’’اینٹ بھٹے کے اندر لاک ڈاؤن نہیں ہے۔ ہم ہمیشہ کی طرح روزانہ کام کر رہے ہیں،‘‘ ہردے پربھوئے نے بتایا، جب ہم ان سے ۵ اپریل کو ملے تھے۔ ’’واحد تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ گاؤں کا ہفتہ واری بازار بند ہے، اس لیے ہمیں اپنے آجر سے ملنے والے ہفتہ وار بھتے سے غذائی اشیاء اور دیگر سامان خریدنے میں مشکلیں پیش آ رہی ہیں۔‘‘
ہردے تلنگانہ کے اس بھٹے پر تین سال سے کام کر رہے ہیں – وہ قرض میں ڈوبنے کی وجہ سے اس کام کو کرنے پر مجبور ہوئے۔ ہر سال، وہ اپنی بیوی کو اوڈیشہ کے بلانگیر ضلع کے توریکیلا تعلقہ کے اپنے گاؤں، کھٹولومنڈا میں چھوڑ آتے ہیں۔ ’’میں اپنے گاؤں میں ایک لوہکار [لوہار] کے طور پر اچھی کمائی کرتا تھا، لیکن اپنا گھر بنانے کے بعد میں قرض میں ڈوب گیا۔ اس کے بعد نوٹ بندی آ گئی،‘‘ انہوں نے ٹوٹی پھوٹی ہندی میں بتایا۔ ’’میرے گاؤں میں بہت کم کام تھا، اور میرا قرض بڑھتا جا رہا تھا، اس لیے میں اینٹ بنانے کے لیے یہاں آنے پر مجبور ہوں۔ یہاں [بھٹے] پر ہر کوئی قرض دار ہے۔‘‘
۲۵ مارچ کو غیر متوقع لاک ڈاؤن نے، سنگا ریڈی ضلع کے جِنّا رام منڈل کے گدّی پوتھرم گاؤں کے جس اینٹ بھٹے پر ہردے کام کرتے ہیں، وہاں کے مزدوروں میں بھرم اور غیر یقینیت پیدا کر دی۔ ’’ہر جمعہ کو، ہم اپنے ہفتہ وار بھتے سے سبزیاں اور غذائی اشیاء خریدنے، یہاں سے تین کلومیٹر دور گاؤں کے بازار جاتے تھے،‘‘ اسی بھٹے پر کام کرنے والی ہردے کی دور کی رشتہ دار، جوینتی پربھوئے نے بتایا۔ ’’کچھ لوگ شراب بھی خریدتے ہیں۔ اب سب کچھ رک گیا ہے، کیوں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازار بند ہے۔‘‘
حالانکہ، لاک ڈاؤن شروع ہونے سے دو دن پہلے، یہ مزدور جمعہ کے بازار سے کچھ غذائی سامان خریدنے میں کامیاب رہے، لیکن اگلے جمعہ کو وہ پھنس گئے کیوں کہ تب تک بازار بند ہو چکا تھا۔ ’’غذا حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے،‘‘ ہردے نے کہا۔ ’’جب ہم گاؤں میں دکانوں کی تلاش میں تھوڑا آگے نکلے، تو پولس نے ہمیں بھگا دیا کیوں کہ ہم ان کی زبان [تیلگو] نہیں بولتے۔‘‘
تلنگانہ کے کئی حصوں میں اینٹ بھٹوں نے لاک ڈاؤن کے باوجود، ۲۵ مارچ کے بعد بھی کام کرنا جاری رکھا ہے۔ مزدوروں کو ۲۰۱۹ کے آخر میں بھٹے پر پہنچنے سے پہلے ہی ان کی مزدوری مل گئی تھی۔ ’’ہم میں سے ہر ایک کو بھٹے پر کام کرنے کے لیے آنے سے پہلے ہی پیشگی رقم کے طور پر ۳۵ ہزار روپے مل گئے تھے،‘‘ جوینتی نے بتایا۔ انہیں اور دیگر لوگوں کو کھانے کے لیے ۴۰۰ روپے کا ہفتہ واری بھتہ بھی ہر فیملی کے حساب سے ملتا ہے۔ (حالانکہ، مزدور یہ کہتے رہے کہ یہ بھتہ ہر ایک آدمی کے حساب سے تھا – شاید اس لیے کہ ان کے ساتھ بات چیت کے اس حصے کے دوران بھٹے کا مالک اور منڈل کا ریونیو افسر دونوں وہاں موجود تھے۔ ان کی موجودگی میں، مزدوروں نے یہ بھی کہا کہ ان کے مالک – اس میں سب سے زیادہ استحصال کرنے والی صنعتوں میں سے ایک – ہمیشہ ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں!)
مزدوروں کو کام کی جگہ پر سات مہینے کی مدت کے دوران اینٹوں کے یومیہ ہدف – فی کنبہ ۳ ہزار سے ۴ ہزار تک – کو پورا کرنا ہے۔ اینٹ بھٹوں پر کام ہر سال نومبر کے آخر یا دسمبر کی ابتدا میں، اوڈیشہ سے مزدوروں کے آنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔ یہ مئی کے آخر یا جون کی ابتدا تک چلتا ہے۔
گدی پوتھرم کے بھٹے پر، تمام مزدور اوڈیشہ کے ہیں۔ ان میں سے کئی – جیسے ہردے اور جوینتی – ریاست میں او بی سی کے طور پر درج فہرست لہورا برادری کے ہیں۔ ہردے بتاتے ہیں کہ ایک سردار، یا ٹھیکہ دار، عام طور پر تلنگانہ کے مختلف بھٹوں کے لیے ہر موسم میں تقریباً ۱۰۰۰ مزدوروں کے گروپ کو لاتا ہے۔ ’’ایسے کئی ٹھیکہ دار ہیں، جو ہمارے جیسے مزدوروں کو جمع کرنے کے لیے اوڈیشہ کے گاؤوں میں جاتے ہیں۔ میں ایک چھوٹے ٹھیکہ دار کے ساتھ آیا تھا۔ ایک بڑا ٹھیکہ دار ۲۰۰۰ مزدوروں کو بھی لا سکتا ہے۔‘‘
اس بار، کام کرنے کے لیے ہردے اپنی نوجوان بیٹی کو بھی اپنے ساتھ لے آئے۔ ’’کرمانی کی عمر ۱۶ یا ۱۷ سال ہونی چاہیے۔ اس نے اسکول جانا چھوڑ دیا تھا، اس لیے وہ میرے ساتھ کام کرنے کے لیے یہاں آئی ہے۔ اینٹوں کو بنانے میں ہاتھ کی مزید ایک جوڑی ہمیشہ اچھی ہوتی ہے، اورہمیں اس کی شادی کے لیے پیسے کی ضرورت ہے،‘‘ ۵۵ سالہ والد نے کہا۔ اب، کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے غیر یقینی مدت تک پھیلنے سے خوفزدہ، وہ اپنے گاؤں واپس جانے کا انتظار مشکل سے کر سکتے ہیں۔
فی الحال، اوڈیشہ کے تقریباً ۴۸۰۰ مہاجر مزدور سنگا ریڈی ضلع کے جِنّا رام اور گُمّا ڈیڈالا منڈل میں ۴۶ اینٹ بھٹوں پر کام کرتے ہیں، ریاستی حکومت کے مقامی تعلیمی دفتر کے ایک ذرائع کا کہنا ہے۔ اور ۷ سے ۱۴ سال کی عمر کے ۳۱۶ بچے، جو مہاجر بچوں کے لیے محکمہ تعلیم کے ذریعے چلائے جا رہے کام کی جگہ کے اسکولوں میں جاتے ہیں، وہ بھی اینٹ بھٹہ کے احاطہ میں ہی رہتے ہیں۔ (چھ سال سے کم عمر کے بچوں کی تعداد معلوم نہیں ہے۔) جس بھٹے پر ہردے اور کرمانی کام کرتے ہیں، وہاں ۷۵ کنبے ہیں – سبھی بلانگیر ضلع کے – جن میں ۱۳۰ بالغ اور ۷-۱۴ سال کی عمر کے ۲۴ بچوں کے ساتھ ساتھ چھوٹے بچے بھی ہیں۔
’’ہم صبح ۳ بجے سے اینٹیں بنانا شروع کرتے ہیں اور صبح کے ۱۰-۱۱ بجے تک کام پورا کر لیتے ہیں۔ صبح کی شفٹ کے بعد ہم بریک لیتے ہیں۔ عورتیں جلانے والی لکڑی اکٹھا کرنے کے لیے جاتی ہیں، کھانا پکاتی ہیں، بچوں کو نہلاتی ہیں اور دوپہر ۱ بجے کے آس پاس کھانا کھاتی ہیں، اور پھر کچھ گھنٹے آرام کرتی ہیں،‘‘ ۳۱ سالہ جوینتی نے کہا، جو تین بچوں کی ماں ہیں، اور اس بھٹے پر اتنے ہی گھنٹے کام کرتی ہیں جتنے گھنٹے ان کے شوہر کرتے ہیں۔ ’’چار آدمی ایک ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہم شام کو ۴ بجے دوبارہ کام شروع کرتے ہیں اور رات کے ۱۰ بجے تک اینٹیں بنانا جاری رکھتے ہیں۔ رات کا کھانا کھاتے کھاتے آدھی رات ہو جاتی ہے، یا ۱ بھی بج جاتا ہے۔‘‘
جوینتی کی شادی ۱۴ یا ۱۵ سال کی عمر میں ہی ہو گئی تھی – انہیں صحیح عمر یاد نہیں ہے۔ ہم ۵ اپریل کو جب ان سے ملے تھے، تو وہ اپنے دو سال کے بیٹے بوسنتھ کو گود میں لیے ہوئی تھیں، اور اپنی چھ سال کی بیٹی انجولی کو ٹیلکم پاؤڈر کی بوتل خالی کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھیں، جو فوٹو کھنچوانے کے لیے اپنے چہرے پر پاؤڈر لگا رہی تھی۔ جوینتی کا سب سے بڑا بیٹا، ۱۱ سال کا ہے، وہاں سے پیدل دوری پر دوسرے بھٹے پر واقع سائٹ اسکول میں پڑھتا ہے، لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے اب وہ اسکول بند ہے۔ جوینتی خود کبھی اسکول نہیں گئیں؛ اپنی عمر بتانے کے لیے، انہوں نے ہمیں اپنا آدھار کارڈ دکھایا۔
جوینتی کے شوہر کی فیملی کے پاس کھٹولومنڈا میں دو ایکڑ زمین ہے۔ ’’صرف ایک ایکڑ قابل کاشت ہے،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’ہم کپاس اُگاتے ہیں، کیوں کہ بیج سے لیکر حشرہ کش دواؤں تک، سب کچھ بیج کمپنی کے ایجنٹوں کے ذریعے ہمارے دروازے پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ وہ ہم سے کپاس کی فصل خریدنے کے لیے واپس آتے ہیں۔ ہم جون میں بوائی شروع کرتے ہیں، جب بارش ہوتی ہے، اور نومبر کے آخر یا دسمبر کی شروعات میں کپاس کی کٹائی کرتے ہیں۔ وہ ہمیں کپاس کی فصل کے لیے ہر سال ۱۰ ہزار روپے دیتے ہیں۔‘‘
ان کے گاؤں میں کوئی بھی، یا خریدار، کمپنیوں کو فروخت کیے جانے والے کپاس کا وزن نہیں کرتا ہے۔ ’’ہم خوش ہیں کہ وہ ہمیں بیج، حشرہ کش دوا دیتے ہیں اور کپاس بھی خریدتے ہیں،‘‘ جوینتی نے کہا۔ ’’ہمارے جیسے بڑے کنبہ کے لیے ۱۰ ہزار روپے کافی نہیں ہیں۔ ہم ہر سال کٹائی کے ٹھیک بعد اس اینٹ بھٹے پر کام کرنے کے لیے آ جاتے ہیں۔‘‘
یہ مزدور بھٹوں پر، ٹوٹی اور بیکار ہو چکی اینٹوں کے انبار سے بنی عارضی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں۔ کچھ جھونپڑیوں میں مٹی کے گارے سے پلاسٹر کیا گیا ہے۔ اینٹ بھٹہ مالک نے پانی صاف کرنے کی ایک مشین لگائی ہے جو پینے کا پانی فراہم کرتی ہے – کام کی جگہ پر یہی واحد سہولت ہے۔
۲۷ سالہ گیتا سین نے اپنے بچے کو گود میں لیے ہمیں بھٹے کے پیچھے کا کھلا علاقہ دکھایا۔ ’’ہم وہاں باہر میدان میں حوائج ضروریہ کے لیے جاتے ہیں۔ ہمیں نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے یہاں تک پانی لانا پڑتا ہے۔ مرد کہیں بھی غسل کر لیتے ہیں۔ لیکن ہم عورتیں یہاں غسل کرتی ہیں،‘‘ انہوں نے ایک چھوٹی سی جگہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا – جہاں پتھر کے چار سلیب، کیچڑ والے پانی سے بھرے کچھ ٹوٹے ہوئے پلاسٹک کے برتن رکھے تھے، اور ڈنڈے کی مدد سے پلاسٹک شیٹ سے ڈھکا ہوا تھا۔ ’’جب کوئی عورت یہاں غسل کرتی ہے، تو ہم میں سے کوئی ایک پہریداری کرتا ہے۔ ہم بھٹے کے پاس رکھی ٹنکی سے پانی لاتے ہیں۔‘‘
نومولود اور بچوں کے ساتھ کچھ دیگر عورتیں، جہاں ہم کھڑے تھے، وہاں صبح کے غسل کے بعد بنے آدھے خشک پانی کے ذخیرہ کے پاس آ گئیں۔ وہ سبھی گھر جانا چاہتی ہیں۔ ’’کیا ہم سبھی لاک ڈاؤن کے بعد واپس اوڈیشہ جا سکتے ہیں؟‘‘ گیتا نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
تلنگانہ حکومت نے ۳۰ مارچ کو، لاک ڈاؤن کے دوران ہر ایک مہاجر مزدور کو راحت اشیاء کے طور پر ۱۲ کلو چاول اور ۵۰۰ روپے تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا، جس کی مدت ۱۴ اپریل کو ختم ہونی تھی۔ لیکن، یہ ۵ اپریل تک گدی پوتھرم کے مہاجر مزدوروں تک نہیں پہنچا تھا۔ اور نہ ہی یہ کنبے گاؤں کے بازار سے کچھ بھی خریدنے کے قابل تھے۔ رضاکاروں نے جب ان کنبوں کو دو ہفتے کی غذائی اشیاء کے ساتھ ۷۵ راشن کٹ (ایک پرائیویٹ کمپنی کے ذریعے عطیہ) دیے، تو وہ ایک دن سے بھوکے تھے۔
سنگا ریڈی کی ضلع انتظامیہ کو ان کی حالت سے باخبر کرانے کے بعد، کلکٹر نے ۵ اپریل کو مزدوروں کو چاول اور پیسہ بھیجا۔ لیکن یہ ہر ایک کنبہ کو دیا گیا، ہر ایک آدمی کو نہیں۔ ہم نے جتنے بھی مہاجر مزدوروں سے بات کی، ان سبھی کا یہی کہنا تھا کہ راحت تقسیم کے انبار میں وہ سب سے نیچے ہیں، ریاست کے راشن کارڈ ہولڈرز سے نیچے۔ اپنے بھتہ سے، یہ مزدور تب سے گاؤں کی دکانوں سے کچھ سامان خریدنے میں کامیاب رہے، جو اب صبح ۱۱ بجے تک کھلتی ہیں۔
وہ سبھی گھر واپس جانے کے لیے بے تاب ہیں۔ ’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم یہاں کورونا کا انتظار کرتے رہیں؟‘‘ ہردے نے غصے سے پوچھا۔ ’’اگر موت آنی ہی ہے، تو ہم سبھی اپنے اہل خانہ کے درمیان اپنے گھر میں مرنا چاہتے ہیں۔‘‘
مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز