’’اَکّا، آپ میرے امتحان کوچیری میں تہِ دل سے مدعو ہیں۔ برائے مہربانی اپنی فیملی اور دوستوں کو لے کر ضرور آئیے گا،‘‘ کالی ویر پڈرن نے مجھے فون کرکے کہا اور چنئی میں واقع ہندوستان کے مشہور ڈانس اسکول، کلاشیتر میں اپنے فائنل امتحان کے لیے دعوت دی۔ اور، تھوڑی دیر کے وقفہ کے بعد، انہوں نے مجھ سے نہایت نرم لہجہ میں پوچھا، ’’کیا یہ صحیح انگریزی ہے، اَکّا؟‘‘
کالی کو معلوم نہیں تھا، کیوں کہ تقریباً چار سال پہلے تک وہ انگریزی سے بہت زیادہ واقف نہیں تھے۔ یہی نہیں، وہ ڈانس سے بھی بہت زیادہ شناسا نہیں تھے۔ لیکن اب، وہ کلاسیکی بھرت ناٹیم کے ساتھ ساتھ کرگٹّم، تھپتّم اور اوئیلاتم میں بھی مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ تینوں تمل ناڈو کے تین قدیم علاقائی ڈانس ہیں۔ اور، انہوں نے یہ سارے ڈانس اس میدان کی سب سے بہترین جگہ سے سیکھے ہیں۔
کالی کی فیملی، جسے وہ ہندو آدی دراوڈرس (ایک دلت برادری) بتاتے ہیں، کوولَم میں رہائش پذیر ہے، جو کہ چنئی کے قریب پریشان حال ماہی گیروں کا ایک گاؤں ہے۔ ۲۱ سالہ کالی کے والد کا انتقال تبھی ہو گیا تھا، جب وہ ایک چھوٹے بچہ تھے۔ ’’میں اس وقت شاید چھ یا سات مہینے کا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں، جذبات سے عاری۔ ان کے جذبات ان کی بیوہ ماں کے لیے محفوظ ہیں، جنھوں نے تب ایک بڑی فیملی کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لے لی اور قلی کا کام کرنے لگیں۔ ’’میری تین بڑی بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ جب ایک بھائی کی موت دماغی بخار کی وجہ سے ہوگئی، تو میں اپنی دادی کے گھر سے، جہاں پر میں تب تک رہا کرتا تھا، اپنی ماں کے گھر چلا آیا۔‘‘
ان کی ماں کا گھر تب پختہ نہیں تھا، جیسا کہ اب ہے۔ چنئی کے خراب موسم کے دوان اس گھر کی حالت نہایت خستہ ہو جایا کرتی تھی، اس کے بعد حکومت نے ان کے سروں پر پختہ چھت کا انتظام کرنے کا اعلان کیا۔ کالی اس کے لیے حکومت کے شکر گزار ہیں، ٹھیک ویسے ہی، جیسے وہ ہر اُس فرد کے شکرگزار ہیں، جس نے ان کے خوابوں کو پورا کرنے میں ان کی مدد کی۔
کالی کا خواب ڈانس (رقص) کرنے کا ہے، جو کہ اپنے آپ میں منفرد نہیں ہوسکتا۔ لیکن کالی ڈانس کی دو مختلف قسموں میں مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں، ان دونوں ڈانس اسٹائل کو ایک دوسرے سے ملانا ویسا ہی ہے، جیسے تیل اور پانی کو ملانا۔ ان میں سے ایک بھرت ناٹیم ہے، ڈانس کی بہت ہی بنیادی اور کلاسیکی شکل، جسے پہلے دیوداسیاں (وہ لڑکیاں جنھیں زندگی بھر کے لیے مندروں اور اس کے پجاریوں کو بھینٹ کر دی جاتی تھیں) استعمال کرتی تھیں، اور آج، بدقسمتی سے، اس کی سرپرستی زیادہ تر اونچی ذات اور پیسے والے لوگ کرتے ہیں، جو پہلے ان (دلتوں) سے دور رہا کرتے تھے۔ دوسرا ہے ’فوک ڈانس‘، ایک ایسی اصطلاح جو کئی صدیوں پرانے ڈانس کی مختلف قسموں کو ایک ساتھ جمع کرتی ہے، اور جس کا چلن تمل ناڈو کے گاؤوں میں آج بھی ہے۔
ضابطہ کے مطابق، بھرت ناٹیم کے ڈانسر فوک ڈانس میں مہارت حاصل نہیں کر سکتے، جب تک کہ ان کے پروڈکشن کو کرگم یا کوڈی سے ٹکرانے کے لیے بلایا نہ جائے۔ بہت کم لوگوں نے اس کی سخت ٹریننگ لی ہے، اسے پیشہ ورانہ طور پر پیش کرنے کی بات تو چھوڑ ہی دیجیے۔ کالی کے فوک ڈانس ٹیچر، کَنَّن کمار (پورے تمل ناڈو میں یہ واحد کل وقتی استاد ہیں) بتاتے ہیں کہ فوک ڈانس (مقامی رقص) ایک بنیاد یا دیوار کی طرح ہے اور متعلقہ بھرت ناٹیم، جس میں کہانی بیان کرنے کے لیے مُدراؤں کا استعمال کیا جاتا ہے، اس پر ایک پینٹنگ کی طرح ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ دونوں رقص ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اور کالی ایک قدم آگے جاتے ہوئے، دونوں کی پریکٹس کرتے ہے اور وہ بھی بغیر کسی ٹکراؤ کے۔
دراصل، کالی کو ٹکراؤ کا سامنا صرف ایک بار کرنا پڑا تھا، جب انہوں نے اسکول کے بورڈ امتحانات مکمل کیے تھے۔ انہیں خود ہی یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ سب سے فطری اور عقل مندی پر مبنی فیصلہ یہ تھا کہ وہ کوئی نوکری کر لیں۔۔۔ ان کی گھریلو حالت کو پیسوں کی ضرورت تھی۔ لیکن تبھی، ان کی چچی نے انہیں کوولم کے قریب، جنوبی ہندوستان کے ہیریٹیج میوزیم، دکشن چتر میں مفت فوک ڈانس کلاسز کے بارے میں بتایا۔ کالی ایک نظر میں ہی اس کے گرویدہ ہو گئے۔ وہ تیزی سے کلاس میں آگے بڑھتے گئے اور صرف دو مہینوں کے اندر انہوں نے کرگٹّم، اوئیلاتم اور تھپتّم میں مہارت حاصل کر لی۔ ان کے استاد کنن کمار نے خوش ہوتے ہوئے انہیں چوتھا ڈانس، دیورَتّم بھی سکھانا شروع کر دیا۔ تب جاکر، کالی کا داخلہ کلاشیتر میں ہوا، ڈانس میں چار سالہ ڈپلومہ کورس کے لیے۔
چند سال پہلے تک کا لی نے کلاشیتر کا نام تک نہیں سنا تھا۔ سارہ چند (جنھوں نے ان کو اسپانسر کرنے کا فیصلہ کیا) نے سب سے پہلے ان کے ہنر کو پہچانا، جب وہ سونامی باز آبادکاری مرکز کے لیے کوولم میں ڈانس کر رہے تھے۔ انھوں نے ان سے کہا کہ انہیں کلاشیتر میں اس آرٹ کو باقاعدگی کے ساتھ سیکھنا چاہیے۔ کالی نے انٹرویو پاس کر لیا اور اس طرح انہیں وہاں داخلہ مل گیا، حالانکہ دور کے چاچا، چاچیوں نے ان کی کافی حوصلہ شکنی کی کہ وہ ڈانس سیکھ کر کیا کریں گے۔ انہوں نے پہلی رکاوٹ کو عبور کر لیا تھا۔ لیکن دوسری رکاوٹیں ابھی ان کا انتظار کر رہی تھیں۔
تمل میڈیم اسکول کے ایک لڑکے، جس نے بھرت ناٹیم اور کلاسیکل میوزک کو کبھی نہ دیکھا اور محسوس کیا ہو، اس کے لیے کلاشیتر شروع میں کافی خوفناک محسوس ہوتا تھا۔ کھانا پوری طرح سبزیوں پر مشتمل تھا، یہاں گوشت کا نام و نشان تک نہیں تھا، جو وہ پہلے شوق سے کھایا کرتے تھے؛ اور ان کی قوت برداشت خوفناک تھی۔ ’’میں تب ایک موٹا لڑکا تھا!‘‘ کالی ہنستے ہوئے کہتے ہیں، اور مجھے دکھاتے ہیں کہ وہ کیسے ڈانس کیا کرتے تھے، کمر باہر نکلی ہوئی، ان کے پیر پھیلے ہوئے اور ہاتھ بے اعتبار۔ وہ کیمپس میں (بہت سارے) غیر ملکیوں سے کچھ حد تک بہتر تھے، وہ انھیں کی طرح ثقافتی طور پر سمجھدار تھے، لیکن انگریزی زبان میں بات چیت کرنے سے پوری طرح قاصر تھے۔
اس طرح انہوں نے ڈانس کرنا شروع کی۔ الفاظ کی جگہ انہوں نے ہاؤ بھاؤ کا استعمال کیا؛ جلد ہی غیر ملکیوں کے سامنے ان کی شرمندگی جاتی رہی، اور انہوں نے پہلی سال کے طلبہ کے دن کے موقع پر ان میں سے کئی غیر ملکیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا، جہاں انہوں نے روسی اور جنوبی افریقہ کی لڑکیوں سے اوئیلاتم ڈانس کروایا۔ اس وقت کی کلاشیتر کی ڈائرکٹر لیلا سیمسن نے ان کی اس کوشش کی تعریف کی تھی۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ انہوں نے اپنے کلاس میں ٹاپ کیا۔ ان کی خود اعتمادی بڑھتی گئی، ساتھ ہی ان کا علم بھی۔
اب، کالی ایک جھٹکے میں راگوں کو پہچان سکتے ہیں۔ مقدس رُکمِنی ارنگم، کلاشیتر کی بانی اور مشہور رقاصہ رُکمنی دیوی ارونڈیل کے نام سے منسوب، میں پرفارمنس کے دوران وہ راگوں کے بارے میں اندازہ لگاتے ہیں اور اپنے کئی دوستوں میں سے ایک سے پوچھتے ہیں کہ کیا وہ صحیح ہے۔ وہ عام طور پر صحیح ہوتا ہے۔ اور ان کا ڈانس اُن ابتدائی دنوں سے چل کر یہاں تک پہنچا ہے، جہاں اب ان کے قدم (آداووس) درست، اور باوَم (اظہار) بالکل صحیح ہوتے ہیں۔
یہیں رُکمِنی اَرَنگم میں ان کا امتحان کوچیری (اظہارِ فن) ۲۸ مارچ ۲۰۱۴ کو ہوا۔ آٹھ اسٹوڈنٹس پر مشتمل ان کے بَیچ نے پورے میک اَپ کے ساتھ، اسٹیج پر مکمل مارگم (ڈانس کا مجموعہ، ترتیب وار پیش کرنا) پیش کیا۔ ان کی کلاس ٹیچر، اِندو ندیش، جنھوں نے انہیں اور ان کے ہم جماعتوں کو ٹریننگ دی تھی، وہ نٹّووانگم پر تھاپ دیتی رہیں۔ انھیں اپنی کلاس پر ناز ضرور رہا ہوگا؛ سامعین کو تو بالکل تھا۔
کالی کی ماں، ان کا بھائی رجنی (جو کوولم میں اِڈلی کی دکان چلاتا ہے)، ان کی تین بہنیں اور ان کے گھر والے، ان کے دوست، یہ سبھی لوگ کلاشیتر میں ان کی کوچیری کو دیکھنے آئے تھے۔ میں نے کالی کی شاندار کارکردگی پر جب رجِنی کو جاکر مبارکباد دی، تو انہوں نے حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں ڈانس کی یہ ساری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ ہم تو صرف یہاں، باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ خوشی کی بات ہے کہ آپ کو یہ سب اچھا لگا۔‘‘ تب تک کالی ان سبھی کو دیکھنے کے لیے باہر آ چکے تھے۔ انہوں نے اپنی ماں کو گلے لگایا، اپنی فیملی کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں۔ لیکن ان کے دوست کلاس کی فوٹو کے لیے انہیں آواز لگا رہے تھے۔ وہ جیسے ہی اندر بھاگے، انہوں نے کنَّن کمار کو دیکھا۔ جھک کر انہوں نے ان کے پیر چھوئے۔ ان کے ٹیچر نے پسینوں سے بھیگے ہوئے ان کے کندھے کو پکڑ کر اوپر اٹھایا اور سینے سے لگا لیا۔ ٹیچر کی آنکھوں میں فخریہ احساس تھا، جب کہ اسٹوڈنٹ کی آنکھوں میں خوشی۔
’’میں ان میں آرٹ کی کسی بھی شکل کو نہیں چھوڑ سکتا،‘‘ کالی کہتے ہیں۔ وہ خوش اور مطمئن ہیں کہ ان کا امتحان اب ختم ہو گیا۔ ان پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے جب وہ یہ سنتے ہیں کہ وہ فرسٹ کلاس سے پاس ہوئے ہیں، اور انتہائی خوش ہوجاتے ہیں، جب انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کا داخلہ کلاشیتر میں بھرت ناٹیم کے پی جی ڈپلومہ میں ہو گیا ہے۔ اور اب، کالی فوک ڈانس کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ پرعزم ہیں، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ رقص کی یہ قسمیں اب ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ یہ ان لوگوں تک بھی بھرت ناٹیم کو پہنچانا چاہتے ہیں، جنھوں نے اس کی خوبصورتی کا پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔ ’’ایک کلاس فوک کی، ایک کلاس بھرت ناٹیم کی۔ میں دونوں پڑھانا چاہتا ہوں، میں ایک ڈانس اسکول بنانا چاہتا ہوں، میں پیسے کمانا چاہتا ہوں، میں اپنی ماں کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہوں، میں ڈانس کرنا چاہتا ہوں،‘‘ اور نوجوان ڈانسر اسی طرح اپنے خوابوں کی فہرست گِناتا چلا جاتا ہے۔
ویڈیو دیکھیں ۔ کالی: ڈانسر اور ان کے خواب: