گوا کے بھدیل خواتین قلی ہیں، جو گوا کے جنوبی شہر مرگاؤں میں کام کرتی ہیں۔ یہ پیشہ فیملی کی عورتوں کے درمیان نسل در نسل چلا آ رہا ہے، جو ماں سے بیٹیوں یا بہوؤں کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔
نوجوان نسل میں سے کسی نے بھی اس پیشہ کو نہیں اپنایا ہے۔ ’’ہماری بیٹیوں کو اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، انھوں نے تھوڑا بہت تعلیم حاصل کی ہے، اس لیے وہ دفتروں میں کام کرنا چاہتی ہیں،‘‘ مارگیا بورگیز کا کہنا ہے۔ فی الحال، مرگاؤ مارکیٹ میں درجن بھر بھدیل عورتیں اس کام کو کر رہی ہیں، جن میں سے سبھی کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ بھدیل عورتیں ماضی میں گوا کے دوسرے بازاروں میں بھی کام کیا کرتی تھیں، لیکن اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے، بلکہ اس کا ذکر صرف مقامی گانوں میں ہی ملتا ہے۔
یہ عورتیں مرگاؤ شہر کے ارد گرد بسے بوردا اور فتوردا جیسے گاؤوں سے روزانہ بس کے ذریعہ آمد و رفت کرتی ہیں۔ وہ مختلف اوقات میں بازار پہنچتی ہیں، عام طور سے صبح سویرے گھریلو کام کو نمٹانے کے بعد ۸ بجے سے ۱۰ بجے تک بازار پہنچتی ہیں۔ شام کو وہ ساڑھے چھ بجے اپنے گھر کے لیے واپس روانہ ہوتی ہیں۔
مرگاؤ کی بھدیل عورتیں روایتی طور پر رومن کیتھولک ہیں۔ ان کا تعلق کنبی قبیلہ سے ہے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ گوا کے اصلی باشندے ہیں۔ ایلپائن المیڈا نے اپنا لباس خاص کنبی اسٹائل میں پہن رکھا ہے، حالانکہ یہ کپڑا اور اس کا رنگ وہ نہیں ہے جو روایتی طور پر استعمال کیا جاتا تھا، کیوں کہ اب اس قسم کے کپڑے بنتے ہی نہیں۔
بھدیل عورتیں عام طور سے مرگاؤ مارکیٹ کی ایک سب سے پرانی دکان کے باہر جمع ہوتی ہیں۔ یہ عیسائیوں کے لیے لینٹ کا موسم ہے، کفایت شعاری کا وقت، جب خریداری کم کر دی جاتی ہے۔ یہ تجارت کے نقطہ نظر سے خراب موسم ہوتا ہے، لیکن ان عورتوں کے کام کا بوجھ اس سے کچھ کم ہو جاتا ہے۔
کونکن ریلوے کی ۱۹۹۰ کے اخیر میں شروعات ہو جانے سے یہاں پڑوسی ریاستوں کے مہاجر مزدور بھی آنے لگے، جس کی وجہ سے ان عورتوں کی آمدنی متاثر ہوئی۔ سستے مزدور ملنے لگے، تیز طرار مردوں کو اس کام پر مامور کر دیا گیا، جس کی وجہ سے یہ عورتیں بے روزگار ہو گئیں، آرام کرنے لگیں۔ لیکن مقامی سوداگر بھدیل عورتوں کی ایمانداری کے پوری طرح قائل ہیں۔ وہ اپنی دکانوں کو ان کے حوالے کر دیتے ہیں دیکھ بھال کے لیے اور انھیں موٹی رقم بینکوں میں جمع کرنے کے لیے بھیجنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔
بھدیل عورتیں ایک دن میں ۵۰ روپے سے لے کر ۲۰۰ روپے تک کما لیتی ہیں۔ جیسا کہ ۲۰۱۵ میں معمول ہے، میڈیم سائز کے بازاری تھیلہ کو اٹھانے کی اجرت تین روپے ہے، اسٹیل کی الماری کو اٹھاکر لے جانے کی اجرت ۵۰ روپے ہے جو اسے اٹھانے میں شامل سبھی عورتوں میں برابر تقسیم کردی جاتی ہے اور ۵۰ کلو وزن کا سامان لے جانے میں ۲۰ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔
اسٹور کے مالکوں کے ساتھ ساتھ دکانداری کرنے والے سامانوں اور بھاری بوجھ کو اٹھوانے میں بھدیلوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ایلپائن المیڈا پنساری کے سامان سے بھری ایک ٹوکری ایک مقامی سوداگر کے لیے لے کر جا رہی ہیں، جو اپنے گھر کی خریداری کے لیے ہر ہفتہ بازار کا ایک چکّر لگاتا ہے۔
گوا میں سبھی دکانیں دوپہر میں ۱ بجے سے ساڑھے ۳ بجے تک بند رہتی ہیں، اس لیے یہ عورتیں گرے ہوئے شٹر کو اپنے دوپہر کے کھانے کی جگہ کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
بھدیل کمیونٹی کی بلّی اپنا روز کا کھانا کھا رہی ہے۔
گوا کا سب سے اہم قیلولہ۔
ریتا کمارا کام کرنے والی بھدیل عورتوں میں سب سے عمر دراز ہیں؛ ان کی عمر تقریباً ۷۰ سال ہے۔ وہ روزانہ کا ڈوز، یعنی سستی بیڑی کو جلا رہی ہیں، بیڑی تیندو کے پتوں میں تمباکو بھر کر بنائی جاتی ہے۔
بعض بھدیل عورتوں کو چشمہ پہننے کی صلاح دی گئی ہے، لیکن کام کرتے وقت اسے پہننا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ ’’چشمہ میرے کام کے بیچ میں آ جاتا ہے،‘‘ پاؤلن المیڈا کہتی ہیں اور آرام سے اس چشمہ کو دن کے اخیر میں اس وقت پہن لیتی ہیں، جب انھیں گھر واپس جانے کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔
سال ۲۰۱۱ میں، پرتگالی حکومت سے آزادی کے ۵۰ سال پورے ہونے کی یادگاری تقریب میں، گوا کی حکومت نے اُن بھدیل عورتوں کی خدمات کو تسلیم کیا، جو اس پیشہ سے ۲۵ سال سے جڑی ہوئی ہیں۔ انھیں اعزازیہ کے طور پر یک مشت ۲۵ ہزار روپے ملے۔ حالانکہ یہ عورتیں سینئر سٹیزن کو ملنے والی سرکاری پنشن اسکیم کے تحت پنشن کے لیے اپلائی کر سکتی ہیں، لیکن بھدیل پروقار عورتیں ہیں، جنہوں نے اب تک کسی بھی قسم کی مدد لینے سے کنارہ کیا ہے۔