’’اگر ہمیں برف باری کے بارے میں پہلے سے ہی اطلاع دے دی گئی ہوتی، تو ہم نے فصل کٹائی کا کام جلدی کر لیا ہوتا،‘‘ مشتاق احمد کہتے ہیں۔
مشتاق جنوبی کشمیر کے پامپور بلاک کے نامبال بل گاؤں میں رہتے ہیں۔ یہاں پر، ہر سال وسط مئی کے آس پاس، وہ اور دیگر کسان زعفران کے پودے لگاتے ہیں۔ اور تقریباً وسط اکتوبر سے وسط نومبر تک، وہ ان کے پھول توڑتے ہیں۔ اس کے گہرے سرخ رنگ کے حصے (پھول کے سب سے اوپری اجزا) مقبول اور قیمتی زعفران بن جاتے ہیں۔
کشمیر ہندوستان کی واحد ریاست (اب مرکز کے زیر انتظام علاقہ) ہے جہاں زعفران کی کھیتی ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ کا استعمال مقامی قہوہ چائے میں کیا جاتا ہے، جب کہ زیادہ تر پیداوار کو ملک کی دوسری ریاستوں میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں اس کا استعمال مختلف قسم کے کھانوں، آیورویدک دواؤں اور مندر کی رسموں میں کیا جاتا ہے۔
لیکن اِس سال، کشمیر میں پہلی برف باری تقریباً ایک ماہ قبل ہی ہو گئی – 7 نومبر کو۔ اس کی وجہ سے پھولوں والے پودوں پر اثر پڑا۔ نتیجتاً، پامپور کے مائج گاؤں کے وسیم کھانڈے کو اپنی ۶۰ کنال زمین میں سے فی کنال زعفران کی ۳۰-۴۰ گرام پیداوار ہی حاصل ہوئی – جب کہ وہ ۲۵۰-۳۰۰ گرام فی کنال کی امید کر رہے تھے۔ اور اندازاً فی کَنال (۱ ایکڑ میں ۸ کنال ہوتے ہیں) ۲۰ ہزار روپے کے منافع کی بجائے، وہ اب ۳ لاکھ روپے سے زیادہ کے نقصان کا سامنا کر رہے ہیں۔
’’اس سیزن میں ہم بہت زیادہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے، لیکن بے موسم کی برف باری نے ہماری فصل کو برباد کر دیا،‘‘ جموں و کشمیر کے زعفران اُگانے والوں کی تنظیم کے صدر، عبدالمجید وانی کہتے ہیں۔ اس تنظیم کے کل ۲۰۰۰ ممبران ہیں۔ وانی کا اندازہ ہے کہ اِس سال کشمیر میں زعفران کے کاشتکاروں کو کل ۲۰ کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہوگا۔ کشمیر چیمبر آف فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز کے صدر، ڈاکٹر زین العابدین نے حالیہ دنوں ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ زعفران کی تجارت ۲۰۰ کروڑ روپے کی ہے۔
مشتاق احمد اور وسیم کھانڈے کے گاؤوں جموں و کشمیر کے اُن ۲۲۶ گاؤوں میں شامل ہیں جہاں تقریباً ۳۲ ہزار کنبے زعفران کی کھیتی کرتے ہیں، کشمیر کے ڈویژنل کمشنر کے ذریعے تیار کردہ ایک دستاویز میں یہ کہا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر گاؤوں پلوامہ ضلع کے پامپور علاقے میں ہیں۔ وہ ایک ساتھ مل کر ہر سال تقریباً ۱۷ ٹن زعفران پیدا کرتے ہیں، زراعت کے ڈائرکٹر، سید الطاف اعجاز اندرابی بتاتے ہیں۔
لیکن گزرتے ہوئے سالوں میں، کشمیر میں جتنے رقبہ میں یہ نقدی فصل اُگائی جاتی ہے وہ ۵۷۰۰ ہیکٹیئر سے گھٹ کر آج تقریباً ۳۷۰۰ ہیکٹیئر ہی رہ گیا ہے۔ یہاں کے کسانوں کے مطابق، اس سکڑتے جا رہے رقبہ کی جوہات میں سے کچھ بارش کے بدلتے پیٹرن (اگست-ستمبر کے مانسون کے مہینوں میں یا تو معمول سے کم بارش، یا بے موسم کی بارش) اور خراب آبپاشی ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۰ میں شروع کیے گئے قومی زعفران مشن سے بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا ہے۔ اس مشن کے کئی مقاصد طے کیے گئے تھے، جن میں سے کچھ ہیں پیداوار کے نظام کو بہتر کرنا، ریسرچ اور مارکیٹنگ شروع کرنا، فوارے اور بورویل مہیا کرانا، اور بہترین کوالٹی کے بیج متعارف کرانا۔ ’’لیکن نتائج نظر نہیں آ رہے ہیں۔ بہت سے کسانوں کی شکایت ہے کہ ڈھیر سارے پیسے کا غلط استعمال کیا گیا ہے...‘‘ غلام محمد بھٹ کہتے ہیں، جن کے پاس پلوامہ ضلع کے پامپور بلاک کے درانگاہ بل علاقے میں سات کنال زمین ہے۔
’’مقامی زرعی افسران کے ذریعے فراہم کیے گئے زعفران کے نئے بیجوں سے اچھے نتائج نہیں نکلے، حالانکہ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس سے پیداوار میں اضافہ ہوگا،‘‘ عبدالاحد میر کہتے ہیں۔ کشمیر میں زعفران کے دیگر کاشتکاروں کی طرح، وہ بھی اس سال فصل کو ہوئے نقصان کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن وقت سے پہلے برف باری ہی خراب فصل کی واحد وجہ نہیں ہے۔ سیاسی غیر یقینیت اور مرکزی حکومت کے ذریعے ۵ اگست کو دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد لگائی گئی پابندیوں سے بھی فصل کو نقصان پہنچا ہے۔ ’’پابندیوں کی وجہ سے ہم اپنے کھیتوں میں نہیں جا سکے اور ان غنچوں کی دیکھ بھال نہیں کر سکے جو کھِلنے والے تھے،‘‘ درانگاہ بل علاقہ کے زعفران کے ایک دوسرے کاشت کار، اعجاز احمد بھٹ کہتے ہیں۔
اگست کے بعد اُن مہاجر مزدوروں کے بڑی تعداد میں یہاں سے چلے جانے سے بھی، جو کام کی تلاش میں موسم کے حساب سے یہاں آتے ہیں، اس فصل پر اثر پڑا۔ اس کی وجہ سے زعفران کے کاشتکاروں کو زیادہ یومیہ مزدوری پر مقامی مزدوروں کو رکھنا پڑا، پامپور کی زعفران کالونی کے زعفران کے کاشتکار، بشیر احمد بھٹ کہتے ہیں۔ ’’یہ اب منافع حاصل کرنے کا کاروبار کسی بھی طرح نہیں رہا،‘‘ وہ آگے کہتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے بند ہو جانے سے بھی کافی نقصان ہوا۔ ’’ہمارے بچے پابندی سے انٹرنیٹ پر موسم کی پیشن گوئی پتہ کرتے تھے،‘‘ مشتاق احمد کہتے ہیں۔ ماضی میں، وسیم کھانڈے یاد کرتے ہیں، ’’ہم بادلوں کو دیکھ کر بتا سکتے تھے کہ بارش کب ہوگی اور برف کب پڑے گی۔ لیکن ہم انٹرنیٹ پر اتنے زیادہ منحصر رہنے لگے کہ ہم نے موسم میں ہونے والی تبدیلی کی خبر رکھنا ہی چھوڑ دیا۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)