ہاتھی اپنے پھنڈی (ٹریچر) کو کبھی نہیں بھولتا ہے، شرت مران کہتے ہیں۔ ابھی تک وہ ۹۰ سے زیادہ ہاتھیوں کو ٹریننگ دے چکے ہیں۔ موٹی جلد والا یہ جانور اگر گھنے جنگلوں میں جنگلی ہاتھیوں کے جھنڈ میں بھی ہو، تو اپنے پھنڈی کی ایک پکار پر دوڑا چلا آئے گا، وہ بتاتے ہیں۔
پِلکھانہ [فیل خانہ] میں، جہاں ٹریننگ کے دوران ہاتھیوں کو رکھا جاتا ہے، سب سے پہلے نوزائیدہ بچوں کا تعارف انسانوں کے لمس سے کرایا جاتا ہے۔ یہ عمل روزانہ کے ایک معمول کی طرح کئی دنوں تک دہرایا جاتا ہے۔ ’’ٹریننگ کے دوران اس کے لیے معمولی درد بھی ناقابل برداشت ہوتا ہے،‘‘ شرت کہتے ہیں۔
جیسے جیسے دن گزرتے جاتے ہیں، اس نوزائیدہ ہاتھی کے ارد گرد لوگوں کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔ اور، آہستہ آہستہ ہاتھی کو انسانوں کے درمیان اپنائیت سی محسوس ہونے لگتی ہے۔
شرت اور دوسرے مہاوت نوزائیدہ ہاتھی کو ٹریننگ دیتے ہوئے اسے گیت گا کر سناتے ہیں۔ ان گیتوں میں جانور اور اس کے ٹرینر کے درمیان دوستی کی کہانیاں ہوتی ہیں۔
’’تم پہاڑوں میں تھے،
کاکو کے بڑے بانس
کھاتے تھے،
مہاوت کے پیچھے چلے
وادیوں میں آئے۔
میں سکھاؤں گا،
تم کو بہلاؤں گا اور
پھسلاؤں گا
یہ سیکھنے کا وقت ہے!
یہ پھنڈی
تمہاری پیٹھ کی کرے
گا سواری
اور کرے گا شکار یہ
شکاری۔‘‘
کچھ دنوں کے بعد، ہاتھی کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے ان کے پیروں میں جو موٹی رسیاں باندھی جاتی ہیں، ان کو دھیرے دھیرے کم کر دیا جاتا ہے اور ایک مدت کے بعد پوری طرح سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ مہاوت بتاتے ہیں کہ ایک ہاتھی کو ٹریننگ دینے میں کئی رسیوں کی ضرورت پڑتی ہے، اور ہر رسی کا الگ الگ نام اور کام ہوتا ہے۔ سریلے گیت سنا کر ہاتھیوں کو آرام سے دوست بنایا جا سکتا ہے۔ گیت ان کے لیے جادو کی طرح کام کرتا ہے۔ اس کا سہارا لے کر پہلے کے زمانے میں جنگلی ہاتھیوں کو پکڑا جاتا تھا۔ شکار کرنے کے وقت بھی گیتوں کی مدد لی جاتی تھی۔
شرت مران ایک تجربہ کار ٹرینر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ پھنڈی اس لیے بنے، کیوں کہ ’’میرا گاؤں ایک گھنے جنگل میں ہے اور وہاں بڑی تعداد میں ہاتھی ہیں۔ ہم بچپن سے ان کے ساتھ کھیلتے رہے ہیں۔ اسی طرح میں انہیں ٹریننگ دینا سیکھ گیا۔‘‘
ہاتھیوں کو ٹریننگ دینے میں کئی لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ ’’ٹیم کا قائد پھنڈی ہوتا ہے، اور جو لوگ اس کی مدد کے لیے رہتے ہیں وہ لوہٹیا، مہاوَت اور گھاسی کہلاتے ہیں۔ اتنے لمبے چوڑے جانور کو قابو میں رکھنے کے لیے کم از کم پانچ لوگ چاہئیں۔ ہمیں اس کے لیے کھانے کا بھی انتظام کرنا پڑتا ہے،‘‘ شرت بتاتے ہیں۔ اس کام میں ان کی مدد کرنے والے لوگ ان کے گاؤں کے ہی ہیں۔
وہ ترانی میں رہتے ہیں۔ یہ آسام کے تِن سُکیا ضلع کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور یہ اَپر دیہنگ ریزرو فاریسٹ سے گھرا ہوا ہے۔ مران برادری کے ٹریننگ سے متعلق ہنر کی تعریف صدیوں سے کی جاتی رہی ہے۔ کسی زمانہ میں وہ جنگ کے مقصد سے ہاتھیوں کو پکڑنے اور انہیں ٹریننگ دینے کے لیے مشہور تھے۔ وہ اَپر آسام کے کچھ ضلعوں میں اور سٹے ہوئے اروناچل پردیش کے کچھ حصوں میں آباد یہاں کے قدیم باشندے ہیں۔
اب جنگلی ہاتھیوں کو پالتو بنانا قانوناً جرم ہے، لیکن نوزائیدہ ہاتھیوں کو ابھی بھی انسانوں کے لمس سے متعارف کرانے کی ضرورت پڑتی ہے، جس کام کے لیے شرت اور ان کے ساتھی پھنڈیوں کو ایک لاکھ روپے تک کی اجرت ادا کی جاتی ہے۔ اس کام میں ایک سے لے کر تین مہینے تک کا وقت لگتا ہے۔
گاؤں کے باہر بنا یہ کیمپ لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ لوگ یہاں ہاتھی سے آشیرواد لینے آتے ہیں، جسے وہ جیتا جاگتا بھگوان سمجھتے ہیں، اور ان کے ٹرینر یعنی پھنڈی کو پروہت (پنڈت) مانا جاتا ہے۔ اسے کہیں سفر پر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ اپنے گھر بھی نہیں جا سکتا یا دوسرے کے ہاتھ کا پکا کھانا نہیں کھا سکتا۔ اس روایت کو ’سُوا‘ کہتے ہیں۔ شرت بتاتے ہیں کہ وہ ہاتھی کو دیکھنے کے لیے آئے بچوں کے ہاتھوں سے اپنی فیملی کو نقد روپے بھیجتے ہیں۔
یہ ڈاکیومنٹری ماگھ بیہو کے وقت بنائی گئی ہے۔ فصل کی کٹائی کے بعد منائے جانے والے اس تہوار کو پیٹھے (گول لوکی) کے ساتھ بھُنی ہوئی بطخ کا گوشت پکا کر منایا جاتا ہے۔ ’’ہاتھی کو ٹریننگ دینے کے ساتھ ساتھ ماگھ بیہو کا جشن منا کر ہم ایک ہی تیر سے دو شکار کر رہے ہیں۔ ہم ہاتھی کو ٹریننگ دے رہے ہیں اور بطخ کو آگ پر بھون رہے ہیں۔ ہم اسے ساتھ مل کر کھائیں گے،‘‘ شرت کہتے ہیں۔
چاروں طرف جشن کا ماحول ہے، لیکن ان کے من میں ایک گہرا خوف بھی ہے کہ یہ روایت جلد ہی ختم ہو جائے گی۔ نوجوان لڑکے اس پیشہ کو نہیں اپنا رہے ہیں، کیوں کہ اسے سیکھنے میں لمبا وقت لگتا ہے۔ وہ گاؤں کے نوجوانوں لڑکوں کو اس کام کو سیکھنے اور اس روایت کو زندہ رکھنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ ’’اب میں آہستہ آہستہ اپنی طاقت کھونے لگا ہوں۔ میں گاؤں کے لڑکوں سے یہ کام سیکھ لینے کو کہتا ہوں۔ میں لالچی آدمی نہیں ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر آدمی کو سیکھتے رہنا چاہیے، تاکہ ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا رہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز