ریلی کے بیچ خاموشی کا مزہ لینے والے، ایم ایس شانت کمار کا نام ان سے پوری طرح میل کھاتا ہے۔ چھتیس گڑھ کے بھلائی اسٹیل پلانٹ کے سابق ملازم اور سنٹر آف انڈین ٹریڈ یونین (سیٹو) کے ایک تجربہ کار کارکن کے طور پر، ان کا عہد شائستہ لیکن پختہ ہے۔ ’’نریندر مودی کے خلاف میری کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے۔ نہ ہی میں راہل گاندھی کے خلاف ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہاں، مجھے ان پالیسیوں سے ضرور پریشانی ہے جن سے لوگوں کو ذلیل ہونا پڑتا ہے۔‘‘
اگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی حکومت چھتیس گڑھ اور پڑوسی ریاستوں، جھارکھنڈ اور مدھیہ پردیش میں ترقی کی عوام مخالف پالیسیوں پر چلتی رہی، تو شانت کمار بتاتے ہیں، ’’انھیں آئندہ الیکشن میں سبق سکھایا جائے گا۔‘‘
وہ پبلک سیکٹر کے اداروں کا پرائیویٹائزیشن اور ناکافی مزدوری کے بارے میں تشویش کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ چھتیس گڑھ میں زمینی حقوق کے محافظوں پر بھی تشویش جتاتے ہیں۔ بات کرتے ہوئے وہ چونکہ ادھر ادھر ہل رہے ہیں، اس لیے کوشش کرتے ہیں کہ اس پوسٹر کے سامنے نہ آئیں جس کے ذریعے حقوقِ انسانی کے کارکنوں کی گرفتاری کی مذمت کی گئی ہے۔
ایسا کرتے ہوئے وہ دہلی کی ۵ ستمبر کی ریلی کے دو اہم پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں – پہلا، مزدوروں اور کسانوں کا بڑھتا گٹھ بندھن اور دوسرا، شہریوں کی آزادی اور اقتصادی حقوق کو مجبوعی طور پر بچانے کی اہمیت۔ ۵ ستمبر کی مزدور کسان سنگھرش ریلی کے منتظمین میں سے ایک، حنان مُلا، جو اکھل بھارتیہ کسان سبھا (اے آئی کے ایس) کے جنرل سکریٹری بھی ہیں، کہتے ہیں، ’’یہ ریلی بعد میں چل کر ایک نئی سمت طے کرے گی۔ یہ کسانوں کی جدوجہد کو دھیرے دھیرے عوامی تحریک میں بدل دے گی۔‘‘
ریلی تین اہم تنظیموں – اے آئی کے ایس، سیٹو اور اکھل بھارتیہ کرشی سنگھ – کے ذریعے بلائی گئی تھی اور مختلف دیگر جماعتوں اور یونینوں نے اسی اپنی حمایت دی تھی۔ اس کے ۱۵ نکات والے چارٹر میں بہت سے مطالبات شامل ہیں، جیسے کہ کسانوں پر بنے قومی کمیشن کے ذریعے ہدایت شدہ قرض معافی اور امدادی قیتوں کو لے کر طویل عرصے سے اٹھائی جانے والی آواز؛ ہمہ گیر سماجی، غذائی اور تغذئی تحفظ؛ سبھی مزدوروں کے لیے کم از کم ۱۸۰۰۰ روپے ماہانہ مزدوری؛ ساتھ ہی شہری علاقوں میں بھی مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی قانون کو مضبوط کرنے اور اسے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
ملا کو امید ہے کہ اُس دن بارش میں، دہلی کے رام لیلا میدان سے پارلیمنٹ اسٹریٹ تک مارچ کرنے والے ملک کی ۲۶ ریاستوں سے آئے ۳۰۰۰۰۰ مزدوروں کا یہ نظارہ، ’’صارف طبقہ‘‘ کی مایوسی کو توڑے گا اور انھیں اس بات کے لیے مجبور کرے گا کہ وہ ملک میں لگاتار بڑھتے زرعی اور معاشی ذرائع کے بحران پر مرکوز پارلیمنٹ کا ۲۱ دنوں کا ایک خاص اجلاس بلانے کے مطالبہ کی حمایت کریں۔
ملا کو امید ہے کہ رام لیلا میدان سے پارلیمنٹ اسٹریٹ تک مارچ کرتے، ملک کی ۲۶ ریاستوں سے آئے ۳۰۰۰۰۰ مزدور ’صارف طبقہ‘ کی مایوسی کو توڑیں گے
ریلی کے شرکاء کی مختلف النوعی، پہلے سے ہی بن رہے وسیع استحاد کو ظاہر کرتی ہے، جسے سبھی یونینوں اور تنظیموں کی طرف سے حمایت مل رہی ہے۔
فاروَرڈ سیمنس یونین آف انڈیا کے کارگزار سکریٹری، ممبئی کے اکشے بیرواڈکر، ایسے کئی طریقوں کے بارے میں بتاتے ہیں جس سے ملک بھر کے کشتی باں پالیسیوں سے متاثر ہو رہے ہیں – ہندوستان کے سمندروں کو غیر ملکی رجسٹرڈ جہازوں کے لیے کھولنے سے اقتصادی تحفظ کم ہو رہا ہے اور ہندوستانی جہاز بانوں کے لیے نوکری سے متعلق بھاری عدم تحفظ پیدا ہو رہا ہے۔ انھوں نے مچھواروں کے لیے بھی تشویش ظاہر کی: ’’لاگت کم کرنے کے لیے، تربیت یافتہ جہازبانوں کے بجائے مچھواروں کو بغیر دستاویز والے جہازبانوں کے طور پر کام پر رکھا جا رہا ہے۔ نتیجتاً، خطرناک حالات میں ان کے پاس کوئی طبی یا جوکھم کور نہیں ہے۔‘‘
ریلی میں یہ حمایت صرف سبھی یونینوں اور تنظیموں کی طرف سے ہی دیکھنے کو نہیں ملی۔ ایک سابق فوجی، مروگاندھی، اپنی بیوی تملارسی کے فوٹو گرافر اور مترجم کے طور پر یہاں ہیں۔ وہ بڑے فخر سے ان کا تعارف ’تمیز کی رانی‘ (تمل) کے طور پر کراتے ہیں۔ پانڈیچیری آنگن واڑی کرمچاری سنگھ کی ایک لیڈر، تملارسی مرکز کے زیر انتظام ریاست کے سبھی چار ضلعوں – پڈوچیری، ماہے، یانم اور کرائیکل – کی آنگن واڑی ملازمین کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ وہ ان کی بڑھتی تشویشوں کو ظاہر کرتی ہیں: ’’میں خود ۳۰ برسوں تک ایک آنگن واڑی ٹیچر رہی ہوں۔ کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد، بڑھاپے میں، ہمیں صرف ۳ لاکھ روپے کی یکم مشت رقم، امپلائیز پروویڈنٹ فنڈ کی شکل میں ملتی ہے، اور کوئی پنشن نہیں؟‘‘ وہ سوال کرتی ہیں۔
ریلی میں ان کے ساتھ آنگن واڑی ٹیچروں میں سے کئی، مروگاندھی کے ترجمہ کے ذریعہ اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں، ’’زندگی بھر ناکافی اور غیر مستقل مزدوری کے لیے کام کرنے کے بعد، بڑھاپے میں بھی بے سہارگی کا خوف۔‘‘ حالانکہ پڈوچیری کے وزیر اعلیٰ (ایک پریس ریلیز کے ذریعے) انھیں ’فلاحی طریقوں کی رہبر‘ مانتے ہیں، لیکن تملارسی بتاتی ہیں کہ سرکار نے آنگن واڑی ملازمین اور معاون خواتین کو سرکاری ملازم کے طور پر مستقل نہیں کیا ہے۔ وہ ابھی بھی انٹیگریٹیڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ سروسز کی ٹھیکہ اسکیم ورکر کے طور پر درج فہرست ہیں، اور صرف ۳۰۰۰ روپے ماہانہ اجرت پاتی ہیں، جب کہ معاون خواتین کو صرف ۱۵۰۰ روپے ملتے ہیں۔
پنجاب کے فتح گڑھ صاحب ضلع سے آئیں اَرجت کور بھی، ۳۰۰۰ روپے سے بھڑکتی ہیں۔ وہ کولکاتا سے آئے لائف انشورنس کارپوریشنز ایجنٹس آرگنائزیشن آف انڈیا کے مظاہرین کو اپنے پاس سے گزرتا دیکھ کر مسکراتی ہیں، جو مناسب پنشن کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ’بی جے پی بھگاؤ، دیش بچاؤ‘ کے نعرے لگا رہے ہیں۔ کور آنگن واڑی ملازمین اور معاون خواتین کی کل ہند یونین کی پنجاب اکائی کی صدر ہیں، اور ان کے پاس وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ایک چیلنج ہے: ’’آپ نے ۲۰۱۴ میں چُنے جانے سے پہلے آنگن واڑی ملازمین سے کئی وعدے کیے تھے۔ کچھ بھی نہیں بدلا ہے، یہیں وجہ ہے کہ آج ہم دہلی میں ہیں۔ آپ امید کرتے ہیں کہ اس اسکیم کے تحت کام کرنے والوں کو دی گئی معمولی رقم سے ہم اپنا گھر چلائیں... ہم چاہتے ہیں کہ آپ ۶۰۰۰ روپے ماہانہ پر ذرا گزارہ کرکے دکھائیں۔‘‘ اپنے غصہ کے باوجود، وہ وزیر اعظم سے اپیل کرتی ہیں کہ وہ ’’ ملکی خواندگی کی پیدل سپاہی ‘‘ کی تنخواہ بڑھا کر دو گنی کر دیں۔
’آپ نے ۲۰۱۴ میں چُنے جانے سے پہلے آنگن واڑی ملازمین سے کئی وعدے کیے تھے۔ کچھ بھی نہیں بدلا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہم دہلی میں ہیں‘
ریلی کے اخیر میں، جھارکھنڈ کے ہزاری باغ ضلع کے ڈاڈی بلاک کے ٹونگی گاؤں کی رہنے والی آنگن واڑی ملازمہ، سوما ماجھی تھک چکی ہیں لیکن امید سے پُر لگتی ہیں۔
وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ یہاں آئی ہیں۔ وہ پہلی بار دہلی آئے ہیں، اور چار سالہ آیوشری کا جوش ’چھٹی‘ کے اس سفر پر دور سے ہی نظر آ رہا ہے۔ اس فیملی کی یہ شاید واحد چھٹی ہے، جو ماجھی کے اس پروگرام سے ممکن ہوا ہے۔ ’’آنگن واڑی ملازم کے طور پر، میں نے کئی سالوں تک کام کیا ہے لیکن (تنخواہ میں) کبھی اضافہ نہیں ہوا۔ ہمیں نہ تو زچکی کی چھٹی ملی ہے اور نہ ہی بیماری کی چھٹی کی اجرت۔ میں دوسروں کے بچوں کی دیکھ بھال گھنٹوں کرتی ہوں۔ یہ بہت قیمتی ہے – یہ چھوٹا سا وقت جو مجھے کافی زمانے کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ گزارنے کو ملا ہے۔‘‘
اس درمیان، پارلیمنٹ اسٹریٹ پر اگلے پروگرام کی تیاری چل رہی ہے – حقوق انسانی کارکنوں کے خلاف ایک احتجاجی ریلی کو لے کر۔ سوما زور سے کہتی ہیں کہ کیا وہ بھی اس میں شریک ہو سکتی ہیں۔ ان کے شوہر جگدیش چندر، جو سیٹو کے رکن ہیں، بتاتے ہیں، ’’وہ دن بھر محنت کرتی ہے، پھر بھی سرکار اسے باقاعدہ ملازم نہیں مانتی۔ سرکار کی پالیسیاں مزدوروں اور کسانوں کے کنبوں کو برباد کر رہی ہیں۔‘‘
اس ریلی کے بعد بھی اگر ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے، تو کیا وہ پھر سے احتجاج کریں گے؟ دہلی میں دوبارہ آنا مشکل ہوگا، لیکن اگر یونین بلاتی ہے، تو ہم آئیں گے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم غیر مہذب شہری نہیں ہیں، لیکن ہمارے پاس اپنے حقوق کے لیے لڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے۔‘‘
کور فوٹو: سنکیت جین
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)