وہ ایک ایسی سرزمیں پر رہتی تھی جہاں کے شمشان گھاٹ پگھل کر گرنے لگے تھے اور اسپتالوں میں انسان کو سانسیں عطا کرنے کے لیے آکسیجن نہیں بچی تھی۔ وہ شخص جس کا نام اسماعیل تھا، سانس لینے کو بری طرح تڑپتا رہ گیا! وہ ایک ایسی سرزمیں پر رہتی تھی جہاں کے ڈاکٹر جیلوں میں قید تھے اور کسانوں کو دہشت گرد بتایا جا رہا تھا۔ نازیہ اور سہراب... پیاری آئلین... اب وہ انہیں کھانا کیسے کھلاتی؟ وہ ایک ایسی سرزمین پر رہتی تھی، جہاں انسان کی حیثیت دو کوڑی کی ہو چکی تھی اور گایوں کو دیوتاؤں کی برابری میں بیٹھایا جا رہا تھا۔ اپنے شوہر کی دواؤں کے پیسے بھرنے کے لیے اس نے زمین کے اپنے چھوٹے سے ٹکڑے کو بھی فروخت کر دیا۔ اب وہ کہاں پناہ مانگے گی؟
وہ ایک سرزمین پر رہتی تھی، جہاں مورتیاں، غسل خانے اور فرضی شہریت کے وعدے کسی بھی ظلم کو جائز ٹھہرانے کے لیے کافی تھے۔ اگر وہ قبرستان کی کبھی نہ ختم ہونے والی قطاروں سے بچ بھی جاتی، تو قبر کھودنے والوں کو پیسے کہاں سے دیتی؟ وہ ایک ایسی سرزمیں پر رہتی تھی، جہاں کے آدمی اور عورت فقرہ بازی میں الجھے تماشہ دیکھ رہے تھے اور کیپ چینو کی چُسکی لیے اس بات پر بحث و مباحثہ میں مصروف تھے کہ اس ملک کا سسٹم ڈھے رہا ہے یا بننے کے ساتھ ہی اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر دی گئی تھی۔
سہراب کو اب کوئی خاموش نہیں کر سکتا تھا۔ نازیہ پتھر ہو گئی تھی۔ آئلین اپنی ماں کے اُدھڑے دوپٹے کو کھینچ رہی تھی اور کھلکھلا رہی تھی۔ ایمبولینس والا ۲۰۰۰ روپے زیادہ مانگ رہا تھا۔ اس کے پڑوسی اسے اپنے شوہر کی لاش کو چھونے سے منع کر رہے تھے۔ کل رات کسی نے اس کے دروازے پر آڑے ترچھے طریقے سے ’کٹوا سالا‘ لکھ دیا تھا۔ لوگوں میں دوسرے لاک ڈاؤن کو لیکر چہ مگوئیاں ہو رہی تھیں۔
کل ایک راشن ڈیلر کو پکڑا گیا، جس نے چاول کے ۵۰ بورے جمع کرکے رکھے تھے۔ سہراب بیہوش ہو گیا تھا۔ نازیہ نے اپنے والد کے کفن کا آخری سرا اتنی زور سے پکڑا کہ اس کی انگلیوں سے خون نکل آیا۔ سفید کفن پر ٹپکی گہرے لال خون کی پانچ بوندوں نے الوداع کہہ دیا تھا۔ آئلین سو گئی تھی۔ وہ ایک ایسی سرزمیں پر رہتی تھی، جہاں ریلوے سے لیکر بیماری کے ٹیکہ اور وزیروں سے لیکر نوزائیدہ بچوں تک کی بولیاں لگ رہی تھیں۔
اس نے اپنا کھیت بھی کھو دیا تھا، لیکن فالیڈول کی ایک اکیلی بوتل شیڈ کے نیچے اب بھی رکھی ہوئی تھی، جہاں اسماعیل اپنا سفید رنگ کا شاندار جبّہ سنبھال کر رکھتا تھا۔ اسماعیل گاؤں کا مؤذن تھا۔ اس نے اپنی ماں، بھائی، اور شوہر کو یکے بعد دیگرے اس نئی بیماری میں کھو دیا تھا، لیکن اس کے تینوں بچے اس کی زندگی کے محراب اور قبلہ تھے۔ نازیہ کی عمر ۹ سال، سہراب کی ۱۳ اور آئلین کی بمشکل ۶ مہینے تھی۔ آخرکار، اس کی پسند معمولی تھی۔
دیکھو میرے بچے، چاند کے پاس بھی ایک دل ہے –
ملائم اور میرون رنگ کا، لاکھوں سوراخ سے بھرا۔
منا تھا جشن، کہیں محفل سجی تھی، رہ گئی بس راکھ
کہ روئیں زار زار، آہیں بھریں سب، رہ گئی بس
راکھ
خون سے لت پت کسانوں کی ہے لوری، رہ گئی بس
راکھ۔
چُپ ہو جا میرا بچہ، میرا جگر تو بہادر بن –
سو کہ گویا بھٹی میں آگ ہے، گُنگُنا جیسے کہ
کوئی قبر بھولا گیت گائے۔
اس زمیں پر صرف راکھ بچی ہے،
ہوا میں تیر رہے ہیں خالی سلینڈر، آکسیجن کہیں
نہیں ہے
ٹوٹے شیشے کی طرح چاروں طرف بکھرے –
انسان نہیں، ہم محض اعداد و شمار ہیں،
ہمارے مہینوں میں دن نہیں، بھوک کا ڈیرا ہے
ہم کالے ہیں گلاب جیسے یا لاشوں کو نوچتے گدھ۔
بھگوان اب ویکسین کی خوراک بن گیا ہے
ڈاکٹر کی گولی میں بس گیا ہے ایشور
خدا قبرستان کا وہ بل ہے جو بھرا نہیں گیا۔
وہ چیخ کر کہہ رہی ہے کہانی،
آسمان سے بھی گہرے ہیں زخم کے نشان
لیکن، وہ بڑھ رہی ہے۔
مدد کا رنگ لال ہے،
لال ہیں مقبرے بھی،
مزدور کی زندگی جتنی دُبلی اس کی کوکھ بھی لال
ہے۔
وہ بادلوں سا گزر گیا ہے، الوداع کے آخری لفظ
کہہ لو –
اس کی لاش سے منسلک ہے صاف کفن، یہ کیا کم ہے۔
چُپ ہو جا میرے بچے، موت گھومر کرتی بل کھاتی،
آگ کی اٹھتی لپٹوں میں، دیکھ پرچھائیں یوں شرماتی۔
**********
الفاظ و معانی
فالیڈول : حشرہ کش دوا
جبّہ : الگ قسم کا لمبا اور ڈھیلا کرتا
عنوان : شاعر عدیل زیدی کا کہا ہوا مصرع
مترجم: محمد قمر تبریز