دنیا تھی ان کا گاؤں۔ پانچویں کلاس کے بعد پڑھائی چھوڑ دینے والی عظیم ادبی شخصیت پر میری پہلی نظر سال ۱۹۹۳ میں پڈو کوٹئی میں پڑی تھی۔ بعد میں، میری ان سے ملاقات میلن مرائی ناڈو گاؤں میں ان کے گھر پر ہوئی، جو تب کام راجر ضلع (اب وِرودھو نگر) کہلاتا تھا۔ ۳۰ اکتوبر کو میلن مائی پونو سامی (۶۶) کی موت سے ہندوستان نے دیہی علاقہ کی ایک سب سے مستند ادبی آواز کو کھو دیا ہے۔ پونو سامی حالانکہ، عظیم تخلیقی قلم کار سے زیادہ تھے۔ وہ ایک شاندار سیاسی ذہن رکھتے تھے، ایک تیز طرار، تجزیاتی ذہن جس نے اپنے آبائی وطن رام ناتھ پورم (جو رام ناد کے نام سے زیادہ مشہور ہے) میں غریبی اور محرومی کی تحقیق کی اور اس کے کردار و اسباب کا پتہ لگایا۔
انھوں نے گاؤں پر فوکس کیا – اور اسے سوچا، دنیا کو سمجھا۔ ’زرعی بحران‘ کے الفاظ کے عام استعمال سے تقریباً ایک دہائی پہلے، پونو سامی اس تباہ کاری کے بارے میں بات کر رہے تھے جس کے بارے میں ان کا سوچنا تھا کہ نئے قسم کے بیج ان کے گاؤں میں کسانوں کے لیے لے کر آنے والی ہے۔ ’’پیداوار کی لاگت اب اُن لوگوں کے لیے کافی زیادہ ہے جنہوں نے ان بیجوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے،‘‘ انھوں نے کہا تھا۔ اور یہ بات انھوں نے ۱۹۹۳ میں کہی تھی۔
مشہور ادبی شخصیت ہونے، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ اور بے شمار دیگر انعامات حاصل کرنے کے باوجود، انھوں نے اپنا گاؤں چھوڑ کر مدورئی یا چنئی کے بڑے اسٹیج پر منتقل ہونے کی مخالفت کی۔ پونو سامی کا یہ ماننا تھا کہ ایک قلم کار کے طور پر انھیں جو استناد حاصل ہوا ہے، وہ پرانے رام ناد ضلع (اب وِرودھو نگر میں ہے) کے گاؤں میں رہنے کی وجہ سے ملا ہے۔ اپنی زندگی کے صرف آخری تین یا چار سالوں میں، مرض کے سبب، وہ چنئی منتقل ہوگئے تھے، جہاں وہ اپنے بیٹے کے ساتھ رہتے تھے اور اپنی ڈاکٹر بیٹی کے قریب ہوگئے تھے۔
وہ ایک عظیم قلم کار تھے۔ ایک عظیم انسان تھے۔ یہ ایک زبردست خسارہ ہے۔ ذیل میں، ان کے بارے میں ایک اسٹوری ہے جو میری کتاب ’ایوری اڈی لوز اے گڈ ڈراؤٹ‘ (ہر کسی کو ایک اچھا قحط پسند ہے) میں موجود ہے۔
قلم کار اور گاؤں
میلن مرائی ناڈو، کام راجر (تمل ناڈو): انھوں نے پانچویں کلاس میں اسکول چھوڑ دیا تھا۔ ان کی کچھ مختصر کہانیاں اب یونیورسٹی کی سطح پر پڑھائی جاتی ہیں۔ لیکن المیہ، جو میلن مائی پونو سامی کی تحریر کا ہمیشہ ایک مضبوط نکتہ رہا، انھیں ہمیشہ پریشان کرتا رہتا ہے۔ یہ کہانیاں دیگر ضلعوں کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ ان کے پسندیدہ رام ناد میں اپنی ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے۔
میں نے سب سے پہلے انھیں تب دیکھا تھا، جب وہ پڈو کوٹئی کے ایک بھرے ہوئے ہال میں دیر شام کو ایک دن ایک پبلک میٹنگ سے خطاب کر رہے تھے۔ ایک میز کے اوپر آگے کی جانب جھکے ہوئے، پونو سامی نے اپنے سامعین کو بتایا کہ ان کے چھوٹے سے رام ناد گاؤں پر خلیجی جنگ کا کتنا ڈرامائی اثر ہوا ہے۔ وہاں کے کچھ کسانوں نے سوچا کہ انھوں نے اپنی ’جدید کاری‘، ٹریکٹرس وغیرہ کا پتہ لگا لیا ہے۔ اس کے بعد (۱۹۹۱ میں) جنگ شروع ہو گئی۔ پٹرول، ڈیزل اور درآمداتی اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے ہونے والے اضافہ نے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔
تبھی، اس ہال کی بجلی چلی گئی۔ پونو سامی تھوڑی دیر کے لیے بھی نہیں رکے۔ وہ میز کے اوپر چڑھ گئے اور اپنی تقریر جاری رکھی۔ ابتدائی ہنگامہ کے بعد، سامعین بھی وہاں سے بالکل نہیں ہلے۔ وہ اندھیرے میں بھی ان کی باتوں کو پوری توجہ سے سنتے رہے۔
یہ ایک مہینہ پہلے کی بات تھی۔ اب ہم ان کی بات کو اندھیرے میں دوبارہ سننے والے تھے۔ ہم ان کے ویران گاؤں کو گھنٹوں سے ڈھونڈ رہے تھے اور جب ہم وہاں پہنچے، تو صبح کے تقریباً ۲ بج رہے تھے۔ راستے میں میری ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی اور اس کی وجہ سے شدید درد ہو رہا تھا۔ میلوں پہلے سے ہی کتوں نے بھونک بھونک کر سب کو جگا دیا تھا، ہم نے اس وقت انھیں نیند سے جگانے پر معافی مانگی۔
انھیں حیرانی محسوس ہوئی: ’’کیا یہ گفتگو کرنے کا سب سے بہتر وقت نہیں ہے؟‘‘ انھوں نے سوال کیا۔ چند لمحوں کے بعد، ہم سب گہری بات چیت میں مصروف ہو گئے۔
ایک نہایت ہی محترم قلم کار ہونے کے علاوہ، پونو سامی، کسی نہ کسی طرح، اس ضلع کی غربت کو لے کر ایک بڑے ماہر بھی تھے۔ ان کا دور افتادہ چھوٹا سا گاؤں، میلن مرائی ناڈو، رام ناد کی تقسیم کے بعد اب کام راجر ضلع میں ہے۔ یہیں سے انھوں نے اس راز سے پردہ اٹھایا کہ رام ناد ایسا کیوں ہے۔ گزشتہ ۲۱ برسوں میں انھوں نے جو بھی کہانی لکھی ہے، وہ رام ناد کے بارے میں اور اسی سے متعلق ہے۔
پونو سامی کالکی پرائز جیتنے والے قلم کار ہیں، اور پروگریسو رائٹرس ایسوسی ایشن کی ایک سرکردہ شخصیت ہیں، لیکن وہ اپنے اسی دور افتادہ گاؤں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کسی بڑے شہر میں کیوں نہیں جانا چاہتے؟ ’’اس سے تصنیف کی دیانت داری کو نقصان پہنچے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ اس لیے وہ میلن مرائی ناڈو میں ہی رہتے ہیں۔ اس جگہ کو تلاش کرنا اتنا مشکل ہے کہ میں اپوائنٹمنٹ کے وقت سے چھ گھنٹے بعد یہاں پہنچا۔
’’آپ میرا انٹرویو رام ناد کی غریبی کے ماہر کے طور پر لینے جا رہے ہیں؟ ایک قلم کار کے طور پر نہیں؟‘‘ پونو سامی کو یہ بات واضح طور پر مزیدار لگی۔
’’رام ناتھ پورم ضلع ۱۹۱۰ میں بنا تھا،‘‘ پونو سامی بتاتے ہیں۔ ’’آج تک اس ضلع میں اپنی ایک بھی یونیورسٹی نہیں ہے۔ اب اس میں سے تین ضلعے نکلے ہیں اور دو وزیر بنے ہیں، لیکن ایک بھی میڈیکل کالج نہیں ہے۔‘‘ کوئی سرکاری انجینئرنگ کالج بھی نہیں ہے۔ اور یہاں پر جو ایک پرائیویٹ انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ ہے، وہ بھی اس سال بند ہو سکتا ہے۔ اس پورے نئے ضلع میں کسی قسم کے صرف تین کالج ہیں جن میں صرف دو پوسٹ گریجویٹ کورس کرائے جاتے ہیں۔
’’پس ماندگی ایک الگ قسم کی ذہنیت پیدا کرتی ہے،‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں۔ ’’رام ناد میں یونیورسٹی کا کبھی کسی نے مطالبہ تک نہیں کیا۔ صرف ابھی حال ہی میں سیاسی پارٹیوں نے اس کو لے کر بات کرنی شروع کی ہے۔ بنیادی تعلیم قبول کرنے میں یہاں ابھی کئی اور سال لگیں گے۔
’’مطالبات کرنا اور عرضیاں لگانا رام ناد کے لوگوں کے لیے آسان کام نہیں رہا۔ ۸۳ سالوں تک، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر دوسرے ضلع، مدورئی میں تھا! ابھی چھ ماہ پہلے تک ہماری قانونی عدالتیں بھی اسی قصبہ میں قائم تھیں۔ سال ۱۹۸۵ میں جب رام ناد کو تین ضلعوں میں تقسیم کر دیا گیا، تب یہ سب بدلا۔‘‘
اس کا مطلب ہے، پونو سامی کہتے ہیں – جو خود کو بے ندامت لیفٹسٹ کہتے ہیں – ’’کہ انتظامیہ نے ہمیشہ لوگوں سے دوری بنا کر رکھی۔ سرکاری اہلکار اتنی دور رہتے تھے کہ انھیں مقامی مسائل کا زیادہ علم نہیں ہوتا تھا۔ علاقہ کی پیچیدگی کو نہیں سمجھا گیا۔ اب ہمارے پاس عدالتیں ہیں، کلکٹریٹ اور دیگر ڈھانچے ہیں۔ پھر بھی، پرانے پیٹرن موجود ہیں کیوں کہ بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا گیا ہے۔‘‘
آمدنی کے معاملہ میں یہ ضلع ریاست کے سب سے کم تر ضلعوں میں ہے اور، ضابطہ کے حساب سے، تمل ناڈو کے باقی ضلعوں کے مقابلہ یہاں کی آمدنی تقریباً ۲۰ فیصد کم ہے۔ ’’یہ ایک سابق زمینداری علاقہ ہے۔ یہاں پر اصل میں متعدد چھوٹی جاگیریں اور ریاستیں ہوا کرتی تھیں، جو زیادہ تر ذات کی بنیاد پر چلتی تھیں۔ اسی ذات کی وجہ سے یہاں کی پس ماندگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔‘‘
برطانوی دورِ حکومت میں بھی اس طرزِ زندگی کو درست نہیں کیا گیا۔ اس نے وہاں موجود روزگار اور آمدنی کے چند ذرائع کو برباد کر دیا۔ ’’بڑی تعداد میں لوگ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو گئے۔ ان کے پاس زندہ رہنے کے چند ہی ذرائع بچ گئے۔‘‘ آج بھی رام ناد میں بڑے پیمانے پر تشدد ہوتا ہے، خاص کر ذات پر مبنی، اور جرائم بھی یہاں بہت ہوتے ہیں۔
’’ظاہر ہے، یہاں پر زمینی اصلاح بے معنی رہی ہے۔ عام خیال کے برعکس، اس ضلع میں اچھی زراعت کی استطاعت موجود ہے۔ لیکن اس نظریہ کو ذہن میں رکھ کر کس نے کام کیا ہے؟‘‘ رام ناد میں ۸۰ فیصد سے زیادہ زمین کی ملکیت سائز میں دو ایکڑ سے کم ہے اور کئی معنوں میں غیر اقتصادی ہے۔ فہرست میں سب سے اوپر ہے آبپاشی کی کمی۔
’’روزگار اور روزگار کی نوعیت انسان کے اس قسم کے بڑے حصہ کو ڈھالتی ہے۔ اگر آپ کے پاس سیمنٹ فیکٹری ہے، تو آپ کے پاس نہ صرف سیمنٹ ہے، بلکہ نوکریاں بھی ہیں، ایک خاص نوعیت کی۔ لیکن سب سے پہلے آپ کو ایسی فیکٹری لگانے کے لیے ایک مقام اور وسائل ڈھونڈنے کی ضرورت پڑے گی۔ رام ناد کے وسائل کی حقیقی پیمائش کبھی نہیں کی گئی۔ اور مستقل نوعیت کا روزگار پیدا کرنے کے لیے کبھی کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔‘‘
پونو سامی کے پاس ایک نکتہ ہے۔ رام ناد میں ’’سال بھر اقتصادی طور پر متحرک آبادی‘‘ کا سب سے کم تناسب ہے، ۴۰ فیصد سے بھی کم۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد حقیقتاً زیادہ تر مہینوں میں چھوٹے موٹے کام کرتی ہے۔ ’’ایک طرف، زراعت اس لیے ناکام ہوئی ہے، کیوں کہ آبی وسائل کا استعمال کم ہو رہا ہے۔ دوسری طرف، کوئی صنعتی ترقی نہیں ہو رہی ہے۔ مختصراً، کوئی ’شعور پیدا کرنے والا روزگار‘ نہیں ہے۔ فی ورکر پیداواری صلاحیت ریاست کے اوسط سے تقریباً ۲۰ فیصد کم ہے۔‘‘
رام ناد میں ہمیشہ سے اقتصادی طور پر پچھڑے لوگوں کا غلبہ تھا۔ یہاں کی آبادی کا تقریباً ۲۰ فیصد حصہ درج فہرست ذات و قبائل پر مبنی ہے۔ اس کے علاوہ، اس ضلع میں پس ماندہ طبقوں کی ایک بڑی آبادی رہتی ہے۔ ان طبقوں کے درمیان بے روزگاری کی سطحیں ریاست کے اندر سب سے زیادہ ہیں۔ ’’اس ضلع میں ہمارے سب سے مظلومانہ رشتے بھی ہیں۔‘‘
چاہے وہ رام ناد کے انوکھے ساہوکار ہوں یا پھر مرچ کے کسانوں کا غم، میلن مائی پونو سامی نے تمام چیزوں کو قلم بند کیا ہے۔ بار بار قحط سالی، طویل مدتی نقل مکانی یا بے روزگاری کے اثرات – کوئی بھی چیز ان سے نہیں چھوٹی ہے۔ اور اوپر سے نیچے کی طرف دیکھنے میں انھوں نے جو گہرائی حاصل کی ہے، صرف اپنے چھوٹے سے گاؤں سے، وہ حیرت انگیز ہے۔ اکثر یہ چیزیں بہترین تحقیق کے نتائج سے میل کھاتی ہیں۔
’’مرچ کے کسانوں کے ذریعہ نئے قسم کے بیجوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ واقعی میں یہ کہاں سے آئے ہیں؛ لیکن یہ کسانوں کی اقتصادیات کو برباد کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان بیجوں سے وقتی طور پر زیادہ پیداوار مل رہی ہو۔ لیکن یہ کسانوں کو کھاد اور ایگرو کیمیکل پر زیادہ سے زیادہ پیسہ خرچ کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ کھیتوں کو مار رہے ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد پیداوار کم ہونے لگتی ہے۔ جو لوگ ان بیچوں کو استعمال کرنے لگے تھے، ان کے لیے اب پیداوار کی لاگت بہت زیادہ ہو چکی ہے۔‘‘
ان کی مختصر کہانیوں کے سبھی چھ مجموعے اور ان کا واحد ناول، تاہم، بے باک رجائیت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ (ایک مجموعہ کا نام ہے انسانیت جیتے گی ۔) ’’یہاں کے لوگوں میں لڑنے کا جذبہ ہے اور وہ خود ہی رام ناد کو بدلیں گے۔ لیکن ہم مطمئن نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اس کے لیے کام کرنا ہوگا۔‘‘ اور کیا وہ اب بھی صرف رام ناد کے بارے میں لکھتے رہیں گے؟
’’اپنی تحریر کے تئیں مجھے سچا ہونا ضروری ہے۔ پھر بھی، اس گاؤں کے حقائق کے تئیں بہت زیادہ ایماندار ہوتے ہوئے، ہو سکتا ہے کہ میں اتر پردیش کے کسی گاؤں کی حقیقت کے بارے میں کچھ اہم پیش کر رہا ہوں۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس کے مسائل کو مخاطب کر رہے ہیں، ہے کہ نہیں؟‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)