خطہ کے باقی حصے کا درجہ حرارت ۴۷ ڈگری تک پہنچ چکا ہے، لیکن یہاں کا موسم ٹھنڈا ہے۔ ہم سے تھوڑا دور ایک ایسی جگہ ہے، جہاں کا درجہ حرارت ہمیشہ مائنس ۱۳ ڈگری رہتا ہے۔ جلتے ہوئے ودربھ میں یہ ’’ہندوستان کا پہلا برفیلا گبند‘‘ ہے۔ اس کے برفیلے تختہ کو مضبوط رکھنے کے لیے روزانہ بجلی کا خرچ ۴۰۰۰ روپے آتا ہے۔
ناگپور (دیہی) ضلع کی بازارگاؤں گرام پنچایت میں واقع ’فن اینڈ فوڈ ولیج واٹر اینڈ ایموزمنٹ پارک‘ میں خوش آمدید۔ مہاتما گاندھی کی قد آدم تصویر اس بڑے سے احاطہ کے دفتر میں آنے والوں کا استقبال کرتی ہے۔ اور آپ کو روزانہ ڈسکو، آئس اسکیٹنگ، آئس سلائیڈنگ اور ’کاک ٹیلز کے ساتھ اچھی طرح ترتیب دیے گئے بار‘ کا یقین دلایا جاتا ہے۔ خود اس ۴۰ ایکڑ رقبہ میں بنے پارک میں ۱۸ قسم کی واٹر سلائیڈز اور کھیلوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، یہاں پر کانفرنسوں سے لے کر کِٹّی پارٹیوں تک کے پروگراموں کی خدمات پیش کی جاتی ہیں۔
حالانکہ، بازارگاؤں نام کے اس گاؤں ( جس کی آبادی ۳۰۰۰ ہے) میں پانی کی زبردست قلت ہے۔ سرپنچ یمنا بائی اوئکی کہتی ہیں، ’’خواتین کو پانی کے لیے روزانہ کئی چکر لگانے پڑتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں ایک دن میں ۱۵ کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ اس گاؤں میں صرف ایک سرکاری کنواں ہے۔ کبھی کبھی، ہمیں چار یا پانچ دن میں ایک بار پانی ملتا ہے۔ کبھی کبھی، دس دنوں میں ایک بار۔‘‘
بازارگاؤں ایک ایسے علاقے میں آتا ہے، جسے ۲۰۰۴ میں پانی کی قلت سے متاثرہ گاؤں قرار دیا گیا تھا۔ تقریباً مئی کے مہینہ تک اس گاؤں کو چھ گھنٹے تک – اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ – بجلی کی کٹوتی کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس کی وجہ سے صحت سمیت روزمرہ کی زندگی کا ہر پہلو متاثر ہو رہا تھا، اور امتحان دینے والے بچوں کی زندگی تباہ ہو چکی تھی۔ ایسے میں موسم گرما کی ۴۷ ڈگری تک کی گرمی نے حالات کو مزید خراب کر دیا تھا۔
دیہی زندگی کے یہ تمام آہنی قوانین ’فن اینڈ فوڈ ولیج‘ پر لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ اس نجی نخلستان میں اس سے کہیں زیادہ پانی ہے جس کا خواب بازارگاؤں دیکھ سکتا ہے۔ اور بجلی کی سپلائی تو ایک منٹ کے لیے بھی بند نہیں ہوتی۔ پارک کے جنرل مینیجر جسجیت سنگھ کہتے ہیں، ’’ہم بجلی کے بلوں کی مد میں ماہانہ اوسطاً تقریباً ۴ لاکھ روپے ادا کرتے ہیں۔‘‘
اکیلے پارک کا ماہانہ بجلی کا بل یمنا بائی کی گرام پنچایت کی سالانہ آمدنی کے تقریباً برابر ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پارک کی وجہ سے گاؤں کی بجلی کا بحران قدرے کم ہوا ہے۔ دونوں کا سب اسٹیشن ایک ہی ہے۔ پارک میں چہل پہل مئی سے شروع ہوتی ہے۔ اور اس کے بعد سے حالات قدرے بہتر ہوئے ہیں۔ پارک سے گرام پنچایت کو سالانہ ۵۰ ہزار روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ یہ اُس رقم کا آدھا ہے جو فن اینڈ فوڈ ولیج کے دروازے پر روزانہ یہاں کا دورہ کرنے والے ۷۰۰ افراد سے وصول کیا جاتا ہے۔ پارک کے ۱۱۰ کارکنوں میں سے بمشکل ایک درجن بازارگاؤں کے مقامی لوگ ہیں۔
پانی کی قلت کے شکار ودربھ میں ایسے واٹر پارکس اور تفریحی مراکز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ بلڈھانہ کے شیگاؤں میں، ایک مذہبی ٹرسٹ کے ذریعے بڑا سا ’’میڈیٹیشن سنٹر اور تفریحی پارک‘‘ چلایا جا رہا ہے۔ اس کے اندر ۳۰ ایکڑ میں بنی ’مصنوعی جھیل‘ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جا رہی تھی، لیکن اس موسم گرما میں وہ جھیل بھی خشک ہو گئی۔ اس کوشش میں نہ جانے کتنا پانی ضائع ہو گیا۔ یہاں داخلے کے ٹکٹوں کو ’’عطیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یوتمال میں، ایک پرائیویٹ کمپنی عوامی جھیل کو سیاحوں کے مرکز کے طور پر چلاتی ہے۔ امراوتی میں اس طرح کے دو یا اس سے زیادہ مقامات ہیں (جو کچھ دنوں پہلے ہی خشک ہو گئے)۔ ناگپور اور اس کے آس پاس بھی ایسے کئی مقامات ہیں۔
یہ ایک ایسے علاقے کا حال ہے، جہاں گاؤوں کو کبھی کبھی ۱۵ دنوں میں ایک بار ہی پانی ملتا ہے۔ اور جہاں زراعت کے جاری بحران کی وجہ سے ریاست مہاراشٹر میں کسانوں کی سب سے زیادہ خودکشی دیکھنے کو ملی ہے۔ ناگپور کے صحافی جے دیپ ہرڈیکر کہتے ہیں، ’’وِدربھ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے پینے کے پانی یا آبپاشی کے لیے کوئی بڑا پروجیکٹ مکمل نہیں ہوا ہے۔‘‘ وہ کئی برسوں سے اس خطے سے رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔
جسجیت سنگھ کا اصرار ہے کہ فن اینڈ فوڈ ولیج میں پانی کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ ’’ہم اسی پانی کو دوبارہ استعمال کرنے کے لیے جدید ترین فلٹر پلانٹس استعمال کرتے ہیں۔‘‘ لیکن اس گرمی میں بخارات کی سطح بہت زیادہ ہے۔ اور پانی صرف کھیلوں کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ تمام پارک اپنے باغات کی دیکھ بھال، صفائی ستھرائی اور اپنے گاہکوں کے لیے اس پانی کی بڑی مقدار استعمال کرتے ہیں۔
بلڈھانہ میں ونائک گائیکواڑ کہتے ہیں، ’’یہ پانی اور پیسے کا بہت بڑا ضیاع ہے۔‘‘ وہ بلڈھانہ ضلع کے ایک کسان اور کسان سبھا کے لیڈر ہیں۔ ونائک گائیکواڑ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس عمل میں، عوامی وسائل کا استعمال اکثر نجی منافع کو بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ’’انہیں ایسا کرنے کی بجائے لوگوں کی پانی جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے۔‘‘
اُدھر بازارگاؤں میں، سرپنچ یمنا بائی اوئکی بھی متاثر نہیں ہیں۔ نہ تو فن اینڈ فوڈ ولیج سے اور نہ ہی دوسری صنعتوں سے، جنہوں نے لیا تو بہت کچھ ہے لیکن دیا بہت کم ہے۔ ’’ان سب میں ہمارے لیے کیا ہے؟‘‘ وہ جاننا چاہتی ہیں۔ اپنے گاؤں کی خاطر معیاری سرکاری پانی کا پروجیکٹ حاصل کرنے کے لیے پنچایت کو اس کی لاگت کا ۱۰ فیصد ادا کرنا پڑے گا۔ یعنی تقریباً ساڑھے ۴ لاکھ روپے۔ ’’ہم ۴۵۰۰۰ روپے کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟ ہماری حالت کیا ہے؟‘‘ لہٰذا اسے ایک ٹھیکیدار کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اس سے پروجیکٹ کی تعمیر ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب ہوگا طویل مدت میں زیادہ لاگت، اور اتنے غریب اور بے زمین لوگوں کے گاؤں کا کم کنٹرول۔
ہم جب وہاں سے نکل رہے ہیں، تو پارک میں دفتر کے باہر لگی گاندھی جی کی وہ تصویر ابھی بھی مسکرا رہی ہے – شاید پارکنگ کے اس پار موجود ’برفیلے گنبد‘ کو دیکھ کر۔ وہی گاندھی جی، جنہوں نے کہا تھا: ’’سادگی سے جیو، تاکہ دوسرے آسانی سے جی سکیں۔‘‘
یہ مضمون سب سے پہلے ’دی ہندو‘ اخبار میں ۲۲ جون، ۲۰۰۵ کو شائع ہوا تھا۔ پی سائی ناتھ اس وقت اس اخبار کے دیہی امور کے ایڈیٹر تھے۔
مترجم: محمد قمر تبریز