’’دیکھو، ہماری موٹر مٹی میں دبی ہوئی ہے۔‘‘ دیوندر راوت مٹی میں دھنس گئے اپنے پمپنگ سیٹ کو نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے تھوڑے ناراض دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ مہینوں سے اپنی موٹروں کو نکالنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے سونڈھ گاؤں کے اس ۴۸ سالہ کسان کا کہنا ہے، ’’سیلاب کی وجہ سے کھیتوں میں کٹاؤ کے سبب ہماری تین موٹر مٹی میں دب گئی ہے۔ ایک کنواں بھی دھنس گیا ہے۔ ہم کیا کریں؟‘‘

مدھیہ پردیش کے شیو پوری ضلع کی نروَر تحصیل کا یہ گاؤں سندھ ندی کی دو موجوں کے درمیان میں آباد ہے۔ اگست ۲۰۲۱ میں سندھ ندی میں آئے سیلاب نے ۶۳۵ لوگوں کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) والے اس گاؤں میں زبردست تباہی مچائی تھی۔ دیوندر کہتے ہیں، ’’ایسی ندّی [سیلاب] ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ہمارے گاؤں کے چاروں طرف پانی بھرا ہوا تھا۔ سیلاب سے ہماری ۳۰ بیگھہ [تقریباً ۱۸ ایکڑ] دھان کی فصل برباد ہو گئی۔ میری فیملی کا چھ بیگھہ [تقریباً ۷ء۳ ایکڑ] کھیت تو ندی کے کٹاؤ میں ہمیشہ کے لیے دھنس گیا۔‘‘

چاروں طرف پانی سے گھرا ہونے کی وجہ سے، کالی پہاڑی پنچایت کا سونڈھ گاؤں ایک جزیرہ کی طرح ہے۔ یہاں کے لوگوں کو عام دنوں میں بھی زیادہ پانی ہونے کی حالت میں اس پار سے اُس پار آنے جانے کے لیے راستے کو تیر کر یا ڈوب کر پار کرنا پڑتا ہے۔

دیوندر کے مطابق، ’’سیلاب کے وقت تو گاؤں میں تین دنوں تک پانی بھرا رہا۔‘‘ اس وقت سرکاری کشتی آئی تھی اور لوگوں کو نکال کر یہاں سے باہر لے گئی، جب کہ ۱۲-۱۰ لوگ گاؤں میں ہی رکے رہے۔ لوگوں کو قریب کے بازار میں یا رشتہ داروں کے گاؤں جا کر رہنا پڑا۔ دیوندر بتاتے ہیں کہ سیلاب کے وقت بجلی بھی چلی گئی تھی، اور ایک مہینہ بعد آئی تھی۔

PHOTO • Rahul

سونڈھ گاؤں کے دیوندر راوت، سندھ ندی کے کٹاؤ میں زمین دوز ہوئی اپنی موٹر کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں

ہندوستانی محکمہ موسمیات کے مطابق، سال ۲۰۲۱ میں ۱۴ مئی سے ۲۱ جولائی کے درمیان مغربی مدھیہ پردیش میں ۲۰ سے ۵۹ فیصد تک کم بارش ہوئی تھی۔

حالانکہ، ۲۸ جولائی سے ۴ اگست کے درمیان اوسط سے ۶۰ فیصد یا اس سے بھی زیادہ بارش ہو گئی۔ اس کی وجہ سے، سندھ کے دو بڑے باندھوں (ڈیم) – مڈیکھیڑا واقع اٹل ساگر باندھ اور نروَر واقع موہنی باندھ – کے پھاٹک کو کھول دیا گیا، اور گاؤں میں سیلاب آ گیا۔ اٹل ساگر باندھ کے ایس ڈی او، جی ایل بیراگی نے کہا، ’’باندھ کو کھولنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ باندھ کو بچانا ہے، تو پانی کو نکالنا ہی تھا۔ ایسے حالات اس لیے پیدا ہوئے کیوں کہ ۲ اور ۳ اگست، ۲۰۲۱ کو بہت زیادہ بارش ہوئی تھی۔‘‘

مدھیہ پردیش میں بہت زیادہ بارش ہونے پر سندھ ندی پر اس کا سیدھا اثر پڑتا ہے۔ مدھیہ پردیش کے بھوپال ضلع میں واقع برکت اللہ یونیورسٹی میں شعبۂ بایو سائنس کے پروفیسر اور ندیوں کے بارے میں معلومات رکھنے والے وپن ویاس کہتے ہیں، ’’سندھ، گنگا طاس کا حصہ ہے۔ وہ جنوب سے شمال کی طرف بہتی ہے اور ہمالیائی ندی نہیں ہے، اور اسی لیے بارش کے پانی پر منحصر ہے۔‘‘

دیوندر کے مطابق اس قدرتی آفت نے فصلوں کے دور کو بھی متاثر کیا ہے، ’’دھان اور تیلی کی فصل برباد ہو گئی، گیہوں کی کھیتی بھی اس بار ہم اچھی طرح سے نہیں کر پائے۔‘‘ سندھ کے ساحلی علاقوں میں سرسوں کی کھیتی خوب ہوتی ہے۔ بہت سے مقامی کاشتکاروں نے کہا کہ سیلاب کی وجہ سے سرسوں کا رقبہ بڑھ گیا تھا۔

PHOTO • Rahul
PHOTO • Aishani Goswami

بائیں: دیوندر اور ان کے بھتیجے، رام نواس راوت اور گاؤں کے ایک اور شخص سیلاب میں تباہ ہو گئے کھیت کے سامنے کھڑے ہیں۔ دائیں: رام نواس راوت (سفید شرٹ میں) کہتے ہیں، ’موسم کے اتار چڑھاؤ کے سبب بھاری بارش اور سیلاب سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں‘

موسم کی تبدیلی سے ہونے والے نقصان پر بات کرتے ہوئے دیوندر کے بھتیجے رام نواس کہتے ہیں، ’’موسم کے اتار چڑھاؤ کے سبب بھاری بارش اور سیلاب سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، بہت زیادہ گرمی سے بھی [پودوں کے] نقصان کا خطرہ رہتا ہے۔‘‘

وہ بتاتے ہیں کہ سیلاب کے بعد پٹواری اور گاؤں کے سرپنچ گاؤں والوں کا حال پوچھنے آئے تھے، اور کہا تھا کہ انہیں معاوضہ دلوا دیں گے۔

دیوندر بتاتے ہیں، ’’دھان کی برباد ہوئی فصل کے عوض ۲۰۰۰ روپے فی بیگھہ کے حساب سے مجھے معاوضہ ملا تھا۔‘‘ بغل میں ہی موجود رام نواس نے مزید کہا، ’’اگر سیلاب سے ہماری دھان کی فصل برباد نہیں ہوتی، تو اسے بیچنے سے کم از کم تین سے چار لاکھ روپے کا منافع ہوتا۔‘‘

دیوندر کی فیملی کی آمدنی کا ذریعہ صرف اور صرف کھیتی ہے، اور فیملی کا کوئی بھی رکن نوکری یا کاروبار نہیں کرتا۔ سال ۲۰۲۰ میں، کورونا وبائی مرض شروع ہونے کے بعد سے ہی دیوندر کی فیملی کی مشکلیں شروع ہو گئی تھیں۔ لگاتار دو سال تک کورونا وبائی مرض کے اثرات اور اس کے سبب لاک ڈاؤن نے ان کی فصلوں کی قیمت بازار میں گرا دی تھی۔ سال ۲۰۲۱ میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران جب کہیں آنا جانا بھی مشکل تھا، تب ان کی فیملی میں دو بیٹیوں کی شادی ہوئی۔ ان میں سے ایک دیوندر کی بیٹی تھیں اور دوسری بھتیجی۔ دیوندر کہتے ہیں، ’’کورونا کی وجہ سے تمام چیزیں مہنگی مل رہی تھیں، لیکن ہم نے شادی پہلے سے طے کر رکھی تھی، تو اسے پورا کرنا ہی تھا۔‘‘

پھر اگست ۲۰۲۱ کی شروعات میں اچانک آئے سیلاب نے ان کی فیملی کی پریشانی مزید بڑھا دی۔

PHOTO • Aishani Goswami
PHOTO • Rahul

بائیں: سیلاب کی وجہ سے سندھ ندی کے کنارے لگے بہت سے درخت گر گئے تھے۔ دائیں: بھاری بارش کے بعد نروَر تحصیل میں واقع موہنی باندھ کے پھاٹک کو کھول دیا گیا، جس سے گاؤں میں سیلاب آ گیا

*****

دتیا ضلع کی اندرگڑھ تحصیل کے تلیتھا گاؤں کے کسان صاحب سنگھ راوت، سندھ ندی کے کنارے موجود اپنے کھیت کو مایوسی سے دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے ہم سے کہا، ’’بے موسم بارش کی وجہ سے گنّے کی ساڑھے ۱۲ بیگھہ (تقریباً ۷ء۷ ایکڑ) فصل برباد ہو گئی۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ سال ۲۰۲۱ میں سردیوں کے موسم میں خوب بارش ہوئی تھی، جس نے کسانوں کو اچھا خاصا نقصان پہنچایا۔

سونڈھ میں آباد گھر اونچائی پر ہیں، اس لیے وہاں سیلاب سے جان مال کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ لیکن، باقی گاؤوں کی قسمت اتنی اچھی نہیں تھی۔ کالی پہاڑی گرام پنچایت کی رہنے والی سمترا سین بتاتی ہیں کہ ان کے گاؤں کے لوگ پانی کی سطح کو ناپتے رہتے تھے، اور تھیلے میں پانچ کلو اناج لے کر پہاڑی پر چڑھنے کو تیار رہتے تھے۔

تقریباً ۴۵ سال کی سمترا سین قریب کے ایک اسکول میں کھانا بنانے کا کام کرتی ہیں، ساتھ ہی مزدوری بھی کرتی ہیں۔ ان کے ۵۰ سالہ شوہر، دھن پال سین گزشتہ ۹-۸ سال سے احمد آباد میں پاؤچ بنانے والی ایک پرائیویٹ کمپنی میں نوکری کرتے ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا اتیندر سین (۱۶) بھی وہیں کام کرتا ہے۔ حجام برادری سے تعلق رکھنے والی سمترا کو سرکار سے بی پی ایل (خط افلاس سے نیچے) کارڈ ملا ہوا ہے۔

دتیا ضلع کے سیوڑھا بلاک میں واقع مدن پورہ گاؤں کے رہنے والے ودیا رام بگھیل نے بتایا کہ سیلاب میں ان کا تین بیگھہ (تقریباً دو ایکڑ) کھیت کٹ گیا۔ ’’میری پوری فصل برباد ہو گئی، اور کھیت ریت سے بھر گیا تھا۔‘‘

PHOTO • Rahul
PHOTO • Rahul
PHOTO • Rahul

بائیں: بے موسم بارش نے تلیتھا کے کسان صاحب سنگھ راوت کی گنّے کی تقریباً ۷ء۷ ایکڑ فصل برباد کر دی۔ دائیں: کالی پہاڑی کی سمترا سین کے گاؤں میں ہر کوئی سیلاب کے ڈر سے تھیلے میں پانچ کلو اناج لے کر پہاڑی پر چڑھنے کو تیار رہتا تھا۔ نیچے: ودیا رام بگھیل کا کھیت ریت سے بھر گیا تھا

*****

سونڈھ گاؤں کے لوگوں نے گفتگو کے دوران دعویٰ کیا کہ مقامی انتظامیہ یہاں ندی پر پل بنانے کے لیے اس لیے تیار نہیں ہے کیوں کہ اس کی لاگت یہاں کے اثاثوں سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ گاؤں میں تقریباً ۷۰۰ بیگھہ قابل کاشت زمین ہے اور اس کا مالکانہ حق یہاں کے مقامی باشندوں کے پاس ہی ہے۔ رام نواس کہتے ہیں، ’’اگر ہم دوسری جگہ آباد ہونے کے لیے چلے جائیں گے، تب بھی کھیتی کرنے کے لیے یہاں آنا ہوگا۔‘‘

موسم میں تبدیلی، بے موسم حد سے زیادہ بارش، ندیوں پر باندھ بنتے چلے جانے اور ان کے مناسب بندو بست کی کمی کے سبب بھلے ہی ڈوب اور سیلاب کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہو، لیکن دیوندر اور ان کی فیملی اپنی زمین کو نہیں چھوڑنے کے عہد کے ساتھ کھڑی ہے۔ دیوندر راوت کہتے ہیں، ’’ہم لوگ یہ گاؤں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ اور جائیں گے تبھی، جب ہمیں ہماری زمین کے عوض اتنی ہی زمین انتظامیہ دوسری جگہ پر دے گی۔‘‘

یہ اسٹوری ہندی زبان میں رپورٹ کی گئی تھی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Rahul

راہل سنگھ، جھارکھنڈ میں مقیم ایک آزاد صحافی ہیں۔ وہ جھارکھنڈ، بہار اور مغربی بنگال جیسی مشرقی ریاستوں سے ماحولیات سے متعلق موضوعات پر لکھتے ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Rahul
Aishani Goswami

ایشانی گوسوامی، احمد آباد میں مقیم واٹر پریکٹشنر اور آرکٹیکٹ ہیں۔ انہوں نے واٹر رسورس انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ میں ایم ٹیک کیا ہے، اور ندی، باندھ، سیلاب اور پانی کے بارے میں مطالعہ کرنے میں دلچسپی رکھتی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Aishani Goswami
Editor : Devesh

دیویش ایک شاعر صحافی، فلم ساز اور ترجمہ نگار ہیں۔ وہ پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے لیے ہندی کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Devesh
Translator : Qamar Siddique

قمر صدیقی، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے ٹرانسلیشنز ایڈیٹر، اردو، ہیں۔ وہ دہلی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔

کے ذریعہ دیگر اسٹوریز Qamar Siddique