کالا ہانڈی ضلع کی ویدانتا ایلومینیم ریفائنری سے تقریباً ۱۱۰ کلومیٹر دور واقع کرلا گاؤں کے دلت شاعر، گلوکار اور کارکن، راج کشور سُنانی کہتے ہیں، ’’میں بچپن سے ہی ایک باغی رہا ہوں۔ میں نا انصافی کے خلاف آواز اٹھاتا ہوں۔ میں نے ۰۳-۲۰۰۲ میں [نیامگیری کی پہاڑیوں میں باکسائٹ کی کانکنی کے خلاف] تحریک میں شرکت کی تھی۔ لوگوں کو بیدار کرنے کے لیے میں نے گیت لکھے، اور گاؤں گاؤں گھوم کر اس تحریک کا پیغام پہنچایا۔‘‘
راج کشور اُن دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اُس وقت، میں اپنی بیوی لیلابتی کے ساتھ یہاں کے گاؤوں میں رہتا اور گیت گاتا تھا۔‘‘ ان دونوں میاں بیوی کو لوگ اپنے گھروں میں بلاتے اور انہیں کھانا اور رہنے کی جگہ دیتے تھے۔ اپنے گاؤں میں معمولی کسان ہونے کی وجہ سے ان کے پاس اُس وقت آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اس لیے یہ آدیواسیوں کے رحم و کرم پر گزر بسر کرتے تھے۔ راج کشور بتاتے ہیں، ’’ویدانتا کے خلاف احتجاج کرنے کی وجہ سے میں اور میری بیوی کو ۲۰۰۴ میں جیل بھی جانا پڑا تھا۔ مجھے تین مہینے تک حراست میں رکھا گیا، جب کہ لیلابتی کو ایک مہینہ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ آج بھی، سرکار اور [کانکنی] کمپنیوں کے ساز باز کی وجہ سے عوامی تحریکوں کو کچلا جا رہا ہے۔‘‘
جنوب مغربی اوڈیشہ کے کالا ہانڈی اور رائے گڑھ ضلعوں میں پھیلی ہوئی نیامگیری پہاڑیاں، ڈونگریا کوندھ (ان میں سے کئی لوگ خود کو جھرنیا کوندھ بھی کہتے ہیں) آدیواسیوں کا مسکن ہے، جو خاص طور سے کمزور قبائلی گروپ (پی وی ٹی گی) کے زمرہ میں آتا ہے۔ ان کی کل آبادی تقریباً ۸ ہزار ہے، جو دیگر آدیواسی گروپوں کے ساتھ اس خطہ کے تقریباً ۱۰۰ گاؤوں میں رہتے ہیں۔
ڈونگریا قبیلے کے لوگ طویل عرصے سے، سرکاری ملکیت والی برطانوی ملٹی نیشنل کمپنی، اوڈیشہ مائننگ کارپوریشن اینڈ اسٹرلائٹ انڈسٹریز (اَب، ویدانتا) کے پروجیکٹ کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ اس پروجیکٹ کے تحت اُن کی مقدس پہاڑیوں سے باکسائٹ (جس کا استعمال المونیم بنانے میں ہوتا ہے) کی کانکنی کرنے کی تجویز ہے، جسے ریاست کی لانجی گڑھ تحصیل میں واقع ویدانتا کی ریفائنری میں سپلائی کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے ۲۰۱۳ میں، نیامگیری کے ارد گرد ۱۲ گاؤوں میں ان کی زمین کی کانکنی سے متعلق ایک ریفرنڈم کروایا تھا، جسے آدیواسیوں نے متفقہ طور پر مسترد کر دیا تھا۔ اس تحریک کی قیادت آدیواسیوں کی ایک تنظیم، نیامگیری سُرکشا سمیتی، اور راج کشور جیسے کئی کارکنوں نے کی تھی۔
اوڈیشہ حکومت نے تبھی سے اس ریفرنڈم کو کئی بار پلٹنے کی کوشش کی ہے (حالانکہ اسے کامیابی نہیں ملی ہے)، اور ریفائنری کو دوسرے ذرائع سے باکسائٹ ملنا جاری ہے۔ اس لیے آدیواسیوں کی آبائی زمین پر خطرہ اب بھی منڈلا رہا ہے۔
ڈھپ بجا کر پہاڑیوں کی خوبصورتی سے متعلق گیت گاتے ہوئے سُنانی کہتے ہیں، ’اسی قسم کی تحریکوں کے ذریعے کچھ حد تک دنیا کی ماحولیات کا تحفظ کیا جا رہا ہے، ورنہ سب کچھ تباہ ہو جاتا‘
راج کشور سے اس سال میری ملاقات، نیامگیری پٹھار (سطح مرتفع) میں، انلا بھاٹا گاؤں کے قریب سالانہ فصل کٹائی کے بعد لگنے والے میلہ میں ہوئی۔ وہ دشوار گزار پہاڑی راستوں سے چھ کلومیٹر چل کر وہاں پہنچے تھے۔ یہ میلہ ہر سال ۲۳ سے ۲۵ فروری تک لگتا ہے، اور نیام راجا (ایک طرح سے بادشاہ، یا قانون عطا کرنے والا) کو وقف ہے۔ دوسرے دن کی شام اور آخری دن کی صبح کو، جب کارکنوں نے عوامی تحریکوں سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا، تب راج کشور نے بھی گیت گائے۔ جب انہوں نے گانا شروع کیا، تو وہاں کافی لوگوں کا مجمع اکٹھا ہو گیا تھا۔
وہ پورے جوش سے گاتے ہیں اور ساتھ ہی ڈھپ (دف) بھی بجاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے ارد گرد ایک بڑا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے۔ نیامگیری کی عوامی تحریکوں کے علاوہ، انہوں نے دیگر لڑائیوں کے بارے میں بھی گیت لکھے ہیں، جس میں بارگڑھ ضلع کی گندھا مردھن پہاڑیوں میں بھارت ایلومینیم کمپنی (بالکو) کے ذریعے کی جا رہی باکسائٹ کی کانکنی کے خلاف چلنے والی تحریک بھی شامل ہے۔
راج کشور ۵۵ سال کے ہیں اور دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے گلوکار اور کارکن ہیں۔ وہ سماجوادی جن پریشد (سماجوادی لیڈر کشن پٹنائک کے ذریعے قائم کردہ سیاسی پارٹی) کے بھی رکن ہیں، جس نے نیامگیری اور اوڈیشہ کے دوسرے گاؤوں میں عوامی تحریکوں کی حمایت کی ہے۔
میں نے اُن سے سوال کیا: جن تحریکوں میں آپ شامل رہے ہیں، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں، ’’اسی قسم کی تحریکوں کے ذریعے کچھ حد تک دنیا کی ماحولیات کا تحفظ کیا جا رہا ہے، ورنہ سب کچھ تباہ ہو جاتا۔‘‘ اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ کبھی تباہ نہ ہو، وہ اپنا ڈھپ بجاتے ہیں اور پہاڑیوں کی خوبصورتی کے بارے میں گانا شروع کر دیتے ہیں۔ نیچے کی ویڈیو میں آپ انہیں گاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں (گیت کا ترجمہ ویڈیو کے نیچے موجود ہے):
نیامگیری کا گیت
کبھی چھوڑیں گے نہیں ہم پہاڑ، ندیاں، جنگل
اور اپنے گھر
چھوڑیں گے نہیں اپنی لڑائی، چاہے چلی جائے اس
میں اپنی جان
چھوڑیں گے نہیں اپنی لڑائی، اے دوست!
پہاڑ، جنگل اور ندیاں ہیں ہمارے دیوتا
پھول اور پھل سے لدی یہ دھرتی جیسے کہ ہو
کوبیر [ہندوؤں کے دولت کے دیوتا]
پہاڑ، جنگل، زمین اور ندیاں ہیں ہمارے
دیوتا، اے دوست
مٹی، پانی، ہوا، آسمان اور آگ ہیں ہمارے
دیوتا
’ہمیشہ کچھ نہ کچھ دینے والے‘ ہیں ہمارے دیوتا – ہماری جان ہیں
ہمارے دیوتا
پہاڑ، جنگل، زمین اور ندیاں ہیں ہمارے
دیوتا، اے دوست
یہ ہیں ہمارے بھ گ با ن: ’بھ‘ سے بھومی
[زمین]، ’گ‘ سے گگن [آسمان]، ’با‘ سے بایو [ہوا] اور ’ن‘ سے نیر [پانی]
ہریالی، درخت، پھل اور قند دیتی ہے زمین
ہوا، اور ندیوں کے لیے پانی دیتا ہے آسمان
ماں کے دودھ کی طرح بہتا ہے یہ پانی
ہم اپنی ماں کا پیتے ہیں دودھ، اے دوست
اپنے دیوتاؤں کو چھوڑ کر تم تو رہ سکتے ہو
زندہ،
لیکن اپنے دیوتا کو چھوڑ کر ہم نہیں رہ
سکتے زندہ
یہ صحیح ہے یا غلط، ہمیں نہیں معلوم
قدرت کو چھوڑ کر کیسے تم رہ سکتے ہو زندہ؟
یہی سائنس تو ہے سچ، اے میرے عزیز!
سچ کو مانو، اے میرے دوست!
اور جھوٹ کو ٹھکراؤ!
پہاڑ، زمین، جنگل اور ندیاں ہیں ہمارے
دیوتا
جنگل، پھل، قند اور جانوروں سے بھری ہے یہ
ہماری زمین
ہم ہیں نہ تو ہندو، نہ مسلمان اور نہ ہی
عیسائی
ہم ہیں آدیواسی اور قدرت کے پجاری
ہم سبھی ہیں برابر، چاہے ہو کوئی مرد یا ہو
کوئی عورت، اے دوست
ہمیں ملی ہے ہر قسم کی آزادی یہاں، اے دوست
حکومت اور کارپوریٹ دباتے ہیں ہمیں، اے
دوست
سب ہیں ملے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ
پہاڑ، زمین، جنگل اور ندیاں ہیں ہمارے
دیوتا
ہم ہی بچائیں گے جنگل، زمین، پانی، جانور
اور انسان
ماحولیات کے ختم ہوتے ہی، ہو جائے گی ہم
سبھی کی موت
ہم کسان، مزدور اور دہاڑی کارکن، سب ہوں گے
متحد
مار بھگائیں گے لوٹنے والوں کو، تبھی رہ
سکیں گے ہم صحیح سلامت…
پہاڑ، زمین، جنگل اور ندیاں ہیں ہمارے
دیوتا، اے دوست
ہم نہیں ڈرتے تیری لاٹھیوں، گولیوں اور جیل
سے، اے سرکار!
دے دیں گے جان اپنی ماں کے لیے اور چھوڑیں
گے نہیں کبھی اپنی یہ لڑائی!
ارے جاگو، سبھی قبیلو اور سارے کارکنو
حملہ اگر ہوا، تو چُپ نہیں بیٹھیں گے دھرتی
کے ہم سپوت
جاری رہے گی لڑائی یہ ہماری…
رہنا چاہتے ہیں ہم چین سے اور پوری طرح
آزاد، اے دوست!
لڑ رہے ہیں اپنے حق کی لڑائی، اے دوست!
کارپوریٹ سرکار کو ہم بھگا کر ہی دَم لیں
گے، اے دوست!
پہاڑ، زمین، جنگل اور ندیاں ہیں ہمارے
دیوتا…
مترجم: محمد قمر تبریز