’’شاید فون میں ہی میرے سارے پیسے اٹکے پڑے ہیں،‘‘ جس تالاب کو کھودنے میں انہوں نے اپنا خون پسینہ بہایا تھا، اسی خشک گڑھے میں کھڑی مُولا ٹھنڈی سانسیں لیتی ہوئی بولیں۔ یہ جاڑے کی ایک سرد صبح تھی۔ کئی مہینوں سے اپنی مزدوری کا پیسہ نہیں ملنے کے بعد آخرکار انہیں یہ راز پتہ چل گیا تھا کہ ان کے پیسے کہاں اٹکے ہوئے ہیں۔ کم از کم انہیں تو یہی محسوس ہو رہا تھا۔
جنوری ۲۰۱۸ میں اپنے دفتر کے سامنے لگاتار ہو رہے احتجاجی مظاہرے کے بعد سیتاپور کے منریگا ایڈیشنل پروگرام آفیسر وکاس سنگھ نے آخرکار اعلان کیا تھا کہ منریگا کی مزدوری جنوری ۲۰۱۷ سے ایئرٹیل پیمنٹ بینک کے ۹۸۷۷ کھاتوں میں جمع ہوگی۔ سنگھ کے الفاظ میں، ’’یہ نئے اکاؤنٹ کھاتہ داروں کو مطلع کیے یا ان کی منظوری لیے بغیر‘‘ نئے سم کارڈ کی خرید کے ساتھ ہی کھل گئے تھے۔
’آدھار کارڈ پر مبنی سم کی تصدیق‘ کے ذریعے کھاتہ داروں (اکاؤنٹ ہولڈرز) کو مطلع کیے بغیر صرف آن لائن کسٹمر ایکویزیشن فارم (صارف کے ذریعے بھرے جانے والے فارم) کے ایک خانہ کو ٹک کرکے رضامندی حاصل کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ بینیفٹ ٹرانسفر میں تبدیل ہو کر ان کے نئے کھاتوں میں پیسے آسانی سے جمع ہو گئے۔ یہ عمل یونیک آئڈینٹی فکیشن اتھارٹی آف انڈیا (یو آئی ڈی اے آئی) کے خامی سے بھرے دکھائی دے رہے رہنما خطوط پر مبنی تھا، جس کے مطابق آدھار نمبر کو بینک کے اکاؤنٹ نمبر کے مقابلے زیادہ ترجیح دی گئی تھی، تاکہ مستفیدین کے کھاتے میں ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی) کے تحت پیسے خود بخود چلے جائیں۔
وکاس سنگھ کے اس اعلان سے پاسی دلت برادری سے تعلق رکھنے والیں ۴۵ سالہ ناخواندہ مُولا کے من میں امید کی ایک ہلکی سی کرن دکھائی دی۔ سال ۲۰۱۶ میں انہوں نے بھی ایئرٹیل سم کارڈ کے ساتھ ایک فون خرید لیا۔ ایک صبح اپنے پڑوسیوں سے بات چیت کرتے ہوئے مولا اور ان کے بیٹے ناگ راج کو ایئرٹیل کی ایک دلکش پیشکش کے بارے میں (۳۵ منٹ ٹاک ٹائم کے ساتھ ۴۰ روپے کا کارڈ) جانکاری ملی اور دونوں ماں بیٹے اتر پردیش کے سیتاپور ضلع کے ددورا گاؤں کے پرسدا بازار تک ٹہلتے ہوئے پہنچ گئے، جو مچھریہٹہ بلاک میں واقع ہے اور ان کے گاؤں سے تقریباً چار کلومیٹر دور ہے۔ دکان (جو ان کے سم خریدنے کے بعد سے ابھی تک بند پڑی ہے) میں انہوں نے ایک موبائل فون خریدا۔ چونکہ ناگ راج کا آدھار کارڈ ابھی تک بن نہیں پایا تھا، لہٰذا مولا سے ہی ان کے آدھار کارڈ کی ایک کاپی مانگی گئی۔ مولا نے اپنا ہی آدھار کارڈ دکاندار کو دے دیا۔
وہ یاد کرتی ہوئی بولیں، ’’وہاں ایک چھوٹی سی مشین تھیں۔ مجھے کہا گیا کہ میں اسے دو بار اپنے انگوٹھے سے دباؤں۔‘‘ حکومت کے ذریعے جاری کیے گئے مختلف رہنما خطوط کے مطابق یہ لازمی تھا۔ ان رہنما خطوط میں پہلا اکتوبر ۲۰۱۴ میں محکمہ مواصلات کے ذریعے جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق صارفین کو ٹیلی فون/ موبائل نمبر کے لیے درخواست دیتے وقت ایکویزیشن فارم پر اپنا آدھار کارڈ نمبر لکھنا ضروری تھا۔
مولا سے آدھار کارڈ کی ایک کاپی لینے کے بعد دکاندار نے ان سے کچھ اور معلومات مانگیں، جنہیں اس نے ایک کمپیوٹر میں درج کر لیا، اس کے بعد موبائل میں ایک سم کارڈ ڈالا اور اسے ماں بیٹے کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے بدلے میں دکاندار کو ۱۳۰۰ روپے ادا کر دیے۔ گھر لوٹنے پر ناگ راج بہت خوش تھے اور وہ مولا کو اس کے استعمال کرنے کا طریقہ سمجھانے لگے۔
کچھ ہی ہفتے بعد، شادی کی ایک تقریب کے دوران فون گم ہو گیا۔ فون نمبر، جس کے ذریعے اکاؤنٹ کو آپریٹ کیا جا سکتا تھا، آخرکار ماں بیٹے کے ذریعے دھیرے دھیرے بھلا دیا گیا۔
اس کے بعد بھی مولا بلاک آفس کے سامنے اپنی بقایا مزدوری کی ادائیگی کے لیے احتجاج کرتے ہوئے نعرے بازی کر رہی تھیں: ’کمانے والا کھائے گا، لوٹنے والا جائے گا، نیا زمانہ آئے گا۔‘ انہیں امید تھی کہ ایک دن ان کا ڈوبا ہوا پیسہ الہ آباد یوپی گرامین بینک کی پرسدا برانچ کے ان کے اکاؤنٹ میں ضرور ٹرانسفر ہوگا۔ اپنے روزگار کے درخواست فارم میں انہوں نے بینک کی اسی برانچ (شاخ) کا نام درج کرایا تھا۔
بہرحال، پچھلے سال جنوری سے فروری مہینہ آ گیا، لیکن مزدوری کے پیسے ملنے کے آثار دور دور تک نظر نہیں آئے۔
جب منریگا کی بقایا مزدوری نہیں آئی، تو مولا نے اپنے رشتہ داروں سے ۱۵ ہزار روپے قرض لیے۔ پیٹ بھرنے کے لیے پوری فیملی صرف آلو پر منحصر تھی، جو کہ ۱۰ روپے میں ڈیڑھ کلو آتا تھا۔ ان کی فیملی اس سے زیادہ خرچ کرنے کی حالت میں نہیں تھی۔ ان کے ایک کمرے کے بوسیدہ مکان میں چھت سے صرف ایک کدو (لوکی) لٹکا ہوا تھا، جسے شاید تب کھایا جانا تھا جب ان کے پاس آلو خریدنے کے لیے بھی پیسے نہ ہوں۔
وہ کہتی ہیں، ’’ایسے بھی دن گزرے جب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ بھوک سے تڑپتا ہوا پرتاپ اتنی زور سے رونے لگتا کہ آس پڑوس میں سب کو معلوم ہو جاتا تھا۔ اتنی شرمندگی مجھے کبھی نہیں ہوئی۔‘‘
ان مشکلوں کا سامنا کرتے ہوئے مولا نے بینک میں اپنا دوسرا اکاؤنٹ کھلوایا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ ان کے لیے دوسرا اکاؤنٹ کھولا گیا۔
مئی ۲۰۱۶ میں ’سنہیتا مائکرو فائنانس ایجنسی‘ کے نمائندوں نے پرسدا کا دورہ کیا۔ یونٹ منیجر امت دیکشت، جن کے ذمہ سیتاپور اور پڑوسی ضلع لکھیم پور کا کام کاج دیکھنا تھا، کہتے ہیں، ’’ہم غریبوں کو یہ بتاتے ہیں کہ سیلف ہیلپ گروپ بنا کر وہ کس طرح خود کفیل بن سکتے ہیں۔ چونکہ ان کے پاس اپنا کام شروع کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے ہیں، اس لیے ہم ان کے لیے بینک میں اکاؤنٹ کھلواتے ہیں، تاکہ انہیں قرض (لون) لینے کی سہولت مل سکے۔‘‘ ایجنسی کی ویب سائٹ یہی کہتی بھی ہے، ’غریبوں میں جو سب سے غریب ہیں انہیں مالی شمولیت کے تحت لانا ہماری سروس کا حقیقی مقصد ہے۔‘
ایک ایسا ملک جہاں ہر ایک پانچ میں تین سے بھی کم خاندانوں کے پاس بینک میں اکاؤنٹ ہوں (این ایس ایس او، ۵۹واں راؤنڈ)، میں اس قسم کی شمولیت کسی بھی حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ اگست ۲۰۱۴ کے بعد سے ۳۱ کروڑ ۸۳ لاکھ نئے بینک کھاتے کھولے جا چکے ہیں۔ ان کا مقصد مولا جیسے دیہی غریبوں کو قرض مہیا کرانا ہے۔ بہرحال، مالی جانکاری کی کمی کے سبب ایسی پہل کو امید کے مطابق کامیابی نہیں مل پاتی ہے – بلکہ اس سے غریبوں کی مشکلوں میں تیزی سے اضافہ ہی دیکھا گیا ہے۔
مولا کو ایسا اکاؤنٹ کھلوانے کا پہلے کا کوئی واقعہ یاد نہیں ہے۔ لیکن مئی ۲۰۱۷ میں انہوں نے باقاعدگی سے اس فارم پر اپنے دستخط کیے جسے آئی ڈی بی آئی بینک، سیتاپور کے برانچ منیجر پرشانت چودھری کی میز پر رکھا گیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے سوچا کہ مجھے کچھ پیسے ملیں گے۔‘‘ چودھری کہتے ہیں کہ انہیں اس طرح کے دستخط والے ایپلی کیشن فارم بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں، ’’ہمارے یہاں فعال کھاتوں کی تعداد ۳۰۰۰ کے قریب ہے، جنہیں ایجنسی کے توسط سے کھلوایا گیا ہے۔ کوئی نمائندہ ہمیں ضروری کاغذات دے جاتا ہے اور ہم اس پر ضروری کارروائی کرتے ہیں۔ ایک سال پہلے کھاتہ داروں کو آدھار کارڈ کی کاپی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن، اب یہ لازمی ہو گیا ہے۔ ایسے تمام کھاتوں پر قرض لیا گیا ہو، یہ بھی ضروری نہیں ہے۔‘‘
ایسے ہی ایک اکاؤنٹ میں مولا کی مزدوری بھی منتقل ہو گئی تھی۔ منریگا سے متعلق کمپیوٹرائزڈ ڈیٹابیس میں اس گڑبڑی کو کیوں نہیں تلاش کیا جا سکا، وکاس سنگھ ایسے کسی سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ لیکن فروری کے مہینہ میں جب احتجاجی مظاہرے نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچنی شروع کی، تو سنگھ نے مولا کے ساتھ ساتھ دوسرے کھاتہ داروں کو بھی یہ بتایا کہ ان کی مزدوری کے لاپتہ پیسے کہاں ہیں۔
مولا، جنہوں نے اسی وقت اپنے پیسے نکال لیے اور اپنا اکاؤنٹ بند کر دیا، اب خوش ہیں۔ اب ان کے من میں اس نظام کے خلاف کوئی سوال نہیں ہے، جس نظام نے ان کو اتنی تکلیف دی۔
وہ راحت کی سانس لے کر کہتی ہیں، ’’یہ انتظار موت سے بھی بدتر تھا۔ میں خوش ہوں کہ اب وہ دور گزر چکا ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز