’’غلام نبی، تمہاری آنکھیں خراب ہو جائیں گی۔ کیا کر رہے ہو؟ جا کر سو جاؤ!‘‘
میں جب بھی رات کو دیر تک لکڑی پر نقش نگاری میں مصروف رہتا، تو میری والدہ مجھے دیکھ کر یہی کہتیں۔ لیکن ان کی ڈانٹ سننے کے بعد بھی، میں نے یہ کام کبھی نہیں چھوڑا۔ میں نے تقریباً ۶۰ سال تک اس کی مشق کی ہے تب جا کر آج اس مقام پر پہنچا ہوں۔ میرا نام غلام نبی ڈار ہے اور میں کشمیر کے سرینگر شہر میں لکڑی پر نقش نگاری کا کام کرتا ہوں۔
مجھے ٹھیک سے معلوم نہیں ہے کہ میری پیدائش کب ہوئی تھی، لیکن اب میں ۷۰ سال سے زیادہ کا ہو چکا ہوں۔ میں نے اپنی پوری زندگی اس شہر کے ملِک صاحب صفا کدل علاقے میں گزاری ہے۔ میں پاس کے ہی ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھنے جاتا تھا، لیکن گھر کی مالی حالت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے مجھے تیسری جماعت میں اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی۔ میرے والد، علی محمد ڈار، اننت ناگ ضلع میں کام کرتے تھے، لیکن جب میں ۱۰ سال کا تھا تو وہ سرینگر واپس آ گئے تھے۔
یہاں انہوں نے اپنی فیملی کا خرچ سنبھالنے کے لیے شہر میں سبزیاں اور تمباکو بیچنا شروع کیا۔ ان کی فیملی میں میری ماں عزّی، اور ۱۲ بچے تھے۔ سب سے بڑا ہونے کی وجہ سے میں اپنے والد کا ہاتھ بٹانے لگا۔ میرا بھائی، بشیر احمد ڈار بھی یہی کرتا تھا۔ جب کام زیادہ نہیں ہوتا تھا، تو ہم لوگ ادھر ادھر گھومنے نکل جاتے تھے۔ ایک دن میرے ماموں نے ہمیں دیکھ لیا اور والد صاحب سے جا کر ہماری شکایت کر دی۔ ماموں نے ہمیں لکڑی پر نقاشی کا کام سیکھنے کے لیے کہا۔
لہٰذا، ہم الگ الگ کاریگروں کے لیے کام کرنے لگے، جہاں ہم پالش کی ہوئی اخروٹ کی لکڑی پر کندہ کاری کرتے تھے۔ پہلے آجر نے ہم دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو ڈھائی روپے دیے۔ اور وہ بھی تب، جب اس کے یہاں کام کرتے ہوئے ہمیں دو سال ہو چکے تھے۔
ہمارے دوسرے استاد عبدالعزیز بھٹ تھے، جو ہمارے پڑوس میں ہی رہتے تھے۔ وہ کشمیر کی ایک بڑی ہینڈی کرافٹ کمپنی کے لیے کام کرتے تھے، جس کے صارفین بین الاقوامی سطح پر تھے۔ سرینگر کے رینا واڑی علاقہ میں، ہمارے اس کارخانہ میں اور بھی کئی ماہر کاریگر تھے۔ بشیر اور میں نے وہاں پانچ سال کام کیا۔ ہم لوگ روزانہ صبح ۷ بجے اپنا کام شروع کرتے اور غروب آفتاب کے بعد اسے ختم کرتے تھے۔ اس دوران ہم لکڑی پر کندہ کاری کے ذریعے زیورات کے ڈبے، کافی ٹیبل، لیمپ وغیرہ بنایا کرتے تھے۔ گھر لوٹنے کے بعد، میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر اس کی مشق کیا کرتا تھا۔
وہاں کارخانہ میں ایک کمرہ تھا، جس میں تیار مال رکھا جاتا تھا۔ اس کمرے پر ہمیشہ تالا لگا رہتا تھا، تاکہ کوئی ان سامانوں کو دیکھ نہ سکے۔ ایک دن، میں خاموشی سے اس کے اندر گھس گیا۔ وہاں میں نے کمرے کے ہر کونے میں درختوں، پرندوں اور اس قسم کی اور بھی کئی چیزوں کے تمام ڈیزائن دیکھے۔ انہیں دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ تبھی میں نے اس فن میں مہارت حاصل کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ اس کے بعد، جب کبھی موقع ملتا میں اسی طرح خاموشی سے اس کمرے میں داخل ہو جاتا اور الگ الگ ڈیزائنوں کو غور سے دیکھتا اور پھر انہیں اپنے ہاتھ سے بنانے کی کوشش کرتا۔ ایک دن وہاں کام کرنے والے ایک شخص نے مجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا اور مجھ پر چوری کا الزام لگا دیا۔ لیکن بعد میں، اس ہنر کے تئیں میرے جنون کو دیکھ کر اس نے مجھے چھوڑ دیا۔
یہ ہنر مجھے کسی نے سکھایا نہیں ہے، بلکہ میں نے اُسی کمرے میں رکھی چیزوں کو دیکھ کر سب کچھ سیکھا ہے۔
پہلے کے کاریگر چنار [پلیٹنس اورئینٹلس] کے درخت، انگور، کیند پوش [گلاب]، پمپوش [کنول] وغیرہ کے ڈیزائن بنایا کرتے تھے۔ کیند پوش کو اب لوگ بھول چکے ہیں اور آسان قسم کے ڈیزائن بنانے لگے ہیں۔ لیکن، میں نے کچھ پرانے ڈیزائنوں کو واپس لانے کی پوری کوشش کی ہے اور ابھی تک کم از کم ۱۲ اوریجنل ڈیزائن تیار کر چکا ہوں؛ دو ڈیزائن فروخت بھی ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک ڈیزائن بطخ کا تھا جسے میں نے ایک میز کے اوپر بنایا تھا، جب کہ دوسرا ڈیزائن ایک بیل دار پودے کا تھا۔
سال ۱۹۸۴ میں، میں نے ریاستی ایوارڈ کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف ہینڈی کرافٹس، جموں و کشمیر میں دو ڈیزائن جمع کرائے تھے۔ اور اتفاق سے، میرے دونوں ڈیزائن ایوارڈ کے لیے منتخب کر لیے گئے۔ ان میں سے ایک ڈیزائن کشمیر کے ایک گاؤں میں ہونے والی پنچایت میٹنگ پر مبنی تھا۔ اس میں مختلف برادریوں کے لوگ ایک میز کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان میں سکھ، مسلمان، پنڈت – سبھی شامل ہیں۔ چائے سے بھرا ایک سماوار (کیتلی)، پینے کے لیے پیالے، حقہ اور تمباکو، یہ ساری چیزیں میز پر رکھی ہوئی ہیں۔ میز کے آس پاس بچے اور مرغیاں بھی ہیں۔
ریاستی ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد، میں نے ۱۹۹۵ میں قومی ایوارڈ کے لیے اپنا فن پارہ جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بار میں نے ایک ڈبے کے اوپر نقش نگاری کی تھی۔ اس کا ہر کونا چہرے کے الگ الگ احساس اور جذبے سے بھرا ہوا تھا: خوشی کے اظہار کے لیے ہنسی، رونے کے لیے آنسوؤں کا استعمال کیا گیا تھا۔ اسی طرح غصہ اور خوف کا بھی اظہار کیا گیا تھا۔ ان تصویروں کے درمیان، میں نے ۳ ڈی پھول بنائے تھے۔ یہ ایوارڈ بھی میں نے اپنی پہلی کوشش میں ہی حاصل کر لیا۔ حکومت ہند کی کپڑے کی وزارت کے ڈیولپمنٹ کمشنر (ہینڈی کرافٹس) اور ڈیولپمنٹ کمشنر (ہینڈ لومز) کی طرف سے یہ ایوارڈ مجھے صدر جمہوریہ ہند شنکر دیال شرما نے دیا تھا۔ اس ایوارڈ کے ذریعے ’’ہندوستانی دستکاری کی قدیم روایات کو زندہ کرنے کی‘‘ میری کوششوں کو تسلیم کیا گیا تھا۔
اس کے بعد، جو لوگ مجھے ایک فن پارہ کے عوض مجھے ۱۰۰۰ روپے دیا کرتے تھے، اب وہ ۱۰ ہزار روپے دینے لگے۔ انہی دنوں میری پہلی بیوی محبوبہ کا انتقال ہو گیا، اور میرے والدین ضد کرنے لگے کہ میں دوبارہ شادی کر لوں کیوں کہ ہمارے تین چھوٹے بچے تھے۔ میرا بیٹا اور بیٹی نے ۱۲ویں جماعت تک، جب کہ سب سے چھوٹی بیٹی نے ۵ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ عابد، ان میں سب سے بڑا ہے اور اب ۳۴ سال کا ہو چکا ہے۔ وہ میرے ساتھ ہی کام کرتا ہے۔ اس نے ۲۰۱۲ میں، پہلی کوشش میں ہی ریاستی ایوارڈ حاصل کر لیا تھا۔
گزرتے ہوئے سالوں میں، کچھ اہم استادوں نے میری زندگی بدل دی۔ نور دین بھٹ انھیں میں سے ایک تھے، جو سرینگر کے نروارہ علاقے میں ’نور رور ٹوئیک‘ کے نام سے مشہور تھے۔ وہ میرے سب سے پسندیدہ استاد تھے۔
میں جب ان سے ملا تھا، تو بیماری کے سبب وہ بستر پکڑ چکے تھے۔ ان کے جسم کا بایاں حصہ مفلوج ہو چکا تھا۔ اس وقت میری عمر ۴۰ سال سے زیادہ تھی۔ لوگ ان کے پاس کارخانوں سے لکڑی کے تختے یا کافی ٹیبل لے جاتے، اور وہ اپنے بستر سے ہی ان پر نقاش نگاری کیا کرتے تھے۔ بدلے میں انہیں جو کچھ ملتا، اس سے وہ اپنی بیوی اور بیٹے کا خرچ اٹھاتے۔ مجھے اور میرے بھائی کے علاوہ، نقش نگاری کا یہ فن انہوں نے کچھ دوسرے نوجوانوں کو بھی سکھایا۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ کیا وہ ہمیں یہ ہنر سکھا سکتے ہیں، تو انہوں نے مذاق کرتے ہوئے کہا تھا، ’’تم نے تھوڑی تاخیر کر دی۔‘‘
استاد نے مجھے اوزاروں اور ریگ مال کا استعمال کرنا اور ڈیزائن تیار کرنا سکھایا۔ اپنی وفات سے پہلے، انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ جب بھی کوئی الجھن یا پریشانی ہو، تو باغ میں جا کر پھولوں کا مشاہدہ کرو: ’’اللہ کی تخلیقات میں گھماؤ اور لکیروں کو غور سے دیکھو اور انہیں سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘ انہوں نے دوسروں کو سکھانے اور اس ہنر کو آگے بڑھانے کے لیے مجھے ترغیب دی تھی۔
پہلے، میرے ہاتھ بڑی تیزی سے چلتے تھے؛ میں کسی مشین کی طرح کام کرتا تھا۔ اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں، میرے ہاتھوں میں پہلے جیسی تیزی نہیں رہی۔ لیکن میں ہمیشہ شکر گزار رہا ہوں۔
مترجم: محمد قمر تبریز