گوجر مویشی پرور عبدالرشید شیخ راشن کی تقسیم سے لے کر سرکاری پیسے کے استعمال میں شفافیت کی کمی جیسے مسائل پر آر ٹی آئی (معلومات کا حق) درخواستیں داخل کر رہے ہیں۔ رشید (۵۰) ہر سال اپنی ۵۰ سے زیادہ بھیڑوں اور تقریباً ۲۰ بکریوں کے ریوڑ کے ساتھ کشمیر میں ہمالیہ کے پہاڑوں کا سفر کرتے ہیں۔ وہ گزشتہ ایک دہائی میں دو درجن سے زیادہ آر ٹی آئی دائر کر چکے ہیں۔
دودھ پتھری میں اپنے کوٹھے (گارے، پتھر اور لکڑی سے بنا روایتی گھر) کے باہر کھڑے عبدالرشید بتاتے ہیں، ’’پہلے [سرکاری] لوگوں کو جاری اسکیموں کا ہی علم نہیں ہوتا تھا اور ہم اپنے حقوق کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔‘‘ ہر سال گرمیوں کے مہینے میں وہ اور ان کی فیملی یہاں نقل مکانی کرتی ہے۔ وہ بڈگام ضلع کے خان صاحب بلاک میں واقع اپنے گاؤں موج پتھری سے آتے ہیں۔
عبدالرشید مزید کہتے ہیں، ’’لوگوں کو قوانین اور اپنے حقوق کے بارے میں بیدار کرنے میں آر ٹی آئی دائر کرنے کا بڑا رول رہا۔ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ افسروں سے کیسے نمٹنا ہے۔‘‘ شروع میں افسروں کو خود آرٹی آئی قانون کے بارے میں علم نہیں تھا اور ’’جب ان سے متعلقہ اسکیموں اور پیسے کی تقسیم کی معلومات طلب کی جاتی تھیں، تو اکثر وہ حیرت میں پڑ جاتے تھے۔‘‘
اس کے خلاف آواز بلند کرنے پر گاؤں کے لوگوں کو پریشان کیا جانے لگا۔ بلاک افسروں کی ساز باز سے پولیس نے جھوٹی ایف آئی آر درج کی۔ یہاں آر ٹی آئی تحریک میں اہم رول نبھانے والے عبدالرشید جیسے بیدار شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔
اپنی بات پر زور دے کر وہ کہتے ہیں، ’’افسر ہی تھے جو بدعنوان تھے۔ اب آپ ان کی جائیداد کو دیکھ لیں۔‘‘ آر ٹی آئی داخل کرنے کے علاوہ عبدالرشید نے محکمہ خوراک، شہری رسد اور امور صارفین سے موج پتھری میں تقریباً ۵۰ لوگوں کے لیے راشن کارڈ جاری کرنے کی مانگ بھی اٹھائی ہے۔
عبدالرشید ایسے مویشی پرور ہیں جو عوامی چراگاہوں تک محدود ہیں۔ ان کی توجہ خاص طور پر درج فہرست قبائل اور جنگل میں رہنے والے دیگر افراد کے جنگلات سے متعلق حقوق کو تسلیم کرنے کا قانون، ۲۰۰۶ پر مرکوز ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر ہم جنگل کو محکمہ جنگلات کے بھروسے چھوڑ دیں گے، تو بچانے کے لیے کوئی جنگل نہیں رہے گا۔‘‘ رشید نے ایف آئی آر کے تحت کمیونٹی کے جنگلات سے متعلق حقوق کی حفاظت کرنے کے لیے کام کر رہے ایک مقامی گروپ، ’جموں و کشمیر فاریسٹ رائٹس کولیشن‘ کی مدد سے جنگلاتی زمین پر گوجر اور بکروال چرواہا برادریوں کے حق کے بارے میں آر ٹی آئی دائر کی ہے۔
موج پتھری کی گرام سبھا نے ۲۰۲۲ میں ایک تحفظ جنگلات کمیٹی (ایف آر سی) بنائی اور قواعد و ضوابط کا ایک نظام تیار کیا، جیسے چراگاہوں کی نشاندہی اور نجی زمین کی حد بندی، جس کا ہر سال جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس سال، ۲۸ اپریل ۲۰۲۳ کو اس نے حق جنگلات قانون (۲۰۰۶) کے تحت اپنے جنگل کے ۱۰۰۰ مربع کلومیٹر علاقے کو کمیونٹی جنگلاتی وسائل (سی ایف آر) قرار دینے کے لیے تجویز پاس کی۔
موج پتھری کو سی ایف آر کا درجہ دیے جانے میں تاخیر سے ناخوش عبدالرشید کہتے ہیں، ’’جنگل سب کا ہے۔ میرا، میرے بچوں کا، اور آپ کا۔ اگر ہم معاش کو تحفظ سے جوڑ دیں، تو نئی نسل کو فائدہ ہوگا۔ اور اگر ہم جنگلات کی کٹائی کرتے ہیں، تو ہم اپنے پیچھے کیا چھوڑ کر جا رہے ہیں!‘‘
سال ۲۰۲۰ میں ایف آر اے، ۲۰۰۶ کے تحت مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کو بھی شامل کر لیا تھا۔
عبدالرشید کہتے ہیں، ’’تب تک ایف آر اے کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔‘‘ جب انٹرنیٹ کی رسائی میں اضافہ ہوا، تو وادی کے لوگوں میں مختلف اسکیموں اور قوانین کے بارے میں بیداری بھی بڑھی۔ عبدالرشید بتاتے ہیں، ’’انٹرنیٹ نے ہمیں دہلی میں شروع ہوئی کئی اسکیموں اور پالیسیوں کے بارے میں بیدار کرنے میں بھی اہم رول نبھایا ہے۔ پہلے ہمیں کچھ پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔‘‘
سال ۲۰۰۶ میں عبدالرشید اور موجودہ سرپنچ نذیر احمد ڈِنڈا سمیت موج پتھری کے کچھ دوسرے لوگ جے اینڈ کے فاریسٹ رائٹس کولیشن کے صدر اور اُس وقت بڈگام کے علاقائی میڈیکل آفیسر ڈاکٹر غلام رسول سے ملے۔ وہ اکثر کام کے سلسلے میں گاؤں آتے تھے اور اس علاقے میں آر ٹی آئی مہم شروع کرنے میں انہوں نے اہم رول نبھایا۔ عبدالرشید کہتے ہیں، ’’ڈاکٹر شیخ قوانین اور پالیسیوں کے بارے میں مزید جاننے کی ضرورت پر بات کرتے تھے۔‘‘
اس سے گاؤں والے دوسری اسکیموں کے بارے میں مزید پوچھ گچھ کرنے لگے اور عبدالرشید بتاتے ہیں کہ ’’آہستہ آہستہ ہم آر ٹی آئی قانون اور اسے داخل کرنے کا طریقہ جان گئے۔ ہمارے گاؤں میں کئی لوگوں نے آر ٹی آئی داخل کرنا شروع کر دیا اور یہ ایک تحریک بن گئی۔‘‘
موج پتھری میں گفتگو کے دوران ڈاکٹر شیخ نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ابتدائی دنوں میں گاؤں والوں کے ساتھ میٹنگیں کرتے اور مستقبل کے قدم کا منصوبہ بناتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ایم ایل اے بدعنوان تھا اور اسکیمیں لوگوں تک نہیں پہنچتی تھیں۔ اکثر گاؤں والوں کو پولیس پریشان کرتی تھی اور ان میں اپنے حقوق کے بارے میں کوئی بیداری نہیں تھی۔‘‘
پہلی آر ٹی آئی ۲۰۰۶ میں موج پتھری سے تعلق رکھنے والے پیر جی ایچ محی الدین نے دائر کی تھی۔ یہ تاریخی طور پر حاشیہ بردار لوگوں کو یک مشت مالی مدد فراہم کرنے کے لیے بنی اندرا آواس یوجنا (آئی اے وائی) کے بارے میں جاننے کے لیے تھی۔ اس کے بعد سرپنچ نذیر نے ۲۰۱۳ میں ایک اور آر ٹی آئی کے ذریعہ اندرا آواس یوجنا (آئی اے وائی) کے مستفیدین کے بارے میں معلومات طلب کیں۔
گاؤں میں بات چیت اور صلاح و مشورہ کے بعد نذیر کو احساس ہوا کہ جنگلات کے تحفظ کے لیے شفافیت ہونی ضروری ہے۔ اس لیے انہوں نے آر ٹی آئی دائر کی۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہمیں جاننا تھا کہ ہمارے لیے سرکاری پالیسیاں کیا ہیں اور ہم اُن تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ گوجر نذیر (۴۵) کہتے ہیں، ’’سال ۲۰۰۶ تک ہم جنگلات سے جڑی بوٹیوں، جڑوں اور قند کے ساتھ گُچھی اور دھوپ جیسی بغیر لکڑی والی جنگلاتی پیداوار (این ٹی ایف پی) کی چوری کر لیا کرتے تھے، کیوں کہ معاش کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا۔ سال ۲۰۰۹ کے آس پاس میں نے جنگل پر انحصار کم کرنے کے لیے دودھ پتھری میں ایک دکان کھولی اور چائے کُلچے بیچنا شروع کیا۔‘‘ جیسے ہی ہم ان کے ساتھ شالی گنگا ندی کے کنارے اونچے چراگاہوں کی طرف بڑھتے ہیں، وہ اُن متعدد آر ٹی آئی کے بارے میں بتانے لگتے ہیں جو انہوں نے گزشتہ چند سالوں میں دائر کی ہیں۔
سال ۲۰۱۳ میں، نذیر نے ایک آر ٹی آئی دائر کرکے ایف سی ایس سی اے محکمہ سے عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کے تحت چاول کی الگ الگ تقسیم کے بارے میں دریافت کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ۲۰۱۸ میں مرکزی حکومت کے ذریعہ شروع کی گئی سمگر شکشا اسکیم کے تحت وظیفہ (اسکالرشپ) پانے والے طلباء کے بارے میں جاننے کے لیے بھی آر ٹی آئی دائر کی۔
جیسے ہی ہم نذیر کے ساتھ شالی گنگا ندی کے کنارے چلتے ہیں، ہمیں تھوڑے فاصلہ پر کچھ ٹینٹ (خیمہ) لگے دکھائی دیتے ہیں، جہاں سے ہمیں ایک پیالی نون چائے کے لیے بلایا جاتا ہے۔ یہاں ہم بکروال مویشی پرور محمد یونس سے ملتے ہیں، جو اپریل میں جموں ڈویژن کے راجوری ضلع سے دودھ پتھری آئے تھے اور اکتوبر تک یہاں رہیں گے، تاکہ ان کے جانور – جس میں ۴۰ سے زیادہ بھیڑیں اور تقریباً ۳۰ بکریاں ہیں – چر سکیں۔
وہ کہتے ہیں، ’’آج ہم یہاں ہیں، لیکن ۱۰ دن بعد ہمیں اوپر کی طرف بڑھنا ہوگا، جہاں تازہ چراگاہ ملیں گے۔‘‘ یونس (۵۰) کا تعلق بکروال برادری سے ہے اور وہ بچپن سے ہی باقاعدگی سے کشمیر میں مہاجرت کر رہے ہیں۔
’’اوسطاً ایک بکری یا بھیڑ بیچنے سے ہمیں ۸۰۰۰ سے ۱۰ ہزار [روپے] ملیں گے۔ ہم اتنے میں مہینہ کیسے گزاریں گے؟‘‘ یونس یہاں جموں و کشمیر میں چائے اور تیل کی قیمت کا ذکر کرتے ہوئے پوچھتے ہیں، جو بالترتیب تقریباً ۷۰۰-۶۰۰ روپے فی کلو اور ۱۲۵ روپے فی لیٹر ہے۔
پی ڈی ایس کی خراب حالت کا نتیجہ یہ ہے کہ یونس اور ان کی برادری کے دوسرے ممبران کو راشن کا کچھ حصہ نہیں مل رہا ہے۔ یونس کہتے ہیں، ’’حکومت کو پی ڈی ایس کے تحت ہمیں چاول، گیہوں اور چینی دینی چاہیے، مگر ہمیں کچھ بھی نہیں ملتا۔‘‘
یونس کہتے ہیں، ’’اس سال پہلی بار ہمیں ٹیکسی سروس مل پائی، جس نے ہمیں یُسمرگ چھوڑا اور ہمارے بچے مویشیوں کے ساتھ آئے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ یہ اسکیم ۲۰۱۹ سے چل رہی ہے، لیکن راجوری کے بکروالوں تک پہنچنے میں اسے چار سال لگ گئے۔ موبائل اسکولوں کا بھی انتظام ہے، مگر وہ مشکل سے ہی چلتے ہیں۔ یونس کہتے ہیں، ’’وہ ہمیں موبائل اسکول دیتے ہیں، مگر ان کا مطالبہ ہے کہ وہاں کم از کم ۱۵-۱۰ چولہے [گھر] ہونے چاہئیں اور تبھی کوئی [اسکول] ماسٹر آئے گا۔‘‘
وہ افسردگی سے کہتے ہیں، ’’کاغذ پر ہر اسکیم ہے، مگر ہم تک کچھ نہیں پہنچتا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز