’چاند آتا ہے اور میرے آنگن میں آکر بیٹھ جاتا ہے ۔۔۔‘ الفاظ جادوئی تھے۔ وہ طاقتور تھے لیکن اس میں گہرا رنج و غم بھی تھا۔ ’وہ چاند، جس کی خواہش بہت سارے لوگوں کو ہے، میرے آنگن میں آیا ہوا ہے۔ میں کتنی خوش قسمت ہوں۔ لیکن کیا کسی کو واقعی یہ معلوم ہے کہ میں کتنی خوش قسمت ہوں؟‘
ہم پربھنی ضلع کے پُرنا تعلقہ کے تاڑکلاس گاؤں میں تھے اور مہاراشٹر کے گاؤوں میں رہنے والی عورتوں کے ذریعے گائے گئے گرِنڈ مِل گانے ( اووی مراٹھی میں، دو لائن کے گانے) جمع کر رہے تھے۔ فوک (علاقائی) لٹریچر کے محقق اور مراٹھی کے پروفیسر، شام پاٹھک، تاڑکلاس کے تھے۔ جیسے انھیں یہ پتہ چلا کہ ہم گرِنڈ مِل گانے جمع کر رہے ہیں، انھوں نے ہمیں اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی۔
گاؤں کے ایک گھر میں چند عورتیں جمع ہو گئی تھیں۔ پتھر کی چکّی پر اناج پیستی ہوئی یہ عورتیں، کئی اووی گا رہی تھیں۔ ’گھوس کِلیاچا، ایوائی کیلا بیہہ جِہیاچا (کنجیوں کے گچھے دیکھو، میری بیٹی کی شادی بیڈ کی ایک فیملی میں ہو رہی ہے)‘ ۔ ان میں سے ایک نے اووی کی پہلی لائن گائی۔ باقیوں نے اسے آگے جاری رکھا۔
گانے میٹھے تھے، جس طرح دُھن اور آوازیں میٹھی تھیں۔ ان سب کے درمیان ہم نے سنا کہ کوئی چاند کے بارے میں گانا گا رہا ہے۔ اس نے سب کو اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ ایک عورت نے کہا، ’’گنگو بائی کو بلاؤ۔ وہ کئی اووی گاتی ہیں۔‘‘ ہم نے ان سے کہا کہ ہم ان تمام عورتوں سے ملنا چاہتے ہیں جو یہ گانے جانتی ہیں، کیوں کہ ہم اس بیش قیمتی روایت کو ڈاکیومنٹ کر رہے تھے، جو جلد ہی ختم ہو سکتی ہے۔ ایک چھوٹی لڑکی گنگوبائی کو بلانے چلی گئی۔
ایک عورت، شاید اپنی عمر کے ۵۰ویں سال میں، اس گھر میں آئی جہاں ہم سب جمع تھے۔ وہ ایک گھِسی ہوئی ساڑی پہنے ہوئی تھی، اپنا سر ڈھک رکھا تھا، اور ساڑی کا ایک پلّو منھ میں دبا رکھا تھا۔ بال بھورے ہو گئے تھے، چہرہ جھریوں سے بھر گیا تھا، دات ٹوٹے ہوئے اور کالے تھے، وہ آئی اور ہمارے ساتھ بیٹھ گئی۔ اس کے چہرے سے برسوں کا درد اور رنج و غم نمایاں تھا۔ لیکن، ساتھ ہی ہنسی کا ایک اشارہ بھی موجود تھا۔
وہاں موجود دوسری عورتوں نے اس سے چند اووی گانے کی درخواست کی۔ وہ فوراً تیار ہو گئی۔ اس کے گانے بھگوان رام کے بارے میں تھے، رام اور سیتا کے بنواس کے بارے میں؛ کچھ بھائیوں اور بہنوں کے بارے میں تھے۔
آڈیو: گنگو بائی کو اووی گاتے ہوئے سنئے
گانا گاتے ہوئے، اس نے کئی بار اپنے آنسو پوچھے اور چہرے کو صاف کیا۔ ’’تم بھی گاؤ،‘‘ وہ دوسری عورتوں سے لگاتار کہتی رہی۔ لیکن جو درد گنگو بائی کی آواز میں تھا، وہ کسی اور میں نہیں تھا۔ اس کی دھن نے روح کو چھو لیا۔ ہم اس کے بارے میں مزید جاننا چاہتے تھے۔
ہمیں پتہ چلا کہ وہ تاڑکلاس کے ایک مندر میں رہتی ہے۔ عقیدت مند جو کھانا بھگوان کو یا اسے پیش کرتے تھے، وہی اس کی گزر بسر کا واحد ذریعہ تھا۔
گنگو بائی امبورے کے والدین کسان تھے، جنہوں نے ان کو بڑے پیار سے پالا۔ انھوں نے گنگوبائی کی شادی نہایت چھوٹی عمر میں ہی ایک عمر دراز آدمی سے کر دی۔ شروع میں وہ اپنے سسرال میں خوش تھیں، ان کی تین بیٹیاں ہوئیں، لیکن زندہ صرف ایک بچی۔ لیکن کچھ دنوں بعد ہی ان کو کوڑھ کی بیماری ہو گئی۔ اس کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ ان کی خوبصورتی ماند پڑنے لگی، ان کی انگلیاں اور انگوٹھے گل گئے۔ ان کے شوہر نے اس تبدیلی کو قبول کرنے یا ان کی دیکھ بھال کرنے سے منع کر دیا۔
تب تک ۴۰ سال کی ہو چکی گنگو بائی کے پاس جب کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا، تو آخرکار وہ اپنے والدین کے گھر واپس چلی گئیں۔ ان کی موت کے بعد، ان کا بھائی کچھ دنوں تک ان کی مدد کرتا رہا، لیکن اس کی بیوی نہیں؛ ظاہر ہے، ان کا ’تعلق اس فیملی سے نہیں تھا‘۔ ایک دن، بھائی نے گنگو بائی سے کہا کہ وہ گھر چھوڑ کر چلی جائیں۔ تب، انھوں نے کہا، بھگوان اُن کا آخری اور واحد سہارا ہے۔ گاؤں کا مندر ان کا گھر بن گیا۔
’’اب، بھگوان رام میرے مددگار ہیں،‘‘ گنگو بائی نے کہا جب ہم ان سے ملے۔ ’’میرے جتنے بھی غم ہیں، وہ ان کے ساتھ ہیں۔ آپ مجھ سے اپنا گھر چھوڑنے کے لیے کہہ سکتے ہیں، لیکن آپ مجھ سے مندر چھوڑنے کے لیے نہیں کہہ سکتے۔ کوئی بھی مجھے میرے بھگوان سے الگ نہیں کر سکتا۔‘‘
اکیلی اور ٹھکرائی ہوئی، گنگو بائی نے بھجن گانا شروع کر دیا۔ وہ مندر میں بھجن، کیرتن اور پوجا پاٹھ میں مصروف رہنے لگیں۔ انھوں نے تُکدوجی مہاراج، سورداس اور سنت جانا بائی کے اشعار یاد کر لیے۔ ان کے رنج و غم نے گانے کی شکل اختیار کر لی۔ اپنے بھجن میں انھوں نے بھگوان سے اپنی تکلیفوں کے بارے میں سوال پوچھنا شروع کر دیا۔
وہ اپنا دن مندر میں پوجا کے لیے آنے والے لوگوں اور مندر کے آنگن میں کھیلتے ہوئے بچوں کو دیکھتے ہوئے گزارنے لگیں۔
انھوں نے جب گانا شروع کیا، تو لوگوں کی توجہ ان پر گئی۔ جلد ہی، دیگر عورتوں نے شادی کے وقت دولہا اور دلہن کو ہلدی لگانے کی رسم پر گانا گانے کے لیے بلانا شروع کر دیا۔ گنگو بائی جاتی تھیں، لیکن وہ گھر کے باہر کھڑی ہوکر گانا گاتی تھیں، اپنے چہرے کو ساڑی سے ڈھک کر۔
اور لوگ بھی ان کو صرف گانے کے طور پر سوچنے لگے۔ ان کا گانی ہی ان کا وجود بن گیا۔ گنگو بائی کو اس کا علم تھا۔ اس لیے ہم جب تاڑکلاس میں تھے اور عورتوں کے ایک گروپ کے ذریعے اووی سن رہے تھے، تو انھوں نے اس بات کا انتظار کیا کہ کوئی آواز دے کر ان کو بلائے۔ اور جب کسی نے انھیں بلایا نہیں، تو انھوں نے گانا شروع کر دیا، ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلانے پر مجبور کر دیا۔ اور وہ ہماری پوری توجہ حاصل کرنے میں پوری طرح کامیاب رہیں۔
گنگوبائی کو یہ سب اس لیے برداشت کرنا پڑا، کیوں کہ سماجی ڈھانچہ ایک جیسا نہیں ہے۔ انھوں نے تکلیف برداشت کی، کیوں کہ ایک عورت کے طور پر سماج میں ان کا مقام دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ ان کو تکلیف برداشت کرنی پڑی، کیوں کہ ہندوستان میں کوڑھ کے مریض کو اب بھی ’اچھوت‘ سمجھا جاتا ہے۔ انھیں تکلیف برداشت کرنی پڑی، کیوں کہ اپنوں نے ہی ان کو چھوڑ دیا اور انھیں اپنے گھر سے دور رہنا پڑا، مندر میں کھلے آسمان کے نیچے۔
لیکن جو کچھ ہوا، اس کے لیے انھوں نے کبھی کسی سے بھیک نہیں مانگی۔ وہ کہاں جاتیں؟ نہ تو ان کا کوئی رشتہ دار تھا اور نہ ہی ریاست ان کی محافظ۔ اس لیے وہ بھگوان کے پاس گئیں اور اپنی تقدیر کے بارے میں ان سے سوال کیا۔ انھوں نے اپنے بھگوان سے کہا کہ ان کا نام پکارنے سے انھیں ذہنی سکون حاصل ہوا ہے۔ بھجن نے انھیں مصروف کر دیا۔ اس نے ان کے غموں کو کچھ ہلکا کر دیا۔
گنگو بائی کی پوری زندگی رنج و غم اور غریبی سے بھری ہوئی تھی، لیکن ان کی روح امیر تھی۔ اور انھوں نے اس امیری کو گانے کے ذریعے دوسروں کے ساتھ بانٹا۔
* * * * *
میں نے ۱۹۹۶ سے ۲۰۰۰ کے درمیان تاڑکلاس کا تین بار دورہ کیا۔ میری ہر بار کوشش رہی کہ میں گنگو بائی سے ملوں۔ لیکن جب پروفیسر پاٹھک کا انتقال ہوگیا، تو میرے پاس گنگو بائی کے بارے میں جاننے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ ایک بار میری ملاقات پروفیسر کے بھائی سے ہوئی، جنہوں نے مجھے بتایا کہ گنگو بائی اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ مجھے کافی غم ہوا۔
چکّی کے گانے: قومی خزانے کی ریکارڈنگ
مہاراشٹر کے گاؤوں کی عورتوں کے ذریعے گائے گئے ایک لاکھ سے زائد گانوں کو پہلی بار سنئے جس نے گرِنڈ مِل پروجیکٹ کو جنم دیا، جو پاری پر لگاتار شائع کیے جائیں گے۔ مزید