۱۱ دسمبر کی صبح کو جب وہ بجلی کے تار ہٹا رہے تھے، تو قریب میں ہی موجود ایک دکاندار رونے لگا۔ بقول گُروِندر سنگھ، ’’اس نے کہا کہ اسے ہماری یاد آئے گی اور یہاں ہمارے نہ ہونے سے وہ خود کو تنہا محسوس کرے گا۔ ہمارے لیے بھی اتنا ہی مشکل ہوگا۔ لیکن کسانوں کی جیت کا جشن اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔‘‘
صبح کے ۸ بج کر ۱۵ منٹ ہو رہے تھے جب گُروندر اور ان کے گاؤں کے دوسرے کسانوں نے مغربی دہلی کے ٹیکری میں واقع احتجاج کے مقام سے اپنے عارضی خیمے اکھاڑنے شروع کر دیے۔ کبھی وہ لکڑی کے ٹکڑے سے بانس کے جوڑ کو توڑنے کی کوشش کرتے، تو کبھی اُس ڈھانچہ کی بنیاد کو توڑنے کے لیے اینٹوں کا استعمال کرتے۔ ۲۰ منٹ کے اندر یہ پورا ڈھانچہ بانسوں کے انبار میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اس کے بعد وہ چائے اور پکوڑے سے ناشتہ کرنے کے لیے رکے۔
۳۴ سالہ گروندر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’ہم نے یہ شیلٹر (ٹھکانے) اپنے ہاتھوں سے بنائے تھے، اور اب اپنے ہی ہاتھوں سے اسے ہٹا رہے ہیں۔‘‘ گروندر پنجاب کے لدھیانہ ضلع کے ڈانگیاں گاؤں کے رہنے والے ہیں، جہاں ان کی فیملی چھ ایکڑ زمین میں گیہوں، دھان اور ٹماٹر کی کھیتی کرتی ہے۔ ’’ہمیں خوشی ہے کہ ہم فاتح ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، لیکن ہم نے یہاں جو تعلقات بنائے اسے چھوڑ کر جانے کا غم بھی ہے۔‘‘
لدھیانہ ضلع کے اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے، ۳۵ سالہ دیدار سنگھ نے کہا، ’’جب احتجاج شروع ہوا تھا تب یہاں پر کچھ بھی نہیں تھا۔ ہم سبھی لوگ سڑک پر سوتے تھے، اس کے بعد ہم نے یہ گھر بنایا۔‘‘ گاؤں میں دیدار سنگھ اپنے سات ایکڑ کھیت میں گیہوں، دھان، ٹماٹر اور سبزیاں اُگاتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہمیں یہاں پر بہت کچھ سیکھنے کو ملا، خاص کر یہاں قیام کے دوران ہم تمام لوگوں میں بھائی چارہ کا جذبہ پیدا ہوا۔ جتنی بھی سرکاریں ہیں وہ صرف ہمیں لڑانے کا کام کرتی ہیں۔ لیکن ہم تمام لوگ جب پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش سے یہاں جمع ہوئے، تو ہمیں احساس ہوا کہ ہم سب ایک ہیں۔‘‘
گروندر نے کہا، ’’پنجاب میں انتخابات ہونے والے ہیں، جس میں ہم اسی آدمی کو ووٹ دیں گے جو صحیح ہوگا۔‘‘ وہیں، دیدار سنگھ کا کہنا تھا، ’’ہم اسی کو ووٹ دیں گے جس نے ہمارا ہاتھ تھاما ہے [ہماری حمایت کی ہے]۔ جن لوگوں نے ہمیں دھوکہ دیا، انہیں ہم اقتدار میں نہیں آنے دیں گے۔‘‘
حکومت کے ذریعے تین متنازع زرعی قوانین کو منسوخ کرنے اور کسانوں کے دیگر مطالبات کو منظور کر لینے کے بعد، احتجاج کرنے والے کسانوں کی تقریباً ۴۰ یونینوں کے مجموعہ، سمیُکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے ۹ دسمبر کو اعلان کیا تھا کہ وہ دہلی کی سرحدوں پر ایک سال سے چل رہے احتجاج کو ختم کرنے جا رہے ہیں۔
تاہم، کسانوں کے کچھ بڑے مسائل اب بھی برقرار ہیں – جیسے کہ فصلوں کے لیے کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی گارنٹی، کسانوں کے قرض وغیرہ سے متعلق تشویشیں وغیرہ۔ ایس کے ایم نے ان مسائل پر مرکز سے بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دیدار کا کہنا تھا، ’’ہم نے اس احتجاج کو صرف منسوخ کیا ہے، اسے ختم نہیں کیا ہے۔ جس طرح فوجی چھٹی پر چلے جاتے ہیں، اسی طرح ہم کسان بھی چھٹی پر جا رہے ہیں۔ اگر اس حکومت نے ہمیں مجبور کیا تو ہم لوٹ کر واپس آئیں گے۔‘‘
وہیں گُروندر نے کہا، ’’اگر اس حکومت نے ہمیں [ایم ایس پی اور زراعت سے متعلق دیگر مسائل کو لے کر] پریشان کیا، تو ہم دوبارہ اسی طرح لوٹ کر واپس آئیں گے جیسے کہ ہم یہاں پہلی بار آئے تھے۔‘‘
ڈانگیاں گاؤں کے کسانوں کے کیمپ سے چند میٹر کے فاصلہ پر، ہریانہ کے فتح آباد ضلع کے دھنی بھوج راج گاؤں سے تعلق رکھنے والے ستبیر گودارا اور دیگر کسانوں نے کچھ دیر پہلے ہی اپنے خیموں سے دو پورٹیبل پنکھے، پانی کی ٹنکی، دو ایئر کولر، ترپال اور لوہے کی چھڑوں کو ایک چھوٹے ٹرک پر لادنے کا کام مکمل کیا تھا۔
۴۴ سالہ ستبیر نے کہا، ’’ہم نے یہ ٹرک اپنے گاؤں کے ایک دوسرے کسان سے منگوایا ہے اور صرف ڈیزل کے پیسے دیے ہیں۔ یہ تمام سامان ہمارے ضلع میں دھنی گوپال چوک پر اتارے جائیں گے۔ پتہ نہیں ہمیں اس طرح کی لڑائی کے لیے دوبارہ کب بیٹھنا پڑ جائے؟ تب ہم اس کے لیے تیار رہیں گے۔ ہمارے سبھی مطالبات پورے نہیں ہوئے ہیں۔ اس لیے ہم ان تمام چیزوں کو ایک جگہ باندھ کر رکھ رہے ہیں۔ ہم نے اب یہ سیکھ لیا ہے کہ حکومت کو کیسے سبق سکھانا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی وہاں موجود تمام لوگ زور سے ہنسنے لگے۔
ستبیر نے مزید کہا، ’’ہم نے سرکار کو وقت دیا ہے۔ اگر ہمیں ایم ایس پی کے لیے لڑنا پڑا، تو ہم واپس لوٹیں گے۔ ہمارا آندولن صرف منسوخ ہوا ہے۔ یہ سال ہمارے لیے تاریخی تھا۔ ہم نے پانی کی بوچھاروں اور آنسو کے گولوں کا سامنا کیا۔ ہمیں روکنے کے لیے راستے میں بڑے بڑے پتھر رکھے گئے اور سڑکوں کو توڑ دیا گیا۔ ہم نے ان تمام رکاوٹوں کا سامنا کیا اور کسی طرح ٹیکری تک پہنچے۔‘‘
۱۱ دسمبر بروز ہفتہ صبح ۹ بجے، ٹیکری کے احتجاجی مقام سے بہت سے کسان جا چکے تھے۔ جن لوگوں نے اپنا سامان باندھ لیا تھا، وہ بھی چلنے کو تیار تھے۔ مرد چٹائی، چارپائی، ترپال اور متعدد دیگر سامانوں سے بھری ٹریکٹر کی ٹرالی میں اوپر بیٹھ گئے۔ کچھ لوگ ٹرک سے لوٹ رہے تھے، تو کچھ کار اور بولیرو سے۔
ان میں سے زیادہ تر لوگ ویسٹرن پیری فیرل ایکسپریس وے پکڑنے کے لیے بالکل سیدھے جا رہے تھے، جب کہ بقیہ لوگ دہلی-روہتک روڈ (ہریانہ کے بہادر گڑھ شہر کے قریب) پر جانے کے لیے بائیں طرف مڑ رہے تھے، وہیں پر بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو، ایکتا اُگراہاں) کا خیمہ لگا ہوا تھا۔
اُس روڈ پر، جھارکھنڈ کے پاکُڑ ضلع کی ۳۰ سالہ مہاجر مزدور، کلپنا داسی اپنے ۱۰ سالہ بیٹے آکاش کے ساتھ، احتجاج کے مقام سے کچرا جمع کرنے آئی ہوئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں معلوم تھا کہ ایک نہ ایک دن احتجاج کرنے والے کسان اپنے گھر لوٹ جائیں گے، لیکن انہیں یہ سب دیکھ کر اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم لوگ جب یہاں کچرا اٹھانے کے لیے آتے تھے، تو وہ ہم جیسے غریبوں کو دن میں دو وقت کھانا کھلاتے تھے۔‘‘
اس (روہتک کی طرف جانے والی) روڈ پر جتنے بھی ٹریکٹر تھے وہ پلاسٹک اور کاغذ کے پھولوں، چمکدار گمچھوں اور ربن، اور یونین کے پرچم سے سجے ہوئے تھے۔ پنجاب کے موگا ضلع کے ڈالا گاؤں سے تعلق رکھنے والی ۵۰ سالہ سیرندر کور نے بتایا، ’’ہم اپنے ٹریکٹروں کو سجا کر لے جا رہے ہیں، اور شادی کے جلوس کی طرح آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘ ایک ٹریکٹر کی ٹرالی میں ان کی فیملی کی چٹائی، باورچی خانہ کے برتن وغیرہ لدے ہوئے تھے، دوسری ٹرالی کو مرد اپنے سفر کے لیے استعمال کر رہے تھے، جب کہ عورتیں کینٹر والے ٹرک میں سوار تھیں۔
سیرندر کور نے مزید بتایا، ’’سینکڑوں ٹریکٹر سب سے پہلے موگا کے بوٹر پہنچیں گے، جو ہم سے دو تین گاؤوں پہلے ہے۔ وہاں پر ہمارا پھولوں سے استقبال کیا جائے گا، اس کے بعد ہم لوگ آخر میں اپنے گاؤں پہنچیں گے۔‘‘ ڈالا گاؤں میں اپنی چار ایکڑ زمین پر ان کی فیملی دھان، گیہوں اور کابلی چنا کی کھیتی کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق مجاہدین آزادی کی فیملی سے ہے۔ اور اب [۱۱ دسمبر تک]، ’’میرے شوہر کے ایک بھائی ٹیکری پر احتجاجی مظاہرہ میں شامل تھے، ایک سنگھو بارڈر پر، اور میری فیملی یہاں پر ہے [بہادر گڑھ میں روہتک روڈ پر]۔ ہمارا تعلق مجاہدین آزادی کی فیملی سے ہے، اور ہم نے یہ لڑائی بھی جیت لی ہے۔ ہماری مانگ [تین زرعی قوانین کو ردّ کرنے کی] مان لی گئی ہے، اب ہم وہی کریں گے جو ہماری یونین [بی کے یو ایکتا اُگراہاں] کہے گی۔‘‘
قریب میں ہی موجود ایک دوسری ٹرالی میں، پنجاب کے موگا ضلع کے بدھنی کلاں گاؤں کی ۴۸ سالہ کرن پریت کور تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ انہوں نے بتایا، ’’ہم لوگ کل سے ہی اپنا سامان باندھ رہے ہیں۔ رات کے ۳ بجے تک جیت کا جشن منایا جا رہا تھا۔‘‘
گھر پر، ان کی فیملی کے پاس ۱۵ ایکڑ زمین ہے جس پر وہ گیہوں، دھان، مکئی، سرسوں اور آلو کی کھیتی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں، ’’بہت سے لوگوں نے پرامن طریقے سے احتجاج کرنا سیکھا ہے، اور یہ سیکھا ہے کہ جب وہ اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے تو ان کی جیت ہو سکتی ہے۔‘‘
روانہ ہونے سے قبل، کرن پریت نے کہا کہ سڑک کے جتنے حصے پر انہوں نے قبضہ کیا تھا اس کے ایک ایک حصہ کو انہوں نے اپنے ساتھی کسانوں کے ساتھ مل کر صاف کر دیا ہے۔ ’’میں نے یہاں کی مٹی پر ماتھا ٹیکا۔ اس نے ہمیں احتجاج کرنے کی جگہ دی تھی۔ آپ جس زمین کی پوجا کرتے ہیں وہی آپ کو لوٹاتی بھی ہے۔‘‘
بہادر گڑھ میں بی کے یو کے مین اسٹیج کے قریب، یونین کی بٹھنڈا ضلع کی خواتین کی لیڈر پرم جیت کور ہر ایک چیز کو ٹرالیوں میں بھرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ تقریباً ۶۰ سال کی پرم جیت نے بھی روڈ کے ڈیوائیڈر پر زمین کے ہر اس حصے کو صاف کر دیا تھا جس پر انہوں نے آلو، ٹماٹر، سرسوں اور سبزیاں اگائی تھیں۔ (ملاحظہ کریں ٹیکری کے کسان: ’یہ سب زندگی بھر یاد رہے گا‘ )۔ انہوں نے کہا، ’’میں نے انہیں [فصلوں کو] کاٹ دیا اور سبزیاں یہاں کے مزدوروں کو دے دیں۔ ہم لوگ اپنے ساتھ گھر کے لیے کچھ ہی چیزیں لے کر جا رہے ہیں۔ ہم نے لکڑیوں کے ٹکڑے، ترپال یہاں کے غریب لوگوں کو دے دیے ہیں تاکہ وہ اپنا گھر بنا سکیں۔‘‘
انہوں نے آگے کہا کہ آج رات کو ہماری ٹرالی راستے میں کسی گرودوارہ میں رکے گی، اور اگلی صبح ہم دوبارہ چلنا شروع کریں گے۔ ’’گاؤں کے لوگ ہمارا استقبال کریں گے۔ ہم اس بات کا خوب جشن منائیں گے کہ ہم نے اپنی زمین بچا لی۔ حالانکہ ہماری لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ہم لوگ دو دن آرام کریں گے اور اس کے بعد پنجاب سے اپنے دوسرے مطالبات کے لیے لڑیں گے۔‘‘
ہم جس وقت ان سے باتیں کر رہے تھے، احتجاج کرنے والے کسانوں کا ایک قافلہ اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں، ٹرک اور دوسری گاڑیوں سے اپنے گھر کی جانب لوٹ رہا تھا۔ ٹریفک کا انتظام کرنے کے لیے ہریانہ پولیس کو تعینات کیا گیا تھا۔ پنجاب کسان یونین کے اسٹیج سے کچھ ہی دوری پر، جہاں سے احتجاج کا مقام شروع ہوتا تھا، ایک جے سی بی مشین اُن پتھروں کو توڑ رہی تھی جسے پچھلے سال کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے رکھا گیا تھا۔
صبح کے تقریباً ۱۱ بجے، ٹیکری کے میدان سے سب کچھ صاف ہو چکا تھا، صرف کچھ ہی احتجاجی کسان بچ گئے تھے، جو وہاں سے روانہ ہونے کے لیے تیار تھے۔ احتجاج کا وہ مقام جو ایک سال تک ’کسان مزدور ایکتا زندہ باد‘ کے نعروں سے گونج رہا تھا، اب پوری طرح خاموش ہو چکا تھا۔ اب یہ جشن اور نعرے کسانوں کے گاؤوں میں گونجیں گے، جہاں پر وہ اپنی لڑائی کو جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز