سریندر ناتھ اوستھی اپنے بازوؤں کو افق کی سمت پھیلاتے ہیں جو صرف ان کی یادوں میں زندہ ہے۔ ’’یہ سب، اور وہ بھی،‘‘ وہ ایک وسیع علاقے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور ایک ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں۔
’’ہم اس سے محبت کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے ہمارے کنوؤں میں محض ۱۰ فٹ نیچے میٹھا پانی مل جاتا تھا۔ ہر مانسون میں وہ ہمارے گھروں تک چڑھ آتی تھی۔ ہر تیسرے سال ایک قربانی مانگتی تھی۔ یہ قربانی زیادہ تر چھوٹے جانور کی ہوتی تھی۔ حالانکہ ایک بار وہ میرے ۱۶ سالہ کزن کو اپنے ساتھ لے کر چلی گئی۔ میں غصے میں تھا اور کئی دنوں تک اس کی طرف دیکھ کر چیختا رہا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن اب، وہ کافی عرصے سے ناراض ہے… شاید پل کی وجہ سے ایسا ہوا ہو،‘‘ ان کی آواز دھیرے دھیر مدھم ہو جاتی ہے۔
سریندر، سئی ندی پر بنے ۶۷ میٹر لمبے پل پر کھڑے ہیں۔ یہ ندی بمشکل اپنا وجود قائم رکھے ہوئی ہے۔ ’یہ‘ ناراض ہے۔ پل کے نیچے کھیت ہیں۔ ندی کی تہہ میں گندم کی کٹائی کے بعد کی جڑیں اور اطراف میں پانی سوکھنے والے یوکلپٹس کے درخت جھوم رہے ہیں۔
سریندر کے دوست اور رفیق کار جگدیش پرساد تیاگی، جو ایک ریٹائرڈ اسکول ٹیچر ہیں، سئی کو ’’ایک خوبصورت ندی‘‘ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
وہ گہرے پانی میں پیدا ہونے والے بھنور کے بارے میں بات کرتے ہیں، جن پر بڑی مچھلیاں اچھل کود مچاتی تھیں۔ انہیں ایڈی مچلی، روہو، ایل، پفرز وغیرہ مچھلیاں اب بھی یاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’جب پانی خشک ہونے لگا تو مچھلیاں بھی غائب ہونے لگیں۔‘‘
ندی سے وابستہ کچھ اور بھی دلکش یادیں ہیں۔ سال ۲۰۰۷ سے ۲۰۱۲ تک گاؤں کی سرپنچ رہیں ۷۴ سالہ مالتی اوستھی یاد کرتی ہیں کہ کیسے سئی اپنی دھارا سے تقریباً ۱۰۰ میٹر کے فاصلے پر واقع ان کے صحن تک چڑھ آئی تھی۔ اس وسیع صحن میں ہر سال گاؤں والے ان کنبوں کے لیے اجتماعی ’اَنّ پروَت دان‘ (اناج کے ڈھیر کے تحفے) کا اہتمام کرتے تھے، جن کی فصلیں دریا کے غصے کی نذر ہو جاتی تھیں۔
مالتی کہتی ہیں، ’’اب اس اجتماعیت کا وہ احساس ختم ہو گیا ہے۔ ان فصلوں کا ذائقہ جاتا رہا ہے۔ کنوؤں میں پانی ختم ہو گیا ہے۔ مویشیوں کو اتنی ہی مصیبت اٹھانی پڑتی ہے جتنی ہم اٹھا رہے ہیں۔ زندگی بے مزہ ہو گئی ہے۔‘‘
سئی دریائے گومتی کی ایک معاون ندی ہے۔ ہندوستانی دیومالا میں اسے ایک بلند مقام حاصل ہے۔ گوسوامی تلسی داس کی تخلیق ’رام چرت مانس‘ (۱۶ویں صدی کا ایک رزمیہ جس کے لفظی معنی بھگوان رام کے اعمال کی جھیل کے ہیں) میں اسے آدی گنگا کہا گیا ہے – یعنی یہ گنگا سے پہلے آئی تھی۔
یہ ندی اترپردیش کے ہردوئی ضلع کے پیہانی بلاک میں واقع بِجگاواں گاؤں کے ایک تالاب سے نکلتی ہے۔ اپنے ابتدائی ۱۰ کلومیٹر کے سفر تک اپنا مشہور نام اختیار کرنے سے پہلے اسے جھابر (تالاب) کہا جاتا ہے۔ یہ لکھنؤ اور اناؤ اضلاع کے درمیان ایک حد بنانے کے لیے تقریباً ۶۰۰ کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے۔ ریاستی دارالحکومت لکھنؤ، ہردوئی سے تقریباً ۱۱۰ کلومیٹر شمال میں واقع ہے جبکہ اناؤ ضلع ۱۲۲ کلومیٹر دور ہے۔
اپنے منبع سے لے کر جونپور ضلع کے راجے پور گاؤں میں گومتی (گنگا کی ایک معاون ندی) کے ساتھ سنگم تک، سئی تقریباً ۷۵۰ کلومیٹر کا سفر طے کرتی ہے۔ یہ لمبا سفر اس کی پیچاک روی (گھماؤدار چال) کی وجہ سے ہے۔
ہردوئی ضلع کی لمبائی تقریباً ۱۲۶ کلومیٹر اور چوڑائی ۷۵ کلومیٹر ہے۔ اس کی مجموعی شکل غیرمتناسب چوکور کی ہے۔ ضلع کی آبادی ۴۱ لاکھ ہے۔ یہاں زیادہ تر لوگ زرعی مزدور ہیں، اس کے بعد کاشتکاروں اور گھریلو صنعت میں شامل کارکنان کا نمبر آتا ہے۔
سال ۱۹۰۴ میں شائع ہونے والے ہردوئی اے گزیٹیئر ، آگرہ اور اودھ کے متحدہ صوبے کے ڈسٹرکٹ گزیٹیئرز جلد ۱۲ ، کے مطابق سئی کی وادی ’’ضلع کے مرکزی حصے تک پھیلی ہوئی ہے۔‘‘
گزٹ کے مطابق: ’’ہردوئی میں زیر کاشت رقبہ زرخیز ہے لیکن… یہ بہت سے اتھلے نشیبی علاقوں میں بٹا ہوا ہے، جگہ جگہ بنجر تیسر کے قطعے نظر آ جاتے ہیں… ڈھاک اور جھاڑی والے جنگل کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں… (یہ) سئی کی وادی بناتے ہیں۔‘‘
اب ۷۸ سال کے ہو چکے سریندر ناتھ اوستھی ایک میڈیکل ڈاکٹر (انیستھیسیا کے ماہر) ہیں۔ وہ مادھو گنج بلاک کے کُرسٹھ بزرگ گاؤں کی پرولی بستی میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ بستی پل (جس پر وہ اس وقت کھڑے ہیں) سے تقریباً ۵۰۰ میٹر کے فاصلے پر ہے۔
سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری میں کرسٹھ بزرگ کی آبادی ۱۹۱۹ درج کی گئی ہے، جبکہ پرولی کی آبادی ۱۳۰ ہے۔ ان میں زیادہ تر برہمن، اور کچھ چمار (درج فہرست ذات) اور وشوکرما (دیگر پسماندہ ذات) شامل ہیں۔
سریندر جس پل پر کھڑے ہیں، وہ پرولی اور بانڑ گاؤوں کو جوڑتا ہے۔ بانڑ گاؤں کچھونہ بلاک میں واقع ہے۔ کچھونہ ایک بڑا بازار تھا (اور اب بھی ہے)، جہاں کسان اپنی پیداوار بیچنے اور کھاد خریدنے کے لیے جاتے ہیں۔ پل کی تعمیر سے پہلے کرسٹھ بزرگ اور کچھونہ کے درمیان ۲۵ کلومیٹر کا فاصلہ تھا، لیکن پل کی وجہ سے اب یہ فاصلہ کم ہو کر ۱۳ کلومیٹر ہو گیا ہے۔
کرسٹھ اور کچھونہ (جو اب بالامئو جنکشن کے نام سے جانا جاتا ہے) کے ریلوے اسٹیشنوں کے درمیان ایک ریلوے پل تھا، جسے عام لوگ بھی استعمال کرتے تھے۔ عمر رسیدہ بزرگوں کو لکڑی کے تختوں سے بنے پل سے تجارتی سامان لے کر گزرتے اونٹ آج بھی یاد ہیں۔ لیکن ۱۹۶۰ میں غیر معمولی طور پر شدید مانسون کی وجہ سے وہ پل گر گیا۔ اس طرح دونوں مقامات کے درمیان موجود واحد تیز ترین راستہ (۱۰ کلومیٹر) کٹ گیا۔
نئے پل کی تعمیر کا خیال سب سے پہلے جگدیش پرساد تیاگی کو آیا تھا۔ وہ اس وقت مادھو گنج بلاک کے سردار نگر گاؤں میں ایک پرائمری اسکول میں بحیثیت استاد کام کر رہے تھے۔ وہ آج کل آزاد نگر قصبہ میں رہائش پذیر ہیں، جو پرولی سے تقریباً ساڑھے تین کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
سال ۱۹۴۵ میں پیدا ہوئے سابق استاد کی خاندانی کنیت ’تیاگی‘ نہیں بلکہ ’سنگھ‘ ہے۔ تیاگی نام ہندی لفظ ’تیاگ‘ سے مشتق ہے، جس کے معنی قربانی کے ہیں۔ انہیں یہ نام اس لیے دیا گیا تھا کیونکہ وہ اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے۔ سال ۲۰۰۸ میں جب وہ ریٹائر ہوئے تو اسی اسکول میں جونیئر ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے، جہاں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
’’میں ایک بہت ہی غریب گھرانے میں پیدا ہوا تھا، لیکن وہ چیز دوسروں کی بھلائی کی میری خواہش کی راہ میں کبھی بھی حائل نہیں ہوئی،‘‘ جگدیش تیاگی کہتے ہیں، جو اب بڑھتی عمر کی وجہ اس قدر کمزور ہو چکے ہیں کہ ان کا چلنا پھرنا دشوار ہو گیا ہے۔ ایک بار ان کی فیملی کی دونوں بھینسیں آزاد نگر گاؤں کی مرکزی سڑک کے کنارے ایک گہرے گڑھے میں گر گئیں۔ کچھ زور لگانے کے بعد انہوں نے انہیں باہر نکالا۔ اس حادثے کے بعد جگدیش کے ذہن میں ان کے والد موہن سنگھ کی سرد آہ گھر کر گئی۔ ’’کیا کبھی ایسا وقت بھی آئے گا جب ان گلیوں میں چلنا محفوظ ہو گا؟‘‘
جگدیش کہتے ہیں، ’’اس (آہ) نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔ میں نے خود گڑھے کو بھرنا شروع کر دیا۔ گڑھا چھ فٹ گہرا تھا اور اس کی لمبائی اس سے دوگنی تھی۔ ہر صبح اسکول جانے سے پہلے اور اسکول سے واپسی کے بعد، میں قریب کے ایک تالاب (جسے کیچڑ کا تال کہا جاتا تھا) کے کنارے سے مٹی لا کر گڑھے کو بھرتا تھا۔ پھر ایک گڑھے کے بعد میں دوسرے گڑھے کو بھرتا چلا گیا۔ دوسرے لوگ بھی اس کام میں شامل ہوئے۔‘‘
وہ گاؤں کے لیے کئی طرح کے دوسرے کام بھی کرتے تھے۔ زیادہ تر کام آسان ہوتے تھے، کیونکہ بحیثیت استاد وہ ایک قابل احترام شخصیت تھے۔ ان کے کاموں میں صحت کی جانچ کے لیے قریبی پرائمری ہیلتھ سینٹر سے ڈاکٹروں کو بلانا، جراثیم کشی کے لیے بلیچ پاؤڈر چھڑکنا، گاؤں کے بچوں کو ٹیکہ لگوانے کے لیے جمع کرنا اور یہاں تک کہ اپنے گاؤں کو قصبہ کے طور پر درج کرانا شامل ہے۔ بعد کے مرحلے میں انہوں نے پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پیڈبلیو ڈی) کی طرف سے کیے جانے والے کاموں کی رینڈم آڈٹ کی ذمہ داری خود پر لے لی تھی۔
سریندر اوستھی اور جگدیش تیاگی ۱۹۹۴ تک ایک دوسرے سے ذاتی طور پر ناواقف تھے۔ حالانکہ انہوں نے ایک دوسرے کے بارے میں سن رکھا تھا۔ سریندر اپنے گاؤں کے پہلے ڈاکٹر تھے۔ اس وقت تک انہوں نے زیادہ تر بیرونی ممالک (نائیجیریا، برطانیہ اور ملائیشیا) میں کام کیا تھا۔ وہ اس ندی کا درد اپنے اندر لے گئے تھے، جس کی وجہ سے اسکول کے اونچے درجات کی تعلیم، خاص طور پر گاؤں کی لڑکیوں کے لیے، ناممکن تھی۔ اس لیے انہوں نے اپنے بھائی نریندر، جو ایک الیکٹریکل انجینئر ہیں، سے کہا کہ وہ کسی ایسے کشتی بان کی تلاش کریں، جو مانسون کے دوران طلباء کو مفت ندی پار کرائے۔ سریندر نے لکڑی کی کشتی کے لیے ۴۰۰۰ روپے ادا کیے تھے۔
اسکول کی ڈیوٹی کے بعد کشتی بان، چھوٹائی، باقی وقت مزید کرایہ وصول کرنے کے لیے آزاد تھا – لیکن شرط یہ تھی کہ وہ کبھی بھی اسکول کا دن نہیں چھوڑے گا۔ وقت کے ساتھ کشتی ٹوٹ گئی۔ سریندر اوستھی نے ۱۹۸۰ میں اپنے ہی گاؤں میں آٹھویں جماعت تک کے ایک اسکول کی بنیاد رکھی، جس کا نام انہوں نے اپنے دادا دادی کے نام پر ’گنگا سُگرَہی اسمرتی شکشا کیندر‘ رکھا تھا۔ سال ۱۹۸۷ میں اس اسکول کو اتر پردیش اسٹیٹ بورڈ آف ہائی اسکول اینڈ انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن نے تسلیم کر لیا۔ پھر بھی وہ پریشان کن چیلنج برقرار رہا کہ دوسرے گاؤں کے بچے تعلیم حاصل کرنے کے لیے پرولی کیسے آئیں گے۔
جب سریندر اوستھی اور جگدیش تیاگی کی ملاقات ہوئی، تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک نئے پل کی تعمیر کے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ان کی شخصیتیں مزید مختلف نہیں ہوسکتی تھیں۔ سریندر اوستھی کو دریا میں پھینک کر تیراکی سکھائی گئی تھی، جب کہ جگدیش تیاگی نے کبھی پانی میں پیر تک رکھنے کی ہمت نہیں دکھائی تھی۔ سرکاری ملازمت کے پیش نظر سریندر کسی احتجاج میں پیش پیش نہیں رہ سکتے تھے، جبکہ جگدیش یہ جانتے تھے کہ کیسے آگے بڑھ کر قیادت کی جاتی ہے۔ دو غیرمماثل لیکن پرعزم افراد اکٹھے ہوئے اور ’شیتریہ وکاس جن آندولن‘ (کے وی جے اے – عوامی احتجاج برائے علاقائی ترقی) کا جنم ہوا۔
دراصل، کے وی جے اے کی رکنیت کا شمار نہیں کیا گیا، لیکن اس میں اضافہ ہوتا رہا۔ چونکہ جگدیش تیاگی خود الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے، اس لیے انھوں نے اپنی ماں بھگوتی دیوی کو بلدیاتی انتخابات میں کھڑے ہونے کے لیے راضی کیا۔ انہیں امید تھی کہ وہ ان سے اچھے معیار کے ترقیاتی کام کروا سکیں گے۔ بھگوتی دیوی پانچ ووٹوں سے ہارتی دکھائی دیں، لیکن سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ایس ڈی ایم) کی عدالت میں اپیل نے ان کے حق میں فیصلہ پلٹ دیا۔ سال ۱۹۹۷ سے ۲۰۰۷ تک وہ ٹاؤن ایریا کی چیئرمین رہیں۔
پہلا کام کے وی جے اے کو رجسٹر کرانا تھا۔ تاہم، لکھنؤ میں سریندر اوستھی کی پہنچ کے باوجود ایسا نہیں ہو سکا۔ چنانچہ یہ تحریک ’وکاس (ترقی) نہیں، تو ووٹ نہیں‘ اور ’وکاس کرو یا گدی چھوڑو‘ کے نعروں میں بدل گئی۔ یہ نعرے سیاست دانوں اور قانون سازوں کو مخاطب کرنے کے لیے لگائے جاتے تھے۔
’ہم اس [سئی ندی] سے محبت کرتے تھے۔ اس کی وجہ سے ہمارے کنووں میں محض ۱۰ فٹ نیچے میٹھا پانی مل جاتا تھا۔ ہر مانسون کے موسم میں وہ ہمارے گھروں تک چڑھ آتی تھی‘
تنظیم کی پہلی میٹنگ (جو ابھی تک غیر رجسٹرڈ تھی) میں ۱۷ متاثرہ گاؤوں کے تقریباً ۳۰۰۰ لوگ بھگوتی دیوی کو سننے پرولی پہنچے۔ اس کے لیے پرچے تقسیم کیے گئے تھے۔ ان میں لکھا تھا ’’ہم دل و جان سے اس تحریک کے لیے خود کو پابند کرتے ہیں۔ ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ ہم ان عہد ناموں پر اپنے خون سے دستخط کریں گے۔ واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے، جب تک کہ بانڑ اور پرولی کے درمیان پل نہ بن جائے۔‘‘ پمفلٹ کے آخر میں ’لال ہوگا ہمارا جھنڈا، کرانتی (انقلاب) ہوگا کام‘ لکھا ہوتا تھا۔
ایسے ۱۰۰۰ سے زیادہ پمفلٹ تقسیم کیے گئے اور ہر ایک پر لوگوں نے اپنے خون سے دستخط کیے یا انگوٹھے کے نشان لگائے۔
اس کے بعد ان تمام ۱۷ گاؤوں کا دورہ کیا گیا جو پل کی تعمیر سے متاثر ہونے والے تھے۔ جگدیش تیاگی یاد کرتے ہیں، ’’لوگ اپنی سائیکلیں اور بستر لے کر نکل پڑے۔ کسی بڑی تیاری کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘ جس گاؤں کا دورہ کرنا ہوتا تھا وہاں پیغام بھیج دیا جاتا تھا، اور وہاں لوگوں کو مطلع کرنے کے لیے ڈگڈگی بجائی جاتی تھی۔
اگلا مرحلہ دریا کے کنارے دھرنے پر بیٹھنا ہوتا تھا، جس کی قیادت جگدیش تیاگی کی والدہ کرتی تھیں۔ وہ ایک قابل احترام شخصیت تھیں۔ سریندر اوستھی نے دھرنے کے لیے دریا کے کنارے اپنا کھیت دے دیا تھا۔ احتجاج کے مقام کو بانس کے ڈنڈوں سے گھیر دیا گیا۔ شب گزاری کے لیے پھوس کا ایک سائبان لگایا گیا۔ سات کے گروپ میں لوگ ۲۴ گھنٹے دھرنے پر بیٹھتے اور انقلابی گیت گاتے تھے۔ جب خواتین بیٹھتیں تو وہ بھجن گاتیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے، ان کے ارد گرد مردوں کا ایک حلقہ بنا ہوتا تھا۔ مظاہرین کی پیاس بجھانے کے لیے سریندر اوستھی نے ایک ہینڈ پمپ لگوا دیا تھا۔ اگرچہ لوگوں کو پانی کے سانپوں کے کاٹنے کا خوف ہمیشہ ستاتا رہتا تھا، لیکن ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ضلع پولیس کی مقامی انٹیلی جنس یونٹ وقفے وقفے پر احتجاج کی جانچ کے لیے آتی رہی، لیکن کوئی بھی عہدیدار یا منتخب نمائندہ مظاہرین کی بات سننے نہیں آیا۔
احتجاج کے دوران ہی ۱۹۹۶ کے اسمبلی انتخابات کا اعلان ہو گیا، جس کا گاؤں والوں نے بائیکاٹ کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف عوام سے ووٹنگ نہ کرنے کی اپیل کی، بلکہ ووٹ ڈالنے کے بہانے بیلٹ بکسوں میں پانی بھی ڈال دیا۔ اسکولی بچوں نے ریاست کے گورنر موتی لال وورا کو ۱۱۰۰۰ خطوط لکھے، جو بوریوں میں بھر کر بھیجے گئے۔
اس کے بعد سریندر اوستھی اور جگدیش تیاگی نے اس لڑائی کو لکھنؤ لے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے جگدیش نے ضلع مجسٹریٹ اور ایس ڈی ایم کو خطوط بھیجے اور انہیں متنبہ کیا کہ اگر انہیں مزید نظر انداز کیا گیا، تو لوگ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لکھنؤ کے لیے روانہ ہونے سے پہلے آٹھ کلومیٹر دور مادھو گنج قصبہ تک سائیکل ریلی نکال کر آخری کوشش کی گئی۔ جب تقریباً ۴۰۰۰ سائیکلیں پوسٹروں، بینروں اور جھنڈوں کے ساتھ نمودار ہوئیں تو میڈیا جاگ اٹھا اور اس کا نوٹس لیا۔ کئی مقامی رپورٹس نے اس مسئلے کو اجاگر کیا۔ کچھ مظاہرین کے اس جرأت مندانہ اعلان کو رپورٹ کیا گیا کہ اگر پل کا مطالبہ پورا نہیں ہوا، تو وہ ڈی ایم کی جیپ کو دریا میں دھکیل دیں گے۔
کچھ ہفتوں بعد ۵۱ ٹریکٹروں نے ڈی ایم کے دفتر کا محاصرہ کیا۔ لیکن انہوں نے مظاہرین سے ملنے سے انکار کر دیا۔
لہٰذا، اگلا پڑاؤ لکھنؤ میں گورنر کی رہائش گاہ تھا۔ مطالبات کے خطوط چھاپے گئے، خون سے دستخط کیے گئے، اور لوگوں کو سفر کے لیے تیار کرنے کی غرض سے ہر گاؤں کو ایک انچارج کے حوالے کیا گیا۔ خواتین کو دور رکھا گیا، لیکن جگدیش کی والدہ اس کے لیے تیار نہیں تھیں۔ انہوں نے اصرار کیا کہ جہاں ان کا بیٹا جائے گا وہ بھی وہاں جائیں گی۔
اپریل ۱۹۹۵ میں کسی وقت پرولی سے ۲۰ کلومیٹر دور سندیلا میں ۱۴ بسیں کھڑی تھیں۔ انہیں ریاستی روڈویز کارپوریشن کے کسی اہلکار نے گمنام طور پر اسپانسر کیا تھا۔ صبح پانچ بجے وہ لکھنؤ پہنچے۔ چونکہ مظاہرین میں سے کسی کو بھی شہر کا راستہ معلوم نہیں تھا، اس لیے صبح ۱۱ بجے کے قریب مہاتما گاندھی مارگ پر واقع گورنر ہاؤس پہنچنے سے پہلے وہ بہت دیر تک ادھر ادھر بھٹکتے رہے۔
جگدیش تیاگی بتاتے ہیں، ’’اب افراتفری مچنے والی تھی۔ کچھ ہی دیر میں پولیس کی ۱۵ جیپوں نے ہمیں گھیر لیا۔ کچھ پولیس اہلکار گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے تھے۔ پانی کی توپیں نکل چکی تھیں۔ مجھے ایک پولیس والے نے گھسیٹنا شروع کیا، یہاں تک کہ میری ماں یہ کہتے ہوئے مجھ سے لپٹ گئیں کہ وہ اپنے بیٹے سے پہلے جیل جائیں گی۔‘‘ مظاہرین میں سے کچھ لوگ فرار ہو گئے۔ دیگر کو موقع پر پہنچنے والے ہردوئی کے سیاسی نمائندوں نے بچا لیا۔ جسمانی طور پر تھکے ہوئے، لیکن جذباتی طور پر فتح مند گروپ نے اس رات ۱۲ بجے ہردوئی کے لیے واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ گیندے کے پھولوں کے ہار پہنا کر ان کا استقبال کیا گیا۔
اس وقت تک پل کی لڑائی تقریباً ڈیڑھ سال سے جاری تھی۔ لکھنؤ کے محاصرے نے بڑے پیمانے پر ہلچل مچا دی تھی۔
اس مظاہرے کے فوراً بعد مظاہرین تک پہنچنے والے پہلے شخص کوآپریٹیو کے وزیر رام پرکاش ترپاٹھی تھے، جنہوں نے ان لوگوں کی بات سنی۔ وہ محکمہ تعمیرات عامہ کے وزیر کلراج مشرا کے پاس گئے، تاکہ انہیں نہ صرف عوام کے مطالبات سے بلکہ اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا جائے کہ اگر احتجاج جاری رہا تو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) علاقے میں اپنی حمایت کھو دے گی۔
اس سے پہلے کہ مشرا مداخلت کرتے، مظاہرین نے میڈیا کے سامنے اپنے عزم کا اعلان کر دیا کہ وہ خود سوزی کریں گے۔ پولیس نے جگدیش تیاگی کے بھائی ہردے ناتھ سمیت کئی مظاہریں کو گرفتار کر لیا۔
۱۳ اگست ۱۹۹۷ کو ہردوئی کے ڈی ایم کی قیادت میں ایک ٹیم نے آخرکار مظاہرین سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ جگدیش تیاگی کو ہیرو تسلیم کر لیا گیا۔ احتجاج کو فنڈ فراہم کرنے والے سریندر ناتھ اوستھی کو لکھنؤ میں راحت مل گئی۔ کچھ مہینوں بعد پل کی تعمیر کی منظوری مل گئی۔ تاہم، تعمیر کے لیے جو دو قسطیں ادا کی جانی تھیں وہ ایک اور سال کے احتجاج کے بعد ہی ادا ہوسکیں۔
۱۴ جولائی ۱۹۹۸ کو یہ پل پی ڈبلیو ڈی کے وزیر کے ہاتھوں افتتاح کے لیے تیار تھا۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ گاؤں والے شکرانے کے طور پر انہیں سکوں سے تولیں گے۔ لیکن جب ایسا نہیں ہوا تو وہ اپنی افتتاحی تقریر میں ان پر طنز کرنے سے خود کو نہیں روک سکے۔
پل کی لڑائی کے لیے ساتھ آئے ان تمام ۱۷ گاؤوں میں جشن کا ماحول تھا۔ ’’دیوالی سے کہیں زیادہ روشن، ہولی سے زیادہ رنگین،‘‘ سریندر اوستھی یاد کرتے ہیں۔
اس کے فوراً بعد ہی سئی سکڑنے لگی۔ بارش کے پانی پر منحصر ندی جو کبھی پورے سال شان وشوکت کے ساتھ بہتی تھی اور مانسون میں خوفناک شکل اختیار کر لیتی تھی، اب کسم پرسی کی حالت میں پہنچ گئی، وقت کے ساتھ یہ کمزور ہوتی گئی۔
یہ معاملہ صرف سئی تک محدود نہیں ہے۔
بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی، لکھنؤ میں اسکول فار انوائرمنٹل سائنسز کے پروفیسر وینکٹیش دتہ کہتے ہیں: ’’عالمی سطح پر ندیوں کے بہاؤ میں رکاوٹ کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ پہلے کی دائمی ندیوں (جیسے سئی) کا بہاؤ مانسون پر منحصر اور سست ہو گیا ہے۔ سال ۱۹۸۴ سے ۲۰۱۶ تک کے اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ زیر زمین پانی اور بنیادی بہاؤ دونوں ہی میں کمی آئی ہے۔‘‘
بنیادی بہاو زمین کا وہ پانی ہے جو آخری بارش کے بعد بھی طویل عرصے تک کسی آبی ذریعہ سے ہوکر بہتا رہتا ہے۔ جبکہ زیر زمین پانی زمین کے نیچے کا پانی ہے۔ ندی جب خشک ہونے لگتی ہے، تو اس ذخیرہ کا سہارا لیتی ہے۔ لہٰذا بنیادی بہاؤ آج کی ندی ہے، جبکہ زیر زمین پانی مستقبل کی ندی ہے۔ اتر پردیش میں سال ۱۹۹۶ سے، ۲۰ سال سے زیادہ کی مدت کے دوران بارش میں ۵ فیصد کی کمی آئی ہے۔
جولائی ۲۰۲۱ میں جاری ہونے والی اتر پردیش میں زیر زمین پانی کی صورتحال پر ’واٹر ایڈ‘ رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’…پانی کی سطح میں تیزی سے کمی نے ریاست کے زیر زمین پانی سے بہنے والے دریاؤں کو بری طرح متاثر کیا ہے، کیونکہ ندیوں میں ہونے والے قدرتی اخراج/بنیادی بہاؤ کے زیر زمین نظام اور دلدلی زمین میں نمایاں کمی آئی ہے یا تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ آبی ذخائر اور ان کے آبگیرہ پر بڑے پیمانے پر تجاوزات نے ان کے مصائب میں اضافہ کیا ہے۔ بنیادی بہاؤ میں کمی نے زیر زمین پانی پر منحصر ندیوں اور ان کے ماحولیاتی بہاؤ کے ساتھ ساتھ سطح زمین پر موجود آبی ذخائر کو بھی متاثر کیا ہے۔ گومتی ندی اور اس کی معاون ندیوں کے ساتھ ساتھ ریاست میں کئی دیگر ندیاں زیر زمین پانی سے بہتی ہیں، لیکن بھاری نکاسی اور اس کے نتیجے میں دریا کے آبگیرہ میں زیر زمین پانی کی سطح میں کمی نے دریاؤں کے بہاؤ میں نمایاں کمی کے ساتھ انہیں شدید طور پر متاثر کیا ہے۔‘‘
ان تباہیوں کے علاوہ ضلع کو تیسرے مسئلے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ ہردوئی ضلع نے سال ۱۹۹۷ اور ۲۰۰۳ کے درمیان اپنی ۸۵ فیصد دلدلی زمینیں کھو دی ہیں۔
پرولی میں ان لوگوں کو بھی تبدیلی نظر آ رہی ہے جو سائنس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر صرف دو دہائیوں میں گاؤں کے سبھی چھ کنویں خشک ہو چکے ہیں۔ کنووں پر کی جانے والی تمام رسومات (جیسے کہ نئی دلہن کی طرف سے پوجا ) ترک کر دی گئی ہیں۔ موسم گرما کے مہینوں میں ندی ایک کمزور دھارا بن جاتی ہے۔
شیو رام سکسینہ (۴۷ سالہ) جیسے کسان، جن کا گرمیوں میں سب سے بڑا مشغلہ ندی میں تیرنا ہوتا تھا، اب تصویر کھنچوانے کے لیے بھی اس میں قدم رکھنے سے گھبرا رہے ہیں۔ ’’یہ وہ خوبصورت اور صاف ندی نہیں ہے جس کے ساتھ میں پلا بڑھا ہوں،‘‘ وہ گھٹنوں تک گہرے پانی میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں؛ اسی وقت ان کے پیچھے کسی جانور کی لاش بہہ رہی ہوتی ہے۔
سریندر اوستھی کے والد دیوی چرن ایک پَترول (محکمہ آبپاشی کے لیے زمین کی پیمائش کرنے والے سرکاری کارکن) تھے۔ انہوں نے سئی کے پانی کو آبپاشی کے لیے پرولی کی طرف موڑنے کے لیے ایک چھوٹی نہر بنوائی تھی۔ اب وہ نہر خشک ہو چکی ہے۔
اس کی جگہ ندی کے کناروں پر کھیتوں کی آب پاشی کے لیے ڈیزل سے چلنے والے واٹر پمپ لگائے گئے ہیں۔
سئی کے جنگجوؤں کا اپنا ایک گروپ ہے۔ ان میں ریاست کی قانون ساز کونسل کے سابق رکن (۱۹۹۶-۲۰۰۲) ۷۴ سالہ وندھیہ واسنی کمار بھی شامل ہیں، جنہوں نے سال ۲۰۱۳ میں دریا کے کنارے ۷۲۵ کلومیٹر کی یاترا (سفر) کی تھی۔ ۸۲ عوامی جلسوں اور شجرکاری کے دوران ان کا پیغام تھا کہ گنگا کا تحفظ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس کی معاون ندیوں کی حفاظت نہیں کی جاتی۔
پرتاپ گڑھ ضلع میں پیدا ہونے والے وندھیہ واسنی کہتے ہیں، ’’میں نے اپنی زندگی میں ندیوں کو آہستہ آہستہ مرتے دیکھا ہے۔ وہ سکڑ چکی ہیں، ان کے پانی کے ذرائع خشک ہو چکے ہیں، ان میں صنعتی فضلہ اور ملبے کا اندھا دھند اخراج کیا جا رہا ہے، کھیتی کے لیے ندیوں کے کنارے تجاوزات کیے جا رہے ہیں، زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال ہو رہا ہے… یہ ایک المیہ ہے کہ ہمارے پالیسی ساز اس طرف توجہ نہیں دینا چاہتے۔‘‘ سئی، پرتاپ گڑھ ضلع سے بھی بہتی ہے۔
اگرچہ پالیسی ساز غائب ہو رہی ہماری ندیوں پر توجہ نہیں دے رہے ہیں، لیکن وہ اپنی کامیابیوں کو ضرور گنواتے ہیں۔
یکم نومبر ۲۰۲۲ کو یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ’انڈیا واٹر ویک‘ کے موقع پر دعویٰ کیا تھا کہ گزشتہ کچھ برسوں میں ریاست میں ۶۰ سے زیادہ ندیوں کو بحال کیا گیا ہے۔
پروفیسر وینکٹیش دتہ کہتے ہیں کہ ندیوں کی بحالی کوئی ’جادو‘ نہیں ہے جسے چند سالوں میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ’’صرف بڑے آبی ذخائر، جھیلوں، تالابوں اور نالوں کے ذریعے حاصل قدرتی ریچارج ہی ہمارے دریاؤں میں پانی واپس لا سکتے ہیں۔ اس کے لیے فصل کا انتخاب تبدیل کرنا ہوگا۔ درست آبپاشی کے ذریعے پانی کے استعمال کو بڑے پیمانے پر کم کرنا ہوگا۔ اس کے بعد بھی کسی ندی کی بحالی میں ۱۵ سے ۲۰ سال لگیں گے۔‘‘ انہوں نے دریاؤں پر قومی پالیسی کے فقدان پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔
وندھیہ واسنی کمار کا کہنا ہے کہ ایک طویل مدتی حل یہ ہے کہ مقامی جغرافیہ کے مطالعہ کو اسکولی سطح پر لازمی بنایا جائے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر بچے اپنے اردگرد کے درختوں، زمینوں اور ندیوں کا مطالعہ نہیں کریں گے، تو وہ بڑے ہو کر ان کی نگہداشت کیسے کریں گے؟‘‘
رویندر سوروپ سنہا، جو پہلے ریاست کے زیر زمین پانی کے محکمے کے سینئر ہائیڈرولوجسٹ اور گراؤنڈ واٹر ایکشن گروپ کے کنوینر تھے، کہتے ہیں کہ دریاؤں کو بحال کرنے کے لیے ایک ’مکمل طریقہ کار‘ کی ضرورت ہے۔
گنگا جیسی بڑی ندیوں کی بازیافت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ان کو پانی فراہم کرنے والی چھوٹی ندیوں کی بازیافت نہیں کی جاتی۔ اس کے لیے کسی جامع طریقہ کار کے تحت ڈیٹا یکجا کرنا، تجزیہ اور انتظام کرنا، نکاسی کے پائیدار حدود کا تعین کرنا، مانگ کو کم کرنا، کم نکاسی اور زیر زمین پانی کو ریچارج کرنے کے لیے اقدامات کا ایک جامع مجموعہ ترتیب دینا، زیر زمین اور سطح زمین کے پانی کا متوازن استعمال کرنا ہوگا۔
رویندر کا کہنا ہے کہ ’’صرف ایک ندی کو صاف کرنا اور جل کمبھی کو ہٹانا عارضی اقدامات ہیں، جو کچھ وقت کے لیے پانی کے بہاؤ کو بڑھا دیتے ہیں۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں، ’’زیر زمین پانی، بارش اور ندیوں کے درمیان ایک دَوری (سائیکلک) تعلق تھا جو ٹوٹ چکا ہے۔‘‘
یہاں خرابی دو رخی ہے – انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی اور انسانی کنٹرول سے باہر کی وجوہات کے نتیجہ کے طور پر بھی۔
رویندر سنہا کہتے ہیں، ’’سبز انقلاب نے زیر زمین پانی پر ہمارا انحصار بڑھا دیا۔ درخت کم ہو گئے۔ بارش کا پیٹرن بدل گیا۔ اس کا بیشتر حصہ ایک لمبے عرصے کی بجائے چند دنوں تک مرکوز ہو کر رہ گیا۔ نتیجتاً بارش کا زیادہ تر پانی بہہ جاتا ہے، کیونکہ اسے زمین کے اندر رسنے کا وقت نہیں ملتا۔ زیر زمین پانی کم ہو جاتا ہے، جو ہماری ندیوں کو پانی دینے کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔‘‘
اس کے باوجود ترقیاتی پالیسیاں شاذ و نادر ہی زیر زمین پانی کو ایک عنصر کے طور پر دیکھتی ہیں۔ رویندر سنہا نے دو مثالیں پیش کیں۔ ایک، موجودہ حکومت کے تحت ریاست میں ٹیوب ویل کی تعداد ۱۰ ہزار سے بڑھ کر ۳۰ ہزار ہوگئی ہے۔ اور دوسرے، ہر گھر جل یوجنا جس کا مقصد ہر گھر تک پانی پہنچانا ہے۔
رویندر سنہا نے کئی ضروری اقدامات کی نشاندہی کی ہے، جن میں دریاؤں، زیر زمین پانی کی صورتحال، مارفولوجی اور ہلال نما جھیلوں کی (سیٹیلائٹ کے ذریعے) نقشہ سازی شامل ہیں۔
اس کے باوجود حکومت مزید جامع طریقہ کار اپنانے کی بجائے اعداد و شمار کو مبہم کرنے کی طرف مائل ہے۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۵ میں ڈارک ژونز (جہاں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر گئی ہے) کے حساب کتاب میں، حکومت نے زیر زمین پانی نکالنے کی پیمائش کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب وہ صرف زمین میں جذب ہونے والے پانی کے اندازوں پر انحصار کرتی ہے۔
آزاد نگر میں بیمار چل رہے جگدیش پرساد تیاگی خوش ہیں کہ وہ اب سئی کے پاس چل کر نہیں جا سکتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے اس کی حالت کے بارے میں جو کچھ سنا ہے، اسے دیکھنا بہت تکلیف دہ ہوگا۔‘‘
سریندر ناتھ اوستھی کہتے ہیں کہ دریا کو روکنے [جن میں پل اور نہر کی تعمیر شامل ہے] کی انسانی کوشش شاید ایک سانحہ تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارے پاس ایک پل ہے، لیکن اس کے نیچے کوئی ندی نہیں بہتی ہے۔ اس سے بڑا سانحہ اور کیا ہو سکتا ہے،‘‘
مترجم: شفیق عالم