شام ڈھلتے ہی، اوم شکتی دیوی کا رنگین لائٹوں سے مزین بڑا سا کٹ آؤٹ جگمگانے لگتا ہے۔ بنگلا میڈو کے ایرولر لوگ دیوی کے لیے سالانہ تیمیتی تیروویلا یا ’فائر واک‘ (انگاروں پر چلنے کا) جشن منا رہے ہیں (اوم شکتی ایک ہندو دیوی ہیں)۔

دوپہر بھر جلنے والی لکڑی کے ٹکڑے انگارے بننے لگتے ہیں؛ اور رضاکار انہیں چمکدار پھولوں کے بستر کی طرح ایک پتلی سی پرت میں پھیلا دیتے ہیں، تاکہ ایرولر تیمیتی کو ’پومیتی‘ یا پھولوں پر چلنے کی طرح دیکھیں۔

خوشی اور جشن کا ماحول ہے۔ پڑوس کے گاؤوں کے سینکڑوں لوگ ایرولروں کو آگ پر چلتا دیکھنے اور اوم شکتی میں اپنے عقیدہ کا اظہار کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ اوم شکتی ایک غیر ایرولر دیوی ہیں، جن کے ماننے والے پورے تمل ناڈو میں موجود ہیں اور جن کی پوجا مضبوطی اور طاقت کے اظہار کے طور پر کی جاتی ہے۔

ایرولر (جنہیں ایرولا بھی کہا جاتا ہے) برادری تمل ناڈو میں درج فہرست قبیلہ کے طور پر درج ہے۔ وہ روایتی طور پر کنّی امّا دیوی کی پوجا کرتے تھے، جسے وہ سات کنواری دیویوں میں سے ایک مانتے ہیں۔ ہر ایرولر کے گھر میں ایک ’کلسم‘ یا مٹی کا برتن دیوی کی علامت کی طرح رہتا ہے، جسے نیم کے پتوں کے ڈھیر پر رکھا جاتا ہے۔

A kalasam (left) placed on neem leaves to symbolise Kanniamma in a temple (right) dedicated to her in Bangalamedu
PHOTO • Smitha Tumuluru
A kalasam (left) placed on neem leaves to symbolise Kanniamma in a temple (right) dedicated to her in Bangalamedu
PHOTO • Smitha Tumuluru

بنگلا میڈو میں کنّی امّا کو وقف ایک مندر (دائیں) میں نیم کے پتوں پر رکھا کلسم (بائیں)

Left: Preparing for the theemithi thiruvizha for goddess Om Sakthi, volunteers in wet clothes stoke the fire to ensure logs burn evenly. Before the fire-walk, they need to spread the embers evenly over the fire pit.
PHOTO • Smitha Tumuluru
Right: Brothers, G. Chinnadurai and G. Vinayagam carry the poo-karagam , which is a large milk pot decorated with flowers
PHOTO • Smitha Tumuluru

بائیں: دیوی اوم شکتی کے لیے تیمیتی تیروویلا کی تیاری کے دوران گیلے کپڑوں میں رضاکار آگ جلاتے ہیں، تاکہ یہ یقینی ہو سکے کہ لکڑیاں ٹھیک سے جلیں گی۔ آگ پر چلنے سے پہلے وہ انگاروں کو چاروں طرف پھیلاتے ہیں۔ دائیں: بھائی جی چِنّ دورئی اور جی ونیگم ’پو کارگم‘ لے جاتے ہوئے، جو پھولوں سے سجایا گیا دودھ کا بڑا برتن ہوتا ہے

تو اوم شکتی کے لیے بنگلا میڈو ایرولروں کے جشن کو کیسے سمجھا جائے؟

تقریباً ۳۶ سال کے جی منی گندن ۱۹۹۰ کی دہائی کے آخری دنوں کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں، جب ان کی بہن اور ایک غیر ایرولر نوجوان کے درمیان پیار ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ذات پر مبنی تناؤ شروع ہو گیا، جس کی وجہ سے ان کی فیملی کو چیروکّنور گاؤں میں اپنے گھر سے راتوں رات بھاگنا پڑا۔ تب فیملی نے چیروکنور جھیل کے پاس ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں پناہ لی تھی۔

وہ کہتے ہیں، ’’رات بھر ایک گئولی [چھپکلی] شور مچاتی رہی، اور اس سے ہمیں سکون محسوس ہوا۔ ہم نے اسے امّن [دیوی] کا شگن مانا۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ یہ اوم شکتی ہی تھیں جنہوں نے اُس رات ان کی جان بچائی تھی۔

*****

وہ یاد کرتے ہیں، ’’بھاگنے کے بعد کھانا اور کام تلاش کرنا کوئی آسان نہیں تھا۔ میری ماں کھیتوں سے مونگ پھلی اکٹھا کرتیں اور ہمیں کھلانے کے لیے چھوٹے جانوروں کا شکار کرکے لاتی تھیں۔ بس امّن نے ہی ہماری حفاظت کی تھی۔‘‘ (پڑھیں: بنگلا میڈو میں چوہوں کے ساتھ ایک الگ راہ پر )

منی گندن کی فیملی اور ان کے ساتھ بھاگے دوسرے لوگ آخر چیروکنور جھیل سے تقریباً ایک کلومیٹر دور بنگلا میڈو میں آباد ہو گئے اور انہیں جھیل کے پاس کھیتوں میں کام مل گیا۔

بنگلا میڈو شروع میں ۱۰ سے بھی کم خاندانوں کی بستی تھی، اور اب یہاں ۵۵ ایرولا کنبے رہتے ہیں۔ آفیشیل طور پر چیروکنور کی ایرولر کالونی ایک سڑک کے کنارے واقع ہے، جس کے دونوں طرف گھر ہیں اور جو کھلی جھاڑیوں سے گھری ہے۔ لمبی لڑائی کے بعد ۲۰۱۸ میں آخر یہاں بجلی آئی اور حال ہی میں کچھ پکّے گھر اس بستی میں بنائے گئے ہیں۔ یہاں کے ایرولر لوگ اپنی آمدنی کے لیے یومیہ مزدوری اور منریگا کے کام پر منحصر ہیں۔ منی گندن، بنگلا میڈو کے ان مٹھی بھر لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مڈل اسکول سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔

Left: The Om Sakthi temple set up by P. Gopal on the outskirts of Bangalamedu. The temple entrance is decorated with coconut fronds and banana trees on either sides, and has a small fire pit in front of the entrance.
PHOTO • Smitha Tumuluru
Right: G. Manigandan carries the completed thora or wreath
PHOTO • Smitha Tumuluru

بائیں: بنگلا میڈو کے باہری علاقے میں پی گوپال کے ذریعے تعمیر کردہ اوم شکتی مندر۔ مندر کے داخلی دروازہ کو دونوں طرف ناریل اور کیلے کے پتوں سے سجایا گیا ہے اور دروازہ کے سامنے اگنی کنڈ (آگ جلانے کے لیے ایک چھوٹا سا گڑھا) بنایا گیا ہے۔ دائیں: جی منی گندن تورا یا ہار لے جا رہے ہیں

G. Subramani holds the thora on the tractor (left) carrying the amman deity.
PHOTO • Smitha Tumuluru
He then leads the fire walkers (right) as they go around the bed of embers
PHOTO • Smitha Tumuluru

جی سبرامنی، امن دیوی کو لے جانے والے ٹریکٹر (بائیں) پر تورا کو رکھتے ہیں۔ پھر وہ انگاروں کے اس بستر کے چاروں طرف گھومتے ہوئے (دائیں) آگ پر چلنے والوں کی قیادت کر رہے ہیں

یہاں آباد ہونے کے کچھ سال بعد ایرولر برادری کے بزرگ اور منی گندن کے والد پی گوپال نے جھیل کے پاس عوامی زمین کے ایک ٹکڑے پر اوم شکتی کا مندر بنایا۔ وہ برے دنوں میں اپنی حفاظت کے لیے امّن کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ سال ۲۰۱۸ میں اپنی موت تک وہ اس کے پجاری رہے۔ منی گندن کہتے ہیں، ’’مندر ایک چھوٹی سی جھونپڑی ہوا کرتی تھی۔ ہم نے جھیل کی مٹی سے امن کی مورتی بنائی۔ میرے والد نے ہی آدی تیمیتی تیروویلا کی شروعات کی تھی۔‘‘

گوپال کی موت کے بعد منی گندن کے بڑے بھائی جی سبرامنی نے اپنے والد کا پجاری والا عہدہ سنبھال لیا۔ سبرامنی ہفتے کا ایک دن مندر کے کام کاج کے لیے رکھتے ہیں اور باقی چھ دن مزدوری کے کام تلاش کرتے ہیں۔

تقریباً ۱۵ سال سے زیادہ عرصے سے بنگلا میڈو کی ایرولر برادری کے لوگ دن بھر کے اس پروگرام میں اوم شکتی کے لیے ورت (روزہ) رکھتے ہیں، جس کا اختتام انگاروں پر چلنے کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ تہوار تمل مہینہ ’آدی‘ میں منایا جاتا ہے، جو جولائی-اگست کے آس پاس آتا ہے۔ مانسون کی شروعات کے ساتھ یہ چلچلاتی گرمی سے نجات کا وقت بھی ہوتا ہے۔ حالانکہ، ایرولروں کے درمیان یہ حال ہی کی رسم ہے، مگر آدی مہینہ کے دوران تیمیتی تروولور ضلع کے تروتنی تعلق میں عام طور پر منایا جاتا ہے، جس میں عقیدت مند مہابھارت کی دروپدی امّن، مری امن، روجا امن، ریوتی امن وغیرہ دیویوں کی پوجا کرتے ہیں۔

’’گرمیوں میں لوگ اکثر امّن [چیچک] کی وجہ سے بیمار پڑ جاتے ہیں۔ ہم ان مشکل مہینوں سے نمٹنے کے لیے امّن [دیوی] سے پرارتھنا کرتے ہیں۔‘‘ منی گندن اپنی بات چیت میں دیوی اور بیماری دونوں کے لیے امّن لفظ کا استعمال آرام سے کرتے ہیں اور اس سے اس عام عقیدہ کو تقویت ملتی ہے کہ دیوی ہی ہیں جو بیماری دیتی ہیں اور وہی اپنے عقیدت مندوں کو صحت مند بھی بناتی ہیں۔

بنگلا میڈو میں گوپال نے جب سے تیمیتی تہوار شروع کیا تھا، تبھی سے پڑوسی گڈی گُنٹا گاؤں کی ایک غیر ایرولر فیملی اس کے انتظام و انصرام میں حصہ لے رہی ہے۔ اس فیملی کی کھیت میں بنی جھونپڑی میں ہی ان کے اہل خانہ کو پناہ ملی تھی، جب وہ اپنے گاؤں سے بھاگ کر یہاں آئے تھے۔

Left: The mud idol from the original temple next to the stone one, which was consecrated by a Brahmin priest in the new temple building.
PHOTO • Smitha Tumuluru
Right: A non-Irular family, one of the few, walking on the fire pit
PHOTO • Smitha Tumuluru

بائیں: مندر کی مٹی کی مورتی کے بغل میں پتھر کی مورتی، جسے ایک برہمن پجاری نے مندر کی نئی عمارت میں نصب کیا تھا۔ دائیں: کچھ غیر ایرولر خاندانوں میں سے ایک فیملی اگنی کنڈ میں آگ پر چل رہی ہے

کھیت مالکوں میں سے ایک ہیں ۵۷ سال کے ٹی این کرشنن، جنہیں ان کے دوست پلنی کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ایرولروں کے علاوہ ہماری فیملی کے دس ارکان اور دوست شروع سے ہی آگ پر چل رہے ہیں۔‘‘ پلنی کی فیملی کا ماننا ہے کہ اوم شکتی کی پرارتنھا شروع کرنے کے بعد ہی ان کے یہاں بچوں کی پیدائش ہو پائی۔

انہوں نے ایرولروں کی معمولی مندر کی جھونپڑی کو چھوٹی سی پختہ عمارت میں بدل کر دیوی کا شکریہ ادا کیا تھا۔ انہوں نے ہی ایرولروں کی لگائی امّن کی مٹی کی مورتی کی جگہ پتھر کی مورتی نصب کی تھی۔

*****

بنگلا میڈو کے ایرولروں کو آدی تیمیتی کا انتظار رہتا ہے۔ اس کی تیاری وہ مقررہ دن سے پہلے ہی شروع کر دیتے ہیں۔ جو آگ پر چلنا چاہتے ہیں وہ اپنی کلائی میں ایک کاپّو یعنی ایک مقدس تعویذ باندھ لیتے ہیں اور تہوار کے دن تک کچھ چیزوں پر پابندی سے عمل کرتے ہیں۔

بنگلا میڈو میں چھوٹی سی دکان چلانے والی ایس سمنتی کے مطابق، ’’ایک بار جب ہم کاپّو پہن لیتے ہیں، تو ہم سر کے اوپر سے غسل کرتے ہیں اور دن میں دو بار مندر جاتے ہیں، پیلے کپڑے پہنتے ہیں، گوشت نہیں کھاتے اور گاؤں نہیں چھوڑتے۔‘‘ کچھ لوگ ایک ہفتہ تک اس پر عمل کرتے ہیں، تو کچھ زیادہ وقت تک۔ منی گندن بتاتے ہیں، ’’جو جتنے دن چاہے کر سکتا ہے۔ کاپّو پہننے کے بعد ہم گاؤں نہیں چھوڑ سکتے۔‘‘

ڈاکٹر ایم دامودرن نے غیر منافع بخش تنظیم ’ایڈ انڈیا‘ کے ساتھ اپنی وابستگی کے دوران سالوں تک اس برادری کے ساتھ کام کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ رسم ثقافتوں کے درمیان خیالات یا طور طریقوں کی توسیع کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ورت، اُپواس کرنا (روزہ رکھنا)، ایک خاص رنگ کے کپڑے پہننا اور اجتماعی تقریبات کا اہتمام جیسی روایات اب کئی [غیر ایرولر] برادریوں میں بڑے پیمانے پر شروع ہو گئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ ثقافت ایرولا برادریوں کے کچھ حصوں میں بھی آ گئی ہے۔ سبھی ایرولا بستیوں میں ان روایات کی تعمیل نہیں ہوتی۔‘‘

بنگلا میڈو میں ایرولر لوگ دن کے سبھی پروگرام سنبھالتے ہیں اور آرائش میں اپنا تھوڑا بہت تعاون دیتے ہیں۔ تہوار والے دن صبح کو مندر کے راستے پر لگے درختوں پر نیم کی تازہ پتیوں کے گچھے لگائے گئے ہیں۔ اسپیکر سے تیز بھکتی گیت بج رہا ہے۔ ناریل کے تازہ پتوں کی چٹائی اور کیلے کے لمبے پتے مندر کے دروازے کی خوبصورتی کو بڑھا رہے ہیں۔

K. Kanniamma and S. Amaladevi carrying rice mixed with blood of a slaughtered goat and rooster (left).
PHOTO • Smitha Tumuluru
They are throwing it around (right) as part of a purification ritual around the village
PHOTO • Smitha Tumuluru

لوگوں کو یقین ہے کہ کے کنّی امّا اور ایس املا دیوی پر دیوی آئی ہیں۔ دونوں قربان کیے گئے (بلی دیے گئے) بکرے اور مرغ (بائیں) کے خون سے بھیگے چاول کو لے جا رہی ہیں۔ اسے وہ گاؤں کو پاک کرنے کے لیے چاروں طرف (دائیں) پھینک رہی ہیں

Left: At the beginning of the ceremonies during the theemithi thiruvizha , a few women from the spectators are overcome with emotions, believed to be possessed by the deity's sprit.
PHOTO • Smitha Tumuluru
Right: Koozhu, a porridge made of rice and kelvaragu [raagi] flour is prepared as offering for the deity. It is cooked for the entire community in large aluminium cauldrons and distributed to everyone
PHOTO • Smitha Tumuluru

بائیں: تیمیتی تیروویلا میں رسم کی شروعات میں مجمع میں سے کچھ عورتیں غیر معمولی برتاؤ کر رہی ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ وہ دیوی کے قبضے میں ہیں۔ جب عورتوں کو ٹھنڈا پانی ڈال کر جگایا جاتا ہے، تو انہیں بچے بغل سے دیکھ رہے ہیں۔ دائیں: کولو، چاول اور کیل ورگو (راگی) کے آٹے سے بنا دلیہ، دیوی کے پرساد کے طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ اسی برادری کے لیے المونیم کے بڑے دیغوں میں پکایا جاتا ہے اور پھر سبھی میں تقسیم کیا جاتا ہے

کاپّو پہننے والے ہلدی جیسے پیلے رنگ کے کپڑوں میں رسم ادا کرنے کے لیے مندر آتے ہیں۔ دن کے پروگراموں کی شروعات امّن کے ارول وکّو یا وعظ سے شروع ہوتی ہے۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس کے لیے دیوی کسی ایک کو ذریعہ بناتی ہیں۔ منی گندن کہتے ہیں، ’’جب امّن کسی کے اوپر آتی ہیں، تو وہ اس کے ذریعے بات کرتی ہیں۔ جو لوگ یقین نہیں کرتے انہیں مندر میں صرف ایک پتھر دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے لیے مورتی حقیقی چیز ہے، جس میں زندگی ہے۔ وہ ہماری ماں کی طرح ہے۔ ہم اس سے اپنوں کی طرح ہی بات کرتے ہیں۔ ماں ہمارے مسائل کو سمجھتی ہیں اور ہمیں صلاح دیتی ہیں۔‘‘

منی گندن کی بہن کنّی امّا ہر سال ارول وکّو دیتی ہیں۔ وہ جا کر مندر کے چاروں طرف اور گاؤں کی سرحد پر مرغ اور بکری کی بلی (قربانی) کے بعد ان کے خون میں بھیگے چاول چھڑکتی ہیں۔ رضاکار پوری برادری کے لیے چاول اور راگی سے بنا گرم کولو یا دلیہ پکاتے ہیں اور ان میں تقسیم کرتے ہیں۔ شام کے جلوس میں دیوی کو تیار کرنے کے لیے پوری دوپہر بڑا سا تورا ، کیلے کے تنے اور پھولوں کا ہار بنانے میں گزرتی ہے۔

پچھلے کچھ سالوں میں مٹی کی جھونپڑی کی جگہ پختہ مندر بننے کے ساتھ ہی تہوار کا معیار بھی اونچا ہو گیا ہے۔ پلنی کے گڈی گُنٹا گاؤں سمیت پڑوسی گاؤوں سے ناظرین کا بڑا مجمع بنگلا میڈو میں آگ پر چلنے کا کرتب دیکھنے کے لیے اکٹھا ہوتا ہے۔ منی گندن کہتے ہیں، ’’تہوار کبھی نہیں رکا۔ یہاں تک کہ کووڈ کے دوران بھی نہیں۔ حالانکہ، ان دو سالوں میں کم بھیڑ رہی تھی۔‘‘ سال ۲۰۱۹ میں، کووڈ کے آنے سے ایک سال پہلے اس تہوار کو دیکھنے کے لیے تقریباً ۸۰۰ لوگ آئے تھے۔

حالیہ برسوں میں پلنی کی فیملی سبھی مہمانوں کے لیے مفت کھانا یا اَنّ دانم کا انتظام کرتی ہے۔ پلنی کہتے ہیں، ’’۲۰۱۹ میں ہم نے بریانی کے لیے صرف ۱۴۰ کلو چکن پر ایک لاکھ روپے سے زیادہ خرچ کیے تھے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ اب مہمانوں کی تعداد کووڈ سے پہلے کے دنوں جیسی ہی ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا، ’’ہر کوئی سامان لے آتا ہے۔‘‘ بڑھے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پلنی اپنے دوستوں سے پیسے اکٹھا کرتے ہیں۔

’’جب سے ہم نے مندر کی عمارت بنائی ہے، مجمع اور بڑھ گیا ہے۔ ایرولر اسے نہیں چلا سکتے، ہے نا؟‘‘ وہ گڈی گنٹا اوم شکتی مندر کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، جو ان کا گاؤں ہے۔

Irular volunteers prepare the tractor for the procession later that evening
PHOTO • Smitha Tumuluru
Irular volunteers prepare the tractor for the procession later that evening
PHOTO • Smitha Tumuluru

ایرولر برادری کے رضاکار شام کے جلوس کے لیے ٹریکٹر تیار کر رہے ہیں

Left: The procession begins with the ritual of breaking open a white pumpkin with camphor lit on top.
PHOTO • Smitha Tumuluru
Right: The bangle seller helps a customer try on glass bangles
PHOTO • Smitha Tumuluru

بائیں: ایک سفید کدو توڑنے کی رسم کے ساتھ جلوس کی شروعات ہوتی ہے۔ کدو کے اوپر کافور جلایا گیا ہے۔ دائیں: چوڑی بیچنے والی ایک گاہک کو کانچ کی چوڑیاں آزمانے میں مدد کر رہی ہے

*****

منی گندن کہتے ہیں، ’’جب نیا مندر بنایا گیا، تو ہماری مٹی کی مورتی پتھر سے بنی مورتی سے بدل دی گئی۔ انہوں نے کہا تھا کہ مندروں کی تعمیر اسی طرح کی جاتی ہے۔ ہم نے بغل میں اپنی مٹی کی مورتی بھی رکھی ہے۔ یہ زمین ہی ہے، جو ہماری حفاظت کرتی ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ’’انہوں نے ایک ایئّر [برہمن پجاری] کو بلایا، جس نے کچے چاول اور نیم کے پتوں کا ہمارا پرساد ہٹا دیا۔‘‘ کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ وہ بولے، ’’جس طرح ہم پوجا پاٹھ کرتے ہیں اس سے یہ الگ ہے۔‘‘

بشریات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ڈاکٹر دامودرن کہتے ہیں، ’’کنّی امّا جیسی دیویوں کی پوجا میں عموماً لمبی چوڑی اور منصوبہ بند رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ پوری برادری بھی اس میں شامل نہیں ہوتی ہے۔ رسموں اور انہیں ادا کرنے کے کسی خاص طریقے پر زور دینا، اور پھر ایک [اکثر برہمن] پجاری کو شامل کر کے اسے منظوری دلانا اب ضابطہ بنا لیا گیا ہے۔ اس سے الگ الگ ثقافتوں کے پوجا کرنے کے انوکھے طریقے ختم ہو جاتے ہیں اور ان کی معیار بندی ہو جاتی ہے۔‘‘

سال در سال بنگلا میڈو تیمیتی کے شاندار ہوتے جانے کے ساتھ ہی منی گندن اور ان کی فیملی کو محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ تہوار اب آہستہ آہستہ ان کے ہاتھ سے پھسل رہا ہے۔

منی گندن نے بتایا، ’’پہلے میرے والد کھانے کا سارا خرچ موئی [تہوار کے کھانے کا لطف لینے کے بعد مہمانوں سے ملنے والے تحفے کے پیسے] سے چلاتے تھے۔ اب وہ [پلنی کی فیملی] سبھی خرچ دیتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’منی، تم کاپّو رواجوں پر توجہ دو۔‘‘ منی گندن کی فیملی کبھی کبھی پلنی کے کھیتوں پر کام کرتی ہے۔

Left: A banner announcing the theemithi event hung on casuarina trees is sponsored by Tamil Nadu Malaivaazh Makkal Sangam – an association of hill tribes to which Irulars belong. A picture of late P. Gopal is on the top right corner.
PHOTO • Smitha Tumuluru
Right: K. Kanniamma tries to sit briefly in the fire pit before crossing. This is a risky move for those who attempt as one needs to be fast enough not to burn one's feet. Kanniamma's b rother Manigandan followed this tradition every year until their father's death. Since no male member of the family could sit, Kanniamma took it on herself.
PHOTO • Smitha Tumuluru

بائیں: تیمیتی پروگرام کا اعلان کرنے کے لیے ایک بینر کیسوآرینا کے درختوں پر لٹکا ہے، جسے تمل ناڈو ملئیوال مکّل سنگم نے مالی مدد دی ہے۔ ایرولر، پہاڑی قبیلوں کی اس انجمن کا حصہ ہیں۔ سب سے اوپر دائیں کونے پر آنجہانی پی گوپال کی تصویر لگی ہے۔ دائیں: کے کنّی امّا اگنی کنڈ سے نکلنے سے پہلے تھوڑی دیر آگ میں بیٹھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ رسم ہے جس کی پیروی ان کے بھائی منی گندن پچھلے سال والد کی موت تک ہر سال کیا کرتے تھے۔ چونکہ فیملی کا کوئی بھی مرد نہیں بیٹھ سکتا، تو کنّی امّا نے اس کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی۔ یہ جوکھم بھرا قدم ہوتا ہے کیوں کہ پیروں کو جلنے سے بچانے کے لیے اس میں سے تیزی سے نکلنا ہوتا ہے

Left: Fire-walkers, smeared with sandalwood paste and carrying large bunches of neem leaves, walk over the burning embers one after the other; some even carry little children.
PHOTO • Smitha Tumuluru
Right: It is an emotional moment for many who have kept their vow and walked on fire
PHOTO • Smitha Tumuluru

بائیں: چندن کا لیپ لگائے اور نیم کی پتیوں کے بڑے بڑے گچھے لے کر آگ پر چلنے والے لوگ ایک کے پیچھے ایک جلتے انگاروں پر چل رہے ہیں۔ کچھ لوگ چھوٹے بچوں کو ساتھ لیے ہوئے ہیں۔ دائیں: اپنی منت پورا کرنے اور آگ پر چلنے والوں کے لیے یہ جذباتی کر دینے والا لمحہ ہوتا ہے

پروگرام کے لیے شائع ہونے والے پرچوں میں آنجہانی گوپال کی ولئی مورئی (وراثت) کو قبول کرنے والے ایک جملہ کو چھوڑ کر ایرولر برادری کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ منی گندن کہتے ہیں، ’’ہمیں اپنے والد کا نام جوڑنے کے لیے زور دینا پڑا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس میں کسی کا نام لکھا جائے۔‘‘

تیمیتی کے دن آگ پر چلنے والے سبھی لوگ خدشات کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی عقیدت کا امتحان دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ غسل کرکے پیلے کپڑے پہنے، گلے میں پھولوں کی مالا ڈالے، بالوں میں پھولوں کو سجائے وہ پورے جسم پر چندن کا لیپ لگاتے ہیں اور اپنے ہاتھوں میں نیم کے مقدس گچھے پکڑے ہوتے ہیں۔ کنّی امّا کہتی ہیں، ’’اس دن لگتا ہے جیسے امّن ہمارے اندر ہی ہیں۔ اسی لیے مرد بھی پھول پہنتے ہیں۔‘‘

آگ پر چلنے والے جب انگاروں سے بھرے گڑھے پار کرنے کے لیے باری باری سے آگے بڑھتے ہیں، تو ان کے جذبات خاموشی سے لے کر جوشیلے ہوتے جاتے ہیں۔ کچھ دیکھنے والے جے جے کار کرتے ہیں (نعرے لگاتے ہیں)، تو دوسرے پرارتھنا کر رہے ہوتے ہیں۔ کئی لوگ اس نظارہ کو قید کرنے کے لیے اپنے موبائل فون نکال لیتے ہیں۔

کبھی سادگی کی علامت رہے ایرولر مندر کا نیا نام، نئی مورتی اور مندر اور تہوار کے انتظام و انصرام سے جڑے طور طریقے کے باوجود، منی گندن اور ان کی فیملی کے لوگ اپنے آنجہانی والد کا امّن سے کیا وعدہ نبھا رہے ہیں اور اپنی زندگی کی حفاظت کے لیے دیوی کے شکرگزار ہیں۔ تیمیتی کے دوران ان کی تمام تشویشیوں مستقبل کے لیے ٹل جاتی ہیں۔

نوٹ: اس اسٹوری میں شامل سبھی تصویریں ۲۰۱۹ میں لی گئی تھیں، جب رپورٹر تیمیتی تہوار دیکھنے بنگلا میڈو گئی تھیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Smitha Tumuluru

स्मिता तुमलुरू बंगलुरुस्थित बोधपट छायाचित्रकार आहे. ती करत असलेलं ग्रामीण जीवनाचं वार्तांकन तमिळ नाडूतील विकास प्रकल्पांवर आधी केलेल्या कामावर आधारित आहे.

यांचे इतर लिखाण Smitha Tumuluru
Editor : Sangeeta Menon

Sangeeta Menon is a Mumbai-based writer, editor and communications consultant.

यांचे इतर लिखाण Sangeeta Menon
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पारीचे ऊर्दू अनुवादक आहेत. ते दिल्ली स्थित पत्रकार आहेत.

यांचे इतर लिखाण Qamar Siddique