گھٹنوں کے درمیان اپنی دھاری دار لنگی پھنسا کر اجے مہتو ۴۰ فٹ اونچے تاڑ کے درخت کی آدھی اونچائی صرف ۳۰ سیکنڈ میں پوری کر سکتے ہیں۔

تاڑ کے درخت پر اُس اونچائی تک چڑھنا اور لمبے پتّوں کے درمیان موجود کلیوں سے تاڑی (رس) اکٹھا کرنا اُن کا روز کا کام ہے، حالانکہ اتنی اونچائی پر چڑھنے کے بعد کسی کو بھی چکّر آ سکتا ہے۔

تاڑی نکالنے والے ۲۷ سالہ اجے مہتو، بہار کے سمستی پور ضلع میں مئی کی دھوپ میں صبح کے وقت درخت پر چڑھنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اپنے دونوں ہاتھوں پر پڑے نشانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’ اب تہ تاڑ کے پیڑ جئیسن سکّت ہو گیلئیہن۔ کانٹا بھی نے بھوکئیتئی [یہ اب تاڑ کے درخت کی طرح سخت ہو گئے ہیں۔ ان میں کانٹا بھی نہیں چبھ سکتا]۔‘‘

یہ دکھاتے ہوئے کہ کیسے انگلیوں کو آپس میں جوڑ کر تنے کے چاروں طرف لپیٹنا ہے، اجے کہتے ہیں، ’’چڑھتے وقت درخت پر پکڑ مضبوط رکھنی چاہیے۔ تنے کو دونوں ہاتھوں اور پیروں سے پکڑنا پڑتا ہے۔‘‘ تاڑ کے درختوں کے پتلے اور اوبڑ کھابڑ تنوں پر چڑھنے کے اس مشکل کام نے ان کے سینہ، ہاتھوں اور ٹخنوں پر سیاہ نشان چھوڑ دیے ہیں۔

تقریباً ۱۲ سال سے یہ کام کر رہے اجے مہتو بتاتے ہیں، ’’ ۱۵ سال کے رہیئے، تہیئے سے اسٹارٹ کے دیلئے را [میں نے ۱۵ سال کی عمر سے ہی تاڑ کے پیڑوں پر چڑھنا شروع کر دیا تھا]۔‘‘

رسول پور گاؤں کے رہنے والے اجے کا تعلق پاسی برادری سے ہے۔ پاسی برادری روایتی طور پر تاڑی نکالنے کا کام کرتی رہی ہے۔ اجے کے خاندان کی بھی کم از کم تین نسلیں اس کام میں شامل ہیں۔

Ajay climbing a palm tree with a pakasi – a black leather or rexine strap, stretched between his feet. He demonstrates (right) how he grabs the trunk of the tree with his fingers intertwined
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Ajay climbing a palm tree with a pakasi – a black leather or rexine strap, stretched between his feet. He demonstrates (right) how he grabs the trunk of the tree with his fingers intertwined
PHOTO • Umesh Kumar Ray

اجے اپنے پیروں کے درمیان پھنسے کالے چمڑے یا ریگزین کے پٹّے – پکسی کے ساتھ تاڑ کے درخت پر چڑھ رہے ہیں۔ وہ دکھاتے ہیں (دائیں) کہ کیسے وہ اپنی انگلیوں کو آپس میں پھنسا کر درخت کے تنے کو پکڑتے ہیں

Years of climbing the rugged trunk of palm trees have left dark calluses on his hands and feet
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Years of climbing the rugged trunk of palm trees have left dark calluses on his hands and feet.
PHOTO • Umesh Kumar Ray

برسوں تک تاڑ کے درختوں کے اوبڑ کھابڑ تنے پر چڑھتے رہنے کی وجہ سے ان کے ہاتھوں اور پیروں پر سیاہ نشان پڑ گئے ہیں

وہ بتاتے ہیں، ’’میں شروع میں پیڑ پر آدھا چڑھتا تھا اور پھر نیچے اتر آتا تھا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ جب وہ چھوٹے تھے، تو ان کے والد اس ہنر کو سیکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔ ’’اُس وقت جب میں تاڑ کے درخت کے اوپر سے نیچے کی طرف دیکھتا، تو مجھے لگتا کہ میرا دل بیٹھ جائے گا۔‘‘

درخت پر اوپر نیچے آتے جاتے ہوئے تنے سے گھسنے کی وجہ سے جسم پر پڑے زخموں کے بارے میں اجے کہتے ہیں، ’’جب میں پہلی بار تاڑ کے درخت پر چڑھا تو میرے سینہ، ہاتھ اور پیروں سے خون بہنے لگا۔ آہستہ آہستہ ان حصوں کی جلد سخت ہوتی گئی۔‘‘

دوپہر کی گرمی سے بچنے کے لیے اجے صبح کو اوسطاً پانچ اور شام کو پانچ تاڑ کے درختوں پر چڑھتے ہیں اور دوپہر کے وقت آرام کرتے ہیں۔ انہوں نے رسول پور میں ۱۰ درخت پٹّہ پر لیے ہیں اور زمین مالک کو ہر درخت کے لیے ۵۰۰ روپے سالانہ یا اسی قیمت کے برابر تاڑ کا رس (تاڑی) ادائیگی کے طور پر دیتے ہیں۔

جھاگ والے رس سے یا تو گڑ بنایا جاتا ہے یا تاڑی بنتی ہے۔ اجے کہتے ہیں، ’’ہم رس کو ایک پیکار [تھوک فروش] کو تقریباً ۱۰ روپے فی بوتل کے حساب سے بیچتے ہیں۔‘‘ ہر بوتل میں تقریباً ۷۵۰ ملی لیٹر رس ہوتا ہے۔ بیساکھ کے مہینوں کے دوران اجے روزانہ ایک ہزار روپے تک کما لیتے ہیں، مگر اگلے نو مہینوں کے دوران ان کی کمائی میں تقریباً ۶۰ سے ۷۰ فیصد تک کی بھاری گراوٹ آ جاتی ہے۔

ویڈیو دیکھیں: تاڑ کے درخت کی چڑھائی

دوپہر کی گرمی سے بچنے کے لیے اجے صبح کو اوسطاً پانچ اور شام کو پانچ تاڑ کے درختوں پر چڑھتے ہیں اور دوپہر کے وقت آرام کرتے ہیں

جب اس کا سیزن نہیں ہوتا، تب اجے مقامی صارفین کو سیدھے اپنے گھر سے ۲۰ روپے فی بوتل کے حساب سے تاڑی بیچتے ہیں۔ ان کی بیوی اور تین بچے اس کام سے ہونے والی آمدنی پر منحصر ہیں۔

سمستی پور، ہندوستان کے اُن سرکردہ ضلعوں میں ہے جہاں سے مرد دوسری ریاستوں میں مہاجرت کرتے ہیں۔ اجے کا سمستی پور میں رہنا اور تاڑی نکالنے کا کام آس پاس کے چلن کے برعکس ہے۔

*****

درخت پر چڑھنے سے پہلے اجے اپنی کمر کے چاروں طرف ایک ڈرباس (نائیلون بیلٹ) کس کر باندھ لیتے ہیں۔ ڈرباس پر ایک لوہے کے اکورا (ہُک) کے ساتھ ایک پلاسٹک کا جار اور ہنسوا (درانتی) لٹکے ہوتے ہیں۔ اجے بتاتے ہیں، ’’ ڈرباس کو اتنی مضبوطی سے باندھنا ہوتا ہے کہ ۱۰ لیٹر رس کے باوجود وہ ہلے نہیں۔‘‘

وہ کم از کم ۴۰ فٹ اونچے تاڑ کے درخت پر چڑھتے ہیں اور جیسے ہی وہ تنے کے پھسلن بھرے آدھے حصے تک پہنچتے ہیں، میں انہیں پکسی سے اپنی جکڑ مضبوط کرتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ یہ چمڑے یا ریگزین کی پٹّی ہے، جو ان کے پیروں کے درمیان ہوتی ہے۔

پچھلی شام اجے نے پہلے سے ہی درخت کی کلی پر چیرا لگا کر ایک خالی لبنی (مٹی کا برتن) لگا دیا تھا۔ بارہ گھنٹے بعد، اجے لبنی میں اکٹھا ہوئے تقریباً پانچ لیٹر رس کو نکالنے کے لیے پھر سے درخت پر چڑھتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بعد میں بتایا کہ اس کنٹینر کے نچلے سرے سے شہد کی مکھیوں، چینٹیوں اور بھنوروں کو دور رکھنے کے لیے حشرہ کش لگانا پڑتا ہے۔

Left: Preparing to climb, Ajay ties a darbas (a belt-like strip) very tightly around his waist. " The darbas has to be tied so securely that even with 10 litres of sap it won’t budge,” he explains.
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Right: Climbing a palm tree in Rasulpur, Samastipur distirct
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: درخت پر چڑھنے کی تیاری کرتے اجے نے اپنی کمر کے چاروں طرف ایک ڈرباس (بیلٹ جیسی پٹّی) کس کر باندھ رکھی ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’ڈرباس کو اتنی مضبوطی سے باندھنا ہوتا ہے کہ ۱۰ لیٹر رس کے باوجود وہ ہلے نہیں۔‘ دائیں: سمستی پور ضلع کے رسول پور گاؤں میں تاڑ کے درخت کی چڑھائی

Left: Ajay extracting sap from the topmost fronds of the palm tree.
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Right: He descends with the sap he has collected in a plastic jar . During the peak season, a single palm tree yields more than 10 bottles of sap
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: اجے تاڑ کے درخت کے سب سے اوپری تنے سے رس نکال رہے ہیں۔ دائیں: وہ پلاسٹک کے جار میں اکٹھا کیے رس کے ساتھ نیچے اترتے ہیں۔ سیزن کے دوران ایک تاڑ کے درخت سے ۱۰ بوتل سے زیادہ رس نکلتا ہے

سب سے اونچے پتّوں کے درمیان جوکھم کے ساتھ بیٹھے اجے، درانتی سے تاڑ کی کلی پر تازہ چیرا لگاتے ہیں۔ وہاں خالی لبنی رکھ کر وہ نیچے اترتے ہیں۔ یہ پورا کام ۱۰ منٹ میں ختم ہو جاتا ہے۔

وقت کے ساتھ رس گاڑھا ہو کر کھٹّا ہو جائے گا، اس لیے اجے مجھے صلاح دیتے ہیں، ’’تاڑ کے تاڑی کو درخت کے پاس ہی پی جانا چاہیے، تب ہی فائدہ ہوتا ہے۔‘‘

تاڑی نکالنا خطروں سے بھرا ذریعہ معاش ہے۔ تھوڑا بھی توازن بگڑنے سے گرنا موت کا باعث بن سکتا ہے یا ہمیشہ کے لیے معذوری کی وجہ بن سکتا ہے۔

اجے مارچ میں زخمی ہو گئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میرا ہاتھ تاڑ کے تنے سے پھسلا اور میں گر گیا۔ میری کلائی میں چوٹ آئی تھی۔‘‘ اس کے بعد انہیں تقریباً ایک مہینہ تک درخت پر چڑھنا بند کرنا پڑا تھا۔ اس سال کی شروعات میں تاڑی نکالنے والے اجے کے چچیرے بھائی کی پیڑ سے گرنے کے بعد کمر اور پیروں کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔

اجے دوسری ہتھیلی اوپر اٹھاتے ہیں اور تاڑ کے کچھ پھل نیچے پھینک دیتے ہیں۔ وہ درانتی سے پھل کی سخت باہری جلد کو چھیلتے ہیں اور اندر کے گودے کا ایک ٹکڑا مجھے دیتے ہیں۔

وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’لیجئے، تازہ تازہ پھل کھائیے۔ شہر میں تو ۱۵ روپے میں ایک آنکھ (گودا) ملتا ہوگا۔‘‘

Ajay will transfer the fresh toddy which has a lather of white foam to a bigger plastic jar fixed to his bicycle
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Ajay will transfer the fresh toddy which has a lather of white foam to a bigger plastic jar fixed to his bicycle.
PHOTO • Umesh Kumar Ray

تازہ تاڑی، جس میں سفید جھاگ جمع ہوا ہے، کو اجے اپنی سائیکل پر بندھے پلاسٹک کے ایک بڑے جار میں ڈالیں گے

Left: Ajay sharpening the sickle with which he carves incisions. Right: Before his morning shift ends and the afternoon sun is glaring, Ajay will have climbed close to five palm trees
PHOTO • Umesh Kumar Ray
Left: Ajay sharpening the sickle with which he carves incisions. Right: Before his morning shift ends and the afternoon sun is glaring, Ajay will have climbed close to five palm trees
PHOTO • Umesh Kumar Ray

بائیں: اجے درانتی کو تیز کر رہے ہیں، جس سے وہ چیرا لگاتے ہیں۔ دائیں: صبح کا کام ختم کرنے اور دوپہر کی دھوپ تیز ہونے سے پہلے اجے تاڑ کے تقریباً پانچ درختوں پر چڑھ چکے ہوں گے

اجے نے تھوڑا وقت شہر میں بھی گزارا ہے، اور ان کے مطابق وہ وقت کافی پریشان کن رہا۔ کچھ سال پہلے وہ عمارتوں کی تعمیر کے مقام پر مزدوری کرنے کے لیے دہلی اور سورت گئے تھے۔ وہاں وہ یومیہ ۲۵۰-۲۰۰ روپے کماتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’وہاں میرا کام کرنے کا من نہیں تھا۔ کمائی بھی کم تھی۔‘‘

تاڑی نکالنے سے جو کمائی ہوتی ہے اس سے وہ مطمئن ہیں۔

یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ تاڑی کے کام میں پولیس کے چھاپے کا خطرہ شامل ہوتا ہے۔ بہار کا شراب بندی اور ایکسائز قانون، ۲۰۱۶ کسی کو بھی خمیر شدہ تاڑی سمیت شراب اور نشہ آور اشیاء ’’بنانے، بوتل میں رکھنے، تقسیم، نقل و حمل، ذخیرہ، پروسیس کرنے، خریدنے، بیچنے یا استعمال کرنے‘‘ کی اجازت نہیں دیتا۔ بہار پولیس نے ابھی تک رسول پور میں چھاپہ ماری نہیں کی ہے، لیکن اجے کہتے ہیں، ’’صرف اس لیے کہ پولیس ابھی تک یہاں نہیں آئی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کبھی نہیں آئے گی۔‘‘

ان کا یہ ڈر اُن جھوٹے معاملوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے جن میں کئی لوگوں کا الزام ہے کہ پولیس نے انہیں پھنسایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس ’’کبھی بھی آ سکتی ہے۔‘‘

اجے یہ خطرہ اٹھانے کو تیار ہیں۔ اپنی ہتھیلی پر کھینی (تمباکو) رگڑتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’یہاں رسول پور میں مجھے اپنی فیملی کے ساتھ رہنے کا موقع ملتا ہے۔‘‘

پھٹھّے (بانس کے ڈنڈے) پر مٹی ڈال کر اجے اُس پر اپنی درانتی کی دھار تیز کرتے ہیں۔ اوزار تیار کرکے وہ دوسرے تاڑ کے درخت کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔

یہ اسٹوری بہار کے ایک ٹریڈ یونینسٹ کی یاد میں دی گئی فیلوشپ کے تحت لکھی گئی ہے، جن کی زندگی ریاست میں حاشیہ پر سمٹی برادریوں کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے گزری تھی۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Umesh Kumar Ray

Umesh Kumar Ray is a PARI Fellow (2022). A freelance journalist, he is based in Bihar and covers marginalised communities.

यांचे इतर लिखाण Umesh Kumar Ray
Editor : Dipanjali Singh

Dipanjali Singh is an Assistant Editor at the People's Archive of Rural India. She also researches and curates documents for the PARI Library.

यांचे इतर लिखाण Dipanjali Singh
Video Editor : Shreya Katyayini

श्रेया कात्यायनी एक छायाचित्रकार आहे आणि चित्रपटनिर्मिती करते. २०१६ मध्ये तिने, मुंबईच्या टाटा इन्स्टिट्यूट ऑफ सोशल सायन्सेस मधून मीडिया अँड कल्चरल स्टडीज मध्ये पदव्युत्तर शिक्षण पूर्ण केले. आता ती पीपल्स आर्काइव ऑफ रूरल इंडियासाठी पूर्ण वेळ काम करते.

यांचे इतर लिखाण श्रेया कात्यायनी
Translator : Qamar Siddique

क़मर सिद्दीक़ी, पारीचे ऊर्दू अनुवादक आहेत. ते दिल्ली स्थित पत्रकार आहेत.

यांचे इतर लिखाण Qamar Siddique