’’پچھلے سال میں نے صرف پانچ جگہوں پر اپنے فن کا مظاہرہ کیا، ریکھا نارا کوٹی لِنگم کہتے ہیں، جو ایک مرد فنکار اور پتلی باز منڈلی ’شری پرسنن جنے بروندھم‘ کے بانی ہیں۔
۴۸ سالہ کوٹی لنگم ایک ماہر فنکار ہیں، جنہوں نے ۱۲ سال کی عمر سے ہی اس فن میں اپنا کریئر شروع کر دیا تھا اور اب تک ۲۵۰۰ سے زیادہ شو کر چکے ہیں۔ ۲۵ سال پہلے اپنا گروپ شروع کرنے سے قبل، وہ اپنے والد، بالا جی کی منڈلی میں گانا گاتے اور مردنگم بجاتے تھے۔
’’میں نے یہ ہنر اپنے والد سے دیکھا، جنہوں نے اسے اپنے والد سے سیکھا تھا،‘‘ کوٹی لنگم کے ۶۰ سالہ بھائی، ریکھا نارا ہنومنت راؤ کہتے ہیں، وہ بھی اسی منڈلی کا حصہ ہیں۔ ’’ہم ایک بیل گاڑی پر ساز [ڈھول، ہارمونیم، اسٹیج کے سامان] اور روزمرہ استعمال کی اشیاء جیسے برتن اور کپڑے لاد لیتے اور کٹھ پتلی کا شو کرنے کے لیے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جایا کرتے تھے۔‘‘
لیکن اب فنکاروں کو حیدر آباد کے روندر بھارتی، چنئی کی مدراس یونیورسٹی اور تروپتی کے برہموتسو تہوار جیسے ثقافتی مقامات پر اپنا شو دکھانے کے لیے کبھی کبھار ہی مدعو کیا جاتا ہے۔
۱۰ مارچ، ۲۰۱۸ کو انھوں نے اڈنکی شہر میں ’رام راون یدھم‘ پلے پیش کیا۔ انھیں پرکاشم ضلع میں فوک آرٹس کو فروغ دینے والی تنظیم، اڈنکی کلا پیٹھم، کی ۲۰ویں سالانہ تقریب کے ایک حصہ کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ رام اور راون کے درمیان لڑائی پر مبنی اس پلے کو اچھائی اور برائی کے درمیان لڑائی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس پلے کو پیش کرنے کا وقت پروگرام کے اخیر میں طے کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے فنکاروں کو دو گھنٹے کے اس پلے کو چھوٹا کرکے ایک گھنٹہ کا کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ پلے کا وقت دیر رات ۱۱ بجے ہونے کے باوجود مرد اور عورت اسے دیکھنے کے لیے وہیں بیٹھے رہے۔ مانِک یالا راؤ (۷۴)، جو سامعین کے درمیان موجود تھے، نے جمہائی لی اور اپنے ہاتھ میں ایک بیڑی لیے ہوئے بولے، ’’کافی زمانے کے بعد میں نے کٹھ پتلی کا شو دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتنی دیر ہونے کے باوجود میں اسے دیکھنے کے لیے رکا ہوں۔‘‘
کوٹی لنگم کی ۱۰ ممبران پر مبنی یہ منڈلی آندھرا پردیش میں پتلی بازوں کی گنی چنی باقی بچ گئی منڈلیوں میں سے ایک ہے۔ اس منڈلی کے ممبر فنکار، جو تمام کے تمام بنیادی طور سے مہاراشٹر کی آریہ شتریہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں، کوٹی لنگم کے رشتہ دار ہیں۔ یہ لوگ جنوبی ساحلی آندھرا کے گنٹور اور پرکاشم ضلعوں کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر اڈنکی، ڈارسی اور اونگولے جیسے چھوٹے شہروں میں گھوم گھوم کر سامان بیچتے ہیں یا مزدوری کرتے ہیں۔ یہ ایک گروپ کے طور پر تبھی ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں جب پرفارمنس کے لیے کوئی انھیں کرایے پر بلاتا ہے – ہر تیسرے یا چوتھے مہینے میں۔
اپنے آبائی ہنر کی شکل کو چھتر پتی شیواجی کی مراٹھا سلطنت سے جوڑتے ہوئے، منڈلی کی خواتین قائد، ون پارتھی رمن جونے یما (۴۵) بتاتی ہیں کہ شیواجی کے دو بھائی، سیرفوجی اور وینکوجی ۱۷ویں صدی میں مدورئی-تھنجاوور علاقے میں آئے اور آریہ شتریہ برادری کے ذریعہ پتلی بازی سمیت آرٹ کی متعدد شکلوں کو فروغ دیا۔
اس کے بعد کوٹی لنگم اور رمن جونے یما باری باری سے اس کے ابتدا کی کہانی سناتے ہیں: ’’ایک بار، چولا بادشاہ کے دربار میں ایک برہمن کمسالو [ذات؛ اب یہ آندھرا میں کمسالی کے طور پر درج فہرست ہے] سے نفرت کرنے لگا اور بادشاہ کو یہ سمجھانے کے لیے ایک جھوٹی کہانی گڑھی کہ کمسالو اس کے خلاف سازش کر رہے تھے۔ بادشاہ نے بربر طریقے سے کمسالو کا سر کاٹنے کا حکم سنایا۔ چند لوگ جو بچ گئے ان کا ذریعہ معاش چھن گیا اور وہ جنگلوں میں بھاگ گئے۔ وہاں انھوں نے مرے ہوئے جانوروں کے چمڑے سے کھلونے بنانے شروع کر دیے، اس فوک آرٹ کو تیار کیا اور ذریعہ معاش کے طور پر لوگوں کو یہ دکھانا شروع کر دیا۔ اس سے متاثر ہو کر، دوسری ذاتوں کے لوگوں نے بھی اس فن کو سیکھا۔ چھ مہینوں تک رامائن کی اداکاری کرتے ہوئے، انھوں نے بدلہ لینے اور اس برہمن اور راجا کا قتل کرنے کے لیے اسٹیج سے محل تک ایک سرنگ کھودنی شروع کر دی۔ اپنی پیشکش کے آخری دن، جب رام نے راون کو مارا، اسی دن ان لوگوں نے برہمن اور راجا دونوں کا ہی قتل کر دیا اور فن کی اس شکل کو ان لوگوں کے لیے چھوڑ دیا جنہوں نے اسے اپنی دلچسپی کی وجہ سے سیکھا تھا۔ بعد میں، اس آرٹ کو پیش کرنے والے لوگوں کے گروپ کو آریہ شتریہ کے نام سے جانا جانے لگا۔‘‘
’پہلے یہ اداکاری کئی دنوں اور مہینوں تک چلا کرتی تھی۔ لیکن اب ہم لوگ صرف شام کے وقت ہی شو کرتے ہیں،‘ رمن جونے یما کہتی ہیں
یہ اسٹوری اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ کیسے اس برادری کو ۱۸۷۱ کے ’مجرمانہ قبائلی ایکٹ‘ کے تحت سزائیں دی گئیں۔ نوآبادیاتی حکام کے ذریعہ بنائے گئے اس قانون نے چند قبیلوں کو پیدائشی ’مجرم‘ قرار دے دیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی سرگرمیاں، بشمول پبلک پرفارمنس، غیر قانونی واقعات کو چھپانے کے لیے انجام دی جاتی ہیں۔ سال ۱۹۵۲ میں، حکومت ہند نے اس قانون کو منسوخ کر دیا اور ان کی عوامی پیشکش کو جرائم کی درجہ بندی سے خارج کر دیا؛ اب آریہ شتریوں کی درجہ بندی پس ماندہ ذات کے تحت کی گئی ہے۔
آرٹ کی اس شکل کی ذات پر مبنی ابتدا، اور روایتی طور سے نچلی سطح کے سامعین کو دیکھتے ہوئے، (تیلگو میں) پلے نے کہانیوں میں رامائن اور مہابھارت جیسی ہندی کتابوں اور خیالی داستانوں سے برہمن مخالف نظریات کو متعارف کرایا۔ ہر پلے میں ۷ سے ۱۰ کٹھ پتلیاں ہوتی ہیں، جسے اداکاری کرنے والے بکری کی کھالوں سے خود بناتے ہیں اور پرانا ہو جانے پر انھیں بدل دیتے ہیں۔ ’’ہم نے سندر کانڈ، ماہی راون چرتر، لکشمن مورچہ، اندرجیتھونی وَدھ، کمبھ کرنودی ودھ، پدماویوہم، وِراٹ پروَم، کیچک ودھ وغیرہ جیسے پلے پیش کیے ہیں،‘‘ کوٹی لنگم بتاتے ہیں۔
سُندر کانڈ ، جسے کوٹی لنگم اکثر و بیشتر پیش کرتے ہیں، ان کا سب سے پسندیدہ پلے ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے انھیں سب سے زیادہ انعامات ملے ہیں۔ یہ رامائن پر مبنی ہے، لیکن پتلی باز راون کے نظریہ سے کہانی بیان کرتے ہیں، اور اسے کہانی کا ہیرو بنا دیتے ہیں۔
’’پہلے یہ پیشکش کئی دنوں اور مہینوں تک چلا کرتی تھی۔ شروع سے اخیر تک رامائن کو مکمل کرنے میں چھ مہینے لگتے ہیں۔ لیکن اسے پیش کرنے کی جگہوں میں تبدیلی اور جن لوگوں کے لیے ہم اسے پیش کر رہے ہیں، ان کے بدل جانے کی وجہ سے اب ہم اسے صرف شام کے شو میں پیش کرتے ہیں،‘‘ رمن جونے یما کہتی ہیں۔ اس گروپ کو مقام کی بنیاد پر، ۲ سے ۴ گھنٹے کے شو کے لیے ۱۰ ہزار سے ۳۰ ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔
بالاجی کی منڈلی، جس میں کوٹی لنگم اور ہنومنت راؤ دونوں کو ہی پہلے پتلی بازی کی ٹریننگ دی گئی، نے پرکاشم اور گنٹور ضلعوں کے ۱۰۰۰ گاؤوں میں اس فن کا مظاہرہ کیا۔ یہ گروپ میراثی نظام، جو نظریاتی طور پر براہمن اگرہارا جیسا ہی ہے، کے تحت ہر ایک گاؤں میں ایک یا دو مہینے ٹھہرتا اور ادا کاری کرتا۔ ہر منڈلی کو چند مخصوص گاؤوں میں ’اداکاری کا خصوصی حق‘ دیا جاتا – جسے میراثی کہتے – اور ان کی اداکاریاں انہیں گاؤوں تک محدود رہتیں۔
’’ہمارے پاس یہی واحد ملکیت ہوا کرتی تھی۔ بیٹوں [بیٹیاں نہیں] نے میراثی گاؤوں کو اپنے درمیان بانٹ لیا اور خود اپنی منڈلی شروع کر دی۔ ہماری تمام ضروریات [روٹی، کپڑا، مکان] کو پورا کرنے کی ذمہ داری گاؤوں والوں نے لے لی، اس کے علاوہ ادا کاری سے ہمیں دھان اور پیسے بھی ملا کرتے تھے،‘‘ کوٹی لنگم بتاتے ہیں۔ اب جب وہ اداکاری نہیں کر رہے ہوتے ہیں، تو اپنے آبائی وطن، اڈنکی میں، گلیوں میں گھوم گھوم کر چھاتے اور دیگر چھوٹے سامان بیچتے ہیں – اور ایسا سال کے زیادہ تر دنوں میں کرتے ہیں۔ ہنومنت راؤ اسٹیج کے علاوہ کہیں اور کام نہیں کرتے، اور رمن جونے یما پرکاشم ضلع کے ڈارسی میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی ہیں۔
’’کٹھ پتلی کا شو دیکھنے زیادہ تر عورتیں آیا کرتی تھیں۔ اس کے بعد جب ٹیلی ویژن ہر گھر کا ایک ضروری سامان بن گیا، تو وہ اپنے گھروں کے اندر ہی رہنے لگیں، جہاں وہ ٹی وی پر سیریل دیکھتی ہیں،‘‘ اڈنکی کے ایک ریٹائرڈ تیلگو ٹیچر اور ثقافتی کارکن جیوتی چندر مولی بتاتے ہیں، جو گزشتہ ۳۵ برسوں سے فوک آرٹسٹس کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
یہ ایک وجہ ہے جس کی وجہ سے پتلی بازوں کو غیر روایتی ’غیر ہنرمند‘ جاب سیکٹر میں کام کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کوٹی لنگم کے چار بچوں میں سے کسی نے بھی پتلی بازی کا کام نہیں سیکھا ہے، بجائے اس کے وہ اڈنکی کے آس پاس تعمیراتی مقامات پر یا مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہنومنت راؤ اور رمن جونے یما کے بچوں نے بھی پتلی بازی نہیں سیکھی ہے۔
’’تقریباً ۱۰ سال قبل [پرکاشم ضلع میں] چھ پتلی منڈلیاں اور ۱۵ منڈلیاں ہوا کرتی تھیں جو اسٹریٹ پلے کیا کرتی تھیں۔ اب آپ کو مشکل سے کوئی ملے گا۔ آرٹ کی دیگر شکلیں جیسے نیمالی آٹا [مور کا کھیل] اور بھُٹا بومالو [ٹوکری میں کھلونے] پہلے ہی غائب ہو چکی ہیں،‘‘ چندرمولی کہتے ہیں۔ ان کی تشویشوں کو دوہراتے ہوئے، کوٹی لنگم کہتے ہیں، ’’کٹھ پتلی کے فنکاروں کی یہ آخری نسل ہوگی۔ آج سے دس سال بعد، آپ ہمارے بارے میں صرف کتابوں میں پڑھیں گے اور ہماری اداکاری کی تصویریں دیکھیں گے۔ لائیو دیکھنے کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔‘‘
’’اس زمانے میں، گاؤوں میں لوگ فو ک آرٹس کو برقرار رکھتے تھے،‘‘ ہنومنت راؤ کہتے ہیں۔ ’’اب، حکومت ہم پر کوئی دھیان نہیں دیتی۔ ہم نے ان سے کہا کہ وہ مذہبی مقامات اور اسکولوں کے قریب ایسی پیشکش کی حوصلہ افزائی کریں، لیکن انھوں نے کبھی توجہ نہیں دی۔‘‘ فنکاروں کو ریاست کی طرف سے مالی امداد، گرانٹ، پنشن، شناختی کارڈ – کچھ بھی نہیں ملا ہے۔ ’’ہر ماہ پانچ سے چھ شو کرکے ہمارے پیٹ بھر جاتے ہیں اور یہ فن زندہ ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں، انھیں اب بھی امید ہے کہ ان کی وراثت ان کے ساتھ ختم نہیں ہوگی۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)