انہوں نے ۲۰ کلومیٹر سے زیادہ کا فاصلہ پہلے ہی طے کر لیا تھا، لیکن نہ تو ان کے اندر کوئی تھکان تھی اور نہ ہی چہرے پر کسی قسم کی پریشانی کے آثار۔ وہ بڑے آرام سے ایک قطار میں آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ ان کے بدن پر سب سے اچھے کپڑے تھے، یعنی جو سب سے کم پھٹے پرانے ہوں۔ اور وہ کوراپُٹ خطہ کے ملکانگیری ضلع میں واقع ہفتہ وار ہاٹ یا دیہی بازار کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہے تھے۔ وہ وہاں پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں، یہ ایک الگ مسئلہ تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بیچ راستے میں کوئی مقامی تاجر – یا ساہوکار – معمولی پیسے میں ان کا پورا سامان خرید لے۔ اس کے بعد وہ ان سے اپنے ان سامانوں کو ہاٹ تک پہنچانے کے لیے بھی کہہ سکتا ہے۔
چار لوگوں کے اس قافلہ نے آخرکار نرمی سے اپنی رفتار دھیمی کی اور مجھ سے بات کرنے کے لیے رکے۔ یہ کمہار یا روایتی طور پر برتن بنانے والے لوگ نہیں ہیں، بلکہ یہ دھورُوا ہیں، اس خطہ کے آدیواسی گروپ۔ مجھ سے بات کرنے والے ان میں سے دو، ماجھی اور نوکل نے یقین دہانی کرائی تھی کہ برتن بنانا ان کا روایتی پیشہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے یہ کام ایک غیر منافع بخش گروپ کے ذریعے منعقد کیے گئے ورکشاپ میں سیکھا تھا۔ چونکہ کھیتی بالکل بھی نہیں ہو پا رہی تھی، اس لیے انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ برتن بنایا جائے – اور ان کے برتن واقعی میں بہت اچھے تھے، بلکہ ان پر نقش و نگار بھی بنے ہوئے تھے۔ حالانکہ، انہوں نے بتایا کہ ان کی حالت بھی کافی خستہ ہے۔ نوکل نے شکایت کرتے ہوئے کہا، ’’ہر جگہ لوگ پلاسٹک کے برتن اور بالٹیاں استعمال کرنے لگے ہیں۔‘‘ اور یہ ۱۹۹۴ کی بات ہے۔ پلاسٹک کا استعمال تبھی سے کسی وبائی مرض کی طرح پھیلنے لگا تھا، خود ساختہ بیماری، کئی قسموں کے ساتھ – جس کا دور دور تک کوئی علاج نظر نہیں آ رہا ہے۔
ماجھی نے کہا، ’’جی ہاں،‘‘ یہ سچ ہے کہ ’’ساہوکار ہمارے سامان اکثر کم قیمتوں پر خرید لیتے ہیں۔ لیکن، ہم ان کے دیندار بھی تو ہیں۔‘‘ اس کے بعد یہ تاجر ان برتنوں کو ہاٹ میں اونچی قیتموں پر بیچتے ہیں۔ ان کا برتن بیچنے کے لیے وہاں دوسرے آدیواسی موجود ہوتے ہیں۔ حالانکہ، کئی ہاٹوں میں انہیں بنانے والے اصلی لوگ بھی اپنے برتن فروخت کرتے ہوئے مل جائیں گے۔ الگ الگ گاؤوں کے لوگ ہفتہ میں الگ الگ دن اپنے بازار لگا سکتے ہیں۔ اس طرح یہ بازار بھلے ہی ہر لوکیشن پر ہفتہ میں ایک دن لگتا ہو، لیکن اس پورے خطہ میں ہر دن کہیں نہ کہیں ہاٹ لگتا ہے۔
’میک ان انڈیا‘ کو لیکر دھورواؤں کے دوسرے مسائل بھی ہیں۔ ہندوستان میں درج فہرست قبائل کی سرکاری شماریاتی پروفائل اور اوڈیشہ کی درج فہرست قبائل کی ریاستی لسٹ، دونوں میں ہی اس آدیواسی برادری کا نام ’دَھرُوا‘ اور ’دھوروبا‘ اور ’دھُروا‘ لکھا ہوا ہے۔ میں نے اسکول کے کئی سرٹیفکیٹ اور دیگر کاغذات میں اس قبیلہ کا نام ’دھوروا‘ لکھا ہوا دیکھا ہے۔ نام کے الگ الگ ہجے کی وجہ سے اس برادری کے بہت سے لوگ سرکاری اسکیموں کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہے تھے، کیوں کہ نچلی سطح کے نوکرشاہ ان سے اکثر یہ کہہ دیتے تھے کہ اس نام کا کوئی قبیلہ فہرست میں درج نہیں ہے۔ اس بیوقوفی کو ٹھیک کرنے میں لمبا وقت لگا۔
گاؤں کے ہاٹ میں اس علاقہ کی اقتصادیات کی رنگا رنگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ خطہ میں پیدا ہونے والی زیادہ تر اشیاء وہاں پر دیکھنے کو ملیں گی جنہیں فروخت کیا جا رہا ہوگا۔ ہر طرح کی لین دین ایک چھوٹے سے کھیت میں ہوتی ہے، جو مختلف قسم کی سرگرمی، تازگی اور رنگ سے بھرپور ہے۔ ہماری مختصر سی گفتگو مکمل ہونے کے بعد، یہ چاروں مرد آگے کے لیے روانہ ہو گئے، اور ان کی تصویر کھینچنے پر انہوں نے میرا پرتپاک شکریہ ادا کیا (جس کے لیے انہوں نے ضد کی کہ وہ جس پوز میں تصویر کھنچوانا چاہتے ہیں ان کی فوٹو ویسے ہی کھینچی جائے)۔ میں انہیں جاتے ہوئے دیکھتا رہا، نہایت ہی خوبصورت انداز میں، ایک قطار میں، ایک دوسرے کے بالکل قریب، پوری شان سے آگے بڑھتے ہوئے۔ اتنے قریب کہ اگر کسی کے قدم لڑکھڑائے یا ٹھوکر لگی، تو سارے برتن ٹوٹ سکتے ہیں۔ ملکانگیری میں مجھے یہ خوف اکثر ستاتا رہا – لیکن اچھی بات یہ رہی کہ میں نے اسے سچ ہوتے کبھی نہیں دیکھا۔
اس مضمون کا مختصر حصہ پہلی بار یکم ستمبر، ۱۹۹۵ کو ’دی ہندو بزنس لائن‘ میں شائع ہوا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز