وہ اس جھنڈے کو ابھی بھی تحصیل آفس میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہیں پر انہوں نے اسے ۱۸ اگست کو پھہرایا تھا۔ ۱۹۴۲ میں اسی دن انہوں نے اترپردیش کے غازی پور ضلع میں برطانوی حکومت سے خود کو آزاد ہونے کا اعلان کیا تھا۔ محمد آباد کے تحصیل دار نے لوگوں کے مجمع پر گولی چلا دی، جس کی وجہ سے شیرپور گاؤں کے آٹھ لوگ مارے گئے۔ ہلاک ہونے والے زیادہ تر کانگریسی تھے، جن کی قیادت اس وقت شیو پوجن رائے کر رہے تھے۔ ان لوگوں کو تب گولی ماری گئی، جب وہ محمد آباد میں تحصیل کی عمارت کے اوپر ترنگا پھہرانے کی کوشش کر رہے تھے۔
ضلع میں انگریزوں کے خلاف پہلے ہی لاوا اُبل رہا تھا، اس واقعہ نے اسے اور بھڑکا دیا۔ انگریزوں نے ۱۰ اگست کو یہاں ۱۲۹ لیڈروں کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا تھا۔ ۱۹ اگست تک مقامی لوگوں نے تقریباً پورے غازی پور پر قبضہ کر لیا اور تین دنوں تک یہاں سرکار چلاتے رہے۔
ضلع کے گزٹ میں لکھا ہے کہ انگریزوں نے اس کے جواب میں ’’چاروں طرف دہشت کا بازار گرم کر دیا‘‘۔ جلد ہی، ’’گاؤں کے گاؤں تباہ کر دیے گئے، لوٹ اور آگ زنی مچائی گئی‘‘۔ ملٹری اور گھڑ سوار پولیس نے ’ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک کے احتجاجیوں کو کچل کر رکھ دیا۔ انہوں نے اگلے کچھ دنوں میں ضلع بھر میں تقریباً ۱۵۰ لوگوں کو گولی مار دی۔ ریکارڈ بتاتے ہیں کہ افسران اور پولیس نے یہاں کے شہریوں سے ۳۵ لاکھ روپے لوٹ لیے۔ تقریباً ۷۴ گاؤوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ غازی پور کے لوگوں کو اجتماعی طور پر ساڑھے چار لاکھ روپے کا جرمانہ بھرنا پڑا، جو اُس وقت بہت بڑی رقم تھی۔
افسران نے شیرپور کو سزا کے لیے منتخب کیا۔ یہاں کے سب سے بزرگ دلت، ہری شرن رام اُس دن کو یاد کرتے ہیں: ’’انسانوں کو تو چھوڑ دیجیے، اُس دن گاؤں میں کوئی پرندہ تک نہیں بچا تھا۔ جو لوگ بھاگ سکتے تھے، بھاگے۔ لوٹ مار کا سلسلہ لگاتار چلتا رہا۔‘‘ پھر بھی، پورے غازی پور کو سبق تو سکھانا ہی تھا۔ ضلع میں ۱۸۵۰ کی دہائی کے دوران انگریزوں کے خلاف ہونے والی بغاوت کا ریکارڈ موجود تھا، جب مقامی لوگوں نے نیل کی کھیتی کرنے والوں پر حملہ کر دیا تھا۔ چونکہ پرانا حساب بھی چکانا تھا، اس لیے اس بار انگریزوں نے انہیں گولیوں اور لاٹھی ڈنڈوں سے سبق سکھایا۔
محمد آباد کا تحصیل آفس آج بھی سیاسی مہمانوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ یہاں آنے والوں کی فہرست میں اُن چار لوگوں کے نام بھی شامل ہیں جو یا تو ہندوستان کے وزیر اعظم تھے یا بعد میں بنائے گئے۔ اتر پردیش کے تقریباً سبھی وزرائے اعلیٰ یہاں آچکے ہیں۔ یہ لوگ خاص طور سے ۱۸ اگست کو یہاں آتے ہیں۔ یہ بات ہمیں لکشمن رائے نے بتائی، جو شہید اسمارک سمیتی کے سربراہ ہیں۔ یہ کمیٹی تحصیل کے دفتر میں آٹھ شہیدوں کا میموریل (یادگار) چلاتی ہے۔ وہ ہمیں احتجاجیوں کا جھنڈا دکھاتے ہیں، جو کچھ حد تک گھِس چکا ہے، لیکن احتیاط کے ساتھ یہاں محفوظ رکھا گیا ہے۔ وہ فخر سے بتاتے ہیں، ’’وی آئی پی یہاں آتے ہیں اور جھنڈے کی پوجا کرتے ہیں۔ جو بھی وی آئی پی یہاں آتا ہے وہ اس کی پوجا ضرور کرتا ہے۔‘‘
اس پوجا سے شیرپور کو بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ اور یہاں کے مجاہدینِ آزادی کی عظیم قربانیوں پر طبقہ، ذات، وقت اور کاروبار کا رنگ چڑھ چکا ہے۔ یہاں کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ایک کارکن نے بتایا، ’’کل آٹھ شہداء تھے۔ لیکن شہیدوں کے لیے ۱۰ یادگاری کمیٹیاں ہوا کرتی تھیں۔‘‘ ان میں سے کچھ تو سرکاری امداد سے مختلف ادارے چلاتی ہیں۔ شہیدوں کے بیٹے، جو یہاں’شہید پُتر‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، وہ ان میں سے کچھ کمیٹیوں کو چلاتے ہیں۔
پوجا کے ساتھ وعدے بھی کیے جاتے ہیں۔ ایک ایسا ہی وعدہ یہ تھا کہ ۲۱ ہزار لوگوں کی آبادی والے اس بڑے گاؤں، شیرپور میں لڑکیوں کے لیے ایک ڈگری کالج کھولا جائے گا۔ لیکن، چونکہ یہاں کی ہر پانچ میں سے چار عورتیں ناخواندہ ہیں، اس لیے ہو سکتا ہے کہ مقامی لوگوں کو یہ آئڈیا بہت زیادہ پسند نہ آیا ہو۔
شیرپور کی قربانی کس بات کو لیکر تھی؟ یہاں کے لوگوں کا مطالبہ کیا تھا؟ آپ ان سوالوں کا جواب کیسے دیں گے، یہ آپ کی سماجی و اقتصادی حالت پر منحصر ہے۔ سرکاری طور پر منظور شدہ آٹھوں شہید بھومیہار تھے۔ انگریزوں کی دہشت کے خلاف ان کی بہادری قابل تعریف تھی۔ لیکن، جو لوگ کم طاقتور برادریوں سے تھے اور جنہوں نے مختلف ادوار میں اپنی جانیں قربان کیں انہیں اس طرح سے یاد نہیں کیا جاتا۔ کئی لڑائیاں ۱۸ اگست سے پہلے اور اس کے بعد بھی لڑی گئیں۔ مثال کے طور پر، پولیس نے اُن ۵۰ لوگوں کو گولی مار دی تھی، جنہوں نے ۱۴ اگست کو نند گنج ریلوے اسٹیشن پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ، پولیس نے ۱۹ سے ۲۱ اگست کے درمیان اس سے تین گنا زیادہ لوگوں کو ہلاک کیا تھا۔
لوگ آخر کس لیے مرے؟ محمد آباد انٹرکالج کے پرنسپل، کرشن دیو رائے کہتے ہیں، ’’آزادی کے علاوہ ان کی کوئی مانگ نہیں تھی۔‘‘ شیرپور یا دوسری جگہوں کے زیادہ تر بھومیہار زمیندار بھی یہی مانتے ہیں۔ یہ معاملہ ۱۹۴۷ میں انگریزوں کے جانے کے بعد ختم ہو گیا۔
لیکن، شیرپور کے رہنے والے ایک دلت، بال مُکُند اسے الگ نظریہ سے دیکھتے ہیں۔ بغاوت کے وقت نوجوان مکند اور ان کے دلت ساتھیوں کے ذہن میں کچھ اور ہی ایجنڈہ تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم جوش سے بھرے ہوئے تھے۔ ہم نے سوچا کہ ہمیں زمین ملے گی۔‘‘ ۱۹۳۰ کی دہائی میں اور پھر بعد میں دوبارہ شروع ہونے والی کسان سبھا تحریک نے یہ امیدیں جگائی تھیں۔ یہ جوش ۱۹۵۲ میں اس وقت دوبارہ تازہ ہو گیا، جب اترپردیش میں زمینداری کا خاتمہ اور اراضی اصلاحات قانون نافذ ہو گیا۔
لیکن، جوش زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رہ پایا۔
گاؤں کے سبھی ۳۵۰۰ دلت بے زمین ہیں۔ مقامی دلت سمیتی کے رادھے شیام سوال کرتے ہیں، ’’کھیتی کے لیے زمین؟ ہمارے گھر بھی ہمارے نام پر نہیں ہیں۔‘‘ اصلاح اراضی قانون کے مکمل نفاذ کے ۳۵ برسوں بعد یہ صورتحال ہے۔ آزادی سے الگ طرح کا فائدہ ضرور ہوا کچھ لوگوں کو۔ بھومیہاروں کو ان زمینوں کا مالکانہ حق مل گیا جنہیں وہ جوتتے تھے۔ بے زمین چھوٹی ذات کے لوگ وہیں رہے، جہاں وہ پہلے تھے۔ ہری شرن رام کہتے ہیں، ’’ہم نے سوچا تھا کہ ہم بھی دوسروں کی طرح ہو جائیں گے، ہمارا مقام بھی دوسروں جیسا ہو جائے گا۔‘‘
اپریل ۱۹۷۵ میں، انہیں ان کی اوقات بتا دی گئی۔ انگریزوں کے ذریعے گاؤں کو نذر آتش کرنے کے ۳۳ سال بعد دلت بستی پھر سے جلا دی گئی ۔ اس بار بھومیہاروں کے ذریعے۔ رادھے شیام بتاتے ہیں، ’’مزدوری کی قیمت کو لیکر جھگڑا چل رہا تھا۔ ان کی بستی میں ہوئے ایک واقعہ کا الزام ہم پر لگایا گیا۔ یقین کیجیے، ہم جب ان کے گھروں اور کھیتوں پر کام کر رہے تھے، تو وہ ہمارے گھروں کو جلانے میں مصروف تھے!‘‘ تقریباً ۱۰۰ گھروں کو جلا دیا گیا۔ لیکن، وہ صفائی پیش کرتے ہیں کہ اس میں کسی بھی ’شہید پُتر‘ کا ہاتھ نہیں تھا۔
دلت سمیتی کے سربراہ، شیو جگن رام بتاتے ہیں، ’’پنڈت بہو گنا وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ یہاں آئے اور بولے: ’ہم آپ لوگوں کے لیے نئی دہلی کی تعمیر یہیں کریں گے‘۔ ہماری نئی دہلی کو اچھی طرح دیکھ لیجیے۔ اس ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں بھی ہمارے پاس ایسا کوئی کاغذ نہیں ہے جس پر یہ لکھا ہو کہ ہم اس کے مالک ہیں۔ مزدوری کو لیکر جھگڑا ابھی بھی چل رہا ہے۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو اتنی کم مزدوری ملتی ہے کہ ہمیں کام کے لیے باہر جانا پڑتا ہے؟‘‘
اونچی ذاتوں یا حکام سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر، پولیس والے دلتوں سے جس قسم کا برتاؤ کرتے ہیں وہ گزشتہ ۵۰ برسوں میں نہیں بدلا ہے۔ کرکَٹ پور گاؤں کے مُسہر دلت، دینا ناتھ ونواسی یہ سب برداشت کر چکے ہیں۔ ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی سیاسی پارٹی جیل بھرو تحریک چلاتی ہے، تو ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ سینکڑوں کارکن گرفتاری دیتے ہیں۔ غازی پور جیل پوری طرح بھر جاتا ہے۔ پھر پولیس کیا کرتی ہے؟ وہ کچھ مُسہروں کو پکڑ لیتی ہے۔ ان پر ’ڈکیتی کا منصوبہ بنانے‘ کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ان مُسہروں کو جیل لے جایا جاتا ہے، جہاں انہیں جیل بھرو تحریک میں گرفتار کیے گئے لوگوں کے پیشاب پاخانے، اُلٹی قے، اور کوڑے کچرے صاف کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘‘
گگرن گاؤں کے داسورام ونواسی کہتے ہیں، ’’ہم ۵۰ سال پہلے کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ یہ اب بھی ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں نے تو اسے دو سال پہلے بھی برداشت کیا ہے۔‘‘ ہراساں کرنے کے دوسرے طریقے بھی ہیں۔ داسورام نے دسویں کلاس فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا تھا، ایسا کچھ ہی مُسہر کر پائے ہیں۔ لیکن انہوں نے اونچی ذات کے اساتذہ اور طلبہ کی فقرے بازیوں سے تنگ آکر کالج چھوڑ دیا۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس انٹرکالج کا نام بابو جگجیون رام ہے۔
شیرپور سے لوٹتے وقت، ہمارے پیر کیچڑ میں دھنس گئے۔ ہم آگے نہیں بڑھ پا رہے تھے۔ ایسے میں دلت بستی سے باہر نکلنا یا اندر آنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بارش نے عام راستے کو خراب کر دیا ہے۔ یہاں کی سڑکوں اور گلیوں میں جگہ جگہ گندگی کا ڈھیر ہے۔ ’’یہ ہے ہماری نئی دہلی کا ہائی وے،‘‘ شیو جگن رام کہتے ہیں۔
’’یہاں کے دلت آزاد نہیں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’کوئی آزادی نہیں، کوئی زمین نہیں، کوئی تعلیم نہیں، کوئی دولت نہیں، کوئی نوکری نہیں، کوئی صحت نہیں، کوئی امید نہیں۔ ہماری آزادی غلامی ہے۔‘‘
دریں اثنا، تحصیل آفس میں پوجا جاری ہے۔
تصاویر: پی سائی ناتھ
یہ اسٹوری سب سے پہلے ٹائمز آف انڈیا کے ۲۵ اگست، ۱۹۹۷ کے شمارہ میں شائع ہوئی۔
اس سیریز کی دیگر کہانیاں:
جب ’سالیہان‘ نے برطانوی حکومت سے لوہا لیا
پَنی مارہ کے آزادی کے پیدل سپاہی – ۱
پَنی مارہ کے آزادی کے پیدل سپاہی – ۲
عدم تشدد اور ستیہ گرہ کی شاندار نَو دہائیاں
گوداوری: اور پولیس کو اب بھی حملے کا انتظار ہے
سوناکھن: دو بار ہوا ویر نارائن کا قتل
کَلِّیاسِّیری: سومُکن کی تلاش میں
کَلِّیاسِّیری: آزادی کے اتنے سال بعد بھی جاری ہے جدوجہد
مترجم: محمد قمر تبریز