گڈلور کے ودودیہ اسکول میں جب ’شانتی ٹیچر‘ ریاضی کی کلاس شروع کرتی ہیں، تو جنگل کلاس روم میں داخل ہو جاتا ہے۔ آدیواسی بچے، جن میں سے زیادہ تر کی عمر نو سال ہے، باہر گھومتے ہیں، درختوں پر چڑھتے ہیں اور لمبے ڈنڈے تلاش کرنے کے لیے جنگل کا فرش کھنگالتے ہیں۔ بعد میں وہ ان کو میٹر کی لمبائی سے نشان زد کریں گے اور اپنے گھروں کی دیواروں کی پیمائش کریں گے۔ اس طرح پیمائش کا عام سبق شروع ہوتا ہے۔
تمل ناڈو کے نیلگیری ضلع کے گڈلور تعلقہ کے اس اسکول کے نصاب کے زیادہ تر حصے میں جنگلات اور آدیواسی طرز زندگی کو شامل کیا گیا ہے۔ صبح کی اسمبلی میں قبائلی گیت اور رقص ہوتے ہیں۔ دوپہر کا وقت قبائلی دستکاری سیکھنے میں گزرتا ہے۔ جنگل میں باقاعدہ ’فطرت‘ کی سیر ہوتی ہے، بعض اوقات والدین میں سے کوئی ایک اس کی قیادت کرتا (کرتی) ہے۔ اس میں طلباء کو پودوں، راستوں، مشاہدے اور خاموشی کی اہمیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔
ودیودیہ کی ایک درسی کتاب کا نام ’دی فوڈ بک‘ ہے۔ اس کتاب میں ایسی مشقیں شامل ہیں جنہیں تیار کرنے میں شکار، ماہی گیری، ثقافت اور مقامی قبائل کی کھیتی کی روایات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ لائبریری کی کلاس میں اسکول کے ذریعہ ترتیب دی گئی پنیئن قبیلے کی مختصر کہانیوں پر مشتمل کتاب کلینا پینگا (طوطوں کی بہن) کو کوئی بھی طالب علم اٹھا سکتا ہے۔ والدین اکثر اسکول آتے رہتے ہیں، بعض اوقات قبائلی رسم و رواج پر مہمان لیکچررز کے طور پر بھی۔ ’’ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ اسکول کی تعلیم آدیواسی ثقافت کو پروان چڑھائے اور قبائلی بچوں کو ان کے والدین سے دور نہ کرے،‘‘ رما شاستری کہتی ہیں۔ وہ اسکول کی سابق پرنسپل ہیں اور اسکول کے جامع نصاب کی تیاری میں ان کا مرکزی کردرار رہا ہے۔ ان مقاصد کے حصول سے آدیواسی اساتذہ کی وابستگی اور ان سے ہمدرد ی بھی اس کام میں معاون ہوتی ہے۔ جیسا کہ پنیئن قبیلے سے تعلق رکھنے والی سینئر ٹیچر جانکی کرپگم کہتی ہیں: ’’ہماری ثقافت کے بارے میں اگر اسکولوں میں پڑھایا جائے، تو اس میں شرم کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس سے بچے اپنی ثقافت کو کبھی نہیں بھولیں گے۔‘‘
ودیودیہ کا آغاز ۱۹۹۰ کی دہائی کے اوائل میں ایک غیر رسمی پرائمری اسکول کے طور پر ہوا تھا۔ ۱۹۹۶ میں گڈلور میں آیواسیوں کی ایک نمائندہ تنظیم آدیواسی منیتر کڑگم نے ودیودیہ سے رابطہ کیا، اور اسے ایک ماڈل اسکول میں بدلنے کا مطالبہ کیا۔ بی رام داس کہتے ہیں، ’’آدیواسیوں کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ انہیں ’پڑھانا‘ ناممکن ہے، لیکن جب انہوں نے ہمارے اسکول میں چند آدیواسی بچوں کو پھلتے پھولتے دیکھا، تو انہیں یقین ہو گیا کہ یہ غلطی نظام کی ہے نہ کہ بچوں کی۔‘‘ رام داس وشو بھارتی ودیودیہ ٹرسٹ کے ٹرسٹی ہیں، جو اس اسکول کا نتظام وانصرام کرتا ہے۔ وہ اپنی بیوی رما (اسکول کی پرنسپل) کے ساتھ اپنے گھر سے اسکول چلاتے تھے۔
اسکول میں اپنے بچوں کی تعلیم جاری رکھنے میں مدد کے لیے والدین نے ایک مٹی اور چھپر کا کمرہ تعمیر کر دیا تھا۔ یہ کمرہ گھر سے چلنے والے اسکول کی توسیع تھا۔ بعد میں داخلہ بڑھانے کی غرض سے بطور محافظ دادا دادیوں کی خدمات لی گئیں۔ پانچ کلومیٹر تک کی دوری سے یہ لوگ نوعمر بچوں کو پکڑ کر لاتے ہیں۔ راستے میں انہیں مصروف رکھنے کے لیے کہانیوں اور گیتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اسکول کے ذریعہ انہیں ہر مہینے ’چائے بھتہ‘ کے طور پر ۳۵۰ روپے دیے جاتے ہیں، کیوں کہ واپسی کے سفر کا انتظار وہ چائے کی دکانوں میں بیٹھ کر کرتے ہیں!
اب ۴۲ سالہ شانتی کنجن، جو ایک پنیئن آدیواسی ہیں، ضلع نیلگیری کے اس مفت پرائمری اسکول کی سربراہ ہیں۔ اساتذہ اور طلباء دونوں آدیواسی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق پنیئن قبیلے سے ہے، بقیہ بیٹّا کرومبا، کٹّونائکن اور مُلّو کرومبا قبیلوں سے ہیں۔ ہندوستان کی ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق پنیئن کی آبادی ۱۰۱۳۴ تھی، جن میں سے صرف ۳ء۴۸ فیصد خواندہ تھے۔ یہ درج فہرست قبائل کی اوسط شرح خواندگی سے ۱۰ فیصد کم اور قومی شرح خواندگی ۹۹ء۷۲ فیصد سے بہت کم ہے۔
اپنے قبیلے کے اعداد و شمار کو جھٹلاتے ہوئے شانتی نے تاریخ میں بی اے کیا ہے۔ دیولا شہر سے ۱۷ کلومیٹر دور ولیاوائل بستی میں واقع ان کے گھر کی بیٹھک میں موجود الماریوں کے خانے کہانیوں کے کارڈز اور کہانیوں کی چھوٹی چھوٹی کتابوں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ کہانیاں پڑوس کے بچوں کے لیے ہیں۔ کیلنڈر پر ان کے اسکول جانے والے بیٹے کے امتحان کی تاریخوں کو گھیرا گیا ہے اور ان کی بیٹی کی پوسٹ گریجویٹ کی کتابیں قرینے سے رکھی ہوئی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ شیلف (خانوں) میں جگہ حاصل کرنے کے لیے ٹیلی ویژن سیٹ اور روزمرہ کی چیزوں سے تعلیم کا مقابلہ چل رہا ہے۔
نیلگیری کے جنگلوں میں رہنے والی ایک نوجوان آدیواسی لڑکی کی اسکول کی تعلیم یہاں کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ آٹھ بچوں میں سب سے بڑی شانتی نے بچپن کا بیشتر حصہ اپنے دادا دادی کی نگرانی میں چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال اور کھیل کود میں گزارا۔ ان کے والدین دہاڑی مزدور تھے۔ ان کے والد مچھلیوں کی پیکنگ میں استعمال ہونے والے قیمتی پتے ’کوویلئی‘ جمع کرنے کے لیے جنگلات کی خاک چھانتے تھے، اور والدہ اس علاقے کے چائے کے باغات میں کام کرتی تھیں۔ چھ سال کی عمر میں قریب کے دیولا میں واقع سرکاری قبائلی رہائشی (جی ٹی آر) اسکول میں ان کا داخلہ ہوا تھا۔
پورے نیلگیری ضلع میں ۲۵ جی ٹی آر اسکول ہیں، جن کا مقصد قبائلی بچوں کو مفت ٹیوشن، کھانا اور رہائش فراہم کرنا ہے۔ لیکن زیادہ تر اساتذہ کا تعلق میدانی علاقوں سے ہوتا ہے۔ وہ شاذ و نادر ہی نظر آتے ہیں اور ہمیشہ ٹرانسفر کا انتظار کرتے رہتے ہیں، یہ کہنا ہے ۵۷ سالہ ملوکرومبا گنگادھرن پاین کا، جو ایک سابق جی ٹی آر معلم ہیں۔ ’’کلاس روم اور ہاسٹل کا کمرہ ایک ہی ہوتا ہے، سہولیات ناقص ہیں۔ اس لیے بچے رات میں نہیں ٹھہرتے۔ کمپیوٹر اور کتابیں موجود ہیں لیکن سب پر تالا لگا ہوا ہے۔‘‘
شانتی اپنے ساتھ موجود بہت سے پنیئن بچوں کی جانب سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں نے کچھ نہیں سیکھا۔‘‘ وہ صرف پنیئن بولتی تھیں اور تعلیم کی زبان تمل تھی جو انہیں بہت کم سمجھ آتی تھی۔ سبق رٹ کر یاد کیے جاتے تھے۔ حالانکہ ہندوستان کا آئین (آرٹیکل ۳۵۰ اے) ہر ریاست کو ’’لسانی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے بچوں کو تعلیم کے ابتدائی مرحلے میں مادری زبان میں تعلیم کے لیے مناسب سہولیات فراہم کرنے کی تلقین کرتا ہے…‘‘
آج ایک تجربہ کار ٹیچر کے طور پر وہ ان خامیوں کو واضح طور پر دیکھ سکتی ہیں، ’’اگر اسکول کے بچے اپنی بات نہیں رکھ سکتے، تو وہ خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور اسکول سے دور رہنے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ اس طرح تعلیم سے خوف شروع ہوتا ہے۔‘‘
جی ٹی آر اسکولوں کے زیادہ تر بچے پہلی نسل کے طالب علم ہیں۔ ان کے والدین اور دادا دادی اسکول کی پڑھائی میں ان کی مدد نہیں کر سکتے۔ لہذا حاضری ناقص ہے، تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے اور اسکول چھوڑنا عام ہے۔ شانتی کے تمام بہن بھائی جی ٹی آر میں گئے، اور ایک کے سوا سب نے بیچ میں ہی پڑھائی چھوڑ دی۔ مردم شماری کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی غیرمعمولی چیز نہیں ہے: درجہ ۱ اور ۱۰ کے درمیان، آدیواسی برادری میں اسکول چھوڑنے کی شرح ۹ء۷۰ فیصد ہے، جبکہ دوسرے سماجی گروہوں میں یہ شرح ۴۹ فیصد ہے۔
شانتی کی تعلیم میں ایک بہتر موڑ اس وقت آیا جب مشنری سسٹرز (عیسائی راہباؤں) نے ان کے والدین پر زور دیا کہ وہ شانتی کو ان کے ساتھ ایروڈ ضلع کے ستیہ منگلم شہر کے قریب پیریا کوڈی ویری گاؤں میں واقع ان کے اسکول بھیجیں، جو سڑک کے راستے سے پانچ گھنٹے کی دوری پر ہے۔ انہوں نے اگلے پانچ سال تک وہاں قیام کیا اور اپنا سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ (درجہ ۱۰) مکمل کیا اور پھر کنجن سے شادی کرنے کے لیے گھر واپس آئیں۔ اس وقت کنجن پنیئن برادری سے تعلق رکھنے والے نوعمر لڑکے اور ایک غیر ہنر مند مزدور تھے۔
دیولا میں واپس آنے کے بعد بہت سے لوگ شانتی کو کام پر رکھنا چاہتے تھے۔ وہ علاقے کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ آدیواسی تھیں۔ انہوں نے نرس کی نوکری کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ لیکن جب گڈلور کی ایک غیرسرکاری تنظیم ’ایکورڈ‘ کی ایک ٹیم نے تعلیم یافتہ آدیواسیوں کو دو سالہ ٹیچر ٹریننگ پروگرام میں شامل ہونے کے لیے کہا، تو وہ تیار ہو گئیں۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں ہمیشہ سے ایک ٹیچر بننا چاہتی تھی، ایک ایسی ٹیچر جو ایک بڑی چھڑی گھماتی ہو اور دوسروں پر دھونس جماتی ہو۔‘‘
ان کے شوہر کنجن نے محض چند سال کی رسمی تعلیم حاصل کی ہے۔ لیکن انہوں نے شانتی کا یہاں تک ساتھ دیا کہ تربیتی مرکز کے قریب رہنے کے لیے انہوں نے اپنا گھر منتقل کر لیا۔ ان کی ماں اور بہنیں گھر کے کام کاج میں مدد کرنے اور ان کی نوزائیدہ بیٹی کی دیکھ بھال کے لیے وہاں آتی رہتی تھیں۔ ان کے کورس میں ۱۴ دیگر نوجوان آدیواسی ساتھی تھے اور انہیں ۸۰۰ روپے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا۔ یہ کورس روزانہ صبح ۹ بجے سے شام ۴ بجے تک جاری رہتا تھا، اور ہفتہ کے دن قبائلی گاؤوں کے دورے ہوتے تھے تاکہ ان چیلنجوں کا اندازہ لگایا جا سکے جن سے انہیں روبرو ہونا تھا۔
شانتی کے عزم اور ان کے خاندان کی مدد کے باوجود، ان کے لیے الگ الگ رول ادا کرنا مشکل تھا۔ ان کے کچھ ساتھیوں نے ہار مان لی، لیکن وہ ڈٹی رہیں: ’’مجھے تعلیم حاصل کرنے میں بہت دلچسپی تھی۔ مجھے سائنس کے تجربات کرنے کا موقع ملا، جن میں سے کچھ میں نے کبھی نہیں کیے تھے۔‘‘ قبائلی تاریخ کے اسباق نے انہیں اپنے آپ کو اور اپنی برادری کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ انہوں نے اپنی تربیت مکمل کی اور بعد میں مدراس یونیورسٹی کے فاصلاتی تعلیمی پروگرام کے ذریعے مزید تعلیم حاصل کرتے ہوئے تاریخ میں بیچلر ڈگری حاصل کی۔
شانتی نے ۱۵ سال قبل ودیودیہ میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس بات کا انہیں فخر ہے کہ آج ان کے پڑوس کے تمام چھوٹے پنیئن بچے گڈلور تعلقہ میں رجسٹرڈ ۱۰۰ سے زیادہ اسکولوں میں سے کسی نہ کسی اسکول میں ضرور پڑھتے ہیں۔ لیکن مُوچی کنڈو کا علاقہ، جہاں ایک ہاتھی کے ذریعہ اپنا گھر ڈھائے جانے سے قبل وہ رہتی تھیں، کافی دور افتادہ علاقہ ہے۔ یہاں بچوں کا داخلہ اابھی بھی ایک چیلنج ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں والدین سے بات کر کے اسکول چھوڑنے کی شرح کو کم کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
والدین میں سے کئی دہاڑی مزدور ہیں جو پورے دن میں ۱۵۰ روپے کماتے ہیں۔ انہیں فیس، یونیفارم، کتابوں اور نقل و حمل کے لیے پیسوں کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ اسکول کے سرکاری یا نجی ہونے کی بنیاد پر انہیں سالانہ ۸۰۰۰ سے ۲۵۰۰۰ روپے تک کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ سفر کا خرچ، خاص طور پر زیادہ دور دراز علاقوں کا، اور بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ ودیودیہ کوئی فیس نہیں لیتا اور نقل و حمل میں بھی سبسڈی دیتا ہے۔ ہر بچے کو سال میں ۳۵۰ روپے ادا کرنے ہوتے ہیں، بشرطیکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا ہو۔
اس دوران اسکول میں گھنٹی بج چکی ہے اور بچے اپنے کلاس روم میں جھاڑو لگانے، کتابیں، فائلیں اور دستکاری کے سامان درست کرنے لگے ہیں۔ شانتی رجسٹر کی جانچ کرکے دستخط کر رہی ہیں۔ مقامی جیپ ٹیکسی انتظار کر رہی ہے۔ وہ اپنے پڑوس کے کچھ بچوں کے ساتھ اس میں بیٹھ جاتی ہیں، سب سے چھوٹے بچے ان کی گود میں بیٹھنا چاہتے ہیں۔ نیلگیری کے جنگلوں اور قصبوں سے ہوتے ہوئے انہیں گھر پہنچنے میں ۴۵ منٹ کا وقت لگتا ہے۔ یہ ان کے اور ان کے آدیواسی ساتھیوں اور طلباء کے لیے اسکول کا ایک عام دن ہے۔
مترجم: شفیق عالم