اگر آپ ایم رمیش سے حفاظتی آلہ باندھنے کو کہیں گے، تو شاید وہ ہنس دیں۔ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دن میں تقریباً ۵۰ بار تاڑ اور ناریل کے درختوں سے پھل توڑنے والے رمیش، تمل ناڈو میں سب سے زیادہ پانی کی کمی کا سامنا کر رہے ضلعوں میں سے ایک – شیو گنگئی میں رہتے ہیں۔ یہاں تاڑ اور ناریل کے درخت خوب پھلتے پھولتے ہیں، اور ان کے پھلوں کا میٹھا پانی گرمی کے مہینوں میں پیاس بجھانے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ سال ۲۰۱۴ کے جون مہینہ میں جب میں رمیش سے ملی، تو میں نے انہیں پوری مہارت کے ساتھ منٹ بھر کے اندر سب سے اونچے اور نوک دار درختوں پر چڑھتے دیکھا۔ رمیش نے اس وقت ایک موڑی ہوئی لنگی اور شرٹ پہن رکھی تھی۔
اوپر پہنچ کر، رمیش نے احتیاط کے ساتھ اپنے ننگے پیر بڑی بڑی پتیوں کے درمیان متوازن طریقے سے جما لیے۔ درخت کی چھال پر رگڑ کر حال میں ہی تیز کی ہوئی درانتی سے وہ پھل توڑ کر نیچے پھینکتے رہے۔ نیچے سے ان کے والد نے انہیں خشک پتیوں کو کاٹنے کے لیے کہا۔ اس طرح، رمیش ایک ایک کر کے درختوں کے اوپر جاتے رہے اور ایک یا دو وار میں انہیں کاٹتے رہے۔
نیچے اترنے کے بعد، رمیش نے بتایا کہ انہوں نے درخت پر چڑھنے کے لیے کوئی ٹریننگ نہیں لی ہے؛ یہ کام انہوں نے خود سے سیکھا تھا۔ اس سے ان کی معمولی سی کمائی ہونے لگی، بقیہ معاش وہ تھوڑی بہت کھیتی کر کے کمانے لگے۔ اس دیہی علاقہ کے بقیہ نوجوانوں کی طرح رمیش بھی جلّی کٹّو کے مقابلوں میں سانڈوں کو پکڑنے جاتے ہیں۔ حالانکہ، بقیہ لوگوں سے الگ، وہ مہارت سے سانپ پکڑتے ہیں، اور اس کے علاوہ شکاری بھی ہیں۔ رات وہ میں اپنے دیسی کتے کے ساتھ خرگوش کا شکار کرنے جاتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز