احمدوس ستار میکر پیرس جا سکتے تھے، لیکن ان کے والد نے انہیں اجازت نہیں دی۔ ان کا کہنا تھا، ’’اگر تم باہری دنیا دیکھ لوگے، تو واپس نہیں آؤگے۔‘‘ ان کے الفاظ کو یاد کرتے ہوئے آج ۹۹ سال کے احمدوس مسکرانے لگتے ہیں۔

پانچویں نسل کے ستار ساز احمدوس جب ۴۰ سال کے ہونے والے تھے، تب پیرس سے دو خواتین قدیم آلہ موسیقی ستار بنانے کا ہنر سیکھنے ان کے آبائی شہر آئی تھیں۔ میرج کی ’ستار میکر‘ گلی میں اپنے دو منزلہ مکان اور ورکشاپ کے گراؤنڈ فلور پر بیٹھے احمدوس بتاتے ہیں، ’’ادھر ادھر پوچھ کر وہ مدد کے لیے میرے پاس آئیں اور میں نے انہیں سکھانا شروع کیا۔‘‘ اسی مکان میں ان کی فیملی کی کئی نسلیں رہتی اور کام کرتی ہیں۔

احمدوس مزید کہتے ہیں، ’’اُس زمانے میں ہمارے گھر میں بیت الخلاء نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے اسے ایک دن میں بنا لیا، کیوں کہ ہم ان سے [غیر ملکی مہمانوں سے] اپنی طرح کھیتوں میں جانے کو نہیں کہہ سکتے تھے۔‘‘ جب وہ بول رہے ہیں، تو ستار کی ہلکی سی آواز سنائی دے رہی ہے۔ ان کے بیٹے غوث ستار میکر کام میں مصروف ہیں۔

دونوں لڑکیاں نو مہینے تک احمدوس کی فیملی کے ساتھ رہیں، لیکن آخری مرحلہ سیکھنے سے پہلے ہی ان کا ویزا ختم ہو گیا۔ کچھ مہینے بعد انہوں نے احمدوس کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے پیرس بلایا۔

مگر احمدوس اپنے والد کی ہدایات کے مطابق گھر پر ہی رہے اور مہاراشٹر کے سانگلی ضلع میں ایک کاریگر کے طور پر کام کرتے رہے، جو اس ہنر کے لیے مشہور ہے۔ احمدوس کی فیملی کی سات نسلیں ڈیڑھ سو سے زیادہ برسوں سے اس کاروبار میں لگی ہوئی ہیں۔ اور ۹۹ سال کی عمر میں بھی احمدوس یہ کام کر رہے ہیں۔

Left: Bhoplas [gourds] are used to make the base of the sitar. They are hung from the roof to prevent them from catching moisture which will make them unusable.
PHOTO • Prakhar Dobhal
Right:  The gourd is cut into the desired shape and fitted with wooden sticks to maintain the structure
PHOTO • Prakhar Dobhal

بائیں: بھوپلا [کدو یا کوہڑا] کا استعمال ستار کا بیس بنانے میں ہوتا ہے۔ انہیں چھت سے لٹکایا جاتا ہے، تاکہ ان میں نمی نہ لگے اور وہ بیکار نہ ہو جائیں۔ دائیں: اس کی شکل کو برقرار رکھنے کے لیے کدو کو مطلوبہ سائز میں کاٹا جاتا ہے اور لکڑی کی چھڑیوں میں فٹ کیا جاتا ہے

احمدوس کے گھر اور کارخانہ کی طرح بھوپلا یا کدّو (کوہڑا) پڑوس کی تقریباً ہر گھر کی چھت سے لٹکے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ستار ساز تونبہ یا ستار کا بیس بنانے کے لیے بھوپلا استعمال کرتے ہیں۔ یہ سبزی میرج سے تقریباً ۱۳۰ کلومیٹر دور پنڈھر پور علاقے میں اُگائی جاتی ہے۔ ذائقہ میں کڑوا (ترش) ہونے کے سبب اسے کھایا نہیں جا سکتا اور کسان اس کی کھیتی ستار سازوں کو بیچنے کے واحد مقصد سے کرتے ہیں جو اس آلہ موسیقی کو بناتے ہیں۔ سردیوں میں فصل کٹنے پر زیادہ قیمتوں سے بچنے کے لیے کاریگر گرمیوں میں فصل کی پہلے سے ہی بکنگ کر لیتے ہیں۔ کدوؤں کو فرش کی نمی سے بچانے کے لیے چھت سے لٹکایا جاتا ہے۔ اگر اسے فرش پر چھوڑ دیا گیا، تو اس میں پھپھوند لگ جاتی ہے جس سے ستار کے ارتعاش اور عمر پر اثر پڑتا ہے۔

امتیاز ستار میکر کہتے ہیں، ’’پہلے ہم ایک کدو کے ۲۰۰ سے ۳۰۰ [روپے] دیتے تھے، مگر اب یہ ۱۰۰۰ یا ۱۵۰۰ روپے تک بھی چلا جاتا ہے۔‘‘ امتیاز ضروری شکل اور سائز کے لیے کدو کو صاف کرتے اور کاٹتے ہیں۔ لانے لے جانے کی بڑھتی ہوئی لاگت نے بھی قیمتیں بڑھائی ہیں۔ امتیاز بتاتے ہیں کہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ کسان ہاتھ سے بننے والے آلات موسیقی کی گھٹتی مانگ کے سبب کدّو کی کھیتی کم کر رہے ہیں۔ اس سے اسے خریدنا زیاد مہنگا پڑنے لگا ہے۔

ایک بار تونبہ تیار ہونے کے بعد ڈھانچے کو پورا کرنے کے لیے لکڑی کا ہینڈل لگایا جاتا ہے۔ اس کے بعد کاریگر ڈیزائن پر کام شروع کرتے ہیں، جسے پورا ہونے میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔ ہینڈ ڈرل اور پلاسٹک اسٹینسل کا استعمال کر کے عرفان ستار میکر جیسے ماسٹر ڈیزائنر لکڑی تراشتے ہیں۔ عرفان (۴۸) کہتے ہیں، ’’لمبے عرصے تک جھک کر کام کرنے سے پیٹھ درد اور دوسرے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ان کی بیوی شاہین کہتی ہیں، ’’برسوں تک کام کرنے سے اس کا جسم پر کافی اثر پڑتا ہے۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: میرج کے ستار ساز

شاہین ستار میکر کہتی ہیں، ’’مجھے اس ہنر یا روایت سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ مجھے اس پہچان پر فخر ہے جو میرے شوہر نے کڑی محنت سے حاصل کی ہے۔‘‘ خاتون خانہ اور دو بچوں کی ماں شاہین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس ہنر سے ہونے والی آمدنی، اس کے سبب ہونے والے جسمانی نقصان کی تلافی نہیں کر پاتی۔ وہ اپنے باورچی خانہ میں کھڑی ہوئی بتا رہی ہیں، ’’ہمارا کھانا شوہر کی روز کی کمائی پر منحصر ہے۔ میں زندگی سے خوش ہوں، لیکن ہم اپنی ضروریات کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘‘

ان کے دونوں بیٹے اپنے دادا کے بھائی سے ستار بجانا سیکھ رہے ہیں۔ شاہین کہتی ہیں، ’’وہ اچھا بجاتے ہیں۔ آگے چل کر دونوں اچھا نام کمائیں گے۔‘‘

کچھ ستار ساز اس عمل میں صرف ایک مرحلہ پورا کرتے ہیں، جیسے کدو کاٹنا یا ڈیزائن بنانا، اور اس کے لیے انہیں یومیہ اجرت ملتی ہے۔ ڈیزائنر اور پینٹر کام کی مقدار اور نوعیت کی بنیاد پر ۳۵۰ سے ۵۰۰ روپے کے درمیان کما لیتے ہیں۔ حالانکہ، ستار کو بالکل شروع سے بنانے والے دوسرے لوگ بھی ہوتے ہیں، یعنی کدو کو دھونے سے لے کر پالش کی آخری پرت لگانے اور ساز کو ٹیون کرنے والے۔ ہاتھ سے بنے ایک ستار کی قیمت تقریباً ۳۰ سے ۳۵ ہزار روپے تک ہوتی ہے۔

گھر کی عورتیں عام طور پر اس کام سے دور رکھی جاتی ہیں۔ دو نوجوان لڑکیوں کے والد غوث کہتے ہیں، ’’میں یقین دلاتا ہوں، اگر میری بیٹیاں آج شروع کر دیں، تو وہ کچھ ہی دنوں میں سیکھ سکتی ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ ان دونوں نے تعلیم کے لحاظ سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘‘ غوث (۵۵) بچپن سے ہی ستار پالش اور فٹنگ کر رہے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’لڑکیوں کی آخر شادی ہو جائے گی۔ اکثر وہ ایسے خاندانوں میں جاتی ہیں جہاں ستار بنانے والے نہیں ہوتے۔ وہاں ان کا ہنر بیکار ہو جاتا ہے۔‘‘ کبھی کبھی عورتیں کھونٹیوں کی پالش کرتی ہیں یا ساز بنانے کے عمل میں کوئی چھوٹا کام کرتی ہیں۔ مگر عام طور پر مردوں کے ذریعے کی جانے والی جسمانی محنت اگر عورتیں کرتی ہیں، تو انہیں معاشرے میں اچھا نہیں سمجھا جاتا اور انہیں فکر ہوتی ہے کہ اسے دولہے کی فیملی قبول نہیں کرے گی۔

Left:  Irfan Sitarmaker carves patterns and roses on the sitar's handle using a hand drill.
PHOTO • Prakhar Dobhal
Right: Wood is stored and left to dry for months, and in some instances years, to season them
PHOTO • Prakhar Dobhal

بائیں: عرفان ستار میکر ہینڈ ڈرل کے ذریعے ستار کے ہینڈل پر پیٹرن اور گلاب کی نقاشی کرتے ہیں۔ دائیں: لکڑی کو مہینوں تک سوکھنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کچھ معاملوں میں اسے مزید بہتر بنانے کے لیے برسوں تک سُکھایا جاتا ہے

Left: Fevicol, a hammer and saws are all the tools needed for the initial steps in the process.
PHOTO • Prakhar Dobhal
Right: Imtiaz Sitarmaker poses with the sitar structure he has made. He is responsible for the first steps of sitar- making
PHOTO • Prakhar Dobhal

بائیں: فیوی کول، ہتھوڑا اور آری کام کے ابتدائی مراحل کے لیے ضروری اوزار ہوتے ہیں۔ دائیں: امتیاز اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے ستار کے ڈھانچہ کے ساتھ۔ وہ ستار سازی کے پہلے مرحلہ کا کام دیکھتے ہیں

*****

میرج کے راجہ شریمنت بالا صاحب پٹ وردھن دوئم کے دور حکومت میں، ۱۹ویں صدی میں ستار بنانے والوں نے تار کے سازوں کے شعبہ میں شہرت حاصل کی۔ وہ موسیقی کے سرپرست تھے۔ وہ آگرہ اور بنارس جیسے علاقوں کے موسیقاروں کو اپنے دربار میں فنی پیشکش کے لیے بلاتے تھے۔ مگر راستے میں کئی ساز خراب ہو جاتے تھے اور راجہ کو مرمت کرنے والے کاریگر تلاش کرنے پڑتے تھے، جو اس مشکل کو حل کر سکیں۔

چھٹی نسل کے ستار ساز ابراہیم بتاتے ہیں، ’’ان کی تلاش آخر انہیں شکلگر برادری کے دو بھائیوں معین الدین اور فرید صاحب تک لے آئی۔‘‘ مہاراشٹر میں شکلگر دیگر پسماندہ طبقہ یعنی او بی سی کے طور پر درج ہیں۔ یہ دھات کا کام کرنے والے اور ہتھیار اور دیگر آلات بنایا کرتے تھے۔ ابراہیم مزید کہتے ہیں، ’’راجہ کی درخواست پر انہوں نے آلات موسیقی کی مرمت میں ہاتھ آزمایا۔ وقت کے ساتھ یہی ان کا بنیادی پیشہ بن گیا اور یہاں تک کہ ان کا نام بھی شکلگر سے بدل کر ستار میکر ہو گیا۔‘‘ میرج میں ان کے آباء و اجداد دونوں لقب اپنے نام کے آخر میں لگاتے ہیں۔

حالانکہ، نئی نسل کو یہ پیشہ جاری رکھنے کے لیے تاریخی وراثت سے زیادہ بڑی وجہ چاہیے۔ شاہین اور عرفان کے بیٹوں کی طرح دوسرے بچوں نے بھی اسے بنانا سیکھنے کی بجائے ستار بجانا شروع کر دیا ہے۔

جیسے جیسے الگ الگ سازوں کی آواز پیدا کرنے والے سافٹ ویئر تیار ہوئے ہیں، موسیقاروں نے بڑے پیمانے پر ہاتھوں سے بننے والے ستار اور طنبوروں (تان پوروں) کا استعمال کرنا بند کر دیا ہے۔ اس سے کاروبار پر اثر پڑا ہے۔ مشین سے بنے ستار کی قیمت ہاتھ سے بنے ستار سے کافی کم ہوتی ہے۔ اس وجہ سے بھی ستار سازوں کے لیے مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔

Left: Gaus Sitarmaker is setting the metal pegs on the sitar, one of the last steps in the process. The pegs are used to tune the instrument.
PHOTO • Prakhar Dobhal
Right: Japanese steel strings sourced from Mumbai are set on a camel bone clog. These bones are acquired from factories in Uttar Pradesh
PHOTO • Prakhar Dobhal

بائیں: غوث ستار میکر ستار پر دھات کی کھونٹیاں لگا رہے ہیں، جو اس عمل کے آخری مراحل میں ہوتا ہے۔ آلات موسیقی کو ٹیون کرنے کے لیے کھونٹیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ دائیں: ممبئی سے منگوائے گئے جاپانی اسٹیل کے تار اونٹ کی ہڈی کے تونبہ پر لگائے گئے ہیں۔ یہ ہڈیاں اتر پردیش کی فیکٹریوں سے لائی گئی ہیں

Left: Every instrument is hand polished  multiple times using surgical spirit.
PHOTO • Prakhar Dobhal
Right: (from left to right) Irfan Abdul Gani Sitarmaker, Shaheen Irfan Sitarmaker, Hameeda Abdul Gani Sitaramker (Irfan’s mother) and Shaheen and Irfan's son Rehaan
PHOTO • Prakhar Dobhal

بائیں: ہر ایک آلہ کو سرجیکل اسپرٹ لگا کر کئی بار ہاتھ سے پالش کیا جاتا ہے۔ دائیں: (بائیں سے دائیں) عرفان عبدالغنی ستار میکر، شاہین عرفان ستار میکر، حمیدہ عبدالغنی ستار میکر (عرفان کی والدہ) اور شاہین و عرفان کے بیٹے ریحان

پیشہ کو برقرار رکھنے کے لیے ستار ساز اب چھوٹے ستار بنانے لگے ہیں، جنہیں وہ سیاحوں کو بیچتے ہیں۔ ان کی قیمت ۳۰۰۰ سے ۵۰۰۰ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ چمکیلے رنگ کے ستار کدو کی بجائے فائبر سے بنائے جاتے ہیں۔

آلات موسیقی بنانے والے ان کاریگروں کو کبھی سرکاری اعزاز اور مدد ٹھیک سے نہیں ملی۔ حالانکہ، فنکاروں اور اداکاروں کے لیے کئی اسکیمیں ہیں، لیکن آلات موسیقی بنانے والوں کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ ابراہیم کہتے ہیں، ’’اگر سرکار ہمیں اور ہماری کوششوں کو اعزاز قبولیت عطا کرتی ہے، تو ہم اور بھی بہتر ساز بنا سکتے ہیں۔ اس سے فنکاروں کو مالی طور پر مدد ملے گی اور انہیں یہ احساس بھی ہوگا کہ ان کی کوششوں کے لیے ان کی عزت افزائی کی جا رہی ہے۔‘‘ احمدوس جیسے ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں اس ہنر کے لیے اپنی زندگی لگانے کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’آج بھی اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ کیا مجھے کوئی مدد یا مالی مدد چاہیے…میں وہ کبھی نہیں چاہوں گا۔ کبھی بھی نہیں۔‘‘

انٹرنیٹ پر فروخت کے راستے کھل گئے ہیں، کیوں کہ خریدار اب سیدھے ستار سازوں کی ویب سائٹوں پر آرڈر دیتے ہیں، جس سے اسٹور مالکوں اور بچولیوں کو کمیشن نہیں دینا پڑتا۔ زیادہ تر گاہک ملک کے اندر کے ہیں۔ بین الاقوامی گاہک ویب سائٹوں کے ذریعے جڑنے لگے ہیں۔

ستار کو ہاتھ سے کیسے بنایا جاتا ہے، یہ دیکھنے کے لیے ویڈیو دیکھیں اور ستار سازوں سے ان کے مسائل جانیں، جن کا وہ ہر دن سامنا کر رہے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Swara Garge

ସ୍ଵରା ଗାର୍ଗେ ୨୦୨୩ର ‘ପରୀ’ ଇଣ୍ଟର୍ଣ୍ଣ ଓ ପୁଣେସ୍ଥିତ ଏସଆଇଏମସିର ଶେଷ ବର୍ଷ ସ୍ନାତକୋତ୍ତର ଛାତ୍ରୀ। ସେ ଗ୍ରାମୀଣ ସମସ୍ୟା, ସଂସ୍କୃତି ଓ ଆର୍ଥିକ ସ୍ଥିତି ଆଦିରେ ଆଗ୍ରହ ରଖୁଥିବା ଜଣେ ଦୃଶ୍ୟକାରୀ କଥାକାର।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Swara Garge
Student Reporter : Prakhar Dobhal

ପ୍ରଖର ଧୋବାଲ ୨୦୨୩ର ‘ପରୀ’ ଇଣ୍ଟର୍ଣ୍ଣ ଓ ପୁଣେସ୍ଥିତ ଏସଆଇଏମସିର ସ୍ନାତକୋତ୍ତର ଛାତ୍ର। ଗ୍ରାମୀଣ ସମସ୍ୟା, ରାଜନୀତି ଓ ସଂସ୍କୃତି ଆଦି ସମ୍ପର୍କରେ ଆଗ୍ରହ ରଖୁଥିବା ପ୍ରଖର ଜଣେ ମନୋଜ୍ଞ ଫଟୋଗ୍ରାଫର ଓ ବୃତ୍ତଚିତ୍ର ନିର୍ମାତା।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Prakhar Dobhal
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

ସର୍ବଜୟା ଭଟ୍ଟାଚାର୍ଯ୍ୟ ପରୀର ଜଣେ ବରିଷ୍ଠ ସହାୟିକା ସମ୍ପାଦିକା । ସେ ମଧ୍ୟ ଜଣେ ଅଭିଜ୍ଞ ବଙ୍ଗଳା ଅନୁବାଦିକା। କୋଲକାତାରେ ରହୁଥିବା ସର୍ବଜୟା, ସହରର ଇତିହାସ ଓ ଭ୍ରମଣ ସାହିତ୍ୟ ପ୍ରତି ଆଗ୍ରହୀ।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Qamar Siddique

କମର ସିଦ୍ଦିକି ପିପୁଲ୍ସ ଆରକାଇଭ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ଅନୁବାଦ ସମ୍ପାଦକ l ସେ ଦିଲ୍ଲୀ ରେ ରହୁଥିବା ଜଣେ ସାମ୍ବାଦିକ l

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Qamar Siddique