اوشا دیوی نے آخری بار جب دھرمیندر رام کو دیکھا تھا، تب وہ سوکھ کر ہڈی ہو چکے تھے۔ ’’وہ چیخ کر روئے، ہانپنے لگے اور پھر ٹھنڈے ہو گئے۔ میں انھیں چائے کا ایک آخری کپ بھی نہیں دے سکی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
اور اس طرح اوشا کے ۲۸ سالہ شوہر کی زندگی ختم ہو گئی۔ ان کی موت بیماری اور بھوک کی وجہ سے ہوئی – راشن کارڈ کے بغیر۔ دھرمیند رام کے پاس سب سے ضروری وہ آدھار کارڈ موجود تھا، جو راشن کی دکان پر ان کی شناخت کی تصدیق کر سکتا تھا۔ لیکن حقیقی راشن کارڈ کے بغیر یہ بیکار تھا۔
اگست ۲۰۱۶ میں دھرمیندر کی موت نے الہ آباد کے مئوآئیما بلاک میں واقع ان کے گاؤں، دھروتا کی جانب بہت سے لوگوں کی توجہ مبذول کرائی۔ مقامی میڈیا نے ضلع کے سرکاری اہلکاروں سے گاؤں کا دورہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ گاؤں کے ترقیاتی افسر اور لیکھ پال کو برخاست کر دیا گیا۔ راحتی اشیاء دینے کا اعلان کیا گیا (جن میں سے کچھ تھے، نیشنل فیملی بینیفٹ اسکیم کے تحت ۳۰ ہزار روپے اور زرعی زمین کا پانچ بِسوا یا ۵۷۰ مربع میٹر کا ایک ٹکڑا)۔ مشکل سے ۵۰۰ کنبوں کے اس گاؤں میں مقامی لیڈر بھی پہنچنے لگے۔ ان کی بیوی اچانک ریاستی حکومت کے ۵۰۰ روپے کے معذوری پنشن کے لیے بھی اہل ہو گئیں۔
اوشا، جنہیں کم سنائی دیتا ہے، جزوی طور پر نابینا ہیں اور ان کا دایاں پیر بھی بائیں پیر سے کافی چھوٹا ہے، اس بارے میں بہت کم یاد ہے کہ یہ سب کیسے ہوا۔ لیکن، اتنا ضرور یاد ہے کہ ایک ’بڑے صاحب‘ آئے تھے، جس کے قدموں میں وہ گر گئی تھیں اور کہا تھا، ’’کچھ تو مدد کرو،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں۔
وہ افسر، تحصیل دار رام کمار ورما تھے، جنہوں نے ان کے گھر کا معائنہ کیا تھا۔ بعد میں مقامی میڈیا نے ان کا یہ بیان چھاپا تھا کہ اس گھر میں انھیں اناج کا ایک دانہ تک نہیں ملا۔ اوشا کے گڑگڑانے پر، انھوں نے اپنی جیب سے ٹٹول کر ۱۰۰۰ روپے ان کے ہاتھ پر رکھ دیے، لیکن تب تک تکان اور بھوک کے سبب وہ وہیں بیہوش ہو گئی تھیں۔
سوراؤں تحصیل (جس میں دھروتا واقع ہے) کے موجودہ لیکھ پال، پنچم لال اسے انتظامیہ کے ذریعے فوری اٹھایا گیا قدم بتاتے ہیں۔ ’’یہ ایک افسوسناک واقعہ تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ راشن کارڈ بنوانے اور اسے آدھار سے جوڑنے کا عمل بہت آسان اور پریشانیوں سے پاک ہے۔ ’’لوگ یہ سب آن لائن کر سکتے ہیں۔ گاؤں میں ایک پرائیویٹ دکان ہے، جو ۵۰ روپے میں یہ کام کر دیتی ہے۔ لیکن، ایسا کرنے کے لیے قوتِ ارادی بھی ہونی چاہیے۔ کیا ہم نے صرف ۱۵ دنوں میں ان کی بیوی کو انتیودیہ کارڈ جاری نہیں کر دیا تھا؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں۔
آدھار نمبر کے ذریعہ راشن کارڈ کی تصدیق اس شناختی عمل کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ سرکار کے خود اپنے اعداد و شمار کے مطابق، قومی غذائی تحفظ قانون کے تحت جاری کیے گئے ہر پانچ راشن کارڈوں میں سے چار سے زیادہ آدھار سے جڑے ہوئے ہیں۔
اصولی طور پر، دھرمیندر کے پاس آدھار آئی ڈی کا ہونا ان کے لیے راشن کارڈ حاصل کرنے کو آسان بناتا۔ لیکن زمینی حقیقت بتاتی ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی حاصل کرنے کا عمل، جس میں خصوصی طور سے آن لائن فارم بھرنا شامل ہے، دنیا کے سبھی دھرمیندر رام جیسے لوگوں کے لیے بہت مشکل ہے۔ مدد حاصل کرنا بھی آسان نہیں ہے۔ اہلکاروں کی طرف سے انھیں اکثر یہی جواب ملتا ہے، ’’ناٹ مائی ڈپارٹمنٹ (یہ میرا محکمہ نہیں ہے)۔‘‘
دھروتا گاؤں کی پردھان (پنچایت کی منتخب سربراہ) تیجا دیوی دعویٰ کرتی ہیں، ’’رجسٹر کرانے کے لیے میرے شوہر انھیں اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھا کر لے گئے تھے۔ راشن کارڈ کے لیے پردھان نہیں، بلکہ پنچایت سکریٹری ذمہ دار ہوتے ہیں۔‘‘
ناخواندہ دھرمیندر، جو اپنے پڑوسیوں کی نظروں میں لاپرواہ اور کاہل تھے، ان گڑبڑیوں کو کبھی نہیں سمجھ سکتے تھے۔ آدھار، جسے ۲۰۰۹ میں شروع کیا گیا تھا، اور اس کے بعد سے مختلف سرکاری اسکیموں سے جوڑ دیا گیا، کو سمجھنا ان لوگوں کے لیے بھی مشکل ہے جن کے پاس یہ ہے۔
ان میں سے ایک دھرمیندر کی بھابھی بھوٹانی (ان کے بڑے بھائی ننھے کی بیوی) بھی ہیں جو کہتی ہیں، ’’سرکاری کارڈ ہونا اچھی بات ہے۔ میرے پاس بھی ہے، لیکن میں اسے پوری طرح سے نہیں جانتی۔ اس کے لیے بہت سارے کاغذات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب بھی ہو سکا ہم نے دھرمیندر کی مدد کی، لیکن ہمارے کچھ حدود تھے۔‘‘
دھرمیندر کی آمدنی کا واحد ذریعہ شادی میں رقص کرنا تھا۔ یہ کام بھی ہمیشہ نہیں ملتا تھا، اور وہ ایک رات میں چاہے جتنا اچھا مظاہرہ کریں، آمدنی ۵۰۰ روپے سے زیادہ کبھی نہیں ہوتی تھی۔ ان کے والد کے پاس زمین کا ایک ٹکڑا تھا، جسے انھوں نے ان کے اور ننھے کے درمیان تقسیم کر دیا تھا۔ دھرمیند کو زمین کا جو حصہ ملا وہ تھوڑا پتھریلا تھا، اس پر کم پیداوار ہوتی تھی۔ وہ اکثر وہاں سے گزرنے والے لوگوں سے مدد کی فریاد کرتے تھے۔ پیٹ بھرنے کے لیے اوشا کھانا مانگ کر لاتیں۔ کبھی کبھی لوگ اپنا بچا ہوا کھانا دینے کے لیے انھیں بلا لیتے تھے۔ ’’مجھے کوئی شرم نہیں آئی،‘‘ وہ بتاتی ہیں، شادی شدہ زندگی کے ۱۲ سال میں انھیں ایسا کوئی دن یاد نہیں جب گھر میں کھانا وافر مقدار میں موجود رہا ہو۔ ’’کبھی کبھی جب ان کے پاس پیسہ ہوتا، تو ہم ٹماٹر اور دالیں خرید لاتے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
ان کے درمیان کا ایک آدمی بھوک سے مر گیا، اس حقیقت کو لے کر دھروتا میں ابھی بھی ملا جلا اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ دھرمیندر کے گھر سے سڑک پار کرکے ۵۰ سالہ سنیتا راج کا مضبوط دکھائی دینے والا گلابی گھر ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو کبھی کبھی اوشا کو کھانا دے دیا کرتی تھیں، وہ کہتی ہیں کہ ہمیشہ مدد کرنا ممکن نہیں تھا۔ ’’آپ جب ہمارے گھر میں دیکھیں گے، تو پائیں گے کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے [آنجہانی] شوہر جب بیمار تھے، تو ان پانچ برسوں میں ہم نے سب کچھ کھو دیا۔ اب میرا اکلوتا بیٹا بے روزگار ہے۔ یہ سب دیکھ کر آپ جانتے ہی ہیں کہ میں بھی کبھی بھوک سے مر سکتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ یہ خوف اس لیے پیدا ہوا کیوں کہ سنیتا کے پاس مقامی پتہ کے ساتھ آدھار نہیں ہے، اسی لیے ان کا نام فیملی کے راشن کارڈ پر نہیں ہے۔ ’’میرے پاس پُنے میں آدھار تھا، جہاں میرے شوہر مزدور کی شکل میں کام کیا کرتے تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ اس سے دوائیں لینے میں مدد ملے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا،‘‘ وہ غصے سے کہتی ہیں۔
ایک اور پڑوسی، ۶۶ سالہ رام آسرے گوتم کہتے ہیں کہ دھرمیندر کی موت سے وہ ملا جو ناممکن تھا۔ ’’کوئی بھی افسر ہمارے گاؤں کو اہمیت نہیں دیتا تھا۔ پھر اچانک سب ڈویژنل مجسٹریٹ، بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر، تحصیل دار، سبھی یہاں آنے لگے۔ ہمارے گاؤں کو اتنی اہمیت ملی۔‘‘
دھرمیندر کی موت کے بعد، اوشا اپنا زیادہ تر وقت ڈانڈو پور گاؤں (دھروتا سے ۱۹ کلومیٹر دور) اپنے بھائی لال جی رام کے گھر پر گزارتی ہیں۔ ’’دھرمیندر جب زندہ تھے تب گاؤں والوں نے ان کی مدد نہیں کی۔ اب انھیں حسد ہوتی ہے کہ اس کے پاس [۵۷۰ مربع میٹر] زرخیز زمین ہے۔ میں اس کے لیے کھیت کی نگرانی کرتا ہوں کیوں کہ وہ ذہنی طور پر کمزور ہے،‘‘ چار بچوں کے والد کہتے ہیں۔
اوشا کے لیے، زمین اور مالی مدد صرف تفصیلات ہیں۔ ’’میرے شوہر ایک چھوٹے سے کارڈ کے لیے مر گئے۔ یہ اتنا قیمتی نہیں ہو سکتا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)