وہ مقامی واگھری بولی میں کہتی ہیں، ’’ہون جانو، ہون خبر؟ [میں کیا جانوں کہ ایسا کیوں ہے؟]‘‘
راجستھان کے بانسواڑہ ضلع کے بوری، کھرویڑا اور سیملیا گاؤوں میں جب میں عورتوں کے ساتھ بات چیت کر رہی تھی، تو میں نے غور کیا کہ ان میں سے زیادہ تر عورتیں زمین پر چٹائی بچھا کر یا بغیر چٹائی کے ہی فرش پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ مرد یا فیملی کے بڑے بزرگ ہمیشہ کسی اونچی جگہ پر – کسی کرسی یا چارپائی پر بیٹھتے ہیں۔ مردوں کی موجودگی میں بزرگ عورتیں بھی زمین پر ہی بیٹھتی ہیں۔ اگر وہ بیمار ہیں، تو بھی اس سے فرق نہیں پڑتا ہے۔ بچوں کے معاملے میں بھی یہی روایت چلی آ رہی ہے – لڑکے کسی اونچی جگہ پر بیٹھ سکتے ہیں، لیکن لڑکیوں کو اس کی اجازت نہیں ہے۔
کھرویڑا اور سیملیا کے زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ روایتی طور پر وہ بُنکر تھے، لیکن گزشتہ کچھ نسلوں سے انہوں نے کپڑے بُننے کا کام چھوڑ دیا ہے۔ بوری میں کچھ عورتیں ڈیئری کسان بھی ہیں، یعنی مویشیوں کو پال کر ان کے دودھ وغیرہ بیچتی ہیں۔
جب ان سے اس بابت پوچھا گیا، تو ان سبھی نے ایک زبان میں کہا کہ عورتوں کے زمین پر بیٹھنے کی روایت ہے۔ شادی ہوجانے کے بعد، بیٹیاں اپنے میکے جانے پر اونچی جگہوں پر بیٹھ سکتی ہے، لیکن گھر کی بہوئیں ہمیشہ نیچے فرش پر ہی بیٹھیں گی۔
عورتیں صرف اسی وقت نیچے فرش پر نہیں بیٹھتیں جب مرد اور گاؤں کے بزرگ ایک جگہ پر ہوں، بلکہ انھیں اس وقت بھی فرش پر ہی بیٹھنا پڑتا ہے جب میرے جیسے مہمان آس پاس ہوں۔ یعنی، جسے بھی وہ خود سے زیادہ سماجی حیثیت یا خصوصی اختیار رکھنے والا سمجھتی ہیں اس کے سامنے فرش پر ہی بیٹھتی ہیں۔
ہم دھیرے دھیرے اس موضوع پر سیلف ہیلپ گروپ کے ساتھ بات چیت کرنے لگتے ہیں۔ وہ اس بات کو لے کر محتاط تھیں کہ وہ اپنے بزرگوں یا ساس سسر کی تذلیل تو نہیں کر رہی ہیں۔ بعض کا خیال تھا کہ یہ روایت ختم ہونی چاہیے، بعض چاہتی تھیں کہ یہ باقی رہے۔
آخرکار، تھوڑی دیر تک سمجھانے کے بعد سبھی عورتیں کرسی، چارپائی یا ایک چبوترے پر بیٹھ کر تصویر کھنچوانے کے لیے تیار ہو گئیں۔ حالانکہ، انہوں نے بار بار اس بات کی ضد کی کہ وہ گھر کے اندر یا پیچھے کے احاطے میں یا اپنے بیٹے کو گود میں لے کر فوٹو کھنچوائیں گی۔
کچھ عورتوں کے لیے یہ عام بات تھی، اور کچھ عورتوں کے لیے کچھ دیر کی اس علامتی ترقی کے لیے خود کو تیار کرنا آسان نہیں تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز