کشن یادو ایک پیڈل والی سائیکل کے ۱۲۰۰ روپے ادا کرتے ہیں۔ اس لین دین کے بعد، وہ اس کی سیٹ اور ہینڈل کے درمیان لگے بار (لوہے کے ڈنڈے) کو مضبوط کرنے پر مزید ۲۰۰ روپے خرچ کرتے ہیں۔ پھر، وہ چین کو یا تو ہٹا دیتے ہیں یا پھر اسے ڈھیلا کرکے لٹکا دیتے ہیں اور سیٹ کو آگے ٹیڑھا کرکے، آسمان کی طرف موڑ دیتے ہیں۔
اب یادو کی سائیکل استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن سواری کرنے کے لیے نہیں – جو کہ چین کے بغیر چلائی نہیں جا سکتی – بلکہ ایک ٹرالی کے طور پر ۲۵۰ کلوگرام کوئلہ لاد کر ۴۰ سے ۶۰ کلومیٹر تک کی دوری طے کرنے کے لیے۔ اتنا سخت اور خطرناک کام انجام دینے کے بعد، وہ ایک دن میں صرف ۱۰ روپے تک ہی کما پاتے ہیں، جو کہ بہار میں کم از کم یومیہ مزدوری کا محض ایک تہائی ہے۔
یادو اپنی سائیکل پر لدے اس کوئلہ کے ساتھ لال مٹیا سے گوڈّا جائیں گے اور پھر وہاں سے واپس آئیں گے۔ اس طرح انہیں پیدل چلنے، راستے میں آرام کرنے اور اسے فروخت کرنے میں کل تین دن لگ جائیں گے۔ ذاتی روزگار کی یہ ایک مشکل ترین شکل ہے جس کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہے، لیکن گوڈا کے تقریباً ۳۰۰۰ کنبوں کی زندگی اسی کے سہارے چل رہی ہے۔
’کوئلہ والے‘ یا ’سائیکل والے‘ کے نام سے مشہور، ان میں سے سبھی لوگ اپنی سائیکل سے ایک پیڈل یا چین کو نہیں ہٹاتے، البتہ وہ ہینڈل اور سیٹ کے درمیان لگے بار کو مزید مضبوط کر لیتے ہیں اور سیٹ کو اوپر کی جانب موڑ دیتے ہیں۔ یادو، تھوڑی حقارت سے کہتے ہیں، ’’انہیں معلوم ہے کہ دائیں جانب کا پیڈل ٹوٹ جائے گا، اور اگر چین کو ڈھیلا نہیں کیا گیا تو اس سے رکاوٹ پیدا ہوگی۔‘‘
گوڈا پہنچ کر یادو جب اپنا کوئلہ فروخت کر لیتے ہیں، تو وہاں سے واپس آنے کے لیے وہ اپنی سائیکل کے پیڈل اور چین کو دوبارہ ٹھیک کرتے ہیں، کیوں کہ لال مٹیا سے ہی انہیں اپنا سامان (کوئلہ) خریدنا ہوتا ہے۔ لیکن وہ اتنا مشکل سفر ایک ہفتہ میں دو بار سے زیادہ نہیں کر سکتے۔ بعض دفعہ، یہ کوئلہ والے اپنی سائیکلوں پر اتنے بھاری بوجھ کو دھکہ دیتے ہوئے ۶۰ کلومیٹر دور، بانکا ضلع میں واقع بونسی تک پیدل چلتے ہیں یا پھر ۸۰ کلومیٹر دور، بانکا کے رجون تک جاتے ہیں۔ کوئلہ والے عام طور پر ۲۰۰ سے ۲۵۰ کلو بوجھ اٹھا کر لے جاتے ہیں، لیکن کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی وہ اس سے بھی زیادہ وزنی بوجھ ڈھوتے ہیں۔ وہاں پر کچھ نو عمر لڑکے بھی (جن کی عمر تیرہ سے پندرہ سال کے درمیان ہو سکتی ہے) کوئلہ کا کم وزنی بوجھ ڈھوتے ہیں۔
حکام کی نظر میں یہ ایک ’’غیر قانونی‘‘ سرگرمی ہے۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ یہ لوگ لال مٹیا میں واقع راج محل کول مائنگ (کوئلے کی کان کے) پروجیکٹ کے کچرے سے انہیں چُننے والوں سے یہ کوئلہ خریدتے ہیں۔ اس پروجیکٹ کی وجہ سے وہاں پر جو کچرے کا انبار اکٹھا ہو جاتا ہے، اس میں کم تر درجے کا تقریباً تین فیصد کوئلہ موجود ہوتا ہے۔
حالانکہ، راج محل کے ایک اعلیٰ عہدیدار اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’’اگر کچرا بیننے والے ان کوئلوں کو نہیں چُنتے تو وہ اُس کوڑے دان میں یوں ہی بیکار پڑے رہتے۔ اور، سائیکل والوں کے ذریعے، یہ توانائی کے انتہائی سستے ذریعہ کے طور پر، گوڈا کے لوگوں تک کبھی نہیں پہنچ پاتے، جو زیادہ تر غریب صارفین ہیں۔ یوں دیکھیں تو، یہ ایک طرح سے قومی بچت ہے۔‘‘
مسائل الجھنے لگتے ہیں کیوں کہ کوئلے کی کانکنی سے متعلق وہاں پر کئی قسم کی غیر قانونی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ تاہم، کوئلے نکالنے اور فروخت کرنے کے دوران تین غیر قانونی شکلیں ابھر کر سامنے آتی ہیں:
- راج محل پروجیکٹ کے ڈپو سے ہونے والی چوری اور کوئلے کی ڈھلائی کے دوران راستے میں ہونے والی چوری۔ لیکن آج تک کسی نے بھی سائیکل والوں پر اس کا الزام نہیں لگایا ہے۔
- بدعنوان اہلکاروں کی مدد سے، طاقتور کوئلہ مافیاؤں کے ذریعے غیر قانونی کانکنی۔ ظاہر ہے، اس طرح کا کام یادو یا پرہلاد پرساد ساہ جیسے سائیکل والوں کے ذریعے نہیں کیا جا سکتا، جو یومیہ ۱۲ روپے سے بھی کم کماتے ہیں۔
- کچرے کے ڈھیر سے انتہائی غریب لوگوں کے ذریعے کوئلہ چُننا۔ سائیکل والے بنیادی طور پر انہی لوگوں سے (یا کوڑے دان کو کنٹرول کرنے والے داداؤں کے ذریعے) کوئلہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں (زیادہ تر عورتیں)، جو بقول سرکاری عہدیدار ’’قومی بچت‘‘ کا کام انجام دے رہے ہیں۔
جیسا کہ راج محل کے ایک سینئر عہدیدار نے تسلیم کیا: ’’تقریباً ۱۰۰۰ سائیکل والے روزانہ کام کرتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ہفتہ میں دو بار سے زیادہ چکر نہیں لگاتا۔ اگر ہم کوئلہ والوں کے ذریعے ’غیر قانونی‘ طریقے سے سال بھر بیچے گئے کوئلے کا حساب لگائیں، تو یہ لال مٹیا کی دو دن کی پیداوار کے برابر نہیں ہوگی۔‘‘
لال مٹیا کے باہر سے شروع کرتے ہوئے، میں بھی ان سائیکل والوں کے ساتھ اس راستے پر وہاں سے ۴۰ کلومیٹر دور، گوڈّا تک گیا۔ حالانکہ یہ دوری بہت زیادہ تو نہیں ہے، لیکن انہیں راستے میں ایک رات رکنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جسمانی طور پر یہ سفر ویسے تو زیادہ تر وقت ناقابل برداشت ہوتا ہے، لیکن ستمبر میں بہت زیادہ پسینہ آنے کی وجہ سے یہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر وہ آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور اونچے نیچے راستوں پر انہیں اکثر اپنے کمر توڑ بوجھ کو دھکیلنا پڑ رہا تھا۔
کوئلے والے ایک قطار میں چلتے ہیں، جس میں کل ۲۰ لوگ تک ہو سکتے ہیں۔ ’’ساتھ چلنے والوں‘‘ کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے، کیوں کہ اگر کوئی بیچ میں پھنس گیا تو دوسروں کی مدد کے بغیر وہ اپنا سفر دوبارہ شروع نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ پانی والے لمبے راستے کو پار کرتے وقت یا تیز ڈھلان پر چڑھائی کرتے وقت، ان میں سے ہر ایک کو مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ میں نے یادو کو اپنے دوستوں کی مدد سے ایک ایسا ہی راستہ پار کرتے ہوئے دیکھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی بوریوں کے نیچے ایک مضبوط لاٹھی لگا کر سائیکل کو ’’کھڑا‘‘ کیا اور دوسرے آدمی کی مدد کرنے کے لیے واپس گئے۔
کوئلہ والے اپنے ساتھ دو وقت کا کھانا لے کر چلتے ہیں۔ کھانا کیا، بس تھوڑا سا چاول اور اس کے ساتھ کچھ باسی سبزیاں ہوتی ہیں – اور دال تو بالکل بھی نہیں ہوتی۔ اپنے کوئلہ کو فروخت کرنے اور دونوں طرف کا سفر کرنے میں انہیں تین دن لگتے ہیں، اس لیے ان میں سے ہر ایک آدمی باقی دن کے کھانے پر مزید ۱۵ روپے خرچ کرتا ہے۔
ان لوگوں کا ایک گروپ جب کھانا کھانے کے لیے گوڈا کے کنارے رکا، تو ان سے مجھے پتہ چلا کہ اس کام کو مختلف ذات کے لوگ کرتے ہیں۔ برہمن اور راجپوتوں کو چھوڑ کر، گوڈا میں جتنی ذات کے لوگ رہتے ہیں وہ سبھی کوئلے کی ’’ری سائیکلنگ‘‘ میں مصروف ہیں۔ منٹو مانجھی دلت ہیں، جو پرہلاد اور ارون ساہ کے ساتھ چل رہے ہیں – یہ دونوں ’بنیا‘ ہیں۔ اس میں یادو، کوئیری، سنتھال اور کئی دوسری ذاتوں کے لوگ بھی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اقتصادی ضرورت نے کچھ حد تک سماجی بندھنوں کو توڑ دیا ہے۔
یہ لوگ اسی مشکل کاروبار سے جڑے ہوئے کیوں ہیں جب کہ حکومت کے ترقیاتی پروجیکٹوں پر کام کرنے سے اس سے کہیں زیادہ پیسے مل سکتے ہیں؟ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ بہار میں اب کم از کم دہاڑی مزدوری ۳۰ روپے ۵۰ پیسے ہے؟ ان سوالوں کو سن کر یہ لوگ زور سے ہنسنے لگتے ہیں۔ مانجھی کہتے ہیں، ’’یہ (مزدوری) ٹھیکہ داروں کے لیے ہے۔ سرکاری پروجیکٹوں پر کام کرنے سے وہ ہمیں اتنے پیسے کہاں دیں گے؟ اگر ہمیں ۲۰ روپے بھی مل گئے، تو ہم کوئی اور کام کر لیں گے۔‘‘
ان کی اپنی تجارت کی معاشیات چونکا دینے والی ہے، جسے اگر گہرائی سے سمجھا نہیں گیا تو یہ گمران کن ہو سکتی ہے۔ کشن یادو سے جب میری پہلی بار ملاقات ہوئی، تو وہ گوڈّا ٹاؤن میں واقع ایک عورت کے گھر پر اس سے ۱۰۵ روپے وصول کر رہے تھے۔ اسے دیکھ کر ایسا لگا کہ ایک بار کی فروخت کے بدلے یہ کافی اچھی رقم ہے۔ لیکن ان کے ساتھ کئی دنوں تک کام کرنے کے بعد ہی مجھے اس پوری مشق کی لاگت کا صحیح علم ہو سکا۔ کوئلے والے لال مٹیا سے ۲۵۰-۳۰۰ کلو کوئلہ ۳۰ روپے میں خریدتے ہیں۔ پھر، ان میں سے ہر ایک مقامی ٹھگ کو ۵ روپے کی رنگداری (زبردستی وصول کی گئی رقم) دیتا ہے۔ اس کے بعد، پولیس والے کو بطور ہفتہ (رشوت کی رقم) ۱۰ روپے دینے پڑتے ہیں۔ لال مٹیا سے گوڈا کے درمیان پانچ پولیس پوسٹ ہیں، جہاں ہر ایک سائیکل سے ۲ روپے وصول کیے جاتے ہیں، اس طرح کل ملا کر یہ رقم ۱۰ روپے ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، ان میں سے ہر ایک کو تین دن کے اس سفر کے دوران کھانے اور دیگر ضروریات پر ۱۵ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
ارون ساہ بتاتے ہیں، ’’ہر ایک چکّر میں، تقریباً ۱۰-۱۵ روپے ہماری سائیکلوں کی مرمت پر خرچ ہوتے ہیں۔ بال بیئرنگ جلدی خراب ہو جاتا ہے اور ہمیں ہر تین مہینے پر ٹیوب، اور بعض دفعہ ٹائروں کو بھی بدلوانا پڑتا ہے۔‘‘ یوں، تقریباً ۷۵ روپے خرچ کرنے کے بعد، انہیں گوڈا میں اپنے کوئلہ کے پورے بوجھ کے تقریباً ۱۰۰ سے ۱۰۵ روپے تک ملتے ہیں (پٹنہ میں، انہیں بیچنے سے ۳۰۰ روپے تک مل سکتے ہیں)۔ اس طرح کل ملا کر جوڑا جائے تو، ان کی تین دنوں کی کمائی صرف ۳۰ روپے ہوئی۔ چونکہ یہ لوگ اس کام کو ہفتہ میں صرف دو بار ہی کر سکتے ہیں، اس لیے ان کی ہفتہ وار کمائی ۶۰-۷۰ روپے سے زیادہ نہیں ہوگی، یعنی ۸ سے ۱۰ روپے یومیہ۔ رجون میں انہیں اپنے کوئلے کی قیمت ۱۵۰ روپے یا اس سے زیادہ مل سکتی ہے۔ لیکن وہاں تک ہفتہ میں ایک بار سے زیادہ سفر کرنا بہت مشکل ہے۔
گوڈا کے ڈاکٹر پی کے درادھیار بتاتے ہیں کہ سائیکل والے ’’ٹی بی، سینے میں شدید درد، زخمی پٹھے، سانسوں سے متعلق امراض اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔‘‘ وہ ان کا شمار اکثر اپنے مریضوں میں کرتے ہیں۔ پرہلاد ساہ بیماری کی وجہ سے ایک مہینے تک کام نہیں کر سکے۔ دیگر کوئلہ والوں کے ساتھ بھی اکثر یہی ہوتا ہے۔ پولیس نے ان کی سائیکل بھی چھین لی تھی۔
ضلعی حکام، ٹرک کے ذریعے گوڈا تک کوئلہ پہنچانے کا ایک نظام بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سائیکل والے اس کے بعد شہر کی حدود کے اندر ہی اپنا کام کر پائیں گے۔ لیکن کوئلہ والوں کو اس پر شک ہے، کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ ایسا کرنے سے ان کا یہ انوکھا ذاتی روزگار چھن جائے گا۔ ان کے زندہ رہنے کی یہی ایک ترکیب ہے جس سے وہ چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔ چاہے اس کے لیے انہیں اپنی گاڑی کو گوڈا اسٹائل میں پھر سے کوئی نئی شکل کیوں نہ دینی پڑے۔
گوڈا کے کوئلہ والوں پر پی سائی ناتھ کا بولتا ہوا البم دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
(میں نے پہلی بار اس ضلع کا دورہ ستمبر ۱۹۹۳ میں کیا تھا۔ اُس وقت گوڈّا بہار کا ہی ایک ضلع ہوا کرتا تھا۔ سال ۲۰۰۰ میں یہ نوتشکیل جھارکھنڈ ریاست کا حصہ بن گیا۔)
یہ اسٹوری مصنف کی کتاب 'Everybody Loves A Good Drought' (Penguin Books) میں شامل ہے۔ اس کا ایک ورژن سب سے پہلے ’دی ٹائمز آف انڈیا‘ میں شائع ہوا تھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز