قیادت والی اُس وقت کی مرکزی حکومت نے لوک سبھا میں ایک ٹارچر مخالف بل پیش کیا تھا، لیکن وہ کبھی قانون میں تبدیل نہیں ہو پایا۔ زیر سماعت قیدیوں کو حراست میں ٹارچر کرنا ہندوستان میں عام بات ہے اور اس کے سب سے بڑے شکار ہوتے ہیں حاشیہ بردار برادریوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان، دلت اور آدیواسی۔
کھرگون ضلع کے خیر کنڈی گاؤں کے ایک چھوٹے آدیواسی کسان اور مزدور، بسن (۳۵) کا معاملہ لے لیں۔ اسے اگست ۲۰۲۱ میں پولیس نے اٹھایا تھا اور ۲۹ ہزار روپے چوری کرنے کے شک میں بے رحمی سے مارا پیٹا تھا۔
تین دن بعد، بھیل آدیواسی بسن کو عدالتی مجسٹریٹ کے سامنے لایا گیا، تو وہ صاف طور پر درد سے کراہ رہا تھا اور اس کا مقدمہ لڑ رہے کارکنوں کی مانیں تو وہ بغیر مدد کے سیدھے کھڑا بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔ پھر بھی اسے پولیس حراست میں بھیج دیا گیا۔ اس کے زخموں کے سبب جیل کے اہلکاروں نے اسے لینے سے منع کر دیا۔
چار گھنٹے بعد اسے اسپتال لے جانا پڑا، جہاں پہنچنے پر اسے مردہ قرار دے دیا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ کئی متعدی زخموں کے سبب سیپٹی سیمک شاک (خون کا دوران کم ہونے کے سبب اعضاء کا ناکارہ ہو جانا) بتائی گئی۔
بسن کی فیملی میں اس کی بیوی اور پانچ بچے ہیں، جن میں سب سے چھوٹا سات سال کا ہے۔
ریاست کی ایک غیر سرکاری تنظیم جاگرت آدیواسی دلت سنگٹھن (جے اے ڈی ایس) نے بسن کا کیس اٹھایا ہے۔ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں اسے لے کر مفاد عامہ کی ایک عرضی (پی آئی ایل) داخل کی گئی ہے۔
جے اے ڈی ایس کی قائد مادھوری کرشن سوامی پوچھتی ہیں، ’’آپ ۲۹ ہزار روپے کے شک میں اسے اذیتیں دیتے ہیں۔ وہ بھی اس حد تک کہ وہ مر جائے؟ بسن کی فیملی پر کیس واپس لینے کا دباؤ تھا، لیکن ہم نے اسے اپنے دم پر لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولیس نے این ایچ آر سی کے رہنما خطوط پر عمل نہیں کیا ہے۔‘‘
قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این ایچ آر سی) کے رہنما خطوط کے مطابق، ’’پوسٹ مارٹم، ویڈیو گراف اور مجسٹریٹ انکوائری رپورٹ سمیت تمام رپورٹ واردات کے دو مہینے کے اندر بھیجی جانی چاہیے۔ حراست میں موت کے ہر کیس میں کمیشن کی ہدایت کے مطابق عدالتی جانچ بھی ہونی چاہیے اور اسے جلد از جلد مکمل کیا جانا چاہیے، اور یہ اس طرح کیا جانا چاہیے کہ دو مہینے کی مدت کے اندر رپورٹ بھی مل جائے۔‘‘
اسرائیل کی موت کے بعد پولیس اس کی فیملی پر بغیر پوسٹ مارٹم رپورٹ دیے تدفین کے لیے دباؤ بنا رہی تھی۔ تب سے قریب ایک سال ہو گیا ہے، مگر اس کی فیملی کو ابھی تک عدالتی جانچ کا نتیجہ معلوم نہیں ہوا ہے۔
انہیں سرکار کی طرف سے کوئی مالی مدد بھی نہیں ملی ہے۔ بانو کا کہنا ہے کہ جب اسرائیل کی فیملی نے ان سے ملنا چاہا، تو ضلع کلکٹر نے انہیں بے رحمی سے باہر نکلوا دیا۔ ’’ہر کوئی ہمارے بارے میں بھول گیا ہے۔ ہم نے انصاف پانے کی امید بھی چھوڑ دی ہے۔‘‘
فیملی میں کمانے والے اہم رکن کے اس دنیا سے جانے کے بعد، بزرگ ماں باپ کافی مشکلوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
مُنی بائی نے پڑوسی کی بھینسوں کا دودھ نکالنے کا کام لے لیا ہے۔ وہ اپنے چھوٹے سے گھر کے برآمدے میں مویشی لے آتی ہیں اور ایک ایک کرکے جانوروں کا دودھ نکالتی ہیں۔ آخر میں وہ دودھ کے ساتھ مویشیوں کو لوٹا دیتی ہیں۔ اس کے لیے انہیں ۱۰۰ روپے روزانہ مل جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں اس عمر میں بس یہی کر سکتی ہوں۔‘‘
منور کی عمر ساٹھ کے قریب ہے اور کمزور ہونے اور جوڑوں کے درد میں مبتلا ہونے کے باوجود انہیں مزدوری پر لوٹنا پڑا ہے۔ تعمیر کے مقامات پر ان کی سانس پھولنے لگتی ہے، جس سے ان کے ارد گرد لوگ ان کی صحت کو لے کر پریشان ہو جاتے ہیں۔ وہ بستی سے بہت دور نہیں جا پاتے اور پانچ سے دس کلومیٹر کے دائرے میں ہی کام تلاش کرتے ہیں، تاکہ کوئی ایمرجنسی ہونے پر ان کی فیملی مدد کے لیے پہنچ سکے۔
فیملی گزر بسر کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے کیس کو آگے بڑھانا مشکل ہو گیا ہے۔ بانو کہتی ہیں، ’’وکیل پیسے مانگتے ہیں۔ ہم اپنا پیٹ نہیں بھر پاتے، وکیل کو پیسے کہاں سے دیں گے؟ یہاں انصاف حاصل کرنے کے لیے پیسے دینے پڑتے ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز